”انسان اور بزمِ قُدرت“ از علامہ اقبال
فہرست
تعارف
نظم ”انسان اور بزمِ قُدرت“ اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ اس میں اقبالؔ نے فلسفۂ خودی کا ابتدائی خاکہ یا نقشہ بیان کیا ہے۔ فلسفۂ خودی کی بنیاد یہ ہے کہ انسان اشرف المخلوقات ہے، اس کے اندر یعنی اس کی خودی میں روحانی ترقی کی غیر محدود صلاحیت مخفی ہے اور یہی حقائق اقبالؔ نے اس نظم میں بیان کیے ہیں۔
(حوالہ: شرح بانگِ درا از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)
اِس نظم کی اہمیت یہ ہے کہ علامہ اقبال نے اس میں پہلی بار فلسفۂ خودی کے بنیادی خد و خال پیش کیے، جو بعد ازاں اُن کی فکر اور شاعری کا مرکزی نقطہ قرار پایا۔
(حوالہ: شرح بانگِ درا از ڈاکٹر شفیق احمد)
اِس نظم کا اگر گہرا مطالعہ کیا جائے تو اس امر کا اندازہ ممکن ہے کہ علامہ نے یہاں پہلی بار فلسفۂ خودی کی نشاندہی کی ہے اور یہی فلسفہ آگے جا کر اُن کے شاعرانہ فکر کی بنیاد بنا۔
(حوالہ: شرح بانگِ درا از اسرار زیدی)
اِس نظم کا مرکزی خیال یہ ہے کہ انسان اشرف المخلوقات ہے، اس لیے اس میں یا اس کی خودی میں غیر معمولی روحانی ترقی کی صلاحیتیں موجود ہیں۔ اس لحاظ سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ نظم علامہ کے فلسفۂ خودی کی گویا تمہید ہے۔
(حوالہ: شرح بانگِ درا از ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی)
بند نمبر 1
صبح خورشیدِ دُرَخشاں کو جو دیکھا میں نے
بزمِ معمورۂ ہستی سے یہ پُوچھا میں نے
صبح کے وقت جب میں نے چمکتے ہوئے سورج پر نظر کی، تو کائنات اور اس کے مظاہر سے یہ سوا ل کیا کہ:- (تفصلیل آئندہ اشعار میں)
پرتوِ مہر کے دم سے ہے اُجالا تیرا
سیمِ سیّال ہے پانی ترے دریاؤں کا
اے کائنات! تجھ میں جو اُجالا ہے، وہ سورج کی روشنی کے دم سے ہے، اسی روشنی کے باعث تیری دریاؤں کا پانی بہتی ہوئی چاندی معلوم ہوتا ہے۔ سورج کی روشنی دریا کے پانی پر پڑے تو چاندی کا رنگ اختیار کر لیتا ہے۔۔ چونکہ دریا کا پانی بہہ رہا ہوتا ہے، اس لیے اقبالؔ نے اُسے بہتی ہوئی چاندی سے تشبیہ دی ہے۔
مہر نے نور کا زیور تجھے پہنایا ہے
تیری محفل کو اسی شمع نے چمکایا ہے
سورج (مہر) نے تیری ایک ایک چیز کو منوّر کر رکھا ہے۔ تیرے لیے سورج کی وہی حیثیت و اہمیت ہے جو کسی محفل میں شمع کی ہوتی ہے یعنی جس طرح شمع نہ ہو تو محفل تاریک ہو جائے گی اور اس کا لطف جاتا رہے گا، بالکل اُسی طرح اگر سورج نہ ہو تو دنیا بھی اپنی تمام تر دلچسپیوں سے محروم ہو جائے گی۔
گُل و گُلزار ترے خُلد کی تصویریں ہیں
یہ سبھی سُورۂ ’وَ الشمَّس‘ کی تفسیریں ہیں
اس کائنات کے باغات اور گلستان در اصل جنت کے باغات کی تصویر پیش کرتے ہیں یعنی اتنے ہی حسین اور دِل آویز ہیں اور یہ سب ہی قرآن شریف کی سورۃ والشمس کی تفسیر و وضاحت پیش کرتے ہیں۔ یعنی یہ سارا حُسن اور خوبصورتی دراصل سورج کی وجہ سے ہے۔
وَٱلشَّمۡسِ وَضُحَىٰهَا (1) وَٱلۡقَمَرِ إِذَا تَلَىٰهَا (2) وَٱلنَّهَارِ إِذَا جَلَّىٰهَا (3) وَٱلَّيۡلِ إِذَا يَغۡشَىٰهَا (4) وَٱلسَّمَآءِ وَمَا بَنَىٰهَا (5) وَٱلۡأَرۡضِ وَمَا طَحَىٰهَا (6) وَنَفۡسٖ وَمَا سَوَّىٰهَا (7)
سورج کی قسم اور اس کی روشنی کی۔ اور چاند کی جب اس کے پیچھے نکلے۔ اور دن کی جب اُسے چمکا دے۔ اور رات کی جب اُسے چھُپا لے۔ اور آسمان کی اور اُس ذات کی جس نے اسے بنایا۔ اور زمین کی اور اس کی جس نے اسے پھیلایا۔ اور انسان کی اور اس کی جس نے اس (کے اعضا) کو برابر کیا۔
