نظم اخترِ صبح از علامہ اقبال
فہرست
تعارف
ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی علامہ اقبال کی نظم ”اخترِ صبح“ کا تعارف ان الفاظ میں کراتے ہیں:-
صبح کا ستارہ ایک خاص ستارہ ہے جو صبحِ صادق کے وقت طلوع ہوتا ہے اور چونکہ بہت روشن ہوتا ہے اس لیے اس نظم میں اس کی روشنی کو نگاہ قرار دیا گیا ہے۔ سورج طلوع ہونے پر اس کی روشنی سورج کی روشنی میں گُم ہو جاتی ہے، اسی لیے اس کی روشنی تھوڑے سے وقت کے لیے ہوتی ہے۔
نظم ’اخترِ صبح‘ کا مرکزی خیال یہ ہے کہ اگر کوئی انسان صاحبِ بقا (دوام اور ہمیشگی کی زندگی گزارنے والا) بننا چاہے تو اُسے محبت کی راہ اختیار کر لینی چاہیے۔
شرح بانگِ درا از ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی
نظم “اخترِ صبح” کی تشریح
حصہ اوّل
یہ حصہ تین اشعار پر مشتمل ہے، جن میں اخترِ صبح اپنی شکایات پیش کرتا ہے۔
ستارہ صبح کا روتا تھا اور یہ کہتا تھا
مِلی نگاہ مگر فرصتِ نظر نہ ملی
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
اخترِ صبح | صبح کا ستارہ |
نگاہ | بینائی، دیکھنے کی قوت |
فرصتِ نظر | دیکھنے کا وقت اور فُرصت و فراغت |
تشریح:
اِس نظم میں اقبالؔ اخترِ صبح سے بات چیت کرتے ہیں۔
صبح کا ستارہ اپنے خیالات کو بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ بے شک کائنات کے خالق نے مجھے زندگی اور چمکنے کی صلاحیت عطا کی ہے، لیکن ان لمحات کو مستوجبِ حد کر دیا ہے اور مجھے اتنی مہلت نہ دی کہ فطرت کے مناظر کا مکمل جائزہ لے سکوں۔
صبحِ صادق کے وقت طلوع ہونے والا ستارہ چونکہ بہت روشن ہوتا ہے اس لیے اُس کی چمک یا روشنی کو نگاہ قرار دیا گیا ہے۔
ہوئی ہے زندہ دمِ آفتاب سے ہر شے
اماں مجھی کو تہِ دامنِ سحَر نہ ملی
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
دمِ آفتاب | آفتاب کی سانس |
اماں/اَمان | پناہ |
تہِ دامنِ سحر | صبح کے دامن کے نیچے |
تشریح:
یہ سچ ہے کہ سورج کے دم سے ہر شے زندہ ہوجاتی ہے۔ سورج زندگی اور جاگنے کا پیغام لے کر آتا ہے مگر میری طلوع کے چند لمحے گزرنے کے بعد سورج اپنی تیز کِرنوں کے ساتھ نمودار ہوا، جس سے میرا وجود دھُندلا گیا۔ جو صبح دُنیا کی ہر چیز کے لیے ہلچل اور احیاء کا پیغام ہوتی ہے، اُس کے دامن کے نیچے مجھ کو پناہ نہ مل سکی۔
بساط کیا ہے بھلا صبح کے ستارے کی
نفَس حباب کا، تابندگی شرارے کی
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
بساط | حیثیت |
نَفَس | سانس (فارسی زبان میں) |
حباب | بلبلہ |
تابندگی | چمک |
شرارا | شعولہ |
تشریح:
پس یہ ثابت ہوا ہے کہ میری زندگی بہت محدود ہے اور میری حیثیت اتنی ہی ہے جیسے پانی کے بلبلے کی سانس یا ایک چنگاری کی چمک جو لمحے بھر کے لئے چمکتی ہے۔
’حباب‘ اپنی مختصر زندگی کی وجہ سے شاعری میں بے ثباتی کے استعارے کے طور پر لیا جاتا ہے۔ البتہ یہاں علامہ نے صبح کے ستارے کو حباب کی بھی سانس سے تعبیر کر کے اُس کی بے ثباتی کو اور اُجاگر کر دیا ہے اور اس سے شعری حسن و معنویّت میں بہت اضافہ ہوا ہے۔
تبصرہ: واضح ہو کہ ستارے کے ذریعے ادا کیے گئے یہ تمام تر خیالات در اصل انسان کے مسائل ہیں۔ صبح کے ستارے کی ’روشنی‘ اور ’نگاہ‘ انسان کے شعور کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ انسان کو یہ ’نگاہ‘ تب حاصل ہوئی جب خدا نے اُس میں اپنی روح میں سے پھونکا۔
ثُـمَّ سَوَّاهُ وَنَفَخَ فِيْهِ مِنْ رُّوْحِهٖ ۖ
(حوالہ: القرآن- سورۃ سجدہ، ۸)
ترجمہ: پھر اس (انسان) میں اپنی روح میں سے پھونکا
اُسے شعور تو دیا مگر دوام نہ دیا لہذا اُس کو اپنی صلاحیت (potential) کی انتہا پانے کی مہلت و فرصت نہ دی۔
حصہ دوم
اس حصے میں تین اشعار شامل ہیں۔ ان میں علامہ، اخترِ صبح کی شکایت کا جواب دیتے ہوئے حل بیان کرتے ہیں۔
کہا یہ میں نے کہ اے زیورِ جبینِ سحَر!
