نظم ”التجائے مسافر“ (بہ درگاہِ حضرت محبوبِ الہیؒ، دہلی) از علامہ اقبال
فہرست
تعارف
حضرت محبوبِ الہیؒ سے مراد حضرت سید نظام الدین اولیاءؒ ہیں۔ یہ نظم اقبالؔ کی شاعری کے پہلے دور کی آخری نظم ہے۔ اس کے بعد اقبالؔ چند سال حصولِ علم کی خاطر یورپ منتقل ہو گئے۔ یہاں خواجہ نظام الدین اولیاء کی شخصیت سے شناسائی کے لیے ایک تعارف لکھا جاتا ہے۔
حضرت نظام الدین اولیاءؒ:
حضرت خواجہ محمد نظام الدین اولیاءؒ، مملوک سلطنت کی دلّی پہ حکومت کے دوران ۱۲۳۸ء میں پیدا ہوئے۔آپ نے چشتی صوفی سلسلے کی روحانی بنیادوں کو مضبوط کیا اور آپ کو سلطان المشائخ، سلطان الاولیاء اور محبوبِ الہی جیسے القاب سے نوازا گیا۔ آپ نے محبت، رحمدلی اور خدا کے ساتھ براہ راست تعلق پر زور دیا، جو روایتی عبادت کے طریقوں سے بلند تھا۔
خواجہ نظام الدین اولیاءؒ پاکپتن کے عظیم بزرگ بابا فرید الدین گنج شکر کے ہاتھ پر بیعت کر کے ان کے خلیفہ ہوگئے تھے۔ان کی تعلیمات نے صوفی موسیقی اور ادب کو، خصوصاً ان کے شاگرد امیر خسرو کے ذریعے، ایک نیا رنگ دیا۔
انہوں نے لنگر قائم کیے، جو ہر مذہب اور سماجی پس منظر کے لوگوں کو کھانا فراہم کرتے تھے
نظام الدین اولیاءؒ نے کئی روحانی رسومات اور عملیات کو فروغ دیا جو محبت اور انسانیت پر مبنی تھیں۔ انہوں نے ‘سماع‘ کی محفلوں کا اہتمام کیا، جہاں صوفی موسیقی اور شاعری کے ذریعے عشقِ الہی کا تجربہ کیا جاتا تھا۔اس کے علاوہ، ‘محفلِ صحبت‘ کا آغاز کیا جس کے ذریعے انہوں نے روحانی گفتگو اور اخلاقی تعلیمات کو عام کیا، جبکہ ان کا زاہدانہ طرزِ زندگی اور عاجزی ان کے روحانی نظریات کی عملی مثال تھی۔ سلطان الاولیاء کا ہر عمل محبت اور انسانیت کی خدمت کا عکاس تھا، جس میں مذہبی اور سماجی حدود پار کی گئیں، اسلئے ان کی درگاہ دہلی میں آج بھی روحانی اہمیت رکھتی ہے۔
نظم کا پس منظر:
اقبالؔ یورپ جانے سے پہلے خواجہ صاحب کے مزار پر تشریف لے جاتے ہیں۔ ایک مُحبِ وطن نوجوان جو ملک چھوڑنے جا رہا ہے، وطن میں اپنے آخری لمحات یہاں گزارنے آتا ہے۔ اس کی اہمیت یہ ہے کہ ان لمحوں میں شخصیت کی تمام سطحی پرتیں اتری ہوئی نظر آتی ہیں، اور اقبالؔ اپنی دعاوں کے ذریعے اپنے دل کا حال صاف سامنے رکھ دیتے ہیں۔
اقبالؔ کا ایسا خراجِ تحسین یہ ظاہر کرتا ہے کہ ایک مسلمان کی کسی بھی عالم و بزرگ سے محبت یا لگاو اپنی ذات یا نسبت کا نہیں۔ بلکہ خالصتاً اس لیے پیدا ہوتا ہے کہ انہوں نے دینِ اسلام کو عام کرنے کے لیے اپنی خدمات پیش کیں اور اس راہ میں متعدد مصیبتیں جھیلیں۔ اب بھی اس نظم کے چند اشعار خواجہ کے مزار پر درج ہیں اور اقبالؔ کی پسندیدہ شخصیات میں ان کا نام سرِ فہرست ہے۔
سفر کا احوال:
ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی شرح بانگِ درا میں درج کرتے ہیں:-
یہ نظم علامہ نے حصولِ علم کی خاطر انگلستان جاتے وقت کہی تھی۔ یہ مخزن، بابت اکتوبر 1905ء میں شائع ہوئی اور اس میں سولہ اشعار تھے جو بعد میں ”باقیاتِ اقبالؔ“ میں شامل کیے گئے۔ نظم کے نزول کے بارے میں علامہ کے دوست غلام بھیک نیرنگؔ نے کسی قدر طویل انداز میں دِلچسپ باتیں لِکھی ہیں۔ اُن کے مطابق:-
