نظم ”گُلِ رنگیں“ از علامہ اقبال
فہرست
تعارف
نظم گُلِ رنگیں کا شمار علامہ اقبال کی ابتدا ئی نظموں میں ہوتا ہے، یہ نظم مئی ۱۹۰۱ء کے رسالہ مخزن میں شائع ہوئی۔ پہلے پہل نظم میں چھ بند تھے، نظرِ ثانی میں دو بند حذف کر دیے گئے۔
خلیفہ عبد الحکیم اپنی کتاب فکرِ اقبالؔ میں، علامہ اقبال کی ابتدائی شاعری پر ان الفاظ میں روشنی ڈالتے ہیں:-
(حوالہ: فکرِ اقبال از خلیفہ عبد الحکیم، صفحہ ۴۳)
”فن کے لحاظ سے شروع ہی سے اس صاحبِ کمال میں پُختگی نظر آتی ہے۔ ٘صلحانہ اور مبالغانہ انداز کی جھلک اس دور میں بھی موجود ہے۔ لیکن ابھی مدھم ہے۔“
نظم ”گُلِ رنگیں“ کی تشریح
بند ۱
تُو شناسائے خراشِ عُقدۂ مشکل نہیں
اے گُلِ رنگیں ترے پہلو میں شاید دل نہیں
زیبِ محفل ہے، شریکِ شورشِ محفل نہیں
یہ فراغت بزمِ ہستی میں مجھے حاصل نہیں
اس چمن میں مَیں سراپا سوز و سازِ آرزو
اور تیری زندگانی بے گدازِ آرزو
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
خراشِ عقدۂ مشکل | مشکل مسئلے کی وجہ سے پیدا ہونے والی پریشانی |
شناسائے خراش عقدۂ مشکل | ایسی کسی پریشانی سے آگاہ ہونا جو مشکل مسئلے سے پیدا ہو |
زیبِ محفل | محفل کی زینت، خوبصورتی |
شورشِ محفل | بزم کے ہنگامے |
مسکن | رہنے کی جگہ |
بزمِ ہستی | کائنات، دنیا |
سوز و سازِ آرزو | آرزو ہونے کا رنج و راحت |
بے گُداز | بلا احساس، بغیر رنج و غم کے |
تشریح:
اے پھول تُو نے کبھی کسی مشکل مسئلے کی وجہ سے کوئی پریشانی نہیں دیکھی۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ تیرے پاس دِل نہیں ہے۔ اگر تیرے سینے میں دِل ہوتا تو تُو بھی میرا طرح سراپا تلاش اور آرزو ہوتا مگر تیری زندگی میں کوئی آرزو نہیں پائی جاتی۔
دِل سے اشارہ اس شعور (consciousness) کی طرف ہے جو خاص انسان کو عطا ہوا جب اس میں روح پھونکی گئی۔ باقی جاندار اگرچہ زندہ ہیں مگر ان میں ذوقِ آگہی نہیں ہے ، لہذا ذوقِ آگہی کے ساتھ آنے والے تمام تر مسائل اور فکر سے بھی آزاد ہیں۔
پھول کا زیبِ محفل ہونا اور انسان کا شریکِ شورشِ محفل ہونے کے فرق کی بنیاد اس آیت پر رکھی جا سکتی ہے۔
اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ فَاَبَيْنَ اَنْ يَّحْمِلْنَـهَا وَاَشْفَقْنَ مِنْـهَا وَحَـمَلَـهَا الْاِنْسَانُ ۖ اِنَّهُ كَانَ ظَلُوْمًا جَهُوْلًا
ترجمہ: ہم نے اپنی امانت کو آسمانوں پر زمین پراور پہاڑوں پر پیش کیا لیکن سب نے اس کے اٹھانے سے انکار کر دیا اور اس سے ڈر گئے ( مگر ) انسان نے اسےاٹھا لیا ، وہ بڑا ہی ظالم جاہل ہے۔
(حوالہ: القرآن: سورۃ الاحزاب، آیت ۷۲)
نظم شمع میں اقبالؔ آگہی کے متعلق فرماتے ہیں:-
یہ آگہی مری مجھے رکھتی ہے بے قرار
خوابیدہ اس شرر میں ہیں آتش کدے ہزار
یہ امتیازِ رفعت و پستی اسی سے ہے