غمِ فنا ہے تجھے! گُنبدِ فلک سے اُتر
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
زیورِ جبینِ سحر | پیشانی کو سجانے والا زیور |
غمِ فنا | فنا کا غم |
گنبدِ فلک | آسمان کا قلعہ،چھت |
تشریح:
اب اقبالؔ اخترِ صبح کی شکایت کے جواب میں، اُس سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں کہ بیشک تُو صبح کی پیشانی پر جھومر یا زینت کی طرح ہے (سحر کو دُلہن فرض کر کے ستارۂ صبح کو اُس کے ماتھے کا زیور قرار دیا ہے)۔
پھر فرماتے ہیں کہ طلوعِ آفتاب کی وجہ سے تجھے اپنے زوال کا درد بھی ہوتا ہے۔ لہٰذا میرا مشورہ ہے کہ آسمان سے نیچے اُتر جا۔
ٹپک بلندیِ گردُوں سے ہمرہِ شبنم
مرے ریاضِ سخن کی فضا ہے جاں پرور
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
گردوں | آسمان |
ہمرہِ شبنم | شبنم کے ساتھ |
ریاض | گلستان، باغ |
جاں پرور | فرحت بخش، جان کو سکوں دینے والا |
تشریح:
میرا مشورہ یہ ہے کہ آسمان سے نیچے اُتر اور قطرۂ شبنم کی طرح میرے باغِ سُخن میں ٹپک پڑ، کہ یہاں کی فضا بڑی پُر سکُون اور زندگی بخشنے والی ہے اور اس فضا میں نشو و نما کی صلاحیّت موجود ہے۔
؎ اک رات يہ کہنے لگے شبنم سے ستارے
(بانگِ درا: شبنم اور ستارے)
ہر صبح نئے تجھ کو ميسر ہيں نظارے
کيا جانيے ، تُو کتنے جہاں ديکھ چکی ہے
جو بن کے مٹے، ان کے نشاں ديکھ چکی ہے
میں باغباں ہوں، محبّت بہار ہے اس کی
بِنا مثالِ ابد پائدار ہے اس کی
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
بِنا | بُنیاد |
مثالِ ابد | ہمیشگی کی طرح |
پائدار | دیر پا، قائم رہنے والی |
تشریح:
اقبالؔ اخترِ صبح سے کہتے ہیں کہ میں ایک باغباں کی مانند ہوں اور میری شاعری میں محبت کی وہی حیثیت ہے جو باغ میں بہار کی ہوتی ہے۔ میرا گلستانِ سُخن زوال کی طرف رواں نہیں ہے، بلکہ یہ ایسا گُلستان ہے جس کی بنیاد ہمیشگی کی طرح مضبوط اور مستحکم ہے۔ سو یہ تُجھے بقائے دوام (ہمیشہ قائم رہنے والی زندگی) کا سبق دے گی۔
مراد یہ ہے کہ میں اپنی شاعری میں عشقِ حقیقی کا درس دیتا ہوں اور یہ محبت ایسی ہے جسے فنا نہیں ہے۔ اس محبت کو اختیار کرنے سے صاحبِ بقا بنا جا سکتا ہے۔
تبصرہ: ستارے کی نگاہ اور انسان میں موجود روح کو دوام کی تلاش ہے۔ علماء کہتے ہیں کہ انسان کے جسم کو جو کچھ بھی درکار ہے (کھانا، پانی، وغیرہ)، وہ اسی مٹی میں سے دستیاب ہے اور اس سے بڑھ کر اس کی کوئی خواہش نہیں۔ تو پھر انسان میں بقائے دوام کی خواہش کیوں ہے؟ وہ کیوں چاہتا ہے کہ اُس کے پاس جو ہو وہ ہمیشہ رہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ چونکہ یہ روح مادی نہیں ہے، اس لیے اس کی خواہشات بھی مادی نہیں ہیں۔ لہٰذا اس کی خواہشات کا راستہ بھی مادی دنیا سے بالا تر ہے۔
بقائے دوام دوام حاصل کرنے کا راستہ محبت ہے۔ اس کے ثبوت میں اقبالؔ خود اپنے کلام کو پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ عشق نے میرے کلام کی بنیاد، ابد کی طرح پائیدار کر دی ہے۔
ہے ابد کے نسخۂ دیرینہ کی تمہید عشق
(بانگِ درا: فلسفۂ غم)
عقلِ انسانی ہے فانی، زندۂ جاوید عشق
عشق کے خورشید سے شامِ اجل شرمندہ ہے
عشق سوزِ زندگی ہے، تا ابد پائندہ ہے
؎ مردِ خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ
(بالِ جبریل: مسجدِ قرطبہ)
عشق ہے اصلِ حیات، موت ہے اُس پر حرام