”2 ستمبر‘ 1905ء ہمارے خاص احباب کی تاریخِ محبت میں ایک قابل یادگار دِن ہے۔ صبح کا سہانا سماں ہے، بمبئی میل دہلی کے ریلوے اسٹیشن پر پہنچی ہے‘ خواجہ سید حسن نظامی دہلوی اور مُنشی نذر محمد (بی-اے) اسٹیشن پر استقبال کو آئے ہیں۔ استقبال کس کا ہے؟ جدید شاعری کے روحِ رواں اقبالؔ بااقبال اور اُن کے ہمراہیوں کا۔ وہ کیسے؟ اقبالؔ بغرضِ تعلیمِ علوم و فنون انگلستان روانہ ہوئے ہیں۔ نیرنگؔ اور اکرام اپنے پیارے دوست کو رخصت کرنے کے لیے دہلی تک ساتھ گئے ہیں۔ ریل سے اُتر کر اول منشی نذر محمد صاحب کے مکان پر تھوڑی دیر آرام کیا۔ بعد میں سب دوست مِل کر حضرت محبوبِ الہیؒ خواجہ نظام الدین اولیاء‘ قدس سرہ کی درگاہِ آسماں پائے گاہ کی طرف روانہ ہوئے۔ راستے میں شہنشاہ ہمایوں کے مقبرے کی زیارت اور سیر کی، درگاہ میں پہنچ کر مزارِ مبارک پر حاضر ہوئے۔ اوّل اقبالؔ نے عالمِ تنہائی میں مزار مبارک کے سامنے بیٹھ کر ذیل نظم پڑھی اور اُن کی درخواست پر سب احباب باہر صحن میں ٹھہرے رہے۔ بعد میں دوستوں کے اصرار پر اقبالؔ نے اس نظم کو درگاہ کے صحن میں بیٹھ کر، مزارِ مبارک کی طرف منہ کر کے دوبارہ ایک نہایت درد انگیر اور دِل نشیں لہجے میں پڑھا۔ سب احباب اور دیگر سامعین نہایت متاثر ہوئے اور بے تحاشا اُن کی زبان سے موقع بہ موقع کلماتِ تحسین و آفریں نکلتے تھے۔ ایک محویّت کا عالم تھا کہ جس کی تصویر حاضرین کے تصوّر ہی کھینچ سکتے ہیں۔ درگاہ سے واپس ہو کر خواجہ حسن نظامی صاحب کے مکان پر قیام کیا۔ ولایت نامی نو عمر قوال خواجہ صاحب کی خدمت میں حاضر تھا‘ نوتعلیم تھا مگر خوش گُلو اور باطبیعت۔ وہ کُچھ گاتا رہا اور وقت نہایت مزے اور کیفیت سے گذرا۔ اس کے بعد شہر کو واپس ہوئے۔ واپسی پر خاتم الشعراء مرزا اسد اللہ خاں غالبؔ کی تُربت پر حاضر ہوئے۔ بندہ نیرنگؔ مرزا صاحب کی تُربت کے سرہانے لوحِ تُربت پر ہاتھ رکھے بیٹھا ہوا تھا۔ میری دائیں جانب اقبالؔ عالمِ محویّت میں بیٹھے تھے اور تُربت کے اردگرد تمام پارٹی حلقہ باندھے ہوئے تھی۔ دو بجے دِن کا وقت اور دِن بھی ستمبر کا۔ دھوپ تیز اور ہوا گھُمس، مگر اسی قبر کی زیارت کا اثر تھا کہ کسی کو گرمی کا خیال تک نہ تھا۔ قوال زادے کو عجیب وقت کی سُوجھی۔ بولا حضور! مرزا غالبؔ کی ایک غزل یاد آئی ہے‘ اگر اجازت ہو تو سُنا دُوں؟ سُرُود بَہ مَسْتان یاد دَہانِیدَن (جو خود ہی مست ہوں اُنہیں گانا یاد دِلا دینا‘ یعنی جذبات و احساسات کو شہ دینا)، یہاں کس کو عذر (اعتراض) تھا۔ چنانچہ اُس نے یہ غزل گائی:-
؎ دِل سے تری نگاہ جِگر تک اُتر گئی
دونوں کو اِک ادا میں رضامند کر گئیذیل دو شعروں پر عجیب کیفیّت طاری رہی:-
؎ اُڑتی پھرے ہے خاک مری کوئے یار میں
بارے اب اے ہوا ہوسِ بال و پر گئی؎ وہ بادۂ شبانہ کی سرمستیاں کہاں
اُٹھیے بس اب کہ لذتِ خوابِ سحر گئی
(مکمل غزل پڑھیے)اقبالؔ نے جوشِ محویّت میں مرزا صاحب کے مزار کو بوسہ دیا اور سب شہر کو روانہ ہوئے۔ اچھا اقبالؔ:-
؎ بہ سفر رفتنت مبارکبار
بسلامت روی و باز آئی
تیرا سفر کو روانہ ہونا مبارک ہو۔ تُو سلامتی سے جائے اور سلامتی سے واپس آئے۔زندہ رہیں گے تو تین سال بعد تیرے کلام کو تیری زبانی پھر سُنیں گے۔“