گُل میں مہک، شراب میں مستی اسی سے ہے
بُستان و بُلبل و گُل و بُو ہے یہ آگہی
اصلِ کشاکشِ من و تُو ہے یہ آگہی
(حوالہ: بانگِ درا: شمع)
اردو اور فارسی ادب میں محبوب کو بھی پھول سے تشبیہ دی جاتی ہے، اس کی وجہ صرف پھول کا حسن و نزاکت ہی نہیں بلکہ ان دونوں کی اپنے چاہنے والوں سے بے نیازی بھی ہوتی ہے۔ لہذا اس بے نیازی کی وجہ سے وہ ہر غم سے آزاد رہتے ہیں، گویا جیسے اُن کے سینے میں دِل ہی نہ ہو۔
اے گُلِ رنگیں! تیری موجودگی دُنیا میں خوبصورتی کا باعث تو ہے لیکن اس چمن یعنی دنیا کے ہنگاموں اور مسئلوں سے لاتعلق ہے، اس لاتعلقی کی وجہ سے تجھے بہت فرصت اور فراغت حاصل ہے۔
میں (انسان) اس دنیا میں ہر وقت کچھ پا لینے کے غم میں رہتا ہوں، یہی میرے بے تاب رہنے کی وجہ ہے، جبکہ تیری زندگی خراشِ عقدۂ مشکل سے خالی ہے۔
بند ۲
توڑ لینا شاخ سے تجھ کو مرا آئِیں نہیں
یہ نظر غیر از نگاہِ چشمِ صورت بیں نہیں
آہ! یہ دستِ جفا جُو اے گُلِ رنگیں نہیں
کس طرح تجھ کو یہ سمجھاؤں کہ مَیں گُلچیں نہیں
کام مجھ کو دیدۂ حِکمت کے اُلجھیڑوں سے کیا
دیدۂ بُلبل سے مَیں کرتا ہوں نظّارہ ترا
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
آئین | طریقہ کار، قائدہ |
نگاہِ چشمِ صورت بیں | جو چیز ظاہر ہو اس کو دیکھنے والی نظر |
دستِ جفا جو | ظلم کرنے والا ہاتھ |
گُلچیں | پھول توڑنے والا |
دیدۂ حکمت | سائنسی اندازِ فکر یا نظر |
دیدۂ بلبل | عاشقانہ اندازِ نظر جو خوبصورتی کو سراہے |
تشریح:
شاعر پھول کو یہ سمجھاتے ہیں کہ میری نظر ان لوگوں میں سے نہیں جو کسی چیز میں صرف اس کی ظاہری خوبصورتی دیکھتی ہو۔ نہ میری نظر ایسے ظلم ڈھانے والے ہاتھوں میں سے ہے کہ تجھے توڑ لے۔
پھول کا مگر سامنا اتنے زیادہ گُلچیں سے ہوتا ہے کہ شاعر کو اس کو یہ یقین دلانا مشکل ہو رہا ہے کہ وہ پھول توڑنے والوں میں سے نہیں- شاعر مزید کہتا ہے کہ میری نظر کو وہ سائنسی نظر بھی نہ سمجھ جو تیری پتی پتی جدا کر کے تجھے پرکھنے کی خواہش رکھتی ہے یعنی میں کوئی ماہرِ نباتات بھی نہیں ہوں کہ پہلے تجھے شاخ سے جُدا کرُوں، پھر تیری پتیاں الگ الگ کروں، پھر اُن کے ٹکڑے کروں اور دیکھوں کہ تیری پتی کن اجزاء سے مرکب ہے۔
مجھ کو دیدۂ حکمت کے ان بکھیڑوں میں اُلجھ کر کیا لینا دینا، میں تو ایک بُلبُل کی مانند (یعنی ایک عاشق اور حُسن پرست) ہوں اور تیرے حُسن و جمال سے لُطف اندوزی کے لیے تجھ کو شاخ سے توڑنے کی بالکل ضرورت نہیں۔
جیسے بلبل پھول پر اس کا حسب نصب پوچھے بغیر عاشق ہوتی ہے، ایسے ہی میں بھی تیرا نظارہ ایک عاشق کی نظر سے کرتا ہوں۔
تبصرہ:
یعنی انسان جو سراپا سوز و سازِ آرزو ہے، اُس کی آرزو کی تکمیل نہ محض قدرت کی صورت بینی سے ہو سکتی ہے اور نہ اس کو سائنسی طور پر جانچ پرکھ کر۔ دوسرے الفاظ میں، اس کا تعلق نہ انسان کے جمالیاتی شعور سے ہے نہ عقلی شعور سے۔ بلکہ اس آرزو کی حتمی تکمیل عشق کی منازل طے کرنے سے ملے گی۔
