Skip to content
بانگِ درا 160: ہمایوں

بانگِ درا 160: ہمایوں


”ہمایوں“ از علامہ اقبال

تعارف

جسٹس شاہ دین مرحوم علامہ اقبال کے دوست تھے۔ ہمایوںؔ تخلص کرتے تھے۔ شاہ دین 1890ء میں انگلستان سے بیرسٹری کا امتحان پاس کر کے آئے، کچھ عرصہ بعد لاہور ہائی کورٹ کے جج مقرر ہوئے۔ 1918ء میں ان کا انتقال ہوا۔ علامہ اقبال نے بطورِ مرثیہ یہ نظم لکھی۔ یہاں پر یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ جسٹس شاہ دین کے فرزند میاں بشیر احمد نے اپنے والد کی یاد کے طور پر اردو ادب کا ایک موقر ماہنامہ ”ہمایوں“ جاری کیا تھا۔

(حوالہ: شرح بانگِ درا از ڈاکٹر شفیق احمد)


یہ نظم میاں شاہ دین مرحوم کی وفات پر لکھی گئی، جن کا تخلص ہمایوںؔ تھا۔ اقبالؔ کے تعلقات میاں صاحب سے بہت گہرے تھے۔ وہ اپنے عہد میں علم و فضل کے پیکر مانے جاتے تھے اور اہلِ پنجاب میں سے پہلے شخص تھے، جنہیں اس عہد کے چیف کورٹ کی ججی ملی۔

(حوالہ: مطالبِ بانگِ درا از مولانا غلام رسول مہر)


میاں دین محمد کا شمار پنجاب کے ان زعماء میں کیا جاتا ہے جو بیسویں صدی کے اوائل میں اس خطۂ ارض کی عزت و تحریم کا سبب تھے۔ وہ اقبالؔ کے قریبی دوستوں میں سے تھے۔ 1918 ء میں وفات پائی تو اقبالؔ نے یہ تعزیتی اشعار لکھے۔ یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ جسٹس دین محمد شاعر بھی تھے اور “ہمایوں” تخلص کرتے تھے۔ مرحوم کی وفات کے بعد اُن کے صاحبزادے میاں بشیر احمد نے اپنے والد کے نام پر ہی بلند پایہ ادبی رسالہ ”ہمایوں“ جاری کیا۔ خود اقبالؔ کی بیشتر نظمیں اسی جریدے میں شائع ہوتیں۔

(حوالہ: شرح بانگِ درا از اسرار زیدی)

YouTube video

نظم ”ہمایوں“ کی تشریح

اے ہمایوں! زندگی تیری سراپا سوز تھی
تیری چنگاری چراغِ انجمن افروز تھی

حلِ لغات:

سراپا سوزپورے طور پر حرکت و عمل پر مبنی
چنگاریشرارہ
چراغِ انجمن افروزمحفل کو روشن کرنے والی شمع
حلِ لغات (بانگِ درا 160: ہمایوں)

تشریح:

اے ہمایوں! تیری زندگی سراسر قومی ہمدردی اور سوز و گداز سے لبریز تھی، تُو نے اپنی ساری عمر قوم کی خدمت میں بسر کی ۔ تیرے دل کی چنگاری محفل کو روشن کرنے والا چراغ (چراغِ انجمن افروز) تھی یعنی جس طرح چراغ کی روشنی ساری محفل کو روشن کر دیتی ہے، بالکل اُسی طرح تیری ذات ملتِ اسلامیہ کے لیے فخر و ناز کا باعث تھی۔


گرچہ تھا تیرا تنِ خاکی نزار و دردمند
تھی ستارے کی طرح روشن تری طبعِ بلند

حلِ لغات:

تنِ خاکیخاکی جسم
نزارکمزور و ناتواں
طبعِ بلندبلند ارادوں والی طبیعت
حلِ لغات (بانگِ درا 160: ہمایوں)

تشریح:

اگرچہ تیرا خاکی بدن کمزور اور نحیف (دُبلا پتلا) تھا لیکن تیری بلند طبیعت ستاروں کی طرح روشن تھی۔ یعنی تُو جسمانی اعتبار سے تو دُبلا پتلا اور کمزور تھا، لیکن تیرا دماغ نہایت قوی، روشن اور تیز تھا۔


کس قدر بے باک دل اس ناتواں پیکر میں تھا
شعلۂ گردُوں نَورد اک مُشتِ خاکستر میں تھا

حلِ لغات:

بے باکبے خوف، نڈر، دلیر، بہادر
ناتواں پیکرکمزور جسم
شعلۂ گردُوں نوَردآسمان کو اپنی لپیٹ میں لے لینے والا شعلہ
مُشتِ خاکسترخاک کی مُٹھی، جسم
حلِ لغات (بانگِ درا 160: ہمایوں)

تشریح:

اے ہمایوں! جو لوگ تیری شخصیت سے آشنا تھے وہ اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ تیرے کمزور جسم میں کتنا بے باک اور نڈر دِل چھپا ہوا تھا، گویا خاک کی ایک مُٹھی (مشتِ خاکستر / انسان) میں آسمان کو لپیٹ لینے والا شعلہ (شعلۂ گردُوں نوَرد) چھپا ہوا تھا یعنی تُو کسی مخالف سے نہ ڈرتا تھا اور تیری رگ رگ میں بے پناہ جذبہ، قوت اور جوش بھرا ہوا تھا۔