(حوالہ: القرآن: سورۃ الشمس: آیت نمبر 1 تا 7)
سُرخ پوشاک ہے پھُولوں کی، درختوں کی ہری
تیری محفل میں کوئی سبز، کوئی لال پری
یہاں پر پھولوں نے سُرخ جبکہ درختوں نے سبز لباس (پوشاک) پہن رکھا ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے جیسے کائنات کی محفل میں یہ سُرخ اور سبز پریاں ہیں۔ مراد یہ ہے کہ کائنات میں مظاہرِ فطرت طرح طرح کے رنگوں کا لباس پہنے اپنا اپنا جلوہ دِکھا رہے ہیں۔
ہے ترے خیمۂ گردُوں کی طِلائی جھالر
بدلیاں لال سی آتی ہیں اُفق پر جو نظر
شام کے وقت جب تیرے اُفق (آسمان کے دور کے کنارے) پر لال لال سی بدلیاں (بادل کا ٹکڑا) نظر آتی ہیں تو یوں معلوم ہوتا ہے گویا وہ آسمان کے خیمے کی سنہری جھالر ہیں۔
کیا بھلی لگتی ہے آنکھوں کو شفق کی لالی
مئے گُلرنگ خُمِ شام میں تُو نے ڈالی
شام کے وقت آسمان پر پھیلی ہوئی شفق کی سُرخی آنکھوں کو بہت پیاری لگتی ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے تُو نے شام کے پیالے میں سُرخ رنگ کی شراب (مئے گُل رنگ) انڈیل رکھی ہے۔
شفق: صبح اور شام کی سُرخی، لیکن اردو میں شام کی سُرخی کے لیے زیادہ استعمال ہوتا ہے۔
رُتبہ تیرا ہے بڑا، شان بڑی ہے تیری
پردۂ نور میں مستور ہے ہر شے تیری
تیرا رُتبہ بھی بڑا ہے اور تیری شان بھی عظمت والی ہے۔ تیری ہر شے نور کے پردے میں چھپپی (مستُور) ہوئی ہے۔
صبح اک گیت سراپا ہے تری سطوت کا
زیرِ خورشید نشاں تک بھی نہیں ظلمت کا
صبح (دن کے آغاز) کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ بھی تیری عظمت و برتری اور شان و شوکت کے گیت گا رہی ہے۔ جب دن نکل آتا ہے تو ہر چیز واضح نظر آتی ہے، پہاڑ، ندیاں، ٓچشمے، وادیاں اور ایسے ان گِنت مظاہرِ فطرت دنیا کی عظمت کو ظاہر کرتے ہوئے آنکھوں کے سامنے عیاں ہو جاتے ہیں اور خورشید (سورج) کے منظر نامے میں تاریکی اور اندھیرے کا تصور تک نہیں کیا جا سکتا۔
مَیں بھی آباد ہوں اس نور کی بستی میں مگر
جل گیا پھر مری تقدیر کا اختر کیونکر؟
میں (انسان) بھی نور کی اسی بستی میں آباد ہوں، وہی بستی کہ جس میں ہر چیز پر سورج کا نور لِپٹا ہوا ہے۔ لیکن کائنات کے دیگر مظاہر کے مقابلے میں مجھے بدقسمتی نے گھیر رکھا ہے۔ آخر میرے نصیب کا ستارہ کیوں سیاہ ہو گیا اور کس سبب سے ڈوب گیا؟
نور سے دُور ہوں ظلمت میں گرفتار ہوں میں
کیوں سیَہ روز، سیَہ بخت، سیَہ کار ہوں میں؟
تیری (دنیا کی) ساری چیزیں آفتاب کے نور سے فیض یاب ہیں، پھر میں کیوں مصیبت زدہ (سیہ روز) ہوں، کس لیے بدنصیبیوں (سیہ بخت) کا شکار اور کس وجہ سے بد اعمال (سیہ کار) ہوں؟ دُنیا میں انسان پر جو کچھ گزرتی ہے اور جس طرح وہ اپنے ذاتی مفاد کی خاطر بُرے سے بُرا عمل کرنے کو تیار رہتا ہے، اس کی طرف اشارہ ہے۔
بند نمبر 2
مَیں یہ کہتا تھا کہ آواز کہیں سے آئی
بامِ گردُوں سے و یا صحنِ زمیں سے آئی
جب میں نے (کہنے والے نے) اپنا سوال مکمل کر لیا تو جواب کے طور پر ایک آواز سنائی دی، جس کے بارے میں پتہ نہ چل سکا کہ یہ آواز کہاں سے آئی؟ علامہ کے سوال کے جواب میں آسمان کی بلندیوں پر رہنے والی کوئی چیز بولی یا پھر زمین کے رہنے والے۔
ہے ترے نور سے وابستہ مری بود و نبود
باغباں ہے تری ہستی پئے گُلزارِ وجود