(ملاحظہ ہو باقیاتِ اقبالؔ، صفحہ 343 تا 346)
”التجائے مسافر“ کی تشریح
بند نمبر 1
فرشتے پڑھتے ہیں جس کو وہ نام ہے تیرا
بڑی جناب تری، فیض عام ہے تیرا
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
جناب | بارگاہ، درگاہ |
فیض | فائدہ پہنچانے کا عمل، برکت |
تشریح:
فرشتے جسکو پڑھتے ہیں، وہ نام آپ کا ہے (نیکوکاروں کا بارگاہِ الہیٰ میں فرشتوں کے ذکر کرنے کی طرف اشارہ ہے)۔ آپؒ کی بارگاہ بڑی عظمتوں کی حامل ہے ہے اور لوگ (آج بھی) یہاں سے استفادہ کر رہے ہیں۔
ستارے عشق کے تیری کشش سے ہیں قائم
نظامِ مہر کی صورت نظام ہے تیرا
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
کشش | اپنی طرف مائل کرنا، کھِچاؤ |
نظامِ مہر | نظامِ شمسی |
صورت | مانند |
تشریح:
آپؒ ہی کی کشش / جذبے کے طفیل عشق کے ستارے قائم ہیں۔ آپؒ عشقِ حقیقی اور انسان دوستی کے جذبے سے سرشار ہیں۔ آپؒ کا نظام سورج کے سے نظام کا ہے۔ گویا آپؒ کی حیثیت نظامِ شمسی کے سورج کی طرح مرکزی ہے۔ کہ کئی ستارے آپؒ کے اس نظام (چشتی سلسلے) میں آپؒ کی کشش کی وجہ سے رواں دواں ہیں۔ یہاں اقبالؔ سائنسی عمل کی مثل سے اس معاملے کو تعبیر کرتے ہیں۔ یہ بھی اقبالؔ ہی کی فطرتی شاعری کا خاصا ہے۔
واضح ہو کہ سورج بلاتفریق مذہب و مِلّت سب پر یکساں روشنی ڈالتا ہے۔ آپؒ بھی تمام انسانوں سے بِلا امتیاز محبت و دِلداری سے پیش آتے ہیں۔ چونکہ حضرت کو ’نظام الدین‘ کہا جاتا ہے‘ اس لیے علامہ نے خاص طور پر لفظ ’نظام‘ استعمال کیا ہے۔
تری لحد کی زیارت ہے زندگی دل کی
مسیح و خضر سے اُونچا مقام ہے تیرا
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
لحد | قبر، مزار |
مسیح | حضرت عیسی علیہ السلام کا لقب، جو مُردوں کو اللہ کے حکم سے زندہ کر دیا کرتے تھے۔ |
خضر | حضرت خضر علیہ السلام، جو بھولے بھٹکوں کو راستہ دِکھاتے ہیں۔ |
تشریح:
اقبالؔ خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ تیرے روحانی مرکز کی عظمت کی ایسی بات ہے کہ آج بھی، جبکہ آپ دنیا میں براہِ راست کار فرما نہیں، آپ کے مزار کی زیارت سے بھی مردہ دلوں میں زندگی دوڑ جاتی ہے۔ ادبی مسلّمات کے مطابق حضرت مسیح مُردہ جسموں کو زندہ کرتے تھے، جبکہ حضرت خضرؑ خود زندہ رہ کر کسی نہ کسی شکل میں بھولے بھٹکے انسان کی رہنمائی کا کام کرتے ہیں۔۔ لیکن حضرت محبوبِ الہی کے مزار کی زیارت سے مُردہ دِلوں کو زندگی نصیب ہوتی ہے۔
مسیحؑ و خضرؑ سے تعبیر کرنا خواجہ کے روحانی مرتبے اور رہنمائی کے منصب پر فائز ہونے کی نشاندہی ہے۔ صوفی نظامِ فکر میں ایک نقطہِ نظر کے مطابق، بعض ولیوں پر کسی خاص نبی کے فیض کا سایہ ہوتا ہے، یعنی اُن کی کچھ خصوصیات موجود ہوتی ہیں۔
نیز اس شعر میں خواجہ نظام کی ہند کے عوام الناس کے لیے رہنمائی حضرت خضرؑ کی خصوصیت سے منسوب کی ہے جبکہ قُربِ الہی کو حضرت عیسیٰؑ سے ملایا گیا۔ البتہ اقبالؔ کا اپنی محبت میں ان دونوں مذہبی شخصیات سے اونچا مقام عطا کرنا مبالغہ ہے جو کہ صنفِ شاعری کا خاصہ ہے۔
نہاں ہے تیری محبّت میں رنگِ محبوبی
بڑی ہے شان، بڑا احترام ہے تیرا
