”دِل“ از علامہ اقبال
فہرست
تعارف
یہ نظم انجمن حمایتِ اسلام کے اٹھارویں سالانہ اجلاس منعقدہ مارچ 1903ء میں علامہ اقبال نے پڑھی۔ یہ نظم عوام میں ”فریادِ اُمّت“ کے نام سے مشہور ہوئی اور کتابچے کی شکل میں شائع ہوئی تھی۔ بانگِ درا میں شامل کرتے وقت اِص میں سے گیارہ بند حذف کر دیے گئے اور صرف تیسرا بند باقی رکھا، جس کا عنوان معنویّت کے علاوہ ردیف کی رعایت سے ”دِل“ تجویز کیا۔
(حوالہ: شرح بانگِ درا از پروفیسر حمید اللہ شاہ ہاشمی)
نظم ”دِل“ کی تشریح
قصّۂ دار و رسَن بازیِ طفلانۂ دل
التجائے ’اَرِنی‘ سُرخیِ افسانۂ دل
قصۂ دار و رسن | سُولی اور رسی کی داستان۔ منصور حلاجؒ کے واقعہ کی طرف اشار ہے۔ |
بازیِ طِفلانہ | بچوں کا کھیل، معمولی کام |
”ارنی“ | مجھے اپنا جلوہ دِکھا، حضرت موسیؑ نے کہا تھا ”رب ارنی“ (اے رب! مجھے اپنے جلوہ دِکھا) |
سُرخی | عنوان |
افسانۂ دِل | دِل کا قصہ / داستان / کہانی |
تشریح:
عشق کی نگاہ میں سُولی پر چڑھ جانا (موت گوارا کر لینا) کوئی مشکل کام نہیں ہے بلکہ عاشق اس کو بچوں کا کھیل سمجھتا ہے۔
قصۂ دار و رسن: لفظی معنی ہیں تختے اور رسی کی کہانی، مراد ہے پھانشی۔ اشارہ ہے منصور حلاج کے واقعے کی طرف جنہیں ”انا الحق“ کا نعرہ لگانے کی پاداش میں پھانسی دے دی گئی۔
التجائے ارنی سرخیٔ افسانۂ دِل: لفظی معنی یہ ہیں کہ ”ارنی“ کی التجا دِل کے افسانے کی شہ سُرخی ہے، یعنی دِل کے افسانے میں جو سب سے نمایاں عبارت لکھی ہوئی ہے وہ یہی ”ارنی“ کی التجا ہے۔ عاشق کی داستانِ حیات کا یہ عنوان ہے کہ وہ خدا سے درخواست کرتا ہے کہ مجھے اپنا جلوہ دِکھا دے یعنی دیدارِ الہی کی آرزو اُس کی زندگی کا خلاصہ ہے۔
قرآن شریف میں ہے کہ جب حضرت موسیؑ کوہِ طُور پر گئے تو اللہ تعالی سے درخواست کی کہ:-
وَلَمَّا جَآءَ مُوْسٰى لِمِيْقَاتِنَا وَكَلَّمَهٝ رَبُّهٝ قَالَ رَبِّ اَرِنِـىٓ اَنْظُرْ اِلَيْكَ ۚ قَالَ لَنْ تَـرَانِىْ وَلٰكِنِ انْظُرْ اِلَى الْجَبَلِ فَاِنِ اسْتَقَرَّ مَكَانَهٝ فَسَوْفَ تَـرَانِىْ ۚ فَلَمَّا تَجَلّـٰى رَبُّهٝ لِلْجَبَلِ جَعَلَـهٝ دَكًّا وَّخَرَّ مُوْسٰى صَعِقًا ۚ فَلَمَّآ اَفَاقَ قَالَ سُبْحَانَكَ تُبْتُ اِلَيْكَ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِيْنَ
اور جب موسٰی ہمارے مقرر کردہ وقت پر آئے اور ان کے رب نے ان سے باتیں کیں تو عرض کیا کہ اے میرے رب مجھے دکھا کہ میں تجھے دیکھوں! فرمایا کہ تو مجھے ہرگز نہیں دیکھ سکتا لیکن تو پہاڑ کی طرف دیکھتا رہ اگر وہ اپنی جگہ پر ٹھہرا رہا تو تو مجھے دیکھ سکے گا، پھر جب اس کے رب نے پہاڑ کی طرف تجلی کی تو اس کو ریزہ ریزہ کر دیا اور موسٰی بے ہوش ہو کر گر پڑے، پھر جب ہوش میں آئے تو عرض کی کہ تیری ذات پاک ہے میں تیری جناب میں توبہ کرتا ہوں اور میں سب سے پہلا یقین لانے والا ہوں۔