اے انسان! تُو غلط فہمی میں مبتلا ہے۔ دراصل تیرے (انسان کے) نور سے ہی میری ہستی یا نیستی (ہونا یا نہ ہونا) وابستہ ہے۔ تیری ہستی وجود کے گلزار (باغ) کے لیے باغبان (مالی) کی حیثیت رکھتی ہے۔ یعنی انسان ہی کے وجود سے اس دنیا میں سب کچھ ہے۔ کائنات اسی کی خاطر تخلیق ہوئی۔ وہی اس دنیا کی صحیح معنوں میں دیکھ بھال کر سکتا ہے، جس طرح ایک مالی باغ کی دیکھ بھال کرتا ہے۔
؎ نہ تُو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے
جہاں ہے تیرے لیے، تُو نہیں جہاں کے لیے
(حوالہ: بالِ جبریل)
انجمن حُسن کی ہے تُو، تری تصویر ہوں میں
عشق کا تُو ہے صحیفہ، تری تفسیر ہوں میں
اے انسان! تیرا وجود ہی ہر نوع کی خوبصورتیوں کا مجموعہ ہے، تُو حسن و خوبی کی انجمن (محفل) ہے اور میں (معمورۂ ہستی) تیری تصویر ہوں۔ عشق کی الہامی کتاب (کتاب: صحیفہ) کی حیثیت تو تجھے حاصل ہے، کائنات اور اس کی چیزیں تو تیری تشریح و وضاحت (تفسیر) کے سوا اور کچھ نہیں۔ اقبالؔ نے یہی خیال ایک اور جگہ یوں پیش کیا ہے:-
؎ بزمِ ہستی! اپنی آرائش پہ تُو نازاں نہ ہو
تُو تو اک تصویر ہے محفل کی اور محفل ہوں میں
(حوالہ: بانگِ درا)
میرے بگڑے ہوئے کاموں کو بنایا تُو نے
بار جو مجھ سے نہ اٹھّا وہ اُٹھایا تُو نے
وہ آواز اپنا خطاب جاری رکھتے ہوئے کہتی ہے کہ میرے بگڑے ہوئے کاموں کو تُو نے بنایا اور سنوارا ہے۔ جو بوجھ میری طاقت و قوت سے باہر تھا، اس کو صرف تُو نے اُٹھایا اور یوں میری مشکل حل کر دی۔ تُو اس کائنات کا سردار اور آقا ہے، تُو اشرف المخلوقات ہے۔ بارِ امانت سے قرآن پاک کی اس آیت کی طرف اشارہ ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ خدا تعالی کی معرفت کی ذمہ داری، جو روزِ ازل کُل مخلوقات کے سامنے پیش کی گئی اور اس وقت انسان کے سوا کوئی یہ بوجھ اُٹھانے کے لیے تیار نہ ہوا۔ میر تقی میرؔ نے اسی خیال کو یوں پیش کیا ہے:-
؎ سب پہ جس بار نے گرانی کی
اُس کو یہ ناتواں اُٹھا لایا
(شاعر: میر تقی میر)
قرآن پاک میں ارشاد ہے:-
إِنَّا عَرَضْنَا ٱلْأَمَانَةَ عَلَى ٱلسَّمَـٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ وَٱلْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَن يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا ٱلْإِنسَـٰنُ ۖ إِنَّهُۥ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا
ہم نے دکھلائی امانت آسمانوں کو اور زمین کو اور پہاڑوں کو پھر کسی نے قبول نہ کیا کہ اس کو اٹھائیں اور اس سے ڈر گئے اور اٹھا لیا اس کو انسان نے یہ ہے بڑا بے ترس، نادان۔
(حوالہ: سورۃ الاحزاب: آیت نمبر 72)
نورِ خورشید کی محتاج ہے ہستی میری
اور بے منّتِ خورشید چمک ہے تری
میری ہستی نورِ خورشید (سورج کی روشنی) کی محتاج ہے لیکن تُو اس کا محتاج نہیں ہے۔ اس کائنات کی رونق آفتاب کے دم سے ہے، لیکن تیری خودی آفتاب کی دست نِگر نہیں ہے۔
ہو نہ خورشید تو ویراں ہو گُلستاں میرا
منزلِ عیش کی جا نام ہو زنداں میرا
اگر خورشید (سورج) نہ ہو تو میرا یہ گلستان (باغ) ویران ہو کر رہ جائے اور اس بنا پر میرا نام منزلِ عیش کی بجائے قید خانہ ہو۔ عیش سے مراد آرام کی زندگی، لطف و راحت کے ساتھ زندگی بسر ہونے کی کیفیت ہے۔ زِنداں (قید خانہ) سے مراد تکلیفوں اور دکھوں کا گھر۔
آہ، اے رازِ عیاں کے نہ سمجھے والے!