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
نِہاں | اوجھل، پوشیدہ، مخفی |
رنگِ محبوبی | محبوبیّت کی طرز |
شان | عظمت |
احترام | قدر و عزت |
تشریح:
اے خواجہ نظام! آپ کی رب تعالیٰ محبت میں ہی دراصل محبت کرنے کا طور اور طریقہ چُھپا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی شان و شوکت اور عزت و احترام کو خدا نے اس قدر بلند فرمایا۔
آپؒ نے ایسے خلوص کے ساتھ اللہ کی محبت اختیار کی کہ اللہ نے آپؒ کو اپنا محبوب بنا لیا۔ اِشارہ ہے حضرت کے لقب ”محبوبِ الہی“ کی طرف۔ واضح ہو کہ یہ لقط تفسیر ہے اس آیہ مبارکہ کی:-
قُلْ اِنْ كُنْتُـمْ تُحِبُّوْنَ اللّـٰهَ فَاتَّبِعُوْنِىْ يُحْبِبْكُمُ اللّـٰهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُـوْبَكُمْ ۗ وَاللّـٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِـيْـمٌ
”اے مسلمانوں! اگر تم اللہ سے محبت کرنا چاہتے ہو تو اس کی بہترین صورت یہ ہے کہ میری (رسولﷺ کی) اتباع کرو۔اس اتباع کا ثمرہ یہ ملے گا کہ خود اللہ تمہیں اپنا محبوب بنا لے گا۔“
(القرآن: سورۃ آل عمران: 31)
معلوم ہوا کہ محبوبِ الہی بننے کا طریقہ عقل نہیں، بلکہ عشق ہے اور حضرت نظامؒ نے عشق ہی اختیار کیا تھا جو انسان کو اللہ سے ملا دیتا ہے۔
اگر سیاہ دلم، داغِ لالہ زارِ تو ام
وگر کُشادہ جبینم، گُلِ بہارِ تو ام
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
لالہ زار | لالہ (Tulip) کے پھولوں کا باغ |
کشادہ جبین | بڑی پیشانی والا، مطلب: نیک، معزز |
گُلِ بہار | بہار کا پھول |
تشریح:
ترجمہ: اگر میرا دل سیاہ ہے تو میں تیرے ہی لالہ زار کا داغ ہوں
اور اگر میری جبین کشادہ ہے، تو تیری ہی بہار کا پھول ہوں۔
وہ لوگ جنہوں نے تُجھ سے فیض حاصل کیا، تیرے لالہ زار میں شامل ہیں۔اگر میں گناہ گار ہوں تو تیرے اس لالہ کے کسی پھول کا داغ ہوں۔ اور اگر کشادہ جبین یعنی نیک ہوں تو تیرے فیض سے حاصل ہونے والی بہار کا ایک پھول ہوں۔ لہٰذا، ہر صورت تُجھ ہی سے نسبت رکھتا ہوں۔
بند نمبر 2
چمن کو چھوڑ کے نِکلا ہوں مثلِ نگہتِ گُل
ہُوا ہے صبر کا منظور امتحاں مجھ کو
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
چمن | باغ، مراد وطن یعنی ہندوستان |
نگہتِ گُل | پھول کی خوشبو |
تشریح:
چمن (وطن) کو چھوڑ کر، پھول کی خوشبو کی طرح نکلا ہوں۔ شاعری میں پھول کو یہ بندش ہے کہ چمن تک محدود ہے۔ مگر پھول کی خوشبو کا یہ امتیاز ہے کہ چمن کو چھوڑ کر بھی اپنے وجود سے تمام جہان کو معطر کرتی ہے اور چمن کی موجودگی کا احساس دور تک لے جاتی ہے۔
اقبالؔ فرماتے ہیں کہ یقیناً میں اپنے وطن سے اور وطن کے لوگوں سے دور رہ کر تکلیف میں رہوں گا، لیکن میں اپنا صبر آزمانا چاہتا ہوں۔گویا میری زندگی اس نئے مرحلے کو ایک چیلنج کی طرح لے رہے ہیں، اور یہ مرحلہ بہت صبر طلب ہے کیونکہ اقبالؔ کو اعلی تعلیم حاصل کرنے ہی اور اس سلسلے میں اہلِ وطن کی جُدائی پر صبر کرنا ہے۔
اِس چیلنج پر اقبالؔ کے پورا اُترنے کی نظیر ہمارے سامنے موجود ہے۔
؎ زمستانی ہوا میں گرچہ تھی شمشیر کی تیزی
نہ چھوٹے مجھ سے لندن میں بھی آدابِ سحر خیزی