مختصراً اگر بیان کیا جائے تو اقبالؔ کے ہاں عشق کائنات کو تسخیر کرنے کا جذبہ ہے۔ عشق کے موضوع پر مزید جاننے کے لیے علامہ اقبال کی نظم علم و عشق کا مطالعہ فرمائیے۔
بند ۳
سَو زبانوں پر بھی خاموشی تجھے منظور ہے
راز وہ کیا ہے ترے سینے میں جو مستور ہے
میری صورت تُو بھی اک برگِ ریاضِ طُور ہے
مَیں چمن سے دُور ہوں، تُو بھی چمن سے دُور ہے
مُطمئن ہے تُو، پریشاں مثلِ بُو رہتا ہوں میں
زخمیِ شمشیرِ ذوقِ جُستجو رہتا ہوں میں
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
مستُور | پوشیدہ، چھُپا ہوا |
برگِ ریاضِ طُور | کوہِ طور کے باغ کی پتی |
طُور | وہ پہاڑ جس پر موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالی کی تجلی دکھائی گئی |
پریشان | بکھرا، بھٹکا ہوا |
زخمیِ شمشیرِ ذوقِ جستجو | جستجو کے ذوق کی تلوار کا زخمی |
تشریح:
اقبالؔ پھول کی پتیوں کو اُس کی زبانیں قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اتنی زبانوں کے باوجود تجھے خاموشی ہی منظور ہے۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ ضرور کوئی تو ایسا راز ہے جو تیرے سینے میں چھپا ہے، جس کو چھپانے کے لیے تو گفتگو پر خاموشی کو ترجیح دیتا ہے۔
اس راز کی طرف ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے، اقبالؔ کہتے ہیں کہ تُو بھی اُسی کوہِ طور کے باغ کی پتی ہے، جس سے میرا تعلق ہے۔ کوہِ طور کا ذکر یہاں اس لیے ہے کہ وہ تجلیِ الہی کا مرکز ہے۔ یعنی پھول اور انسان دونوں کی اصل تو ایسی جگہ ہے جہاں خدا بذاتِ خود موجود ہے، مگر میں بھی اپنے چمن سے دور ہوں اور تُو بھی اپنے چمن سے دور ہے۔ (اس چمن سے چند مشارح نے مراد جنت کا باغ بھی لیا ہے، اور اس سے اشارہ آدم علیہ السلام کے جنت سے اخراج کی طرف سمجھا ہے۔)
لیکن کیا بات ہے کہ (ایک ہی چمن سے ہونے کے باوجود) اے پھول! تُو خوش اور مطمئن نظر آتا ہے، مگر میں (یعنی انسان)، پریشان اور منتشر ہوں۔ مسلسل ایک ایسے بِسمِل کی سی حالت ہے کہ جو تلاش اور جستجو کی تلوار سے زخمی کیا گیا ہو۔ میں ہر دم سچ کی، اور اپنی اصل کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہوں۔
اصل سے دور ہونے کی یہ شکایت مثنویِ معنوی کے اس شعر کی یاد دلاتی ہے:-
؎ هر کسی کو دور ماند از اصلِ خویش
بازجوید روزگارِ وصلِ خویشجو اپنی اصل سے دور ہو جاتا ہے وہ اپنے وصل کا زمانہ تلاش کرتا ہے۔
(حوالہ: مثنوی مولوی معنوی: شنو از نے چون حکایت می کُند)
تبصرہ:
یہاں پھول اور انسان کے درمیان جو فرق واضح کیا گیا ہے۔ وہ شعور کا فرق ہے۔ پھول اور انسان دونوں کو خدا نے تخلیق کیا، فرق یہ ہے کہ انسان میں اپنی روح میں سے پھونکنے سے جو شعور آگیا، تو اسکو اپنی اصل کی تلاش رہتی ہے، اور جب تک اسے وہ حاصل نہ ہو وہ پھول کی طرح مطمئن نہیں ہوسکتا اور مضطرب ہی رہے گا۔
اَلَّـذِىٓ اَحْسَنَ كُلَّ شَىْءٍ خَلَقَهُ ۖ وَبَدَاَ خَلْقَ الْاِنْسَانِ مِنْ طِيْنٍ(۷) ثُـمَّ جَعَلَ نَسْلَـهُ مِنْ سُلَالَـةٍ مِّنْ مَّـآءٍ مَّهِيْنٍ (۸)ثُـمَّ سَوَّاهُ وَنَفَخَ فِيْهِ مِنْ رُّوْحِهٖ ۖ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْئِدَةَ ۚ قَلِيْلًا مَّا تَشْكُـرُوْنَ (۹)
ترجمہ: وہ جس نے جو چیز بنائی خوب بنائی اور انسان کی پیدائش کی ابتدا مٹی کے گارے سے کی پھر اُس کی نسل ایک حقیر پانی کے خلاصے سے چلائی، پھر اُس کو سنوارا، پھر اس میں اپنی روح میں سے پھونکا۔ پھر تم کو عطا کی تمہارے لیے سماعت اور بسارت اور دل۔ تم کیا ہی تھوڑا شکر گزار ہوتے ہو۔
(حوالہ: القرآن- سورۃ سجدہ، ۷-۹)
بند ۴
یہ پریشانی مری سامانِ جمعیّت نہ ہو
یہ جگر سوزی چراغِ خانۂ حکمت نہ ہو
ناتوانی ہی مری سرمایۂ قوّت نہ ہو
رشکِ جامِ جم مرا آئینۂ حیرت نہ ہو
یہ تلاشِ متصّل شمعِ جہاں افروز ہے
تَوسنِ ادراکِ انساں کو خرام آموز ہے
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
سامانِ جمیّعت | دل کے جمعی ہونے کا یعنی اطمنان کا باعث |
جگر سوزی | کوشش و کاوش |
جام جم | کہتے ہیں کہ ایران کے قدیم بادشاہ جمشید کے پاس ایک ایسا پیالہ تھا جس میں جھانک کر وہ ساری دُنیا کے حالات دیکھ لیا کرتا تھا |
چراغِ خانۂ حکمت | عقل اور شعور کا چراغ |
شمعِ جہاں آفروز | دنیا کو روشن کرنے والی شمع |
تلاشِ متصّل | مسلسل تلاش |
توسن | گھوڑا |
توسنِ ادراکِ انساں | عقلِ انسانی کا گھوڑا [انسانی شعور] |
خرام آموز | چلنا سکھانے والا |
تشریح:
پچھلے بند میں اقبالؔ نے انسان کے اپنے اصل کی تلاش میں رہنے کی وجہ بیان کی۔ اس بند میں بیان کرتے ہیں کہ اس کا حصول کیونکر ممکن ہے۔
اقبالؔ فرماتے ہیں کہ اگرچہ پھول کے مقابلے میں انسان کا مقدر بھٹکنا اور پریشان رہنا ہے، لیکن پھر بھی اقبالؔ یہ نہیں چاہتے کہ یہ پریشانی انسان کے لیے سامانِ جمیعت ہو یا اُس کے اطمنان کا باعث بنے۔
یا یہ جگر سوزی فلسفے کے گھر کا چراغ بن جائے۔ یعنی تمام تر کوششوں کا حاصل محض فلسفہ ہی بن کر رہ جائے۔
کہیں ایسا نہ ہو کہ میری ناتوانی میرے لیے قوت کی دولت نہ ثابت ہو (انسان باقی جانوروں کی نسبت جسمانی لحاظ سے تو بہت کمزور ہے) اور میری حیرت مجھے ایسی ڈَگر پر نہ لے جائے جہاں جمشید کا پیالہ میرا آئینہ بن جائے اور میری تمام تر حیرتوں کا جواب مجھے اس میں دیکھنے سے مل جائے اور یوں میرا جستجو کا یہ سفر اختتام کو پہنچ جائے۔ بقول اقبالؔ:-
؎ ہر لحظہ نیا طُور، نئی برقِ تجلّی
اللہ کرے مرحلۂ شوق نہ ہو طے!
