”مسجدِ قرطبہ“ از علامہ اقبال
فہرست
تعارف
نظم مسجدِ قرطبہ، جیسا کہ خود حضرتِ علامہ نے واضح کردیا ہے، قرطبہ (ہسپانیہ) کے دورانِ قیام میں اس اُجڑے ہوئے دیار کی جامع مسجد کی زیارت کے بعد لِکھی گئی۔
یہ مسجد صدیوں سے محرومِ اذاں ہونے کے باوجود آج بھی تمام دنیا کی مساجد کا سرتاج ہے۔ اس کی وسعت اور شان و شوکت کا اندازہ اس بات سے ہوسکتا ہے کہ:-
1۔ اس کا طول و عرض 448 ٭ 440 فٹ ہے یعنی وسعت کے لحاظ سے دنیا کی سب سے بڑی مسجد ہے۔
2۔ جامع مسجد دہلی کی تعمیر پر صرف 10 لاکھ صرف ہوا تھا لیکن اِس مسجد پر 1/2 کروڑ روپیہ سے زائد خرچ ہوا تھا۔
بلاشبہ یہ مسجد عجائباتِ عالم میں سے ہے۔ اس کو سلطان عبدالرحمٰن الداخل نے جامع دمشق کے نمونہ پر تعمیر کرایا تھا۔ اور اس کے بعد اس کے جانشینوں نے اسے پایۂ تکمیل تک پہنچایا۔ 1236ء میں زوالِ قرطبہ کے بعد عدیم المثال مسجد گِرجا (چرچ) بن گئی یعنی فاتحین نے اس کی محراب کے سایہ میں ایک چھوٹا سا گِرجا تعمیر کر لیا۔ اسی انقلاب کو دیکھ کر اقبال نہ یہ مصرعِ موزوں کہا:۔
؏ عالمِ نو ہے ابھی پردۂ تقدیر میں
جس طرح یہ مسجد عربوں کے فنِ تعمیر کا شاہکار ہے، اسی طرح اقبال کی یہ نظم جدید اردو ادب کا شاہکار ہے۔ اس میں رمزئیت اوار ایمائیت، رومانیت اور جذبات نگاری، حقیقت پسندی اور شعریت یعنی فنِ شاعری کی تمام خوبیاں بیک وقت جمع ہوگئی ہیں اور اقبال نے اپنی خداداد شاعرانہ قوت سے کام لے کر ان تمام صوری اور معنوی خوبیوں کو اس طرح باہم دگر مربوط کردیا ہے کہ ایک طرف اس نظم میں غیر معمولی دِلکشی پیدا ہوگئی ہے تو دوسری طرف خود ان (یعنی اقبالؔ) کا شمار دنیا کے صفِ اوّل کے شعراء میں ہوگیا ہے۔ گوئٹے کی طرح اقبالؔ محض ایک مفکّر یا مصلح قوم ہی نہیں بلکہ وہ اپنی شاعری کی بدولت انسانوں کے دِلوں پر بھی حکومت کرتے ہیں۔ محاسنِ مذکورہ بالا کے نہایت حسین امتزاج ہی کا نتیجہ ہے کہ ان کے کلام کی اپیل عالمگیر ہوگئی ہے یعنی موافق اور مخالف دونوں ان کے کلام سے یکساں طور پر متاثر ہوتے ہیں۔
اس نظم میں محاسنِ شعری کے علاوہ تاریخِ فلسفہ اور رجائیت کے عناصر بھی موجد ہیں۔ اقبالؔ نے اختصار کے ساتھ مسلمانانِ اندلس کی تاریخ بھی بیان کردی ہے۔ دنیا کی بے ثباتی کا نقشہ بھی کھینچ دیا ہے اور مسلمانوں کو ان کے شاندار مستقبل کی ایک جھلک بھی دکھائی ہے۔ اِن تمام ظاہری اور باطنی خوبیوں کی بِناء پر اس نظم میں بے اندازہ جاذبیت اور دِلکشی پیدا ہوگئی ہے۔
اس نظم میں آٹھ بند ہیں اور ہر بند میں ایک مرکزی خیال پایا جاتا ہے۔
1۔ پہلے بند میں زمانہ کی حقیقت اور کارِ جہاں کی بے ثباتی بیان کی ہے۔
2۔ دوسرے بند میں عشق کی صفات واضح کی ہیں، یہ دو بند (پہلا اور دوسرا) بطور تمہید لکھے ہیں۔
3۔ تیسرے بند میں مسجدِ قرطبہ سے خطاب کیا ہے اور یہ بتایا ہے کہ اس مسجد کی بنیاد عشق پر رکھی گئی۔
4۔ چوتھے بند میں مسجد کی شان و شوکت کا تذکرہ ہے اور ضمناً ملّتِ اسلامیہ کی بقا کا مژدہ بھی سنایا ہے۔
5۔ پانچویں بند میں مردِ مومن کا تصور پیش کیا ہے۔
6۔ چھٹے بند میں عربوں کی فتوحات اور عظمتِ رفتہ بیان کی ہے۔
7۔ ساتویں بند میں یورپ کے بعض اہم انقلاب کی طرف اشارہ کیا ہے۔
8۔ آٹھویں بند میں شاعر نے الہامی رنگ میں مسلمانوں کی نشاۃ الثانیہ کی پیشگوئی کی ہے اور آخری شعر میں اپنا فلسفہ پیغام کی صورت میں پیش کیا ہے تاکہ اس نظم کا مقصد واضح ہوسکے
(حوالہ: شرح بالِ جبریل از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)
مسجدِ قرطبہ بھی ہسپانیہ کی سرزمین، بالخصوص قرطبہ میں لکھی گئی، جیسا کہ ہم پہلے بتا چکے ہیں، یہ جامع قرطبہ ست متعلق ہے، جس کا پرانا جلال و جمال گو باقی نہیں رہا، لیکن وہ اب تک صفحۂ ہستی پر موجود ہے۔ اس کی بنیاد پر عبد الرحمن اوّل نے رکھی تھی، جو ہسپانیہ میں اموی سلطنت کا بانی تھا۔ پھر اس میں مختلف بادشاہ اضافے کرتے رہے۔ آخری اضافہ ابی عامر المنصور نے کیا تھا، جو اگرچہ وزیر اعظم تھا، لیکن اس نے مختارِ کل کی حیثیت حاصل کرلی تھی۔
مسجد کا طول چھ سو بیس فٹ اور عرض چار سو چالیس فٹ تھا۔ دنیا کی کسی مسجد کا مسقّف حصہ اتنا بڑا نہیں تھا، جتنا کہ اس کا تھا۔ اس میں ایک ہزار چار سو سترہ (1,417) ستون تھے، جن کی جلا کا یہ عالم تھا کہ انسان ان میں اپنا عکس دیکھ سکتا تھا۔ مسجد کی مختلف دیواروں میں اکیس (21) دروازے تھے، جن پر پیتل کا بے حد خوب صورت کام کیا گیا تھا۔ اس کا ماذنہ ایک سو آٹھ (108) فٹ بلند تھا۔ چوٹی پر چاندی اور سونے کے سیب نما گولے نصب کیے گئے تھے۔ سورج کی شعائیں ان پر پڑتیں تو میلوں سے چمکتے ہوئے نظر آتے۔ روشنی کے لیے مسجد میں دو سو اسّی (280) بلّوڑی جھاڑ آویزاں تھے۔ سب سے بڑے جھاڑ میں موم کی چودہ سو بتّیاں جلتی تھیں۔ ان کے علاوہ پیتل کے سات ہزار چار سو پچیس (7,425) پیالے دیواروں پر لگے ہوئے تھے، من میں تیل بتّی سے روشنی ہوتی تھی۔
شاہی مقصورہ کے تمام ستون لاجوَرد کے، دروازے چاندی اور سونے کے تھے۔ مسجد کا منبر آبنوس، صندل اور ہاتھی دانت کے چھتّیس ہزار (36,000) ٹکڑوں کو سنہری کیلوں سے جوڑ کر بنایا گیا تھا اور اس کی تیّاری میں سات سال لگے تھے۔ غرض یہ مسجد عجوبۂ روزگار تھی۔ اندلس کے بڑے بڑے علماء نے اسی میں تعلیم پائی تھی اور اسی میں وہ درس دیتے تھے۔ اقبالؔ نے اس کی عظمت زائل ہوجانے سے کم و بیش پانچ سو سال بعد اسے دیکھا اور جو اثرات قبول کیے، ان کا نقشہ نظم میں ملاخطہ کیا جاسکتا ہے۔
(حوالہ: شرح بالِ جبریل از مولانا غلام رسول مہر)
علامہ اقبال کی شاعری کے بیشتر حصے میں مسلم عہد کے اسپین (ہسپانیہ) کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ وہ اس عہد کے مسلمانوں کے عروج و زوال سے بری طرح متاثر نظر آتے ہیں۔
اقبالؔ 1934ء میں تیسری گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے یورپ گئے تو بعد میں ہسپانیہ کا دورہ بھی کیا اور اموی عہد کے آثارِ قدیم دیکھے۔ ”دعا (بالِ جبریل کی ایک نظم)“ کی طرح زیرِ شرح نظم بھی انہوں نے ہسپانیہ ہی میں لکھی۔ مسلمانوں کے عہد میں ہسپانیہ نے ہر شعبہ زندگی میں جو ترقی کی وہ محض اب تاریخ کا حصہ بن کر رہ گئی ہے۔ بے شمار محلات، مساجد، درسگاہیں اور دوسری شاندار عمارتیں جو اس عہد میں تعمیر ہوئیں، مسلمان حکمرانوں کے زوال کے بعد عیسائیوں کی بربریت اور تشدد کا شکار ہوگئیں۔ لے دے کے محض مسجدِ قرطبہ باقی رہی، جس کو عیسائیوں نے گرجے میں تبدیل کرلیا تھا۔
انسائیکلوپیڈیا برٹینیکا کے مطابق مسجدِ قرطبہ دنیا کی عظیم الشان اور نادر روزگار عبادت گاہوں میں شمار ہوتی ہے۔ اس مسجد کی بنیاد ہسپانیہ میں اموی سلطنت کے بانی عبدالرحمٰن اوّل نے رکھی تھی۔ بعد میں متعدد حکمرانوں نے اس میں قابلِ قدر اضافے کیے۔ کہا جاتا ہے کہ مسجدِ قرطبہ کا طول چھ سو بیس (620) فٹ اور عرض چار سو چالیس (440) فٹ تھا۔ اس میں ایک ہزار چار سو ستری (1,417) ستون تھے جو اس قدر مجلّا اور تابدار تھے کہ ان میں انسانی عکس نظر آتا تھا۔ دیواروں میں اکیس (21) دروازے تھے، جن پر پیتل منڈھا ہوا تھا۔ ان پر بے حد خوبصورت طمع کاری کی گئی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ دنیا بھر میں کسی مسجد کا حصہ اتنا بڑا اور وسیع نہیں ہے۔
مسجد میں روشنی کے لیے دو سو اسّی (280) بلوریں جھاڑ آویزاں تھے۔ سب سے بڑی اور مرکزی جھاڑ میں ہر وقت چودہ سو موم بتّیاں جلتی رہتی تھیں۔ دیواروں میں کم و بیش سات ہزار چار سو پچیس (7,425) پیالے آویزاں تھے جو تیلا بتّی سے روشن رہتے تھے۔ اذان کے لیے جو مینار تعمیر کیا گیا تھا، ایک سو ساٹھ فٹ بلند تھا۔ اس کی چوٹی پر سونے اور چاندی کے سیب نما گولے نصب تھے جو سورج کی شعاعوں کی بدولت میلوں دور سے چکمتے دکھائی دیتے تھے۔ شاہی خانوادے کے لیے جو حصہ مسجد میں مخصوص تھا اس کے دروازوں پر سونے چاندی کا منقش کام تھا اور تمام ستون لاجورد کے تھے۔ مسجد کا نادر روزگار منبر ہاتھی داںت، آبنوس اور صندل کے کم و بیش چھتیس ہزار ٹکڑوں سے تیار کیا گیا تھا اور سنہری کیلوں سے جوڑا گیا تھا۔ اس عجوبہ روزگار مسجد کی تکمیل میں کم و بیش سات سال لگے۔ بہت سے جیّد علماء نے یہیں تعلیم حاصل کی۔ اقبالؔ نے اگرچہ صدیوں کے بعد اس مسجد کو دیکھا لیکن ان کے ذہن پر جو نقوش مرتسم ہوئے اس کا اندازہ اس نظم سے کیا جاسکتا ہے۔
مسجدِ قرطبہ علامہ اقبال کی نسبتاً طویل نظموں میں سے ایک ہے، جو آٹھ بندوں پر مشتمل ہے۔ اس نظم میں انہوں نے ہسپانیہ میں مسلمانوں کے عروج و زوال کا اشارتاً ذکر کرتے ہوئے مسجدِ قرطبہ سمیت ان عظیم الشان تعمیرات کے شکستہ آثار کے بارے میں انتہائی قرب کا اظہار کیا ہے۔ متذکرہ عمارات مسکمان سلاطین کے عہد میں تعمیر کی گئیں تھیں۔ بعد میں ان کے زوال کے بعد جو نامساعد حالات پیش آئے، یہ آثارِ قدیم ان کی منہ بولتی تصویر ہیں، چنانچہ نظم کے اوّلیں بند کا آغاز علامہ اس طرح سے کرتے ہیں۔
(حوالہ: شرح بالِ جبریل از اسرار زیدی)
بند نمبر 1
پہلے بند میں زمانہ کی حقیقت اور کارِ جہاں کی بے ثباتی بیان کی گئی ہے۔ اِس بند میں آٹھ شعر ہیں، جن میں پہلے چھ شعروں میں اقبالؔ نے سلسلۂ روز و شب (جسے عام طور پر لوگ زمانہ کہتے ہیں) کی حقیقت بیان کی ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں کہ:۔
سِلسلۂ روز و شب، نقش گرِ حادثات