؎خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوۂِ دانش فرنگ
سُرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف
(بالِ جبریل)
چلی ہے لے کے وطن کے نگار خانے سے
شرابِ علم کی لذّت کشاں کشاں مجھ کو
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
نِگار خانہ | تصویر خانہ، مراد دِلچسپیوں کا مرکز |
شرابِ علم کی لذت | حصولِ علم کا شوق |
کشاں کشاں | کھینچ کر، تیزی سے |
تشریح:
وطن سے جانے کے مقاصد بھی متعین ہیں۔ وطن کو نگار خانہ یعنی تصویروں کا گھر قرار دینا شعر میں لطافت کو دُونا کرتا ہے۔ ایسی مانوس جگہ جہاں بہت سی پُر کشش چہرے و شخصیات اس وطن کو میرا گھر بناتی ہیں، حصولِ علم کی کشش مجھے یہاں سے لیے جاتی ہے۔
یہاں حدیثِ نبویﷺ پیشِ نظر رہے:-
(حدیثِ چین پر مزید پڑھیے)
”اُطْلُبُوا الْعِلْمَ وَلَو بِالصِّینِ“
علم حاصل کرو اگرچہ تمہیں چین جانا پڑے۔
نظر ہے ابرِ کرم پر، درختِ صحرا ہُوں
کِیا خدا نے نہ محتاجِ باغباں مجھ کو
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
ابرِ کرم | مہربانی کا بادل |
درختِ صحرا | بیاباں کا درخت |
محتاجِ باغباں | مالی کا ضرورت مند |
تشریح:
مجھ کو بس اللّٰہ کے فضل و کرم کی آس ہے کہ نہ تو رؤسا سے کوئی نسبت ہے اور نہ نوابوں کے خاندان سے ہوں۔ بلکہ ایک صحرائی درخت کی طرح (اپنے نظریے پر) تنِ تنہا کھڑا ہوں۔ ایک متوسط سے خاندان سے میں اُٹھا ہوں اور آج تک خدا نے کسی کا محتاج نہیں کیا۔ آگے بھی اسکا یہی فضل و کرم طلب کرتا ہوں۔
فلک نشیں صفَتِ مہر ہُوں زمانے میں
تری دعا سے عطا ہو وہ نردباں مجھ کو
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
فلک نشیں | آسماں پر بیٹھنے والا، عالی مقام |
صفتِ مہر | سورج کی طرح / مانند |
نردباں | سیڑھی، زینہ |
تشریح:
آدمی خدا سے جو کچھ دعا میں طلب کرتا ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسکی آرزوئیں، اہداف، مقام و مرتبہ کیا ہے۔ اقبالؔ فرماتے ہیں کہ آپکی دعا سے مجھ کو وہ سیڑھی حاصل ہوجائے کہ میں زمانے میں سورج کی طرح عالی مقام پاؤں۔
مہر کی طرح فلک نشینی کی دُعا بہت جامع اور خوبصورت ہے۔ سورج، ہے جو کسی کے گرد چکر نہیں کاٹتا بلکہ اس سے ایسا نظام قائم ہوجاتا ہے کہ باقی موجودات اس سے فیضیاب ہوتی ہیں۔سورج روشن اور مبین ہوتا ہے۔ اس کے وجود کا کوئی انکار نہیں کر سکتا اور اس کی روشنی جس شے پر پڑتی ہے وہ یوں ہی واضح ہوجاتی ہے۔
مقام ہم سفروں سے ہو اس قدر آگے
کہ سمجھے منزلِ مقصود کارواں مجھ کو
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
ھم سفر | سفر کے ساتھی |
منزلِ مقصود | وہ مقام جس تک پہنچنا مقصد ہو |
کارواں | قافلہ |
تشریح:
میرا مقام میرے ہم عصر دانشوروں سے اس قدر آگے ہو کہ کاروان کو لگے جیسے میں کاروان کا حصہ نہیں بلکہ وہ منزل ہوں جہاں تک اُن کو پہنچنا ہے۔یہاں علامہ نے بے حد خوبصورت تصویر کشی سے کام لیا ہے۔
اقبالؔ کی دعا کی قبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہی کردار اقبالؔ کی نظر نے ہر اُس شعبے میں ادا کیا جہاں اُنہوں نے قدم رکھا– خواہ وہ فلسفہ ہو، سیاست ہو یا دینیّات کی بات ہو۔