(حوالہ: ضربِ کلیم: شاعر)
سچ تو یہ ہے کہ یہی جستجوئے پیہم جو بظاہر مجھے پریشاں رکھتی ہے، اس دُنیا کی ساری دِلفریبی کا باعث ہے۔ اگر یہ جذبہ کارفرما نہ ہوتا تو انسان بھی ابھی تک عالمِ برہنگی میں غاروں کے اندر ہی زندگی بسر کرتا ہوتا۔ اسی جذبۃ تحقیق نے انسان کی قوتِ مدرکہ کو ترقی اور بلندی کی راہ پر گامزن کیا ہے یعنی اسی کی بدولت تہذیبِ انسانی نے موجودہ بلند مرتبہ ترقی کی ہے۔
خلاصہ یہ کہ میرے دِل میں جو تلاشِ متصل ہے، اس کا نتیجہ ایسا ہو جو جہاں کو روشن کر دے۔ نہ کہ جُزوی حقائق تک پہنچ کر مطمئن ہوجائے۔
تبصرہ:
سوال یہ اُٹھتا ہے کہ اقبال کیوں نہیں چاہتے کہ یہ سب انسان کو حاصل ہو۔ جواب یہ ہے کہ ان تمام چیزوں کا حصول مادی (physical) سطح پر موجود ہے۔ اگرچہ ان کا حاصل کرنا کسی طور سے غلط نہیں ہے کیونکہ وہ انسانی تمدن کی ترقی کا مرکز ہیں.
البتہ اقبالؔ کے نزدیک ان کا حصول کسی طور سے حتمی نہیں ہوسکتا اور اس کو محض ایک زینے یا سیڑھی کے طور پر ہی لیا جانا چاہیے۔ ایک ایسا زینہ جو ہمیں فِزِکَل (Physical) سے میٹافزکل (Meta-Physical) کی طرف لے جائے۔ وہی وہ مقام ہے جہاں سے دیدۂ بلبل عطا ہوگا۔
یہ جزوی حقائق انسان کے عقل و شعور کے گھوڑے کے لیے خرام آموز ہیں، اور اُس کو اپنے پہلے قدم لینے میں مدد دیتے ہیں مگر یہ حتمی نتیجہ نہیں جانے جا سکتے۔
اختتامیہ
یہ بات غور طلب ہے کہ یہ نظم اقبالؔ کی فکر کے ابتدائی مراحل کے دور کی ہے، جس میں وہ زیادہ تر انگریزی شعراء کی فطرت کی شاعری کے زیرِ اثر نظر آتے ہیں۔ البتہ یہ بات حیران کن ہے کہ خودی کے پیامبر کا فلسفہِ خودی یہاں بھی موجود اور قائم ہے۔ اپنی تمام تر لطافت کے ساتھ مکمل شکل میں نہیں بلکہ اپنی ابتدائی شکل میں۔
بقول خلیفہ عبد الحکیم:-
(حوالہ: فکرِ اقبالؔ از خلیفہ عبد الحکیم، صفحہ ۴۵)
”اِن نظموں میں زندگی کے ہر پہلو سے متاثر ہونے والا شاعر ملتا ہے۔ اس کی شاعری کے موضوع ابھی محدود نہیں ہوئے لیکن بہت کم نظمیں ایسی ہیں جو فلسفیانہ فکر سے خالی ہوں۔ اقبالؔ کے کلام میں شروع سے توام نظر آتی ہیں۔ لیکن کہیں بھی خالی فلسفہ شعریت پر غالب نہیں آیا۔“