سِلسلۂ روز و شب، اصلِ حیات و ممات
روز و شب کی داستان عہد کے حوالے سے یوں بیان کی جاسکتی ہے کہ:-
سلسلۂ روز و شب یعنی رات اور دِن کا سلسلہ، مراد ہے زمانہ، یہ پیدا ہونے اور مرنے والی چیزوں کے نقش تیّار کرتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ دِن اور رات کے سلسلہ میں کتنے ہی انسان جنم لیتے ہیں اور کتنے ہی انسان وفات پاجاتے ہیں۔ یہی عمل قدرت کے نظام کا حقیقی روپ ہے۔ چنانچہ اس پس منظر میں دیکھا جائے تو رات اور دِن کا سلسلہ یعنی زمانہ ہی زندگی اور موت کی اصل ہے۔
زمان و مکان کے بغیر تغیّرات کا تصوّر نہیں ہوسکتا اور تغیّر کا مطلب ہے چیزوں کا پیدا ہونا اور ختم ہونا۔۔ بلکہ فلسفیوں کے نزدیک اس دنیا کے خاتمے کی دلیل یہ ہے کہ اس میں ہر چیز بدلتی رہتی ہے، کوئی پیدا ہوتی ہے تو کوئی مرتی ہے۔۔ جو آج پیدا ہوتی ہے تو کل مر جاتی ہے۔۔ لہذا زمانہ چیزوں کا پیدا کرنے والا اور مارنے والا ہے اور ہمارے تصوّرات کے مطابق یہی زندگی اور موت کا سرچشمہ ہے۔ اگر ہم زمانہ کی حد سے نکل جائیں تو موت و حیات کا یہ تصوّر بھی ختم ہوجائے۔
سِلسلۂ روز و شب، تارِ حریرِ دو رنگ
جس سے بناتی ہے ذات اپنی قبائے صفات
رات اور دِن کا سلسلہ دو رنگے ریشم کا تار ہے (یعنی تارِ حریرِ دو رنگ)، جس سے ذاتِ باری تعالیٰ اپنے لیے صفات کا لباس تیّار کرتی ہے۔
اس شعر میں اقبالؔ نے رات اور دِن کو ریشم کے دو تار بیان کیا ہے۔ ایک سیاہ، دوسرا سفید یعنی رات اور دِن۔ وہ کہتے ہیں کہ ذات کو اس کی اصل صورت میں تو دیکھا نہیں جاسکتا لیکن جب وہ صفّات کا لباس پہن لیتی ہے تو اس کا نظّارہ کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً یہ کہ وہ خالق ہے، قادر ہے، پروردگار ہے، مالک ہے، حافظ ہے، ہادی ہے وغیرہ۔ یہ تصوّرات زمانے ہی کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔
سِلسلۂ روز و شب، سازِ ازل کی فغاں
جس سے دِکھاتی ہے ذات زِیروبمِ ممکنات
زمانہ کیا ہے؟ ازل کے ساز سے ایک نغمہ نکل رہا ہے یرنی زمانہ اللہ تعالی کی تخلیقی فعالیت کا نام ہے اور تمام مخلوقات (یعنی ممکنات) جیسا کہ ہم جانتے ہیں زمان و مکان (کی قید) میں ہی عالمِ وجود میں آتی ہیں۔
کائنات کے آغاز کے ساتھ ہی زمانے کی تخلیق ممکن ہوئی ہے جس سے باری تعالیٰ کا مقصد انسان کو اس اتار چڑھاؤ سے آگاہ کرنا تھا جو اس راہ میں موجود ہوتے ہیں۔ اس شعر میں بھی اقبالؔ نے زمانے کو “سازِ ازل کی فغاں” سے تعبیر کیا ہے کہ ساز کی طرح زمانے میں بھی اُتار چڑھاؤ کا عمل جاری رہتا ہے جس کے ذریعے سے قدرت متوقع امکاناک کی نشاندہی کرتی ہے، اس کا مقصد یہی ہے کہ انسان حوالوں کی روشنی میں حقیقت کو پاسکے۔
رات اور دِن کا سلسلہ وہ فریاد ہے جو ازل کے ساز سے پیدا ہوئی۔ اس سے ذاتِ باری تعالیٰ کا مدعا یہ تھا کہ کائنات میں جو صلاحیتیں رکھی گئی ہیں، وہ زیر و بم (یعنی اتار چڑھاؤ، یا تبدیلی) کی شکل میں ظاہر ہوجائیں، یعنی روز و شب کا سلسلہ تخلیق کے ساتھ ہی شروع ہوگیا تھا اور اسی میں انسان نے ممکناتِ کائنات کو روشنی میں لانا شروع کیا۔ مراد یہ ہے کہ کائنات کی صلاحیتیں زمانے ہی کے سلسلے میں ظاہر ہوسکتی تھیں۔ چونکہ اس شعر کے پہلے مصرع میں زمانے کو ”سازِ ازل کی فغاں“ کہا گیا تھا اور ساز میں زیر و بم (یعنی اونچے نیچے) سُر ہوتے ہیں۔ اس لیے ممکنات کے ساتھ زیر و بم استعمال کیا اور کائنات کی صلاحیتوں میں بعض چیزیں بہت نمایاں ہوتی ہیں، بعض غیر نمایاں، لہذا زیر و بم کا استعمال بہت موزوں معلوم ہوتا ہے۔ باقی رہا یہ امر کہ ”سازِ ازل کی نوا“ کی بجائے ”فغاں“کا لفظ کیوں استعمال کیا؟ اس کی وجہ یہ ہے غالباً یہ ہے کہ شاعر کے نزدیک سازِ ازل کی جو آواز تخلیق کا باعث ہوئی، وہ روحوں کے لیے اصل سے مفارقت (جدائی) کا پیغام تھی۔
تجھ کو پرکھتا ہے یہ، مجھ کو پرکھتا ہے یہ
سِلسلۂ روز و شب، صَیرفیِ کائنات
رات اور دِن کا سلسلہ کائنات کا صرّاف ہے یعنی وہ ہر چیز کو پرکھتا ہے۔ کھوٹا کھرا الگ کردیتا ہے، نہ میں اس امتحان سے آزاد ہوں، نہ تُو اس امتحان سے آزاد ہے۔ زمانے کی کسوٹی (یعنی آزمائش) سب کے لیے یکساں ہے۔
تُو ہو اگر کم عیار، مَیں ہُوں اگر کم عیار
موت ہے تیری برات، موت ہے میری برات
چاہے تُو ہو یا چاہے میں۔۔ کمزور اور بے حقیقت انسان کو (خواہ وہ کوئی بھی ہو) زمانہ مِٹا کر رکھ دیتا ہے۔ اس کا مقدّر موت کے سِوا کچھ اور نہیں۔
تیرے شب و روز کی اور حقیقت ہے کیا
ایک زمانے کی رَو جس میں نہ دن ہے نہ رات
اے مخاطب! سلسلۂ روز و شب کی حقیقت یا اصل زمانِ خالص ہے جس میں نہ دِن ہے، نہ رات ہے، نہ حال ہے، نہ استقبال۔ بس یہ زمانِ خالص ایک رو ہے جس میں کہیں سکون نہیں ہے۔ زمانہ کبھی نہیں بدلتا اور نہ ہی کبھی اس کا تسلسل ٹوٹتا ہے، لہذا اس کے باب میں دِن اور رات کی تمیز در اصل کوئی حقیقت نہیں رکھتی:۔
؎ زمانہ کہ زنجیرِ ایّام ہے
دموں کے اُلَٹ پھیر کا نام ہے
(حوالہ: بالِ جبریل: ساقی نامہ)
بالفاظِ دیگر زمانہ زندگی ہے اور زندگی ہی زمانہ ہے لیکن اس رازکو سمجھنے کے لیے خودی کی معرفت لازمی ہے۔ جب تک عارفانہ نظر پیدا نہ ہو، زمانہ کی حقیقت سمجھ میں نہیں آسکتی۔
؏ ہدف سے بیگانہ تیر اس کا، نظر نہیں جس کی عارفانہ
(حوالہ: بالِ جبریل: زمانہ)
اقبالؔ یہاں حقیقت کو واضح کرنا چاہتے ہیں کہ زمانہ دن اور رات کی تمیز سے بے نیاز ہے۔ زمانہ یا بہ الفاظ دیگر زندگی ایک مسلسل رو کا نام ہے جو کبھی نہیں بدلتی اور جس کا تسلسل کبھی نہیں ٹوٹتا۔ لہذا اس کے باب میں دن اور رات کی تمیز دراصل کوئی حقیقت نہیں رکھتی، جیسا کہ ایک جگہ فرمایا ہے:۔
؎ تُو اسے پیمانۂ امروز و فردا سے نہ ناپ
جاوداں، پیہم دواں، ہر دم جواں سے زندگی
(حوالہ: بانگِ درا: خضرِ راہ)
آنی و فانی تمام معجزہ ہائے ہُنر
کارِ جہاں بے ثبات، کارِ جہاں بے ثبات!
انسانی ہنر مندی نے جتنی حیرت انگیز چیزیں اب تک بنائیں، وہ سب تھوڑی دیر کے لیے ہیں اور جلد فنا ہوجانے والی ہیں۔ حق یہ ہے کہ سارا سلسلہ ناپائدار ہے اور اس کائنات کی کسی شے میں قیام برقرار نہیں ہے، یعنی:-
؏ کارِ جہاں بے ثبات، کارِ جہاں بے ثبات
اوّل و آخر فنا، باطن و ظاہر فنا
نقشِ کُہن ہو کہ نَو، منزِل آخر فنا
اول و آخر بھی فنا ہے، ظاہر و باطن بھی فنا ہے۔ کوئی نقش نیا ہو یا پرانا، اس کی منزل فنا کے سوا کوئی نہیں۔
کائنات میں انسان کی بنائی ہوئی ہر شے کی ابتدا نیستی سے ہوتی ہے اور انتہا بھی نیستی سے ہوتی ہے یعنی کسی نہ کسی دن وہ شۓ ضرور مِٹ جائے گی، پس اول اور آخر فنا ہے۔ اسی طرح ہر مادی شۓ کا ظاہری پہلو بھی فانی ہے اور باطنی پہلو بھی فانی ہے۔ خلاصۂ کلام یہ کہ کائنات میں انسان کی بنائی ہوئی پر شے کی (خواہ وہ پرانی ہو یا نئی) آخری منزل فنا ہوجانا ہے۔
نوٹ:-
اقبالؔ نے یہاں سلسلۂ روز و شب کی حقیقت تو واضح کردی ہے کہ وہ زمانہ کا نام ہے لیکن اس روؔ یا حقیقی زماں کی ماہیت واضح نہیں کی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ:-
اوّلاً: علامہ اقبالؔ نے ایک مرتبہ دورانِ گفتگو مجھ سے یہ فرمایا تھا کہ زمانہ کی حقیقت کو سمجھنا یا سمجھانا بڑا مشکل کام ہے؛ کیونکہ جب تک کوئی شخص اپنی خودی سے واقف نہ ہو، زمانہ کی حقیقت سے واقف نہیں ہوسکتا۔
ثانیاً: زمانہ کی حقیقت بیان کرنے کا یہ کوئی موقع نہیں تھا۔ اس مسئلہ پر انہوں نے اجمالاً دوسری نظموں میں اور تفصیلاً اپنے خطباتِ موسومہ ”مذہبی فکر کی تشکیلِ جدید“ میں اظہار خیالات کیا ہے۔ اس لیے میں بھی اس جگہ اس مسئلہ پر تفصیلی بحث کرنے کی بجائے صرف چند اشارات پر اکتفا کروں گا۔
واضح ہو کہ اقبالؔ متکلمین اور بعض حکمائے مغرب (مثلاً ڈاکٹر میک ٹیگرٹ) کے مقابلہ میں زمانہ کو حقیقی مانتے ہیں۔ مطلب یہ کہ وہ خارج میں موجود ہے اور ”الحقیقہ“ کا ایک لازمی عنصر ہے لیکن اس کی منطقی (Logical) تعریف نہیں ہوسکتی، ہاں یہ ضرور ہے کہ ہم اس کی حقیقیت کو اپنے باطن میں محسوس کرسکتے ہیں۔ گویا حقیقی زمانہ ہمارے ایک باطنی احساس کا نام ہے۔ یہ حقیقی زماں ایک نوع کی تخلیقی فعلیت ہے جس میں نہ ماضی ہے نہ حال ہے نہ مستقبل ہے۔ بلکہ اس کو مرور یا دورانِ خالص (Divine Time یا Pure Time) سے تعبیر کرسکتے ہیں۔
اس حقیقی زمانہ یعنی مرورِ خالص سے زمانِ مسلسل (Serial Time) پیدا ہوتا ہے جسے ہم سلسلۂ روز و شب کہتے ہیں۔ حقیقی زمانہ ایک رو کا نام ہے جس میں نہ دِن ہے، نہ رات اور نہ اوقات ہیں نہ لمحات بلکہ وہ ایک وحدت (Super-Eternal NOW) ہے۔
اس حقیقی زمانہ کا ادرا ک حواسِ خمسہ سے نہیں ہوسکتا لیکن ہمارا شعور اس کا ادراک کرسکتا ہے اور اس کا طریقہ اقبالؔ نے اسرارِ خودی میں بتایا ہے:-
نکتہ غیب و حضور اندر دِل است
رمز ایام و مرور اندر دِل است
نغمۂ خاموش دارد سازِ وقت
غوطہ در دِل زن کہ بینی رازِ وقت
یعنی زمانہ کی حقیقت خود تمہارے دِل میں پوشیدہ ہے۔ اس لیے اگر تم اس سے آگاہ ہونا چاہتے ہو تو اپنے دِل میں غوطہ لگاؤ۔
(حوالہ: اسرارِ خودی: الوقت سیف)
اس تصریح سے اِتنا تو معلوم ہوگیا کہ زمانہ کی حقیقیت دِل میں پوشیدہ ہے، اب رہی یہ بات کہ ایسا کیوں ہے۔۔؟ اس کا جواب انہوں نے یہ دیا ہے:۔
؎ ایں و آن پیداست از رفتارِ وقت
زندگی سرّیست از اسرارِ وقت
واقعات وقت کی رفتار سے پیدا ہوتے ہیں،زندگی وقت کے رازوں میں سے ایک راز ہے۔
؎ زندگی از دہر و دہر زندگی است