مری زبانِ قلم سے کسی کا دل نہ دُکھے
کسی سے شکوہ نہ ہو زیرِ آسماں مجھ کو
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
زبانِ قلم | علم کی زبان، مراد تحریر |
دِل دُکھنا | تکلیف پہنچنا |
شِکوہ | شِکایت، گِلہ |
زیرِ آسماں | آسمان کے نیچے، مراد دُنیا میں |
تشریح:
شعر و شاعری کی روایت میں شعراء کا ایک دوسرے سے شکوہ و شکایات کرنا یا تنقید کا نشانہ بنانا شامل رہا ہے۔ اقبالؔ نے البتہ اپنے آپ کو اس روایت سے دُور رکھا اور اگرچہ خیالات اور نظریات پر تنقید کی، کبھی کسی فرد کو نشانہ نہ بنایا۔ اگر کبھی غیر دانستہ کسی کا دل دکھا تو اُس کے لیے معافی طلب کی۔البتہ حق گوئی اور اپنے درست موقف پر کبھی معذرت خواہانہ انداز نہ اپنایا۔
کسی فرد سے شکوہ نہ ہونا بھی بڑےپن کی دعا ہے۔ اگر ہمیں دوسروں سے بہت سے شکوے شکایات پیدا ہوتے رہتے ہیں، تو یہ اس بات کی عکاس ہیں کہ ہم خود غرضی کا شکار ہو رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خود کو چھوٹے مسئلوں میں الجھائے رکھنے سے آدمی بڑے مسائل سے خود کو غافل کر لیتا ہے۔
دلوں کو چاک کرے مثلِ شانہ جس کا اثر
تری جناب سے ایسی مِلے فغاں مجھ کو
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
چاک کرنا | پھاڑنا، چیرنا |
شانہ | کنگھی |
فغاں | فریاد، مراد شاعری |
تشریح:
میری فریاد اور میری شاعری میں ایسا اثر ہو جائے کہ کنگھی کی طرح سے الجھے ہوئے نظریات کو چیر کر اور الگ الگ کر کے سُلجھا دے۔ اقبالؔ کی دعا ہے کہ دلوں میں انکا پیغام یوں سرایت کرے جیسے کنگھی بالوں کو چاک کرتی ہے اور اس کے نتیجے میں نہ صرف یہ کہ وہ سُلجھ جاتے ہیں، بلکہ اُن کی آرائش اور زیبائش بھی اسی سے ہوتی ہے۔
بنایا تھا جسے چُن چُن کے خار و خس میں نے
چمن میں پھر نظر آئے وہ آشیاں مجھ کو
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
خار و خس | کانٹے، تِنکے، گھاس پھوس |
آشیاں | مسکن، ٹھکانہ، گھر، گھونسلا |
تشریح:
اس شعر کی تشریح کُلی و جُزوی سطح، دونوں پر کی جاسکتی ہے۔ یعنی تنکا تنکا کر کے اقبالؔ کا لاہور اور سیالکوٹ میں موجود بنایا جانے والا گھر بھی مراد ہو سکتا ہے اور چمنِ اسلام میں عظمت کا وہ آشیاں جو کبھی بنایا گیا تھا، جس کی ایک صورت ہندوستان بھی تھا، جسے وہ پھر سے دیکھنے کی دُعا کرتے ہیں۔
پھر آ رکھوں قدمِ مادر و پدر پہ جبیں
کِیا جنھوں نے محبّت کا رازداں مجھ کو
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
مادر و پِدر | ماں اور باپ |
رازداں | بھید جاننے والا |
تشریح:
اس شعر میں حُسنِ مُدعا قابلِ ملاحظہ ہے۔ ماں باپ کے حیات ہونے، اپنی جڑوں سے جُڑے رہنے اور اُن کا خدمت گزار بننے کی خواہش کی ہے۔ والدین کی اس قدر تکریم اس لیے ہے کہ بچپن سے بے پناہ محبت نچھاور کر کے، محبت کے راز کو پہلی دفعہ اُنہوں نے ہی بتایا۔
اقبالؔ نے اپنے والد کو حقیقی معنوں میں اپنا مُرشد جانا۔ والد کے متعلق اقبالؔ نے فرمایا کہ کبھی کبھی جب میں اُن کے پاس جا کر بیٹھتا ہوں تو اُن کا ایک ایک جملہ ہزاروں کُتب خانوں پہ بھاری ہوتا ہے۔ اسی طرح والدہ کے محبت اور ایثار کی بھی کئی مثالیں ملتی ہیں۔ لہٰذا محبت کا رازداں کرنے میں والدین کا بہت اہم کردار رہا۔