(حوالہ: القرآن: سورۃ الاعراف: 143)
یا رب اس ساغرِ لبریز کی مے کیا ہو گی
جادۂ مُلکِ بقا ہے خطِ پیمانۂ دل
ساغر | وہ پیالہ جس میں شراب ڈالی جاتی ہے |
لبریز | بھرا ہوا |
مے | شراب |
جادہ | پگڈندی، راستہ، راہ |
مُلکِ بقا | ہمیشہ باقی / قائم رہنے والا مُلک |
جادۂ مُلکِ بقا | ہمیشہ قائم رہنے والے مُلک کی طرف جانے والا راستہ |
خطِ پیمانہ | شراب کی مقدار کا اندازہ کرنے کے لیے برتن میں لکیر بنا دی جاتی ہے، اُسے پیمانہ کی لکیر (خطِ پیمانہ) کہتے ہیں۔ |
خطِ پیمانۂ دِل | دِل کے پیمانے (برتن، پیالہ) پر کھِنچی ہوئی لکیر |
تشریح:
اے خدا! میں حیران ہوں کہ اُس بھرے ہوئے ساغر (ساغرِ لبریز یعنی دِل) کی شراب (مے) کی کیا کیفیت ہوگی، کہ جب حقیقت تو یہ ہے کہ اگر یہ ساغر (دِل) بھرا ہوا نہ بھی ہو تب بھی انسان کو ہمیشگی (بقا) عطا کر دیتا ہے۔
یعنی اگر انسان دِل اور عشق کو اپنا رہنما بنا لے تو اُسے رنگِ دوام (ہمیشگی) حاصل ہو جائے گا۔
ہے مگر اس نقش میں رنگِ ثباتِ دوام
جس کو کیا ہو کسی مردِ خدا نے تمام
مردِ خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ
عشق ہے اصلِ حیات، موت ہے اُس پر حرام
(حوالہ: بالِ جبریل: مسجدِ قرطبہ)
اقبالؔ کہتے ہیں کہ جب خطِ پیمانہ میں بقا کی شان پائی جاتی ہے تو جو شراب اس پیمانہ میں ہے، اس کے پینے سے بدرجۂ اُتم شانِ بقا پیدا ہوجائے گی۔
اس شعر میں عارفانہ صفت پائی جاتی ہے۔ بظاہر تو سوال کیا ہے لیکن باطن میں جواب دیا ہے کہ ”عشق کی مے“ میں شانِ بقا عطا کرنے کی بدرجہا زیادہ طاقت موجود ہے۔
ابرِ رحمت تھا کہ تھی عشق کی بجلی یا رب!
جل گئی مزرعِ ہستی تو اُگا دانۂ دل
ابرِ رحمت | رحمت کی بارِش |
مزرعِ ہستی | زندگی / ہستی کی کھیتی |
تشریح:
جب عاشق اپنا تن، من اور دھن یہ تینوں چیزیں عشق کی آگ میں گرفتار کر دیتا ہے تو اس کا دِل زندہ ہو جاتا ہے یا جب عاشق اپنی ہستی کو خاک کر دیتا ہے تو اس میں شانِ بقا پیدا ہو جاتی ہے۔
اِس نکتہ کو اقبالؔ نے تعجب کے انداز میں بیان کیا ہے کہ میں حیران ہوں کہ عشق کو کِس چیز سے تعبیر کروں۔ ابرِ رحمت سے یا بجلی سے؟ ابرِ رحمت تو اس لیے نہیں کہہ سکتا کہ ہستی جل گئی، بجلی اس لیے نہیں کہہ سکتا کہ دِل سر سبز ہو گیا۔ یہ وہ شاعرانہ اندازِ بیاں ہے جس نے شعر میں اس قدر دِلکشی پیدا کر دی ہے اور اقبالؔ بلاشبہ اندازِ بیاں پر بڑی قدرت رکھتے ہیں۔
حُسن کا گنجِ گراں مایہ تجھے مِل جاتا
تُو نے فرہاد! نہ کھودا کبھی ویرانۂ دل!