لا تسبو الدھر فرمانِ نبی ﷺ است
زندگی زماں سے ہے اور زماں زندگی سے ہے، حضور اکرم ﷺ کا فرمان ہے کہ زمانے کو بُرا نہ کہو۔
(حوالہ: اسرارِ خودی: الوقت سیف)
یعنی زمانہ کی اصل زندگی ہے اور زندگی کی اصل زمانہ ہے۔ زندگی سے یہاں مراد “الحقیقۃ” یعنی ذاتِ باری تعالیٰ ہے۔ جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے: ”لاتسبو الدھر فا انی الدھر“ یعنی زمانہ کو برا مت کہو کیونکہ میں خود زمانہ ہوں۔ اسی لیے محققین صوفیہ کا یہ مسلک ہے کہ ”زمانہ دراصل استمرارِ وجودِ باری ہی کا دوسرا نام ہے“۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ حقیقی زمانہ روحِ انسانی کی طرح ایک راز ہے جس سے وہی شخص آگاہ ہو سکتا ہے جو اپنی خودی سے واقف ہو اور میں پہلے واضح کرچکا ہوں کہ خودی سے آگاہ ہونے کا طریقہ دنیا میں ایک ہی ہے اور وہ ہے عشقِ الہی۔ یعنی صرف عاشق زمانہ کی حقیقیت سے واقف ہوسکتا ہے اور اربابِ نظر سے یہ نکتہ مخفی نہیں ہے کہ جب تک آپ کسی شے کی حقیقیت سے آگاہ نہ ہوں، اس وقت تک اس کو مسخّر نہیں کرسکتے۔ اسی لیے مرشدِ رومی فرماتے ہیں کہ:۔
؎ ہر کہ عاشق شد جمالِ ذات را
اوست سیّد جملہ موجودات را
یعنی جو عشقِ الہی اختیار کرتا ہے وہ ساری کائنات پر حکمراں ہوجاتا ہے اور انسان کائنات پر حکمران ہو نہیں سکتا جب تک وہ زمان و مکان پر حکمران نہ ہو۔
پس اقبالؔ اور رومیؔ؛ دونوں کی تعلیم کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر زمانہ کی حقیقیت سے آگاہ ہونا چاہتے ہو تو دِل میں غوطہ لگاؤ یعنی عشقِ الہی اختیار کرو کیونکہ عشق خود اصلِ حیات ہے اور زمانہ کی دست برد سے بالاتر ہے، چنانچہ اقبالؔ خود کہتے ہیں:۔
؏ عشق ہے اصلِ حیات، موت ہے اُس پر حرام
ان تصریحات سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ خدا، خودی (روح)، عشق اور زمانہ میں ایک ایسا مخفی ربط رکھا ہے جو عقل کی گرِفت سے بالاتر ہے۔ اس کی حقیقت صرف عاشق کو معلوم ہوسکتی ہے۔ اب رہے ہم لوگ تو ہمارا یہ حال ہے کہ:۔
؏ چوں ندیدند حققیت رۂ افسانہ زوند
بات بھی یہی ہے کہ زمان و مکان کی بحثوں میں ساری عمریں صَرف ہوجاتی ہیں لیکن حقیقت کا سراغ نہیں ملتا اور نہ کوئی فلسفی زمانہ کے چہرے سے نقاب اُٹھا سکتا ہے بلکہ ابھی تک اس مقام پر اپنے قلم کو روکتا ہوں۔
پہلے بند کو سمجھنے کے لیے صرف اس قدر ذہن نشین کرلینا کافی ہے کہ:۔
1۔ زمانہ کی دو قسمیں ہیں۔ حقیقی زماں (Divine Time یا Pure Time) اور تسلسل زماں (Serial Time)۔ جو اوّل الذکر (یعنی حقیقی زماں) کی بدولت عالمِ وجود میں آتا ہے۔
2۔ حقییقی زماں کی ماہیّت روح کی طرح عقل کی گرفت سے بالاتر ہے، وہ زندگی کی ایک شان ہے اور زندگی خود اُس کی ایک شان ہے۔ وہ زندگی میں پوشیدہ ہے اور زندگی اس میں پوشیدہ ہے۔ وہ زندگی سے ہے اور زندگی اس سے ہے۔
3۔ جب تک خودی کی معرفت حاصل نہ ہو، زمانِ حقیقی کی معرفت بھی حاصل نہیں ہوسکتی۔
4۔ زندگی؛ زماں میں ایک مسلسل حرکت کا نام ہے۔ دوسرے لفظوں میں زمانہ کی مسلسل حرکات کو زندگی کہتے ہیں۔
(حوالہ: شرح بالِ جبریل از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)
بند نمبر 2
ہے مگر اس نقش میں رنگِ ثباتِ دوام
جس کو کِیا ہو کسی مردِ خدا نے تمام
بے شک دنیا کی ہر چیز فنا ہونے والی ہے لیکن اس نقش (آرٹ کا معجزہ) میں ہمیشہ کی پائیداری کا رنگ پیدا ہوجاتا ہے جو کسی مردِ حق کے ہاتھ سے مکمل ہوا ہو۔ مردِ حق یا مردِ خدا سے وہ انسان مراد ہے، جس کے تمام کام خدا کی رضا کے تابع ہوتے ہیں۔ وہ ہر کام کو عشق کی وساطت سے انجام دیتا ہے اور عشق چونکہ زمانِ مسلسل سے آزاد ہوتا ہے (عشق کا تعلق زمانِ خالص سے ہوتا ہے) اس لیے زمانِ مسلسل مردِ مومن کے کارناموں کو فنا نہیں کرسکتا۔
مردِ خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ
عشق ہے اصلِ حیات، موت ہے اس پر حرام
سوال کیا جاسکتا ہے کہ ایسے نقش کو کیوں دائمی (یعنی ہمیشہ کی) پائیداری حاصل ہوتی ہے؟ جواب یہ ہے کہ مردِ حق کا ہر کام عشقِ حق کی بدولت فروغ پاتا ہے۔ عشقِ حق زندگی کا جوہر اور روح ہے۔ اس پر موت وارد نہیں ہوسکتی۔ اِسے مٹادینا موت کی دسترس سے باہر ہے۔
بقا کو جو دیکھا فنا ہوگئی وہ
قضا تھی، شکارِ قضا ہوگئی ہو
(حوالہ: بانگِ درا: عشق اور موت)
تُند و سبک سَیر ہے گرچہ زمانے کی رَو
عشق خود اک سَیل ہے، سَیل کو لیتاہے تھام
بلاشبہ زمانے کی رو (یعنی لہر) بڑی ہی تیز و تند ہے اور اس کے سامنے کوئی چیز نہیں ٹھہر سکتی۔ وہ (یعنی زمانہ) نئی نئی صورتیں پیدا کرتا اور مِٹاتا رہتا ہے۔ زمانہ اگرچہ ایک تیز لہر ہے جس کو روکنا عام حالات میں ممکن نہیں، لیکن عشق بذاتِ خود ایک تند و تیز سیلاب کی مانند ہوتا ہے، اس لیے وہ زمانہ پر غالب آجاتا ہے اور اس کو اپنے اندر جذب کرلیتا ہے۔
عشق کی تقویم میں عصرِرواں کے سوا
اور زمانے بھی ہیں جن کا نہیں کوئی نام
جس طرح ہمارے ہاں جنتریاں اور کیلنڈر ہوتے ہیں اور ان دونوں میں دِنوں اور مہینوں کے حساب درج کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح عشقِ حق کی بھی ایک جنتری (یعنی تقویم) ہے، جس میں زمانوں کے حساب لکھے جاتے ہیں، اس جنتری پر نظر رکھیں تو صاف معلوم ہوجائے گا کہ اس میں اِسی زمانے کا حساب درج نہیں جو جاری ہے (یعنی عصرِ رواں)۔ بلکہ اس میں اور زمانے بھی ہیں جن کا کوئی نام نہیں بتاسکتا۔
مراد یہ ہے کہ جو زمانہ رات اور دِن کے سلسلے سے بنتا ہے، اس کی خاصیت تو بے شک یہی ہے کہ وہ چیزوں کو بناتا اور مِٹاتا رہتا ہے۔ اگر عشقِ حق کا معاملہ اسی زمانے تک محدود ہوتا تو وہ فنا کی دسترس سے باہر نہ رہ سکتا۔ چونکہ اس کے ہاں اور زمانے بھی ہیں، لہذا وہ رات اور دِن والے زمانے کے اثرات سے بالکل محفوظ ہے۔
عشق دمِ جبرئیل، عشق دلِ مصطفیٰؐ
عشق خدا کا رُسول، عشق خدا کا کلام
عشق کوئی مادی یا دنیاوی شۓ نہیں بلکہ نہایت پاکیزہ اور روحانی بلکہ آسمانی جوہر ہے۔ اس حقیقت کو اقبالؔ نے دمِ جبرئیلؑ اور دلِ مصطفٰے ﷺ سے واضح کیا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ عشق کی عظمت، رفعت، پاکیزگی، طہارت اور روحانیت کو بیان کرنے کے لیے ان دو ناموں سو بڑھ کر کوئی نام ذہن میں نہیں آسکتا۔
دنیا میں پاکیزگی، طہارت، روحانیّت اور برتری کے جتنے پاکیزہ اور نورانی نمونے نظر آتے ہیں، وہ سب عشقِ حق ہی کے مختلف جلوے ہیں۔ گویا عشقِ حق مختلف لباسوں، مختلف شکلوں اور مختلف پیکروں میں تجلّی ریز ہوتا ہے۔ مثلاً حضرت جبرئیلؑ کا سانس اور ان کی آواز بھی عشق ہی کا جلوہ تھا۔ حضرت سرورِ کائنات ﷺ کے قلبِ طاہر و اطہر کا نور بھی عشقِ حق کا ایک کرشمہ تھا۔ عشق ہی خدائے پاک کا ایلچہ بن کر اس دنیا میں آیا اور انسانوں کو راہِ حق پر لگاہا۔ عشق ہی خدا کا کلام ہے، جس کی بدولت دِلوں اور روحوں کے اندھیرے میں اجالا ہوجاتا ہے اور اخلاق کا بِگڑا ہوا نقشہ اصلاح پاتا ہے۔
عشق کی مستی سے ہے پیکرِ گِل تابناک
عشق ہے صہبائے خام، عشق ہے کاسُ الکِرام
کہتے ہیں کہ مٹی کے پُتلے یعنی انسان میں جو یہ تابناکی، یہ چمک دمک، یہ روشنی اور یہ روحانیت نظر آتی ہے، یہ سب عشق ہی کا کرشمہ ہے۔ یہ عشق ہی کی بدولت ہے کہ انسان نے علم و عرفان اور ہدایت و سعادت کے وہ نمونے پیش کیے، جن کی روشنی کبھی ماند نہ پڑے گی۔
عشق وہ شراب (صہبائے خام) ہے جس کا نشہ بہت تیز ہوتا ہے اور عشق وہ پیالہ (کاس الکرام) ہے جس سے ہر شخص کو فیض پہنچتا ہے یعنی عاشق کا وجود دنیا والوں کے حق میں باعثِ رحمت ہوتا ہے۔
صہبائے خام: وہ شراب جس میں کوئی چیز نہ ملائی گئی ہو۔ بادہ نوشوں کا عام قاعدہ ہے کہ وہ شراب پیتے ہیں تو اس میں کوئی چیز ملا لیتے ہیں، مثلاً گلاب کا عرق، سوڈا وغیرہ۔۔ جس سے شراب کی تلخی اور تیزی کم ہوجاتی ہے۔ اگر اس میں کوئی چیز نہ ملائی جائے تو تلخی اور بھی زیادہ ہوجاتی ہے اور نشہ بھی زیادہ لاتی ہے۔ اسی کو صہبائے خام کہتے ہیں۔
کاس الکرام: کاس کا مطلب ہے پیالہ، کرام بمعنی فراخ دِل اور سخی۔ کاس الکرام سے وہ پیالہ مراد ہے جس سے دوسروں کو بھی حصہ ملے۔ یہ مشہور ترکیب عربی کے اس شعر سے مقتبس ہے:-
؎ شربنا وصبنا علی الارض جرعۃ
فللارض من کاس الکرام نصیب
جب ہم نے شراب پی تو اُس کا ایک گھونٹ زمین پر بھی بہا دیا، پس ثابت ہوا کہ سخی کے پیالہ میں زمین (یعنی دوسروں) کا بھی حصہ ہوتا ہے۔
اقبالؔ کہتے ہیں کہ عشق وہ شراب ہے جس کا نشہ بہت تیز ہوتا ہے اور عشق وہ پیالہ ہے جس کا فیض سب کو پہنچتا ہے یعنی عاشق کا وجود دنیا والوں کے لیے باعثِ رحمت ہوتا ہے۔
عشق فقیہِ حرم، عشق امیرِ جُنود
عشق ہے ابن السّبیل، اس کے ہزاروں مقام
عشقِ حق کبھی کعبہ کے اس پاک باطن عالم (فقیہِ حرم) کی شکل اختیار کرتا ہے، جو شریعتِ اسلامیہ کا سب سے بڑا محافظ اور شارح ہے۔
کبھی ان لشکروں کی سالاری (امیرِ جنود: جنود جند کی جمع ہے اور جند سے مراد ہے لشکر، امیرِ جنود یعنی لشکر کا ساکار) کا فرض انجام دیتا ہے جو خدا کی راہ میں جہاد کے لیے تیّار ہوئے ہوں۔ مومنوں کے دِلوں میں جذبۂ جہاد عشق ہی کی بدولت پیدا ہوتا ہے۔
عشق چونکہ ”ابن السبیل“، یعنی مسافر ہے۔ اس لیے اس کے ہزاروں مقامات ہیں۔ اقبالؔ نے عشق کو مسافر سے تعبیر کیا ہے کیونکہ عشق ہی کی بدولت سالک روحانی منازل طے کرتا ہے۔
عشق کے مِضراب سے نغمۂ تارِ حیات
عشق سے نُورِ حیات، عشق سے نارِ حیات
محض عشقِ حق ہی وہ مضراب ہے جو سازِ زندگی کے تاروں سے نغمے پیدا کرتی ہے۔ اسی کی بدولت زندگی نورانی بنتی ہے اور اسی کی بدولت زندگی میں حرارت پیدا ہوتی ہے۔
مراد یہ ہے کہ عشق نہ ہوتا تو زندگی کے ساز سے کوئی نغمہ نہ نکل سکتا یعنی زندگی ہی موجود نہ ہوتی۔ نیز عشق ہی کی بدولت زندگی میں شانِ جلال اور شانِ جمال پائی جاتی ہے۔
اس بند کے مطالعہ سے ناظرین پر یہ حقیقت منکشف ہوسکتی ہے کہ اقبالؔ عشق کو باعثِ ایجادِ عالم یقین کرے ہیں یعنی اس باب میں مرشدِ رومیؒ کے سچے مقلّد ہیں۔
؎ در دو عالم ہر کُجا آثارِ عشق
ابنِ آدم سِرِّ اسرارِ عشق
(مولانا جلال الدین رومیؒ)
بند نمبر 3
اے حَرمِ قُرطُبہ! عشق سے تیرا وجود
عشق سراپا دوام، جس میں نہیں رفت و بود
اے قرطبہ کی مسجد! تُو بھی عشقِ حق کی بدولت وجود میں آئی، عشق سر سے پاؤں تک ہمیشگی ہے۔ اس کے لیے فنا نہیں۔
رنگ ہو یا خِشت و سنگ، چِنگ ہو یا حرف و صوت
معجزۂ فن کی ہے خُونِ جگر سے نمود
رنگ ہو یا اینٹ، ساز ہو یا لفظ و آواز، غرض کوئی فن ہو، اس کا کمال جگر کےخوں سے نمایاں ہوتا ہے۔
پہلے مصرع میں رنگ سے بظاہر مراد مصوّری ہے، خشت و سنگ سے مراد فنِ تعمیر، چنگ سے موسیقی، حرف و صوت سے شاعری، انشا اور خطابت۔ فرماتے ہیں کہ ان فنون میں اگر اخلاص و عشقِ حق کی نمائش ہو تو یقیناً یہ بڑے بلند پایہ فنون بن جاتے ہیں اور قوموں کی تربیت میں بہت موثّر ثابت ہوتے ہیں، لیکن اگر اخلاص و عشقِ حق موجود نہ ہوں تو یہ بے روح جسم ہوں گے اور چشم و گوش کی عارضی تواضع کے سوا کوئی وظیفہ انجام نہ دے سکیں گے۔ مسجدِ قرطبہ کو وہ خونِ جگر ہی کی بدولت معجزۂ فن قرار دیتے ہیں۔
قطرۂ خُونِ جگر، سِل کو بناتا ہے دل
خُونِ جگر سے صدا سوز و سُرور و سرود
خونِ جگر کا قطرہ پتھّر کی سِل کو دِل کی طرح احساس اور تڑپ کا پیکر بنادیتا ہے۔ مراد ہے کہ صاحبِ فن کا جذبۂ عشق ہی بے جان اشیاء میں زندگی کی شان پپدا کردیتا ہے۔
جگر کے خون ہی سے آواز میں سوز، کیف اور نغمہ پیدا ہوتا ہے، یعنی آواز خواہ وہ شاعر کی ہو، خواہ داعی کی ہو، خواہ کسی اور کی، وہ اسی وقت دِلوں میں حرارت پیدا کرتی ہے اور روحوں کو عمل کے لیے بے خود بنادیتی ہے، جب اس میں عشق کا جذبہ موجود ہو۔ جس طرح اقبالؔ ذوق و شوق میں فرماتے ہیں:-
؎ خونِ دِل و جگر سے ہے میری نوا کی پرورش
ہے رگِ ساز میں رواں صاحبِ ساز کا لہو
(حوالہ: بالِ جبریل: ذوق و شوق)
تیری فضا دل فروز، میری نوا سینہ سوز
تجھ سے دِلوں کا حضور، مجھ سے دِلوں کی کشود
اقبالؔ مسجد سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ تیری فضا دِلوں کے لیے روشنی کا سامان ہے، میری نوا سے سینوں میں حرارت اور تڑپ پیدا ہوتی ہے۔ تُو دِلوں کو حضورِ حق میں پہنچاتی ہے، میں دِلوں کی پیچیدہ گتھیاں سلجھاتا ہوں اور ان میں انشراح پیدا کرتا ہوں یعنی اگر تیرا نظارہ دیکھنے والے کے دِل میں اللہ تعالی کی ہستی کا یقین پیدا کرتا ہے اور ان میں عبادت کا صحیح ذوق و شوق پیدا ہوتا ہے تو میرے کلام کے مطالعہ سے قلب میں محبتِ الہی کا رنگ پیدا ہوجاتا ہے اور عشقِ الہی کی آگ بھڑک اُٹھتی ہے۔
عرشِ معلّیٰ سے کم سینۂ آدم نہیں
گرچہ کفِ خاک کی حد ہے سِپہرِ کبُود
انسان اگرچہ بظاہر بہت بے حقیقت معلوم ہوتا ہے، لیکن اس کا سینہ ایمان کے نور سے منوّر ہوجائے تو وہ عرشِ معلّی سے کم نہیں رہتا۔ عرشِ معلّی کی خصوصیت اس کے سوا کیا ہے کہ وہ ذاتِ حق کی تجلّیات کا مرکز ہے۔ اگر انہیں تجلّیات کا نزول نورِ ایمان کی وجہ سے انسان کے سینہ پر ہو تو اسے کیوں عرشِ معلی سے کم سمجھا جائے! مانا کہ انسان اپنے جسمِ خاکی کے باعث نیلے آسمان سے آگے نہیں جاسکتا، لیکن اس سے اُس کی معنوی برتری میں کوئی فرق نہیں آتا۔
پیکرِ نُوری کو ہے سجدہ میّسر تو کیا
اس کو میّسر نہیں سوز و گدازِ سجود
عشقِ حق اور نوررِ ایمان ہی کی بدولت انسان کا درجہ فرشتوں اور قدوسیوں سے بھی بلند ہوگی۔ وہ اگرچہ ذاتِ حق کو سجدہ کرتے ہیں۔ اس کی تسبیح و تقدیس میں لگے رہتے ہیں، جیسا کہ خود قرآن مجید سے ظاہر ہے۔
وَنَحْنُ نُسَبِّـحُ بِحَـمْدِكَ وَنُـقَدِّسُ لَكَ
اور ہم (یعنی فرشتے) تجھے سراہتے ہوئے تیری تسبیح کرتے اور تیری پاکی بولتے ہیں۔
(حوالہ: القرآن: سورۃ البقرہ: آیت نمبر 30)
لیکن انہیں سوز و گداز کا وہ مقام کہاں حاصل ہے؟ عشق میں تکلیفیں اُٹھانے، مصیبتیں برداشت کرنے اور جلتے رہنے کی وہ سعادت کب نصیب ہوئی جو انسان کو حاصل ہے۔
کافرِ ہندی ہُوں مَیں، دیکھ مرا ذوق و شوق
دل میں صلٰوۃ و دُرود، لب پہ صلوٰۃ و دُرود
میں ہندی کافر ہوں یعنی مجھے ایمان کا وہ مقام حاصل نہیں جو اہلِ حق کو حاصل ہوتا ہے۔ لیکن اے مسجدِ قرطبہ! میرے ذوق و شوق کی کیفیت دیکھ، کہ تجھے دیکھتے ہی میرے دِل مں عشقِ الہی کی آگ اور بھی تیز ہوگئی اور میری زبان پر بے ساختہ درود و سلام جاری ہوگیا (چنانچہ یہ نظم اسی والہانہ کیفیت کی آئینہ دار ہے)
شوق مری لَے میں ہے، شوق مری نَے میں ہے
نغمۂ ’اللہھوٗ‘ میرے رَگ و پَے میں ہے
میرا لب و لہجہ بھی شوق سے لبریز ہے۔ میری بانسری بھی شوق کے سِوا کچھ نہیں اور میرے جسم کا ریشہ ریشہ اللہ ہُو کا نغمہ گارہا ہے۔
بند نمبر 4
تیرا جلال و جمال، مردِ خدا کی دلیل
وہ بھی جلیل و جمیل، تُو بھی جلیل و جمیل
اے مسجدِ قرطبہ! تیری شان و شوکت اور حسن و جمال کو دیکھ کر مردِ خدا کی یاد تازہ ہوتی ہے۔ وہ بھی اپنے اوصاف میں صاحبِ شان و شوکت اور صاحبِ حسن و جمال ہوتا ہے، جس طرح تُو ہے۔
تیری بِنا پائدار، تیرے سُتوں بے شمار
شام کے صحرا میں ہو جیسے ہُجومِ نخیل
تیری عمارت نہایت پختہ اور مضبوط ہے۔ جس پر کم و بیش بارہ سو سال گزر چکے ہیں اور ابھی تک اپنی اصل حالت پر قائم ہے۔ تیرے ستون گِنے نہیں جاسکتے، انہیں دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے ملکِ شام کے صحرا میں کھجوروں کا ایک جھُنڈ (ہجومِ نخیل) ہو۔
مسجدِ قرطبہ کے تمام ستون ایک ہزار چار سو سترہ (1,417) تھے۔ انسان اتنے ستونوں کے درمیان کھڑا ہوجائے تو حیران رہ جاتا ہے اور ان کی گنتی نہیں کرسکتا۔ پھر ان ستونوں کے لیے تشبیہ نہایت پاکیزہ پیدا کی۔ اقبالؔ نے شام کا ذکر اس لیے بھی کِیا کیونکہ وہاں کھجوروں کے درخت بہت زیادہ ہوتے ہیں اور ان کی وضع (بناوٹ) اور ہئیت (خد و خال) راستی (سیدھے پن) میں ستونوں سے مشابہ ہوتی ہے۔ اس لیے بھی کِیا کہ مسجد کا بانی اور اس کے اخلاف (یعنی بال بچے، آل اولاد) شام سے نکل کر اندلس پہنچے تھے۔ اور وہاں اُنہوں نے عالیشان سلطنت قائم کی تھی۔ گویا اقبالؔ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ مسجد کی تعمیر کے دوران میں اپنے وطن کا سب سے دِلکش نظارہ (یعنی کھجوروں کے درختوں کا ہجوم) ان لوگوں کے سامنے رہا اور وہی نظارہ انہوں نے مسجد کی تعمیر میں پیدا کردیا۔
تیرے در و بام پر وادیِ اَیمن کا نور
تیرا منارِ بلند جلوہ گہِ جبرئیل
تیرے دروازوں اور چھت پر وادیٔ سینا کا نور جگمگا رہا ہے۔ تیرا وہ مینار جس پر اذان کہی جاتی تھی، ایک سو دس (110) فُٹ بلند ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس پر حضرت جبریل امینؑ اپنا جلوہ دِکھا رہے ہیں۔
مِٹ نہیں سکتا کبھی مردِ مسلماں کہ ہے
اس کی اذانوں سے فاش سرِّ کلیمؑ و خلیلؑ
مسجد کی پائداری کا ذکر کرتے ہوئے اقبال کے دِل میں ملتِ اسلامیہ کی پائداری تازہ ہوگئی۔ فرماتے ہیں کہ مسلمان اگرچہ ہسپانیہ سے مِٹ گئے لیکن دنیا سے ہرگز نہیں مِٹ سکتے، کیونکہ ان کی اذانیں تو حضرت موسٰیؑ اور حضرت ابراہیمؑ جیسے جلیل القدر پیغمبروں کے راز بے نقاب کر رہی ہیں یعنی اسی دینِ حق کو دنیا میں پھیلانا مسلمانوں کا وظیفہ ہے جو حضرت موسٰیؑ اور حضرت ابراہیمؑ یا دوسرے پیغبر اس دنیا میں لائے اور حضرت ابراہیمؑ سے دینِ اسلام کو جو نسبت ہے، وہ کسی طرح کی محتاج نہیں۔
اس کی زمیں بے حدود، اس کا اُفُق بے ثُغور
اس کے سمندر کی موج، دجلہ و دنیوب و نیل
اسلامی وطن کی کوئی حد نہیں۔ روئے زمین کا ہر ٹکڑا اور ہر گوشہ مسلمان کا وطن ہے۔ اس کا اُفق حد بندی سے بے نیاز ہے۔ دریائے دجلہ، دریائے ڈینوب اور دریائے نیل اس کے سمندر کی لہریں ہیں۔ (اس مصرع میں سلطنتِ عثمانیہ کی وسعت کی طرف اشارہ ہے کیونکہ سلطان سلیمان اعظم کے زمانہ میں یہ تینوں دریا سلطنتِ عثمانیہ میں شامل تھے)۔
دجلہ: عراق کا مشہور دریا، جس کے کنارے بغداد واقع ہے۔
دنیوب: وسطی یورپ کا مشہور دریا ”Danube“ جو جرمنی سے نکلتا ہے اور آسٹریا، ہنگری اور رومانیہ میں سے ہوتا ہوا بحیرۂ اسود میں گِرتا ہے۔ یورپ کے بعض مشہور شہر مثلاً ویانا، بوڈاپسٹ (Budapest) اسی کے کنارے واقع ہیں۔
نیل: دریائے نیل دنیا کا سب سے طویل دریا ہے جو براعظم افریقا میں واقع ہے۔
مراد یہ ہے کہ مسلمان عرب سے نکلے تو ساری دنیا پر چھا گئے۔ کوئی گوشہ ایسا نہ رہا جہاں ان کی تعلیماتِ حَقّہ کے اثرات کسی نہ کسی شکل میں نہ پہنچے ہوں۔ دجلہ، ڈینیوب اور نیل کا ذکر تو سرسری طور پر کردیا۔ ایشیا، یورپ اور افریقہ کا کون سا قابلِ ذکر دریا ہے جس نے اسلامی سمندر میں لہر کی حیثیت حاصل نہ کی ہو، بے شک آج مسلمانوں کی وہ شانِ جلال باقی نہیں لیکن کیوں سمجھ لیا جائے کہ وہ اپنے دینِ حِقّہ کی تعلیم کا سہارا لے کر پھر اپنے پہلے درجہ پر نہیں پہنچ سکتے؟
اس کے زمانے عجیب، اس کے فسانے غریب