حلقۂ دامِ تمنّا میں اُلجھنے والے
اے بالکل واضح اور نمایاں بھید کو نہ سمجھ سکنے والے!
اے مختلف تمناؤں اور آرزوؤں کے جال میں پھنس جانے والے!
ہائے غفلت کہ تری آنکھ ہے پابندِ مجاز
ناز زیبا تھا تجھے، تُو ہے مگر گرمِ نیاز
کتنے افسوس کا مقام ہے کہ غفلت کے باعث تیری نگاہ چیزوں کے ظاہر میں پھنس کر رہ گئی ہے اور حقیقت تک نہیں پہنچی۔ تجھے تو فخر و ناز بجا تھا(کہ تُو اشرف المخلوقات تھا)، لیکن تُو عاجزی یا ذلت میں الجھا ہوا ہے (انسان کی مادیت پرستی، ماسوی اللہ سے زیادہ لگاؤ اور اس قسم کی دوسری خرابیوں کی طرف اشارہ ہے)۔ تیرا مرتبہ یہ ہے کہ ساری کائنات تیری محتاج ہے، لیکن تُو طلسمِ رنگ و بُو میں گرفتار ہو کر اس کائنات کا محتاج بن گیا۔ یہ کائنات تیری خادم ہے لیکن تُو نے اپنی کوتاہ بینی کی بدولت اس کو اپنا مخدوم بنا لیا۔ در اصل یہ کائنات تیری طالب ہے لیکن تُو نے اپنی غلط بینی سے اس کو اپنا مطلوب قرار دے دیا۔
تُو اگر اپنی حقیقت سے خبردار رہے
نہ سیَہ روز رہے پھر نہ سیَہ کار رہے
اگر تُو اپنی حقیقت سے آگاہ رہے، تجھے اپنی خودی کی معرفت حاصل ہو جائے اور تُو جہد و عمل میں لگ جائے تو تُو نہ سیاہ روز (بد نصیب) رہے گا اور نہ سیہ کار (بد عمل) رہے گا۔ خودی کی معرفت اور جہد و عمل سے تیری قسمت سنور جائے گی، تُو برے اعمال سے بچے گا اور تیری بقا کا سامان ہو جائے گا۔ اس نظم میں اقبالؔ نے انسان کو اشرف المخلوقات اور بزمِ قدرت کی ہر شے سے افضل ثابت کیا ہے۔ خوبی یہ ہے کہ انسان اپنی نافہمی کے باعث بزمِ قدرت کو اپنے سے بہتر قرار دیتا ہے اور بزمِ قدرت انسان کے اشرف ہونے کا اعلان کرتی ہے۔
نوٹ
یہ تمام مضمون قرآن مجید کی اس آیت کی تفسیر ہے:-
وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً ۖ
اور یاد کرو جب کہ کہا تھا تمہارے رب نے فرشتوں سے کہ میں بنانے والا ہوں زمین میں ایک خلیفہ۔
(حوالہ: سورۃ البقرۃ: آیت نمبر 30)
واضح ہو کہ انسان اس دنیا میں اللہ کا خلیفہ ہے، اس لیے اشرف المخلوقات ہے، یہی اقبالؔ کے فلسفۂ خودی کا سنگِ بنیاد ہے۔
(حوالہ: شرح بانگِ درا از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)