وہ شمعِ بارگہِ خاندانِ مرتضوی
رہے گا مثلِ حرم جس کا آستاں مجھ کو
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
شمع | مراد علامہ کے استاد شمس العلماء سید میر حسن سیالکوٹی |
بارگہِ خاندانِ مرتضوی | حضرت علی المرتضیؓ کے خاندان کی درگاہ / آستانہ |
مثلِ حرم | کعبہ کی طرح قابلِ احترام |
آستاں | چوکھٹ، دہلیز |
تشریح:
اسی طرح وہ شخص جو حضرت علیؓ کے خاندان کی شمع کی حیثیت رکھتا ہے اور جس کا گھر میرے لیے خانہ کعبہ کی طرح قابلِ تکریم ہے (علامہ کا اپنے استاد شمس العلماء سیّد میر حسن کی طرف اشارہ ہے)۔
اس شعر میں علامہ اقبال نے اپنے استاد سید میر حسن کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ سید میر حسن کی دہلیز سے اقبالؔ کو ویسی ہی محبت اور عقیدت ہے، جیسی حرم سے۔ اقبالؔ کے سوانح نگار لکھتے ہیں کہ اقبالؔ کی جہاں اُن پر نظر پڑ جاتی، وہیں اپنے تمام کام چھوڑ کر اُن کے ساتھ ہو جاتے تھے۔
ایک مرتبہ اقبالؔ سیالکوٹ کے بازار میں چبوترے پر یوں بیٹھے تھے کہ ایک پاؤں میں جوتا تھا اور ایک سے جوتا اُترا ہوا تھا۔ اتنے میں اپنے استادِ گرامی پر نظر پڑ گئی۔ اقبالؔ نے اپنے دوسرے پاوں میں جوتا تک پہننا گوارا نہ کیا اور اُن کو گھر تک چھوڑنے کیلیے اُنکے پیچھے ہوگئے۔
علامہ اقبال نے عربی اور فارسی کی تعلیم سید میر حسن ہی سے حاصل کی۔ علامہ میں جذبۂ شاعری کو بیدار کرنے والے بھی میر حسن ہی تھی۔ علامہ کی ابتدائی شاعری میں جباب میر حسن کی تعلیمات کا اثر نظر آتا ہے۔
نفَس سے جس کے کھِلی میری آرزو کی کلی
بنایا جس کی مروّت نے نکتہ داں مجھ کو
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
نَفَس | دم، سانس |
آرزو کی کلی کھِلنا | خواہش پوری ہونا |
مروّت | مہربانی |
نُکتہ داں | باریک باتیں جاننے والا |
تشریح:
جن کی سانس اور دُعا سے میرے اندر آرزووں کی کلی کِھلی، اور جن کی مہربانی نے مجھے ظریف باتیں جاننے کا شوق دیا۔ نیز علوم و فنون کی باریکیوں سے بھی استادِ محترم ہی نے مجھے آشنا کیا۔
سید میر حسن سے اقبالؔ کی عقیدت کی ایک مثال یہ ہے کہ 1923ء میں جب تاجِ برطانیہ کی جانب سے علامہ اقبال کو سر کا خطاب دیا جانے لگا تو اُنہوں نے مطالبہ کیا کہ جناب میر حسن کو بھی شمس العلماء کا خطاب دیا جائے وگرنہ وہ سر (Sir) کا خطاب قبول نہیں کریں گے، لیکن انگریز گورنر جنرل نے اصرار کیا کہ انھوں نے ہنوز کوئی کتاب تصنیف نہیں کی جس کے پیش نظر یہ خطاب نہیں دیا جا سکتا۔ علامہ نے کہا: “میں خود اُن کی تصنیف ہوں“۔ اِس پر برطانوی حکومت کو مولوی میر حسن کو شمس العلماء کا خطاب دینا ہی پڑا۔
دعا یہ کر کہ خداوندِ آسمان و زمیں
کرے پھر اس کی زیارت سے شادماں مجھ کو
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
شادماں | خوش |
تشریح:
اے حضرت خواجہ نظام الدین، دعا کیجیے کہ خدا مجھے وطن واپسی پر پھر سے اپنے استادِ محترم کی زیارت نصیب کرے۔
وہ میرا یوسفِ ثانی، وہ شمعِ محفلِ عشق
ہُوئی ہے جس کی اخوّت قرارِ جاں مجھ کو
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
یوسفِ ثانی | دوسرا یوسف علیہ السلام، مراد علامہ کے بھائی شیخ عطا محمد جنہوں نے اُن کی تعلیم و تربیت کا خیال رکھا |
شمعِ محفلِ عشق | عشق کی بزم کا چراغ |
اخوت | بھائی چارا، برادری |
قرارِ جاں | تسکینِ قلب، دِلی راحت، رُوح کا چین |
تشریح:
وہ میرا یوسفِ ثانی، وہ عشق کی محفل کا چراغ کہ جس کی برادرانہ محبت میری جان کے لیے قرار کا باعث ہے۔ یوسفِ ثانی کنایہ ہے بڑے بھائی شیخ عطا محمد سے، جنہوں نے علامہ مرحوم کی اعلی تعلیم کا خرچ برداشت کیا اور اُن کو اپنی اولاد سے زیادہ سمجھا۔ چنانچہ اقبالؔ نے اگلے شعر میں خود اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے۔
جاوید اقبالؔ لکھتے ہیں کہ اقبالؔ اُن سے بہت مرعوب رہتے اور بڑے بھائی کے سامنے کبھی اُف تک نہ کی۔
جَلا کے جس کی محبّت نے دفترِ من و تو
ہوائے عیش میں پالا، کِیا جواں مجھ کو
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
دفترِ من و تُو | اپنے اور غیر کی تمیز |
ہوائے عیش | خوش و خرام زندگی کی ہوا |
پالا | پرورِش کی |
تشریح:
علامہ اقبال کہتے ہیں کہ میرے بڑے بھائی مجھ سے اس طرح محبت کرتے تھے کہ غیریت کا احساس مٹ گیا۔ اُنہوں نے مجھ پر اس طرح اپنا روپیہ صرف کیا جس طرح کوئی اپنی ذات پر صرف کرتا ہے۔ گویا اُنہوں نے ”میں اور تُو“ کا فرق مِٹا دیا اور اپنی ذات اور مجھ میں کوئی فرق نہیں سمجھا۔
واضح ہو کہ اقبالؔ نے بھی اس محبت کا جواب اسی جذبے سے دیا۔ یورپ میں منتقلی اور بہت سی وجوہات سمیت، اپنے بھائی کے خاندان کی دیکھ بھال میں حصّہ ڈالنا بھی اقبالؔ کے پیشِ نظر رہا۔
ریاضِ دہر میں مانندِ گُل رہے خنداں
کہ ہے عزیز تر از جاں وہ جانِ جاں مجھ کو
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
ریاضِ دہر | زمانے کا باغ، دُنیا |
مانندِ گُل | پھول کی طرح |
خنداں | ہنستا مُسکُراتا ہوا |
عزیز تر از جاں | جان سے بھی زیادہ پیارا ہونا |
جانِ جاں | جاں کی جان، محبوب، پیارا |
تشریح:
خدا کرے کہ دُنیا کے اِس باغ میں وہ ہمیشہ پھول کی طرح ہنستا مسکراتا رہے۔ اس لیے کہ وہ جانِ جاں مجھے جان سے بڑھ کر عزیز ہے۔
پروفیسر یوسف سلیم چشتے لکھتے ہیں:-
یہ مبالغہ نہیں ہے۔ میں بھی اپنے ذاتی مشاہدے کی بنا پر کہہ سکتا ہوں کہ علامہ اقبال کو اللہ نے بہت احسان مند دل دیا تھا۔ اگر کوئی شخص ذرا سی مہربانی بھی کر دیتا تو وہ اُسے ہمیشہ یاد رکھتے تھے۔
(شرح بانگِ درا از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)
شگفتہ ہو کے کلی دل کی پھُول ہو جائے!
یہ التجائے مسافر قبول ہو جائے!
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
شگُفتہ ہونا | کھِلنا |
قبول ہونا | منظور ہونا |
اِلتِجائے مسافر | درخواست، گذارش، التماس، استدعا |
تشریح:
خدا کرے کہ میرے دِل کی کلی کھِل کر ہنستے مسکراتے پھول میں بدل جائے اور میں نے جس قدر بھی دعائیں کی ہیں وہ ایک مسافر کی اِلتجا سمجھ کر شرفِ قبولیت حاصل کریں۔
اس نظم میں اقبالؔ نے اپنے محبوب ترین افراد اور اہداف کے لیے دعا مانگی ہے۔ اس سے اُن کے مقاصد اور شخصیت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