عہدِ کُہن کو دیا اس نے پیامِ رحیل
مسلمان قوم اس دنیا میں نہایت حیرت انگیز کارنامے انجام دے چکی ہے اور ان کی سرگزشت کے دور سب کے لیے تعجب خیز ہیں۔ ان کے جوشِ ہمت اور عزم و جواں مردی کی داستانیں اپنی مثال آپ ہیں۔ کوئی دوسری قوم ان داستانوں کی نظیر پیش نہیں کرسکتی۔ مسلمان ہی ہیں جنہوں نے پرانے زمانے کو کُوچ کا پیغام دیا اور اس عہد کی بنیاد رکھی جسے تہذیب، شائستگی، علم، تحقیق اور کمال فنون کا خاص عہد کہا جاتا ہے۔
نوٹ: مسلمانوں کے کارناموں کی تفصیل اس مقام پر درج نہیں کی جاسکتی۔ اس کے لیے ڈاکٹر ڈریپر کی بلند پایہ تصنیف ”یورپ کی علمی ترقی کی تاریخ“ کا مطالعہ کریں۔
ساقیِ اربابِ ذوق، فارسِ میدانِ شوق
بادہ ہے اس کا رحیق، تیغ ہے اس کی اصیل
جن اصحاب میں روحانی ذوق تھا، ان کے لیے دِل پسند شراب مسلمان ہی نے مہیّا کی۔ وہی تھا جس نے عشقِ حق کے میدان میں شہسواری کے جوہر دکھائے۔ اس کی شراب خالص اور مصفا ہے۔ اس کی تیغ اصیل ہے، جس کی کاٹ کا مقابلہ نہیں ہوسکتا۔
انسان فطرت و طبیعت کے اعتبار سے مختلف قوم کے ہوتے ہیں، بعض میں روحانی ذوق بڑھا ہوا ہوتا ہے، بعض جہاد بالسیف کے شیدائی ہوتے ہیں، بعض اپنی زندگیاں علم و فن کی خدمت میں گزار دیتے ہیں۔ ان کے لیے بہترین سامان اسلامی تعلیامت نے مہیّا کیے ہیں۔
اگرچہ مسلمان اپنے عہدِ عروج میں ساری دنیا پر اپنی سطوت کا سِکّہ جما چکے لیکن وہ اس گئی گذری حالت میں بھی محبت اور شجاعت میں کسی قوم سے کم نہیں ہیں۔ آج بھی دنیا کو درسِ وفا سے سکتے ہیںم آج بھی اللہ تعالی کے نام پر سر کٹانے کا جذبہ ان میں موجود ہے، آج بھی وہ عشقِ رسول ﷺ کی دولت کے مالک ہیں۔ ان کی شرابِ محبت میں آج بھی وہی تیزی ہے اور ان کی تلوار آج بھی جوہردار ہے اور اعدائے دین کی سرکوبی کرسکتی ہے۔
مردِ سپاہی ہے وہ اس کی زِرہ ’لَا اِلہ‘
سایۂ شمشیر میں اس کہ پنہ ’لَا اِلہ‘
مسلم قوم سپاہی ہے۔ اس کی زرہ کلمۂ توحید کے سوا کچھ نہیں، یعنی وہ اس کلمہ کو لے کر اُٹھتا ہے اور یہی اس کے جہاد کا پورا سروسامان ہے۔ تلوار کے سایہ میں بھی اس کی پناہ لا الہ الا للہ کے سوا کوئی نہیں، یعنی وہ توحید ہی کی دعوت دیتا ہے اور توحید ہی کو اپنی زندگی کا مقصد و نصب العین سمجھتا ہے۔ اسی کے لیے جیتا اور اسی کی خاطر جان دیتا ہے۔ ایسی قوم کیوں کر مِٹ سکتی ہے۔
اقبالؔ نے جو کچھ کہا ہے اسے شاعرانہ خیال نہ سمجھنا چاہیے۔ ایک حدیثِ قدسی میں یہی مضمون بیان ہوا ہے۔ اس کا مفاد یہ ہے کہ مسلمانوں پر ایسا دور بھی آسکتا ہے، جب دشمنوں کا غلبہ بہت بڑھ جائے، لیکن یہ صورت کبھی پیدا نہ ہوگی کہ ان کی ہستی ہی باقی نہ رہے یا نشو و نما کا وہ جوہر ختم ہوجائے جو قوموں کی زندگی کا حقیقی سرچشمہ ہے۔ مسلمانوں پر مصیبتیں اس وقت آتی ہیں، جب وہ خدا کے احکام کی پیروی چھوڑ دیتے ہیں۔ پیروی کے ساتھ ہی ان میں عزّت و سربلندی کی نئی روح پیدا ہوجاتی ہے۔ اسلامی تاریخ میں ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں کہ تھوڑی دیر کے لیے مغلوب ہوئے، پھر جوشِ عمل اور ہمت و عزیمت کی بدولت زندگی کے نئے سر و سامان سے آراستہ ہوگئے۔
بند نمبر 5
تجھ سے ہُوا آشکار بندۂ مومن کا راز
اس کے دنوں کی تپِش، اس کی شبوں کا گداز
اے مسجدِ قرطبہ! تجھے دیکھ کر بندہ مومن کی حقیقی شان آشکارا ہوتی ہے۔ اس شان کی خصوصیتیں کیا ہیں؟ یہ کہ مومن دن کے اوقات میں عشقِ حق کے جذبے سے سرشار ہو کر انتہائی سرگرمی اور جاں فشانی سے مصروفِ کار رہتا ہے۔ خدا کے حکموں کی تعمیل کرتا اور کراتا ہے۔ اس کے بندوں کے لیے راحت و آسائش کا سامان بہم پہنچاتا ہے۔ انہیں باطل قوّتوں کی ضرر رسانی سے محفوظ رکھتا ہے۔ غرض اس کا سارا وقت ایسے ہی کاموں میں گزر جاتا ہے۔ رات آتی ہے تو وہ خدا سے لو لگاتا ہے۔ اس کے سامنے روتا ہے۔ دعائیں کرتا ہے۔ اسی سے مدد اور نصرت کے لیے التجا کرتا ہے۔ یوں اس کے رات اور دِن گزرتے ہیں۔
اس کا مقامِ بلند، اس کا خیالِ عظیم
اس کا سُرور اس کا شوق، اس کا نیاز اس کا ناز
اے مسجدِ قرطبہ! تُو اسکی محنت، مشقّتِ سرگرمی اور جاں فشانی کا ایک زندہ کارنامہ ہے۔ تُو اس لیے تعمیر ہوئی کہ مومن رات کے اوقات میں تیرے اندر بیٹھ کر خدا کی بارگاہ میں دعائیں کرے۔ تیری عمارت کی رِفعت اس کے مقامِ بلند ہونے کا کھُلا ثبوت ہے۔ تیری وسعت سے اس کے بڑے بڑے ارادوں کا پتا چلتا ہے۔ یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کے خیالات کتنے وسیع ہیں۔ پھر اس نے تجھے انتہائی ذوق و شوق سے بنایا۔ اس سے معلوم ہوتا تہے کہ اس کا ذوق و شوق کتنا پاکیزہ تھا۔ تُو اس غرض سے بنی کہ مومن تجھ میں خدا کے سامنے سجدۂ نیاز کرتا رہے۔ اس نیاز مندی میں بھی ناز کی ایک عجب شان آشکارا ہے۔ یہ تیرے چپّے چپّے کے حُسن سے ٹپک رہی ہے۔
ہاتھ ہے اللہ کا بندۂ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں، کارکُشا، کارساز
بندۂ مومن کا ہاتھ اللہ تعالی کا ہاتھ ہوتا ہے۔ وہ جو کچھ کرتا ہے، خدا کے لیے کرتا ہے۔ اس کا کوئی عمل ذاتی غرض سے آلودہ نہیں ہوتا۔ لہذا اللہ اپنی رحمت سے اس کے ہاتھ میں اپنے ہاتھ کی شان پیدا کردیتا ہے۔ مثلاً مومن کا ہاتھ خدا کے ہاتھ کی طرح سب پر غالب رہتا ہے۔ وہ سب کو صحیح کاموں کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ کسی کے کام میں رکاوٹ پیدا ہوجائے تو اسے دُور کردیتا ہے اور کسی کا سلسلۂ کار بِگڑ جائے تو اسےسنوار دیتا ہے یعنی مومن کی برکت سے لوگوں کی سرگرمیاں صحیح مسلک پر بگڑی بنتی ہے۔باطل قوّتوں کے لیےابھرنے کا کوئی موقع نہیں رہتا۔
یہ شعر اس حدیثِ قدسی مفہوم پیش کرتا ہے جو صحیح بخاری کی کتاب الرقاق میں حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے۔ اس کا متعلّقہ ٹکڑا یہ ہے:۔
مَا يَزَالُ عَبْدِي يَتَقَرَّبُ إِلَىَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّى أُحِبَّهُ، فَإِذَا أَحْبَبْتُهُ كُنْتُ سَمْعَهُ الَّذِي يَسْمَعُ بِهِ، وَبَصَرَهُ الَّذِي يُبْصِرُ بِهِ، وَيَدَهُ الَّتِي يَبْطُشُ بِهَا وَرِجْلَهُ الَّتِي يَمْشِي بِهَا
باری تعالی کا ارشاد ہے کہ میرا بندہ نفلوں کے ذریعہ سے میرے قریب ہوجاتا ہے۔ یہاں تک کہ میں اس سے محبّت کرنے لگتا ہوں۔ تو اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اور اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا یے اور اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔
(حوالہ: صحیح البُخاری: کتاب الرقاق: حدیث 91 | حدیث 6502)
جب انسان اپنا وجود رضائے الہی کے لیے وقف کردے اور سچّا مومن یقیناً اس کا ہر کام خدائی کام بن جاتا ہے، اس لیے کہ اس سے خدا کی رضا کے سوا کچھ مقصود نہیں ہوتا اور عین خدا ہی کے حکم کے مطابق ہوتا ہے۔
خاکی و نوری نہاد، بندۂ مولا صفات
ہر دو جہاں سے غنی اس کا دلِ بے نیاز
بندۂ مومن اگرچہ جسم کے اعتبار سے خاکی ہوتا ہے، لیکن فطرت و طبیعت کے لحاظ سے اس کے نوری ہونے میں کسی کو کلام نہیں ہوسکتا۔ اس کے اندر اپنے آقا و مولا کی صفتیں پیدا ہوجاتی ہیں۔ اس کا بے نیاز دِل دنیا اور عقبیٰ کی کسی چیز پر نہیں ٹھہرتا۔ اس کا مقصود ذاتِ باری تعالیٰ کی خوشنودی کے سِوا کچھ نہیں ہوتا۔
اس کی اُمیدیں قلیل، اس کے مقاصد جلیل
اس کی ادا دل فریب، اس کی نِگہ دل نواز
اس کی امیدیں بہت تھوڑی ہوتی ہیں۔ وہ اپنے کسی کام کے لیے دنیا والوں سے اجر اور معاوضے کا خواہاں نہیں ہوتا۔ اس کی غرض صرف یہ ہوتی ہے کہ اس دنیا میں خدا کی رضا پوری ہوجائے۔
کہنے کو یہ معمولی مقصد ہے لیکن حقیقت پر نظر رکھی جائے تو یہ مقصد نہایت عظیم الشان ہے۔ اس میں وہ تمام مقاصد آجاتے ہیں جنہیں اس دنیا کے بڑے بڑے انسانوں نے اپنا نصب العین بنایا۔ مثلاً خلقِ خدا کی بہتری اور بہبود ان کا امن، عالم گیر اخوت و مساوات، تمام انسانوں کو خدا کے سچے بندے بنانا اور سب کو اس کی چوکھٹ پر جھکانا۔ دنیا میں اس سے بڑے مقصد کیا ہوسکتے ہیں جو مومن کا نصب العین بنیں؟ اس کی پوری زندگی دیکھ کر انسانوں کے دِلوں میں محبّت اور احترام کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ وہ کسی پر عتاب کی نگاہ نہیں ڈالتا۔ ہر ایک کی دِل نوازی کرتا ہے۔
نرم دمِ گُفتگو، گرم دمِ جُستجو
رزم ہو یا بزم ہو، پاک دل و پاک باز
وہ بات چیت کرتا ہے تو بہت نرمی سے۔ تلاشِ حق میں بہت سرگرمی دکھاتا ہے۔ میدانِ جنگ کا معاملہ ہو یا دوستوں کی محفل جم جائے، مومن دونوں جگہ پاک طینتی اور پاک بازی کا پیکر ہوتا ہے۔ یعنی وہ میدانِ جنگ یا مجلسِ شوریٰ میں کبھی خدا کی مقرّر کی ہوئی حدوں سے تجاوز نہیں کرتا۔ یہی پاک دِلی اور پاک بازی کا پہلا اور آخری معیار ہے کہ انسان زندگی کے ہر شعبے اور ہر حصّے میں خدا کے حکموں کے مطابق چلے اور ان سے بال برابر بھی اِدھر اُدھر نہ ہو۔ نیز وہ اپنی ہر حرکت میں صرف خدا کی رضا پیشِ نظر رکھّے۔
نُقطۂ پرکارِ حق، مردِ خدا کا یقیں
اور یہ عالم تمام وہم و طلسم و مجاز
دنیا میں مردِ مومن ہی کا ایمان و یقین پر کارِ حق کا نقطہ ہے۔ اسی کی وجہ سے اس دنیا میں خدائی احکام جاری ہوتے ہیں۔ اسی کی وجہ سے خدا کی رضا لوگوں کا نصب العین بنتی ہے۔ لہٰذا وہی اس دنیا میں حقیقی چیز (یعنی نقطۂ پرکارِ حق) ہے۔ باقی جو کچھ ہے، وہ سراسر وہم، دھوکا اور مجاز ہے۔ یعنی مردِ مومن کے ایمان و یقین کے سوا اس دنیا میں کسی شے کو پائداری اور استواری نصیب نہیں۔
وہم سے یہاں وہ شے مراد ہے جس کی کوئی اصلیت (قیمت) نہ ہو۔
طلسم سے وہ شے مراد ہے جس کا ظاہر کچھ اور ہو اور باطن کچھ اور۔
مجاز سے وہ شے مراد ہے جس کی کوئی حقیقت (بنیاد) نہ ہو۔
وہم یقین کی ضِد ہے، طلسم صداقت کی ضِد ہے اور مجاز حقیقت کی ضِد ہے۔
عقل کی منزل ہے وہ، عشق کا حاصل ہے وہ
حلقۂ آفاق میں گرمیِ محفل ہے وہ
مردِ مومن ہی عقلِ سلیم کا سرچشمہ ہے۔ اٗسی کو عشقِ حق کا حاصل کہا جاسکتا ہے۔ کائنات کی محفل میں جو رونق اور چہل پہل نظر آتی ہے، وہ اُسی کے دم سے ہے۔
بند نمبر 6
کعبۂ اربابِ فن! سطوَتِ دینِ مبیں
تجھ سے حرم مرتبت اندلسیوں کی زمیں
اے مسجدِ قرطبہ! تُو فنونِ لطیفہ کے ماہروں کی نظر میں ایسی ہی لائقِ احترام ہے جیسے کعبہ مسلمانوں کی نظر میں۔ جن لوگوں نے فنِ تعمیر میں درجۂ کمال حاصل کیا، تیری عمارت ان کے لیے کعبہ کا حکم رکھتی ہے، یعینی انتہائی عزّت کی مستحق ہے اور وہ لوگ اس تعمیر کے نئے نئے نکتے سیکھتے ہیں۔ تیری وجہ سے دینِ اسلام کی شوکت و عظمت نمایاں ہے۔ تجھ کو دیکھ کر اسلام کی عظمت کا نقشہ آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے اور تیری بدولت ہسپانیہ کی سرزمین بھی مکہ مکرمہ کی طرح محترم اور معزز ہوگئی ہے۔
ہے تہِ گردُوں اگر حُسن میں تیری نظیر
قلبِ مسلماں میں ہے، اَور نہیں ہے کہیں
اس آسمان کے نیچے تیرے حُسن و خوبی کی اگر کوئی مثال ہے، تو وہ روئے زمین پر موجود نہیں، البتہ مسلمانوں کے قلب میں مِل سکتی ہے، یعنی مسلمان ہی پھر ایسی خوبصورت اور عالی شان عبادت گاہ بنا سکتے ہیں اور کوئی نہیں بناسکتا۔
واضح ہو کہ اقبالؔ نے مسجد کو قلبِ مومن سے تشبیہ دے کر دو باتیں ثابت کی ہیں۔
پہلی بات یہ کہ مومن کا دِل حسن و جمال کا مرکز اور منبع ہوتا ہے (مومن کے دِل کو منبعِ حسن و جمال قرار دینا اقبالؔ کی ندرتِ فکر کا کمال ہے)، دوسری بات یہ کہ دنیا کی کائی مسجد حُسن و جمال کے اعتبار سے مسجدِ قرطبہ کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔
میں اِس شرح میں مسجد کی خوبصورتی تفصیل سے تو نہیں لکھ سکتا،اس سلسلہ میں صرف چند باتیں درج کرسکتا ہوں:-
اس بے نظیر مسجد کی تعمیر عبدالرحمٰن اول نے شروع کی اور اس کے جانشین ہشام نے 796ء میں اسے پایهٔ تکمیل تک پہنچایا۔ اوراس کے جانشین عبدالرحمٰن ثانی نے اس میں توسیع کی اور اس کے جانشین سلطان اعظم عبدالرحمٰن ثالث نے سرخ دینار اس کی آرائش و زیبائش پر صرف کرکے اسے مساجدِ عالم ی ملکہ بنادیا۔ اس کی آرائش و زیبائش کا اندازہ اس بات سے ہوسکتا ہے کہ اس کا منبر بھی خالص ہاتھی دانت کا تھا اوراس میں بہت سے جواہرات لگے تھے۔ اس پر 35 ہزار دینار صرف ہوئے تھے یعنی موجودہ زمانہ میں اس کی قیمت 35 لاکھ دینار کے قریب ہوگی۔ اس مسجد میں 1,417 خالص سنگِ مرمر کے ستون ہیں جن کے نقش و نگار کمالِ فن کی دلیل ہیں۔ شام کے وقت اس میں دس ہزار جھاڑ فانوس روشن ہوتے تھے۔ وسط میں تین بڑے جھاڑ خالص چاندی کے تھے، باقی سب پیتل کے تھے۔ ان میں سے ہر ایک میں 1,480 پیالے روشن ہوتے تھے جن میں شبانہ 36 سیر تیل جلتا تھا۔ تین سو فرّاش اس کی صفائی پرمعین تھے۔
آہ وہ مردانِ حق! وہ عَربی شہسوار
حاملِ ’ خُلقِ عظِیم‘، صاحبِ صدق و یقیں
آہ! خدا کے وہ پاک بندے، وہ عرب کے شہسوار جو حضورِ اکرم ﷺ کے اخلاقِ عالیہ کا نمونہ تھے۔ وہ جنہیں سچائی، ایمان داری، راست بازی اور یقین میں نہایت اونچا مرتبہ حاصل تھا۔
مسجد کا ذکر کرتے کرتے اقبالؔ کا ذہن قدرتی طور پر اس قوم کے کارناموں کی طرف منتقل ہوجاتا ہے جس نے یہ عدیم المثام مسجد بنائی تھی، چنانچہ اس بند کے تیسرے شعر سے آخر تک انہوں نے عربوں کی عظمتِ رفتہ کی داستان بیان کی ہے۔ چونکہ اقبالؔ کو یہ معلوم تھا کہ وہ چار یا چھ شعروں میں ہسپانیہ کی تاریخ نظم نہیں کرسکتے اس لیے انہوں نے رنگِ اختصار کو مدِ نظر رکھ کر اپنے اشعار میں ایسے الفاظ استعمال کیے ہیں جن مسلمانانِ اندلس کی چھ سو سالہ تاریخ مضمر ہے۔ ان چھ شعروں کے پڑھنے سے دِل میں وہ اثر پیدا ہوسکتا ہے جو پوری تاریخ پڑھنے سے بھی شاید نہ ہو۔
مثال کے طور پر پہلے شعر کے الفاظ پر غور کیجیے:-
؏ آہ وہ مردانِ حق
اقبالؔ نے اس شعر کو لفظ آہ سے شروع کیا ہے۔ یہ لفظ اس بات کی دلالت کرتا ہے کہ مسلمانانِ اندلس کی تاریخ ایک درد ناک المیہ (Tragedy) ہے یعنی ان کی پوری تاریخ اس ایک لفظ میں پوشیدہ ہے۔
”مردانِ حق“ کی ترکیب یہ بتائی ہے کہ جن لوگوں نے ہسپانیہ کو فتح کیا تھا یونی طارقؒ اور ان کے ہمراہی، وہ سچے مسلمان تھے۔ ان کی زندگی کا مقصد تھا کہ حق کا بول بالا ہو۔
”عربی شہسوار“ کی ترکیب یہ بتائی ہے کہ وہ عربی النسل تھے اور شہسواری میں ممتاز تھے بلکہ یہ ان کی قومی خصوصیت تھی۔ علاوہ بریں اس لفظ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہسپانیہ میں تجارت کرنے کے بہانے سے داخل نہیں ہوئے تھے بلکہ انہوں نے اس ملک پر فوج کشی کی تھی۔
”خلقِ عظیم“ کی ترکیب اقبالؔ نے قرآن سے مستعار لی ہے۔ اسی لیے اسے واوین (”“) میں لکھا ہے۔ قرآنِ کریم میں اللہ نے حضور اکرم ﷺ کی شان میں فرمایا ہے:-
وَاِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِـيْمٍ
اور بیشک آپ ﷺ اخلاق کے بڑے مرتبے پر ہیں۔
(حوالہ: القرآن: سورۃ القلم: آیت نمبر 4)
اس آیت میں حضور اکرم ﷺ کے اخلاقِ حسنہ کا ذکر ہے جو اس کائنات میں اخلاق کا بہترین نمونہ تھے۔ اقبالؔ کی مراد یہ ہے کہ اندلس کے مسلمان اُن ہی اخلاقِ حسنہ کے مالک تھے جو رسولِ اکرم ﷺ اس دنیا میں لے کر آئے تھے-
”صاحبِ صدق و یقین“ کی ترکیب بھی عربوں کی سیرت کو واضح کرتی ہے جنہوں نے طارقؒ کی ہمراہی میں اس ملک کو فتح کیا تھا۔
جن کی حکومت سے ہے فاش یہ رمزِ غریب
سلطنتِ اہلِ دل فقر ہے، شاہی نہیں
وہ جن کی حکومت نے یہ عجیب و غریب نکتہ دنیا پر واضح کیا کہ دِل والوں کی سلطنت فقیری ہوتی ہے، بادشاہی نہیں۔۔ یعنی وہ اس لیے نہیں آتے کہ بڑے بڑے محل بنائیں اور گِرد عظمت و برتری کے حیرت انگیز سامان جمع کرلیں، بلکہ وہ فقر و درویشی کا تحفہ لے کر آتے ہیں، جو کم سے کم میں گزارہ کرتے ہیں اور ہر چیز خلقِ خدا کی بہتری، بہبود اور راحت و آسائش کے لیے وقف کردیتے ہیں۔ یہی وہ سلطنت ہے جس کا پیغام اسلام دنیا میں لایا۔ یہی وہ حکمرانی ہے، جس کا بہترین نمونہ خلافتِ راشدہ نے پیش کیا۔ جو عرب اندلس پہنچے تھے، وہ بھی یہی نمونہ لے کر گئے تھے اور اسی کی وجہ سے خود اندلسی مسیحیوں نے اپنے بادشاہوں کو چھوڑ کر مسلمان عربوں کا ساتھ دیا تھا۔
جن کی نگاہوں نے کی تربیَتِ شرق و غرب
ظُلمتِ یورپ میں تھی جن کی خرد راہ بیں
ان لوگوں نے یعنی عربوں نے مشرق اور مغرب کو اسلام کے نور سے منوّر کردیا اور انہی کی بدولت یورپ میں (جو ان کی آمد سے قبل جہالت اور اوہامِ باطلہ کی تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا) میں علم و فن کی روشنی پھیل گئی۔ چنانچہ یورپ کی تاریخ اس حقیقیت پر شاہد ہے کہ اس خِطہ میں علوم و فنون کی اشاعت عربوں ہی کی وساطت سے ہوئی۔ قرطبہ اور غرناطہ کے مدرسوں میں انگلستان، فرانس، جرمنی اور اطالیہ کے طلبہ مختلف علوم و فنون حاصل کرتے تھے اور ٹامس ایکوئیناس، جان اسکوٹس، راجر بیکن وغیرہ۔۔ یہ سب فلسفی مشہور اندلسی حکیم ابنِ رشد ہی کے خوشہ چین ہیں، بلکہ فرانس اور اطالیہ میں تو فلسفۂ ابنِ رشد کے مرکز قائم تھے جہاں سے اس نامور حکیم کے فلسفہ کی باقاعدہ اشاعت ہوتی تھی۔
جن کے لہُو کی طفیل آج بھی ہیں اندلسی
خوش دل و گرم اختلاط، سادہ و روشن جبیں
خلقِ عظیم کے پیکر وہی تھے جن کا لہو آج تک اندلسیوں کی رگوں میں دوڑ رہا ہے اور یورپ کی دوسری قوموں کے مقابلے میں اندلس کے باشندے خوش دِل، مہمان نواز، میل جول میں پُر تپاک (یعنی گرم اِختلاط)، سادہ مزاج اور روشن پیشانیوں والے یعنی خوبصورت ہیں۔
آج بھی اس دیس میں عام ہے چشمِ غزال
اور نگاہوں کے تِیر آج بھی ہیں دل نشیں
اندلس میں آج بھی ہرن (غزال) جیسی آنکھیں ہر جگہ دیکھی جاسکتی ہیں اور حسینوں کی نگاہوں کے تیر آج بھی دِل میں ترازو ہوتے ہیں۔ مراد یہ ہے کہ حُسن کی یہ علامتیں عربی خون کی آمیزش کا نتیجہ ہیں۔
بُوئے یمن آج بھی اس کی ہواؤں میں ہے
رنگِ حجاز آج بھی اس کی نواؤں میں ہے
آج بھی اندلس کی ہوا میں یمن کی خوشبو اور وہاں کے باشندوں کی گفتگو میں حجازی لب و لہجہ کا اثر موجود ہے۔
”بوئے یمن“ سے اشارہ اس مشہور مگر غیر مستند حدیث کی طرف بھی ہے جس کا مضمون یہ ہے کہ حضرت رسول اکرم ﷺ کو یمن کی جانب سے ٹھنڈی ہوا آئی۔ بظاہر اس سے مراد یہ ہے کہ جو عرب ابتدا میں اندلس جاکر آباد ہوئے، ان میں بڑا حصہ یمن کے عربوں کا تھا اور ان کی نسل اب بھی وہاں موجود ہے۔ نیز اندلس کی موسیقی دوسرے یورپی ملکوں کی موسیقی کے مقابلہ میں حجازی موسیقی سے مشابہ ہے۔
بند نمبر 7
دیدۂ انجم میں ہے تیری زمیں، آسماں
آہ کہ صدیوں سے ہے تیری فضا بے اذاں
اے مسجدِ قرطبہ! ستاروں کی نظر میں تیری زمین کو آسمان کا رتبہ حاصل ہے، یعنی وہ بہت بلند مرتبہ ہے۔آہ! کہ صدیاں گزر گئیں اور تیری فضا میں اذان کی آواز نہیں سنی گئی۔ یعنی کسی نے یترے صحن یا ماذنے سے اذان نہیں کہی۔
کون سی وادی میں ہے، کون سی منزل میں ہے
عشقِ بلا خیز کا قافلۂ سخت جاں!
دوسرے شعر سے پھر اقبالؔ اپنے جذبات کا اظہار شروع کردیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خدا معلوم اب تک اندلس میں انقلاب کیوں برپا نہیں ہوا؟ خدا معلوم مسلمانوں کا قافلہ کس منزل میں رکا ہوا ہے جو ابھی تک یہاں نہیں پہنچا؟ جب کہ انقلاب اس جہان کا آئین ہے، تو خدا معلوم ابھی تک یہ سرزمین ہلالی پرچم سے محروم کیوں ہے؟
کچھ معلوم نہیں کہ ہنگامے پیدا کرنے اور ہلچل ڈالنے والے عشقِ حق کا سخت جان قافلہ کون سی وادی اور کون سی منزل میں مقیم ہے؟ وہ کب یہاں پہنچے گا؟ اور کب تیری فضا میں اللہ اکبر کی صدائیں پھر اسی طرح گونجنے لگیں گی، جس طرح اسلامی دور میں ساڑھے سات سو سال تک گونجتی رہیں۔
دیکھ چُکا المنی، شورشِ اصلاحِ دیں
جس نے نہ چھوڑے کہیں نقشِ کُہن کے نشاں
اس کے بعد کے چار شعروں میں اقبالؔ نے کمالِ بلاغت کے ساتھ یورپ کے بڑے بڑے انقلابات کا ذکر کیا ہے جو ان کے قیاس کے موید ہیں یعنی جب جرمنی، فرانس اور اطالیہ میں انقلاب رونما ہوچکا ہے؟ تو اگر ہسپانیہ میں بھی عنقریب کوئی انقلاب رونما ہوجائے تو بعید از قیاس نہیں۔
کہتے ہیں کہ زوالِ غرناطہ کے بعد یورپ میں بہت سے انقلابات رونما ہوچکے ہیں مثلاً سولہویں صدی میں جرمنی میں لوتھرؔ نے اصلاح کلیسائے روم کے نام سے ایک تحریک شروع کی جس نے یورپ میں ایک عظیم الشان انقلاب برپا کردیا جس کی بدولت نصف سے زائد مسیحی دنیا پاپائے روم کے مذہبی اقتدا ر سے آزاد ہوگئی۔
اصلاحِ دیں: مراد ہے ریفارمیشن سے، یعنی مذہبی اصلاح کی وہ تحریک جو مارٹن لوتھر باشندۂ جرمنی نے پوپ کے خلاد اُٹھائی تھی اور جس کی بنا پر عیسائیت دو بڑے ٹکڑوں میں بٹ گئی۔ پوپ کو ماننے والے “کیتھولک” کہلاتے رہے جبکہ لُوتھر کو ماننے والوں کا نام پراٹسٹنٹ پڑ گیا۔
میں اس کی تفصیل اس شرح میں درج نہیں کرسکتا صرف چند اشارات پر اکتفا کروں گا:ٓ
صورتِ حال یہ ہوئی کہ رومن کیتھولک کلیسا کی تعلیماتِ عجیبہ میں سے یہ دو باتیں بھی تھیں (اور اب بھی ہیں) کہ:-
1۔ پوپ (پاپائے روم) عسیائیوں کے گناہ معاف کرسکتا ہے چنانچہ معافی ناموں کی فروخت کا باقاعدہ محکمہ قائم تھا اور پوپوں و اس تجارت سے کافی آمدنی ہوتی تھی۔ کلیسائی اصطلاح میں اسے فروختِ تذکرات الغفران کہتے تھے۔
2۔ حقانیت کا دار و مدار کلیسا پر ہے نہ کہ بائبل پر یعنی حق وہ ہے جسے کلیسا حق قرار دے۔
1517ء میں مارٹن لوتھرؔ نامی ایک پادری (جو جرمنی کی وٹن برگ یونیورسٹی میں پروفیسر تھا) نے ان دونوں عقیدوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی تھی اور 31 اکتوبر 1517ء کو کافی غور و فکر کے بعد شہر کے سب سے بڑے گرجے کے دروازے پر پوپ اور کلیسا کے ان دونوں عقائد (تعلیمات) کی تردید جلی قلم سے لکھ کر چسپاں کردی۔ گویا یہ کلیسا کے خلاف اعلانِ جنگ تھا جو ایک نجیف پادری کی طرف سے کیا گیا تھا، چونکہ لوتھرؔ نے کلیسائی طریقِ کار کے خلاف احتجاج (پروٹیسٹ) کیا تھا اس لیے اس کے ہم خیال پروٹسٹنٹ (Protestant) فرقہ کے نام سے مشہور ہوگئے۔ 1520ء میں پوپ لیووہم نے لوتھرؔ کیس کلیسا سے خارج کردیا لیکن لوتھرؔ کی تحریک نے رفتہ رفتہ نصف عیسائی دنیا کو پوپ کی غلامی سے نجات دی۔
واضح ہو کہ رومن کیتھولک دنیا میں کوئی شخص، کوئی مذہبی یا فلسفیانہ یا علمی کتاب شائع نہیں کرسکتا جب تک کلسیا اس کے مضامین کی صحت کی تصدیق نہ کردے۔ اس کام کے لیے پوپ کی طرف سے احتسابِ کتب کا ایک باقاعدہ محکمہ قائم ہے۔
گویا ”شورشِ اصلاحِ دیں“ کی بدولت مُلک مُلک میں انقلاب پیدا ہوئے۔ جرمنی (یعنی المنی) سے اصلاحِ دین کی تحریک اُٹھی، جس نے پرانے زمانے کے تمام نقوش مِٹا کر رکھ دیے۔
حرفِ غَلط بن گئی عِصمتِ پیرِ کُنِشت
اور ہُوئی فکر کی کشتیِ نازک رواں
نیز اصلاح کا ایک زبردست نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ پیرِ کنشت (پوپ) کی عصمت کا عقیدہ باطل ہوگیا یعنی جو ممالک (مثلاً جرمنی، انگلستان) پاپائے روم کے اقتدار سے آزاد ہوگئے ہیں وہاں کے عیسائی اس کو معصوم نہیں سمجھتے۔
واضح ہو کہ کلیسائے روم یعنی رومن کیتھولک چرچ کا یہ عقیدہ ہے کہ پوپ معصوم عین الخطا ہے، اس سے غلطی یا گناہ سرزد نہیں ہوسکتا۔ لوتھرؔ نے اس عقیدہ کا ابطال کیا جس کی بدولت پروٹسٹنٹ کلیسا کے پادریوں کو بائبل میں غور و فکر کرنے اور اس کی تفسیر کرنے کی آزادی نصیب ہوئی۔
یورپ کی جس معصومی پر عیسائیت نے ایک مذہبی نظام تیّار کیا تھا، وہ معصومی حرفِ غلط کی طرح محو ہو کر رہ گئی۔ اس عہد میں کسی کو سوچنے کی اجازت نہ تھی۔ کوئی شخص بائیبل کا ترجمہ نہ کرسکتا تھا اور مذہب کے متعلق کوئی رائے نہ دے سکتا تھا۔سب کی گردنیں پوپ (یعنی پیرِ کنشت، لفظی معنی: کلیسا کا سب سے بڑا بزرگ یعنی پوپ) اور اس کے مقرر کیے ہوئے کارکنوں کے سامنے جھکی رہتی تھیں۔ وہ جو کچھ کہہ دیتے تھے، اسی کو نجات کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا، لیکن جب لُوتھر تحریک نے پوپ کی مصومیت ختم کی تو لوگ دین پر غور و فِکر کرنے لگے۔ حقیقتِ حال ان پر آشکارا ہوئی۔ اسی وقت سے پرانا مذہبی ڈھانچا برباد ہوگیا۔ اسی وقت سے آزادیِ فکر کا وہ دور شروع ہوا جس نے آگے چل کر یورپ کو لادینی کی راہ پر ڈال دیا۔
اقبالؔ کا کمال یہ ہے کہ فکر کی کشتی کو نازک بتایا۔ یقیناً وہ اتنی نازک ہوتی ہے کہ موج کا ہلکا سے تھپیڑا بھی اسے تختہ تختہ کر دے سکتا تھا۔
چشمِ فرانسیس بھی دیکھ چُکی انقلاب
جس سے دِگرگُوں ہُوا مغربیوں کا جہاں
فرانسیس کی آنکھ نے بھی انقلاب کا نقشہ دیکھ لیا، جس میں نہ محض فرانس کی پرانی شنشاہی ہی ختم ہوئی، بلکہ یورپ کے پورے پرانے نظامِ سلطنت میں اُلٹ پلٹ شروع ہوگئی، یعنی دوسرے ملکوں میں بھی بادشاہی کو ختم کر کے جمہوریتیں قائم ہونے لگیں اور وہاں نئی تہذیب نے فروغ حاصل کیا۔
اسی طرح اٹھارہویں صدی عیسوی میں ایک عظیم انقلاب برپا ہوا۔ جس کا نام ہی انقلابِ فرانس ہے۔ یہ انقلاب فرانس کی شہنشاہی کے خلاف تھا۔ اس کی مفصّل تاریخ کارلائل نے انگریزی کتاب میں لکھی ہے۔ چنانچہ بادشاہ، ملکہ اور بڑے بڑے امیر قتل کردیے گئے اور جمہوریت قائم ہوگئی۔ پھر نپولین بر سرِکار آگیا اور فرانس میں از سرِ نو شہنشاہی کا تخت بِچھ گیا، لیکن انقلابِ فرانس کی بدولت یورپ میں شہشاہی کی جڑ پر کلہاڑے چلنے لگے ۔
اس انقلاب سے اہلِ مغرب کی دنیا ہی بدل گئی کیونکہ اس انقلاب کی بدولت یورپ کی قومیں حریتؔ، اخوتؔ اور مساواتؔ کے الفاظ سے آشنا ہوئیں، شاید کبھی مفہوم سے بھی آگاہ ہوجائیں۔
نوٹ: میں نے جو یہ لکھا ہے کہ اقوامِ مغرب ان لفظوں کے معانی سے ہنوز آشنا نہیں ہوئی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ اصول سہ گانہ عقیدۂ توحید کا منطقی نتیجہ ہیں۔ اس لیے جب تک کوئی قوم خالص توحید کے عقیدہ پر حامل نہ ہو، وہ ان الفاظ کے مفہوم سے کیسے آگاہ ہوسکتی ہے۔ جب تک کوئی قوم توحید کو ایک عنصرِ فعال کی حیثیت سے اپنی اجتماعی زندگی میں داخل نہ کرے، اس وقت تک یہ پاکیزہ اصول عملی جامہ نہیں پہن سکتے۔
جب مسلمان زندہ تھے تو یہ اصول بھی ان کی زندگی سے مترشخ ہوتے تھے، چنانچہ اقبالؔ نے رموزِ بیخودی میں ان کے تاریخی شواہد پیش کیے ہیں لیکن اب عرصۂ دراز سے”مسلمان درگور مسلمانی در کتاب“ والا مضمون ہے۔ اس لیے آج 1951ء میں حریتؔ، اخوتؔ اور مساواتؔ۔۔ یہ تین لفظ ایسے ہیں کہ ان کا مفہوم تو مسلمانوں کے ذہن میں موجود ہے لیکن ان کا مصداق خارج میں کہیں موجود نہیں ہے۔ اقبالؔ نے اسی تلخ حقیقت کو اس طرح بیان کیا ہے:-
؎ نہ مشرق اس سے بری ہے، نہ مغرب اس سے بری ہے
جہاں میں عام ہے قلب و نظر کی رنجوری
(حوالہ: ضربِ کلیم: مشرق و مغرب)
”انقلابِ فرانس“ کی داستان بھی بہت طویل ہے۔ اس جگہ صرف اتنا بتانا کافی ہے کہ فرانس کے باشندے چونکہ شخصی حکومت کے تلخ ثمرات سے تنگ آچکے تھے اس لیے “تنگ آمد بجنگ آمد” والا معاملہ ہوگیا کہ 5 مئی 1789ء کو پیرس میں سارے ملک کے نمائندوں کی مجلس منعقد ہوئی اور اس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ ملوکیت کو ختم کرکے جمہوریت قائم کرنی چاہیے، چنانچہ تین سال کی جدوجہد کے بعد 1792ء میں فرانس میں ری پبلک (جمہوریت) قائم ہوگئی اور لائی شانژ دہ کو جنوری 1793ء میں اور اس کی ملکہ ماری انٹوینٹ کو اکتوبر 1793ء میں بجلی کی کرسی پر بٹھا کر سُوئے عدم روانہ کیا گیا اوراس طرح فرانس ہمیشہ کے لیے ملوکیت کی لعنت سے آزاد ہوگیا۔
ملّتِ رومی نژاد کُہنہ پرستی سے پیر
لذّتِ تجدید سے وہ بھی ہوئی پھر جواں
ملتِ رومی نژاد یعنی رومی نسل کی مِلّت، مراد ہے اہلِ اٹلی (Italy) جو پرانی چیزوں کی پرستش کرتے ہوئے بوڑھے ہوگئے تھے، وہ مسولینی (Mussolini) کی رہنمائی میں تجدید کی لذت سے جوان بن گئے، یعنی ان میں بھی زندگی کی نئی روح پیدا ہوگئی اور وہ عظمت و برتری کے دعوے کرنے لگے۔
”لذتِ تجدید“ کے لفظی معنی ہیں تازہ کرنے کی لذت؛ اس مصرع میں اشارہ اٹلی کی اس عظمت و برتری کی طرف ہے، جو اسے مسولینی کی ماتحتی سے حاصل ہوئی لیکن دوسری جنگِ یورپ میں یہ عظمت بھی یورپ کی بعض دوسری عظمتوں کی طرح حرفِ غلط کی طرح مِٹ گئی۔
رُوحِ مسلماں میں ہے آج وہی اضطراب
رازِ خدائی ہے یہ، کہہ نہیں سکتی زباں
مسلمان کی روح میں بھی آج وہی بے قراری، وہی تڑپ لہریں لے رہی ہے، اس کا نتیجہ کیا ہونے والا ہے؟ یہ خدائی راز ہے، زبان میں یہ طاقت نہیں کہ اِسے کھول کر بیان کرسکے۔
یعنی اندریں حالات اگر عربوں یا مسلمانوں میں بھی کوئی ایسا انقلاب رونما ہوجائے جس کی بنا پر ان میں زندگی پیدا ہوجائے تو بعید از قیاس نہیں ہے۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ مسلمانانِ عالم میں جو ایک عام اضطرابی کیفیت پائی جاتی ہے وہ اس بات کی دلیل ہے کہ جلد یا بدیر اِن میں بھی انقلاب برپا ہوگا۔
دیکھیے اس بحر کی تہ سے اُچھلتا ہے کیا
گُنبدِ نیلو فری رنگ بدلتا ہے کیا!
سمندر میں طوفان کے آثار نمودار ہیں۔ دیکھیے اس کی تہہ سے اُچھل کر کیا نکلے گا؟ اور یہ نیلا آسمان جو ہمارے سر پر چھایا ہوا ہے، کیا رنگ بدلے گا؟
بند نمبر 8
آخری بند میں اقبال اس وقت کا منظر پیش کررہے ہیں جب یہ نظم کہی گئی تھی اور یہ منظر کشی حد درجہ موزوں اور دِل کشا ہے۔
وادیِ کُہسار میں غرقِ شفَق ہے سحاب
لعلِ بدخشاں کے ڈھیر چھوڑ گیا آفتاب
اس آخری بند کا پہلا شعر فنی اعتبار سے بے نظیر ہے۔ ساری نظم میں اس کا جواب نہیں ہے۔ دوسرے مصرع میں استعارہ بالکنایہ نے اس شعر کو آسمان پر پہنچا دیا ہے۔ شاعر نے پہلےآفتاب کو ایک تاجر قرار دیا ہے، پھر اس کے لیے ”لعلِ بدخشاں کے ڈھیر“ ثابت کیے ہیں۔
فرماتے ہیں کہ پہاڑ کی وادی میں بادل شفق کی سُرخی میں ڈوبا ہوا نظر آتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سورج غروب ہوتے ہوتے بدخشانی لعل کے ڈھیر چھوڑ گیا۔
یہ غروبِ آفتاب کا نظّارہ ہے، غروب کے ساتھ ہی جو شفق نمایاں ہوتی ہے، اس کی شوخی ہر شے پر تھوڑا بہت رنگ چڑھا دیتی ہے اور بادل کا کائی ٹکڑا افق پر موجود ہو تو وہ سراسر سرخ ہوجاتا ہے۔ اسی کو شاعر نے سرخی کی بنا پر “لعلِ بدخشاں” کا ڈھیر سمجھا۔ چونکہ یہ ڈھیر غروبِ آفتاب سے پیدا ہوئے تھے اس لیے کہا کہ یہ آفتاب چھوڑ گیا۔
سادہ و پُرسوز ہے دُخترِ دہقاں کا گیت
کشتیِ دل کے لیے سَیل ہے عہدِ شباب
عین اسی وقت کسی دیہاتی لڑکی کا نغمہ فضا میں گونجا۔ اس کی لَے بہت سادہ تھی۔ اس لیے کہ دیہاتی لڑکیاں موسیقی کا فن سیکھ کر نہیں گاتیں، محض خوش گلوئی کی بدولت شوق پورا کرلیتی ہیں۔ سادگی کے باوجود اس لَے میں سوز بھرا ہوا تھا۔ سچ ہے، جوانی کا زمانہ دِل کی کشتی کے لیے سیل کا حکم رکھتا ہے، یعنی اسے جدھر چاہتا ہے، بہا لے جاتا ہے۔
اقبالؔ نے اِس مصرع میں عالمِ انسانیت کی ایک بہت بڑی حقیقت بیان کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جوانی کی حیثیت ایک تیز و تند سیل کی سی ہے۔ اس میں نہ کہیں اٹکاؤ ہے، نہ ٹھہراؤ۔۔ جِدھر رُخ ہوگیا، نکل گیا۔ اس میں نفع و نقصان کا موازنہ بھی عموماً نہیں ہوتا۔ یہ کیفیت اسی شخص پر واضح ہوسکتی ہے، جس نے تیز و تند سیل میں کشتی کو بہتے ہوئے دیکھا ہو۔ جوانی گزر جائے تو انسان ہر کام سوچ سمجھ کر کرتا ہے، قدم قدم پر رکتا ہے، گرد و پیش کو دیکھتا ہے جب آگے بڑھتا ہے۔ اس مصرع میں ایک خوبی یہ ہے کہ جوان لڑکی کا گیت سننے والے ہر شخص کے دِل پر ایک خاص کیفیت طاری ہوجاتی ہے اور جب تک یہ کیفیت رہتی ہے، وقت اس طرح گزر جاتا ہے جیسے زندگی کی کشتی ایک سیل میں بہہ رہی ہو۔۔ ابھی یہاں تھی، تھوڑی دیر میں کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔
آبِ روانِ کبیر! تیرے کنارے کوئی
دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب
اقبالؔ اس عالم میں دریا کے مخاطب کرکے فرماتے ہیں کہ:-
اے وادیِ کبیر کے بہتے ہوئے دریا! تیری کنارے کوئی شخص بیٹھا ہوا کسی اور ہی زمانے کا خواب دیکھ رہا ہے۔
(“کوئی” سے یہاں مراد خود اقبالؔ ہیں)
”آبِ روانِ کبیر“: وادیٔ الکبیر اندلس کا مشہور دریا، جس کے دونوں کناروں پر قرطبہ آباد ہے۔ مسجدِ قرطبہ بھی اس دریا کے قریب ہی واقع ہے۔
عالمِ نَو ہے ابھی پردۂ تقدیر میں
میری نگاہوں میں ہے اس کی سحَر بے حجاب
جس آنے والے زمانہ کا میں ذکر کررہا ہوں وہ اگرچہ ابھی دنیا کی نگاہوں سے پوشیدہ ہے (یعنی ابھی تقدیر کے پردہ میں ہے اور اُس کا ظاہر ہونا باقی ہے) لیکن میں اس کے آغاز کو دیکھ رہا ہوں۔
پردہ اُٹھا دوں اگر چہرۂ افکار سے
لا نہ سکے گا فرنگ میری نواؤں کی تاب
میں اگر اپنے تصوّرات کے چہرے سے پردہ اُٹھا دوں اور بتا دوں کہ کیا کچھ ہونے والا ہے تو یورپ میری ان انقلابی باتوں کی تاب نہ لاسکے گا۔
جس میں نہ ہو انقلاب، موت ہے وہ زندگی
رُوحِ اُمم کی حیات کشمکشِ انقلاب
اس کے بعد اقبالؔ مسلمان سے خطاب کرتے ہیں کہ زندگی انقلاب کا دوسرا نام ہے۔ جس قوم میں انقلاب برپا کرنے کی آرزو نہ ہو اس کا شمار زندہ اقوام میں نہیں کیا جاسکتا۔ قوموں کی زندگی صرف انقلاب پیدا کرسکنے پر منحصر ہے۔
صُورت شمشیر ہے دستِ قضا میں وہ قوم
کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب
جو قوم ہر وقت اپنے اعمال کی جانچ پڑتال کرتی رہتی ہے، اسے اندازہ رہتا ہے کہ کہاں لغزش ہوئی، کہاں ٹھوکر کھائی۔ وہ اپنی ہر لغزش اور ٹھوکر کی تلافی کرلیتی ہے۔ لہٰذا وہ زندگی کے میلان میں ہمیشہ کامیاب رہتی ہے اور قدرت کے ہاتھ میں تلوار کا کام دیتی ہے، یعنی اسی سے قدرت اپنے تمام کام لیتی ہے (مراد ہے کہ خدا ایسی قوم کو اقوامِ عالم کی سرداری عطا فرماتا ہے)۔
نقش ہیں سب ناتمام خُونِ جگر کے بغیر
نغمہ ہے سودائے خام خُونِ جگر کے بغیر
ان نقوش میں اگر جگر کا خون شامل نہ ہو، وہ نامکمل رہتے ہیں۔ خونِ جگر کے بغیر شاعری بھی سودائے خام کے سوا کچھ حیثیت نہیں رکھتی۔
اس بند کا آخری شعر پوری نظم کی جان ہے کیونکہ اس میں اقبالؔ نے اپنا فلسفہ (جسے ان کے پیغام کی روح سے تعبیر کرسکتے ہیں) بیان کردیا ہے۔ کہتے ہیں کہ قوموں کی ترقی دو باتوں پر موقوف ہے:۔
پہلی بات یہ ہے کہ قوم کے سامنے کوئی نہ کوئی نصب العین ضرور ہونا چاہیے۔ جو قوم اپنا مقصدِ حیات متعین نہیں کرتی اس کی زندگی بالکل بے معنی ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اس نصب العین کے حصول کا جذبہ عشق کے درجہ پر پہنچ جائے۔ کیونکہ عشق کے بغیر سب ارادے ناتمام رہتے ہیں، عشق کے بغیر کوئی قوم جدوجہد میں کامیاب نہیں رہتی۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ مسلمانوں کو اپنے مستقبل سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ انہیں اس حقیقت کو ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ انقلاب آئینِ حیات ہے جس کو قرآنِ حکیم ان الفاظ میں بیان کرتا ہے:-
وَتِلْكَ الْاَيَّامُ نُدَاوِلُـهَا بَيْنَ النَّاسِۚ
یہ تو زمانہ کے نشیب و فراز ہیں جنہیں ہم لوگوں کے درمیان گردِش دیتے رہتے ہیں۔
(حوالہ: القرآن: سورۃ آل عمران: آیت نمبر 140)
یعنی عروج و زوال کے دِنوں کو ہم یونہی لوگوں میں نوبت بہ نوبت لاتے رہتے ہیں۔ آج ایک قوم بر سرِ عروج ہے کل دوسری قوم۔ پس مسلمانوں کو انقلاب برپا کرنے کی تیاری کرنی چاہیے اور اس کی صورت ایک ہی ہے یعنی وہ اپنے اندر عشق کا جذبہ پیدا کرلیں۔ نصب العین کا حصول اسی جذبۂ عشق پر موقوف ہے۔