گنجِ گراں مایہ | قیمتی خزانہ |
فرہاد | شیریں کا عاشق جس نے شیریں کی خاطر پہاڑ سے شہر تک نہر کھودی |
تشریح:
اے فرہاد! تُو نے تمام عمر تیشہ بدست ہو کر (تیشہ ہاتھ میں لے کر) کوہِ بے ستُوں کو کاٹنے اور جوئے شیر لانے میں گزار دی۔ اس کے باوجود تُو اپنے محبوب کو پانے میں کامیاب نہ ہو سکا جس کے لیے تو نے یہ ساری مشقت برداشت کی اور اسی سلسلے میں ناکامی اور مایوسی کا شکار ہو کر تجھے خود کُشی کرنا پڑی۔ اگر تُو کوہِ بے ستُوں کی بجائے اپنے دل کا ویرانہ کھودتا تو یقینِ کامل ہے کہ شیریں سے بدرجہا زیادہ حسین محبوب تو خود تیرے دِل میں پوشیدہ تھا، مگر تُو اس حقیقت سے آگاہ نہ ہو سکا اس لیے شیریں کے حصول میں سر گرداں رہا۔ بقول ابقالؔ:-
؎ جنہیں میں ڈھونڈتا تھا آسمانوں میں زمینوں میں
وہ نکلے میری ظلمت خانۂ دِل کے مکینوں میں
(حوالہ: بانگِ درا)
شیریں اور فرہاد: شیریں لسبیلہ ریاست کے والی کی بیٹی تھی اور فرہاد ایک سنگ تراش تھا فرہاد شیریں کے عشق میں اتنا گرفتار تھا کہ وہ کسی بھی قیمت پر شیریں کو حاصل کرنے کی اپنی اناء پر قائم تھا۔ فرہاد نے جب شیریں کے باپ سے اس کا ہاتھ مانگا توشیریں کا باپ جو بستی کا سردار بھی تھا، اس نے انکار کرنے کی بجائے چالاکی سے یہ شرط رکھ دی کہ اگر فرہاد پہاڑ کی چوٹی کاٹ دے تو وہ اپنی بیٹی کی شادی فرہاد سے کرا دے گی. چنانچہ فرہاد نےکڑی محنت سے پہاڑ کو کاٹنا شروع کر دیا۔
جب شرط کے مطابق فرہادنے نہر کو تکمیل کے مراحل تک پہنچتا ہے تو بادشاہ پریشان ہو جاتا ہے۔ تو وہ اپنی کنیز کو فرہاد کے پاس بھیجتا جو جاکر فرہاد سے کہتی ہے کہ تم جس کے لیے یہ کشٹ اٹھا رہے ہو, وہ تو اب اس دنیا میں نہیں رہی فرہاد جب یہ سنتا ہے تو جس تیشہ سے پہاڑ کاٹ رہا ہوتا ہے اسی سے اپنے سر میں دے مارتا ہے اور وہیں مرجاتا ہے۔
اس کے بعد وہی کنیز اس کے بعد جب شیریں کو جا کر فرہاد کی موت کی خبر سناتی ہے تو شیریں بھی اپنے آپ کو ختم کرلیتی ہے اور یوں وہ دونوں مر کر اپنے عشق کو امر کر جاتے ہیں جن کی جسدین ابدی مقام پر اکھٹے ہی دفنا دیے گئے تھے جو آج بھی ایک ہی قبر کی شکل میں موجود ہیں۔
عرش کا ہے کبھی کعبے کا ہے دھوکا اس پر
کس کی منزل ہے الٰہی! مرا کاشانۂ دل
عرش | تخت، آسمان سے اوپر کی دُنیا |
کاشانۂ دِل | دِل کا محل |
تشریح:
اے اللہ! آخر میرے دِل میں کون رہتا ہے؟ مجھے کبھی تو مجھے یہ گمان ہوتا ہے کہ میرا دِل عرش ہے اور کبھی یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ کعبہ ہے۔ اقبالؔ نے بظاہر تو یہ سوال کیا ہے لیکن خود ہی اس کا جواب دے دیا ہے۔ یعنی مجھے اپنے دل پر عرش اور کعبے کا گمان اس لیے ہوتا ہے کہ اس میں اللہ تعالی رہتا ہے۔ پُر لطف بات یہ ہے کہ یوں تو اللہ تعالی ہر جگہ موجود ہے لیکن عرشِ معلی، کعبۃ اللہ اور قلبِ مومن اُس کے خاص ٹھکانے ہیں چونکہ دِل میں بھی خدا رہتا ہے اس لیے اس پر عرش اور کعبے کا دھوکا ہونا کوئی انوکھی بات نہیں۔
اس کو اپنا ہے جُنوں اور مجھے سودا اپنا
دِل کسی اور کا دیوانہ، میں دیوانۂ دل
جُنوں | دیوانہ پن، دیوانگی |
سودا | دیوانگی، عشق کی مستی |
تشریح:
اگرچہ میں اور میرا دِل دونوں مجنوں اور سودائی ہیں، لیکن دِل کے جنون اور میری دیوانگی میں فرق ہے اور وہ یہ کہ دِل کسی اور کا دیوانہ ہے یعنی اللہ تعالی کا عاشق ہے اور میں دِل کو محبوب رکھتا ہوں۔ دِل کو محبوب رکھنا اس لیے بجا ہے کہ عشقِ باری تعالی سے معمور ہونے کا باعث دِل از خود ایک نہایت قیمتی اور گرانمایہ چیز بن جاتی ہے۔ یعنی اقبالؔ کے نزدیک دِل کی اصل قدر و قیمت اس وجہ سے ہے کہ وہ خدا کے عشق سے معمور ہے۔
تُو سمجھتا نہیں اے زاہدِ ناداں اس کو
رشکِ صد سجدہ ہے اک لغزشِ مستانۂ دل
زاہد | پرہیزگار، عابد، تارک الدنیا، خدا پرست |
ناداں | کم عقل، نافہم، بھولا |
رشکِ صد سجدہ | جس پر سینکڑوں سجدے بھی رشک کریں |
لغزشِ مستانہ | عشق کی مستی میں گِرنا، لغزش جو مستی کی حالت میں سرزد ہو |
تشریح:
اے نادان زاہد! تُو اس بات کو نہیں سمجھتا کہ دِل کا راہِ راست سے کچھ دیر کے لیے بھٹک جانا بُرائی نہیں ہے۔ کیونکہ بھٹکنے کے بعد جب دِل سیدھے راستے پر آئے تو اس کو دوبارہ بھٹک جانے کا خطرہ نہیں رہتا۔ اس لیے اس بھول پر سینکڑوں سجدے نثار کیے جا سکتے ہیں۔
خاک کے ڈھیر کو اِکسیر بنا دیتی ہے
وہ اثر رکھتی ہے خاکسترِ پروانۂ دل
خاک کا ڈھیر | مراد انسان |
اکسیر | ہ مرکب جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس سے تانبے سونے اور رانگے کو چاندی بنایا جا سکتا ہے۔ مراد اعلیٰ مرتبہ والا |
خاکسترِ پروانہ | عشق کی تپش میں جلے ہوئے پتنگے کی راکھ |
تشریح:
دِل کے پروانے کی راکھ میں وہ اثر ہے کہ وہ خاک کے ڈھیر (انسان) کو اکسیر بنا دیتی ہے۔
مطلب یہ ہے کہ جو شخص عشقِ الہی میں فنا ہو جاتا ہے اس میں یہ تاثیر پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ ان لوگوں کو جو اس کی صحبت میں بیٹھے ہیں، خدا رسیدہ بنا دیتا ہے۔
بُجھی عشق کی آگ، اندھیر ہے
مسلماں نہیں، راکھ کا ڈھیر ہے
(حوالہ: بالِ جبریل: ساقی نامہ)
عشق کے دام میں پھنس کر یہ رِہا ہوتا ہے
برق گرتی ہے تو یہ نخل ہرا ہوتا ہے
دام | جال |
برق | بجلی |
نخل | درخت، پودا |
ہرا ہونا | سبز ہونا، پھلنا پھولنا |
تشریح:
دِل کی شان ساری دنیا سے نرالی ہے، انسان تو دام (جال) میں پھنس کر گرفتار ہو جاتا ہے لیکن دِل اگر دامِ عشق میں گرفتار ہو جائے تو (تمام دنیوی قیود سے) رہا ہو جاتا ہے۔
دِل کی حقیقت یہ ہے کہ اگر وہ دنیا کی طرف مائل ہو، تو تصوف کی اصطلاح میں اس میلان کو گرفتاری سے تعبیر کرتے ہیں۔ اور اس گرفتاری سے رہائی کی صورت یہ ہے کہ دل اللہ کی محبت میں فنا ہو جائے۔ اسی طرح اگر کسی درخت یا انسان پر بجلی گر پڑے تو وہ جل جاتا ہے لیکن اگر دِل پر (عشقِ الہی) کی بجلی گر پڑے تو وہ سر سبز ہو جاتا ہے۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ انسان کا دِل عالمِ مادی سے تعلق نہیں رکھتا، اس لیے مادیات کے قوانین اس پر عائد نہیں ہو سکتے۔
حوالہ جات
- شرح بانگِ درا از پروفیسر یوسف سلیم چشتی
- شرح بانگِ درا ا ڈاکٹر شفیق احمد
- شرح بانگِ درا از اسرار زیدی
- مطالبِ بانگِ درا از مولانا غلام رسول مہر
- شرح بانگِ درا از پروفیسر حمید اللہ شاہ ہاشمی