موت کی لیکن دلِ دانا کو کچھ پروا نہیں
شب کی خاموشی میں جُز ہنگامۂ فردا نہیں

حلِ لغات:

دِلِ دانہعقلمند دِل، سمجھدار دِل، دانائی سے بھرپور دِل
شب کی خاموشیرات کی خاموشی
ہنگامۂ فرداآنے والے کل کا ہنگامہ
حلِ لغات (بانگِ درا 160: ہمایوں)

تشریح:

لیکن دانا (عقلمند) دِل موت کی ذرا پروا نہیں کرتا۔ رات کی خاموشی آنے والے کل کے ہنگامے (ہنگامہ فردا: آنے والے دِن کا ہنگامہ) کے سوا کچھ اور نہیں۔ عقلمند شخص موت سے قطعاً خوف نہیں کھاتا کیونکہ جس طرح رات کے بعد دِن کا آنا یقینی ہے، اسی طرح موت کے بعد دوبارہ زندگی یقینی ہے۔ ۔ گویا انسان کی موت اس کی آنے والی مستقل زندگی (دوامِ زندگی؛ ہمیشہ کی زندگی) کا باعث بنتی ہے۔ جیسا کہ علامہ اقبالؔ نے فرمایا ہے:

؎ یہ اگر آئینِ ہستی ہے کہ ہو ہر شام صبح
مرقدِ انسان کی شب کا کیوں نہ ہو انجام صبح
(حوالہ: بانگِ درا: والدہ مرحومہ کی یاد میں)


موت کو سمجھے ہیں غافل اختتامِ زندگی
ہے یہ شامِ زندگی، صبحِ دوامِ زندگی

حلِ لغات:

اختتامِ زندگیزندگی کا خاتمہ
یہ شامِ زندگیزندگی کی یہ شام۔ مراد ہے موت
صبحِ دوامِ زندگیزندگی کی ہمیشہ ہمیشہ قائم رہنے والی صبح، ابدی زندگی کا آغاز
حلِ لغات (بانگِ درا 160: ہمایوں)

تشریح:

بے خبر لوگ موت کو زندگی کا خاتمہ سمجھتے ہیں، جبکہ سچ تو یہ ہے کہ زندگی کی یہ شام (یعنی موت) دراصل ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی (دوامِ زندگی؛ ہمیشہ قائم رہنے والی زندگی) کا باعث بنتی ہے، یعنی موت کے بعد ایسی زندگی نصیب ہو گی جو کبھی فنا نہ ہو گی۔

موتِ تجدیدِ مذاقِ زندگی کا نام ہے
خواب کے پردے میں بیداری کا اِک پیغام ہے
(حوالہ: بانگِ درا: والدہ مرحومہ کی یاد میں)

تبصرہ

یہ اثر آفریں اور معنی خیز نظم، اقبالؔ نے اپنے محترم دوست مسٹر جسٹس میاں شاہ دین مرحوم کی وفات پر لکھی۔ میاں صاحب موجودہ صدی کے ابتدائی دور میں ہندوستان کے ناموَر مسلمانوں میں سے تھے اور علامہ مرحوم ان کی بڑی عزت کرتے تھے۔

میاں صاحب 1890ء میں ولایت سے بیرسٹری پاس کر کے آئے تھے اور اپنی ذاتی قابلیت کی بدولت جج ہائی کورٹ کے عہدۂ جلیلہ پر فائز ہوئے۔ 1918ء میں وفات پائی۔ علامہ اقبال نے ان کی تاریخِ وفات اس شعر سے برآمد کی تھی:۔

در گلستانِ دہر ہمایونِ نکتہ سنج
آمد مثالِ شبنم و چوں بوئے گل دمید
می جست عندلیب خوش ہنگ سال فوت
”علامۂ فصیح“ زہر چار سو شنید

علامۂ فصیح کے عدد 334 ہوتے ہیں، ان کو 4 سے ضرب دی جائے تو 1336ھ سالِ وفات بن جاتا ہے۔

مرحوم کے ناموَر فرزند عزت مآب میاں بشیر احمد صاحب سفیر دولتِ پاکستان متعینہ جمہوریہ ترکیہ نے 1922ء میں اپنے والد کی یادگار قائم کرنے کے لیے رسالۂ ہمایوں جاری کیا تھا، جس کا شمار پاکستان کے ممتاز ترین جرائد میں ہوتا ہے۔ میاں بشیر احمد علم دوستی اور خدمتِ قومی کے اعتبار سے اپنے ناموَر والد کے صحیح جانشین ہیں۔ ان کی عمر بھی قوم کی خدمت ہی میں بسر ہوئی ہے۔

(حوالہ: شرح بانگِ درا از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)

”شعرائے قوم سے خطاب“ از جسٹس شاہ دین مرحوم

اے شاعرانِ قوم زمانہ بدل گیا
پر مثلِ زُلفِ یار تمہارا نہ بل گیا

پیٹو گے کب تلک سر رہ تم لکیر کو
بجلی کی طرح سانپ تڑپ کر نکل گی

اُٹھو وگرنہ حشر نہیں ہوگا پھر کبھی
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا

اِک تم کہ جم گئے ہو جمادات کی طرح
اِک وہ کہ گویا تیر کماں سے نکل گیا

ہاں ہاں سنبھالو قوم کو شاید سنبھل ہی جائے
گِر گِر کے مُلکِ ہند کچھ آخر سنبھل گیا

(شعرائے قوم سے خطاب از جسٹس شاہ دین مرحوم)

حوالہ جات


Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments