نظم ”گُلِ رنگیں“ از علامہ اقبال
فہرست
تعارف
نظم گُلِ رنگیں کا شمار علامہ اقبال کی ابتدا ئی نظموں میں ہوتا ہے، یہ نظم مئی ۱۹۰۱ء کے رسالہ مخزن میں شائع ہوئی۔ پہلے پہل نظم میں چھ بند تھے، نظرِ ثانی میں دو بند حذف کر دیے گئے۔
خلیفہ عبد الحکیم اپنی کتاب فکرِ اقبالؔ میں، علامہ اقبال کی ابتدائی شاعری پر ان الفاظ میں روشنی ڈالتے ہیں:-
(حوالہ: فکرِ اقبال از خلیفہ عبد الحکیم، صفحہ ۴۳)
”فن کے لحاظ سے شروع ہی سے اس صاحبِ کمال میں پُختگی نظر آتی ہے۔مصلحانہ اور مبالغانہ انداز کی جھلک اس دور میں بھی موجود ہے۔ لیکن ابھی مدھم ہے۔“
پروفیسر حمید اللہ شاہ ہاشمی شرح بانگِ درا میں اس نظم کے حوالے سے یوں رقمطراز ہیں:
علامہ محمد اقبال شاعری کے پہلے دور میں علم و حکمت کے حیرت کدے میں حقائقِ اشیاء کی تلاش میں سرگرداں رہے۔ اُس دور کو ہم ”دورِ تذبذب“ سے تعبیر کر سکتے ہیں‘ یہ دور بہت مختصر ہے۔ جوں جوں وہ علم و عرفاں کے مدارج طے کرتے گئے اُن کی چشمِ بصیرت پر کائنات کے مخفی اسرار منکشف ہوتے گئے۔ اُن کے کلام میں تشکک و تذبذب کے بجائے قطعیّت کا رنگ غالب آتا گیا۔ بالآخر وہ اُس مقام پر پہنچ گئے جہاں گُل کی پتی میں رازِ ہست و بُود کا مشاہدہ ممکن ہے۔ ”گُلِ رنگیں“ دورِ تذبذب کی شاعری کا زندہ نمونہ ہے۔ اس نظم میں اگرچہ شاعر نے حقائق کے چہرے سے پردہ اُٹھایا ہے مگر استفہامیہ اسلوبِ بیان نے قطعیّت کے بجائے تشکک کا رنگ پیدا کر دیا ہے۔
واضح ہو کہ بانگِ درا 18: شمع اور بانگِ درا 36: چاند میں بھی علامہ اقبال نے اِس نظم سے مِلتے جُلتے خیالات پیش فرمائے ہیں۔
نظم ”گُلِ رنگیں“ کی تشریح
بند ۱
حلِ لغات:
| الفاظ | معنی |
|---|---|
| خراشِ عقدۂ مشکل | مشکل مسئلے کی وجہ سے پیدا ہونے والی پریشانی |
| شناسائے خراش عقدۂ مشکل | ایسی کسی پریشانی سے آگاہ ہونا جو مشکل مسئلے سے پیدا ہو |
| زیبِ محفل | محفل کی زینت، خوبصورتی |
| شورشِ محفل | بزم کے ہنگامے |
| مسکن | رہنے کی جگہ |
| بزمِ ہستی | کائنات، دنیا |
| سوز و سازِ آرزو | آرزو ہونے کا رنج و راحت |
| بے گُداز | بلا احساس، بغیر رنج و غم کے |
تُو شناسائے خراشِ عُقدۂ مشکل نہیں
اے گُلِ رنگیں ترے پہلو میں شاید دل نہیں

تشریح:
اے رنگین پھول! تُو زندگی کے مشکل ترین سوالات اور اُنہیں سُلجھانے کے کرب سے ناواقف ہے، کیونکہ یہ کام تو وہی کر سکتا ہے جس کے سینے میں دِل ہو۔تُو تو صرف حُسن و زیبائش کا پیکر ہے، لیکن اُس چُبھن، کھٹک، درد، اور تڑپ سے واقف نہیں، جو کسی مشکل گُتھی کو سُلجھانے کا نتیجہ ہوتی ہے۔ یہ سہرا صرف انسان کے سر ہے، یہی اُس کی اصل فضیلت اور شرفِ انسانیّت ہے۔
دِل سے اشارہ اس شعور (consciousness) کی طرف ہے جو خاص انسان کو عطا ہوا جب اس میں روح پھونکی گئی۔ باقی جاندار اگرچہ زندہ ہیں مگر ان میں ذوقِ آگہی نہیں ہے ، لہذا ذوقِ آگہی کے ساتھ آنے والے تمام تر مسائل اور فکر سے بھی آزاد ہیں۔
پھول کا زیبِ محفل ہونا اور انسان کا شریکِ شورشِ محفل ہونے کے فرق کی بنیاد اس آیت پر رکھی جا سکتی ہے۔
اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ فَاَبَيْنَ اَنْ يَّحْمِلْنَـهَا وَاَشْفَقْنَ مِنْـهَا وَحَـمَلَـهَا الْاِنْسَانُ ۖ اِنَّهُ كَانَ ظَلُوْمًا جَهُوْلًا
ترجمہ: ہم نے اپنی امانت کو آسمانوں پر زمین پراور پہاڑوں پر پیش کیا لیکن سب نے اس کے اٹھانے سے انکار کر دیا اور اس سے ڈر گئے ( مگر ) انسان نے اسےاٹھا لیا ، وہ بڑا ہی ظالم جاہل ہے۔
(حوالہ: القرآن: سورۃ الاحزاب، آیت ۷۲)
نظم شمع میں اقبالؔ آگہی کے متعلق فرماتے ہیں:-
یہ آگہی مری مجھے رکھتی ہے بے قرار
خوابیدہ اس شرر میں ہیں آتش کدے ہزار
یہ امتیازِ رفعت و پستی اسی سے ہے
گُل میں مہک، شراب میں مستی اسی سے ہے
بُستان و بُلبل و گُل و بُو ہے یہ آگہی
اصلِ کشاکشِ من و تُو ہے یہ آگہی
(حوالہ: بانگِ درا: شمع)
اردو اور فارسی ادب میں محبوب کو بھی پھول سے تشبیہ دی جاتی ہے، اس کی وجہ صرف پھول کا حُسن و نزاکت ہی نہیں بلکہ ان دونوں کی اپنے چاہنے والوں سے بے نیازی بھی ہوتی ہے۔ لہذا اس بے نیازی کی وجہ سے وہ ہر غم سے آزاد رہتے ہیں، گویا جیسے اُن کے سینے میں دِل ہی نہ ہو۔
زیبِ محفل ہے، شریکِ شورشِ محفل نہیں
یہ فراغت بزمِ ہستی میں مجھے حاصل نہیں

تشریح:
ہرچند کہ تیرے وجود سے محفل (دُنیا) کی زینت میں اضافہ ہوتا ہے، تاہم عملی سطح پر وہاں جو ہنگامے اور شورشیں برپا ہوتی ہیں اُن میں تُو شرکت نہیں کرتا۔ تُو اپنی رنگینی اور خوشبو سے محفل کو سنوارتا تو ضرور ہے، لیکن تیرا یہ ساکن و جامد انداز انسانی فطرت سے کسی طور مطابقت نہیں رکھتا۔ انسان تو ہر لمحے زندگی کی گوناگوں مشکلات اور مسائل سے دوچار رہتا ہے، کشمکش میں اُلجھا رہتا ہے، اور اسی اضطراب و تگ و دو میں اس کی اصل پہچان پوشیدہ ہے۔
اس چمن میں مَیں سراپا سوز و سازِ آرزو
اور تیری زندگانی بے گدازِ آرزو

تشریح:
اے گُلِ رنگیں! اس دنیا میں جہاں میں اور تُو۔۔ ہم دونوں بود و باش رکھتے ہیں‘ وہاں میری طرح ہر انسان اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے مضطرب اور پریشانیوں سے دوچار رہتا ہے جب کہ تیری زندگی میں تو سِرے سے ایسی خواہش اور مقصد کا کوئی وجود ہی نہیں ہے کہ اس نوع کی خواہش اور تمنا صرف اہلِ دل کو ہی ہوتی ہے۔ تُو تو بس کھِلتا اور مُرجھا جاتا ہے، تیری حیات میں کوئی مقصد، کوئی جدو جہد، کوئی جستجو کارفرما نہیں۔
بند ۲
حلِ لغات:
| الفاظ | معنی |
|---|---|
| آئین | طریقہ کار، قائدہ |
| نگاہِ چشمِ صورت بیں | جو چیز ظاہر ہو اس کو دیکھنے والی نظر |
| دستِ جفا جو | ظلم کرنے والا ہاتھ |
| گُلچیں | پھول توڑنے والا |
| دیدۂ حکمت | سائنسی اندازِ فکر یا نظر |
| دیدۂ بلبل | عاشقانہ اندازِ نظر جو خوبصورتی کو سراہے |
توڑ لینا شاخ سے تجھ کو مرا آئِیں نہیں
یہ نظر غیر از نگاہِ چشمِ صورت بیں نہیں

تشریح:
اے گُلِ رنگیں! تُو مطمئن رہ! تجھے شاخ سے توڑنا میرا شیوہ نہیں، کیونکہ میرا مقصد تیرے حُسن کو برباد کرنا نہیں بلکہ اس کے پیچھے چھُپی حقیقت کو دیکھنا ہے۔ پھول کو توڑنا تو صرف ظاہر پرست (ظاہری شکل و صورت دیکھنے والے) انسان کا کام ہے کہ وہ تجھے توڑ لیتا ہے‘ حالانکہ تجھ پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اُسی سے قدرتِ الہی آشکار ہوتی ہے۔
آہ! یہ دستِ جفا جُو اے گُلِ رنگیں نہیں
کس طرح تجھ کو یہ سمجھاؤں کہ مَیں گُلچیں نہیں

تشریح:
اے رنگین گُل! میرے اس ہاتھ کو ظلم کرنے والا ہاتھ مت سمجھ۔ میرا شیوہ جفا نہیں کہ تجھے شاخ سے توڑ ڈالوں، اور نہ ہی میں کوئی گُلچیں ہوں جو محض تیرے حُسن کا اسیر ہو کر تجھے شاخ سے جُدا کر ڈالوں
کام مجھ کو دیدۂ حِکمت کے اُلجھیڑوں سے کیا
دیدۂ بُلبل سے مَیں کرتا ہوں نظّارہ ترا

تشریح:
مجھے سائنسی علوم کے اُن ماہرین سے بھی کوئی تعلق نہیں جو پھول کو توڑتے ہیں اور یوں اُس کی پتی پتی کو جُدا کرکے اُس کا تجزیہ کرتے ہیں۔ بلکہ میں تو تیرا نظارہ بُلبُل کی طرح عاشق بن کر کرتا ہوں اور تیرے حُسن کی تعریف کرتا ہوں۔ تیرے حُسن و جمال سے لطف اندوزی کے لیے تجھ کو شاخ سے توڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
تبصرہ:
یعنی انسان جو سراپا سوز و سازِ آرزو ہے، اُس کی آرزو کی تکمیل نہ محض قدرت کی صورت بینی سے ہو سکتی ہے اور نہ اس کو سائنسی طور پر جانچ پرکھ کر۔ دوسرے الفاظ میں، اس کا تعلق نہ انسان کے جمالیاتی شعور سے ہے نہ عقلی شعور سے۔ بلکہ اس آرزو کی حتمی تکمیل عشق کی منازل طے کرنے سے ملے گی۔
مختصراً اگر بیان کیا جائے تو اقبالؔ کے ہاں عشق کائنات کو تسخیر کرنے کا جذبہ ہے۔ عشق کے موضوع پر مزید جاننے کے لیے علامہ اقبال کی نظم علم و عشق کا مطالعہ فرمائیے۔
بند ۳
حلِ لغات:
| الفاظ | معنی |
|---|---|
| مستُور | پوشیدہ، چھُپا ہوا |
| برگِ ریاضِ طُور | کوہِ طور کے باغ کی پتی |
| طُور | وہ پہاڑ جس پر موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالی کی تجلی دکھائی گئی |
| پریشان | بکھرا، بھٹکا ہوا |
| زخمیِ شمشیرِ ذوقِ جستجو | جستجو کے ذوق کی تلوار کا زخمی |
سَو زبانوں پر بھی خاموشی تجھے منظور ہے
راز وہ کیا ہے ترے سینے میں جو مستور ہے

تشریح:
اقبالؔ پھول کی پتیوں کو اُس کی زبانیں قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اتنی زبانوں کے باوجود تجھے خاموشی ہی منظور ہے۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ ضرور کوئی تو ایسا راز ہے جو تیرے سینے میں چھُپا ہے، جس کی وجہ سے تُو گفتگو پر خاموشی کو ترجیح دیتا ہے۔
میری صورت تُو بھی اک برگِ ریاضِ طُور ہے
مَیں چمن سے دُور ہوں، تُو بھی چمن سے دُور ہے

تشریح:
اس راز کی طرف ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے اقبالؔ کہتے ہیں کہ تُو بھی اُسی کوہِ طور کے باغ کی پتی ہے، جس سے میرا تعلق ہے۔ کوہِ طور کا ذکر یہاں اس لیے ہے کہ وہ تجلیِ الہی کا مرکز ہے۔ یعنی پھول اور انسان دونوں کی اصل تو ایسی جگہ ہے جہاں خدا بذاتِ خود موجود ہے، مگر میں بھی اپنے چمن سے دور ہوں اور تُو بھی اپنے چمن سے دور ہے۔ (اس چمن سے چند مشارح نے مراد جنت کا باغ بھی لیا ہے، اور اس سے اشارہ آدم علیہ السلام کے جنت سے اخراج کی طرف سمجھا ہے۔)
اصل سے دور ہونے کی یہ شکایت مثنویِ معنوی کے اس شعر کی یاد دلاتی ہے:-
؎ هر کسی کو دور ماند از اصلِ خویش
بازجوید روزگارِ وصلِ خویشجو اپنی اصل سے دور ہو جاتا ہے وہ اپنے وصل کا زمانہ تلاش کرتا ہے۔
(حوالہ: مثنوی مولوی معنوی: شنو از نے چون حکایت می کُند)
مُطمئن ہے تُو، پریشاں مثلِ بُو رہتا ہوں میں
زخمیِ شمشیرِ ذوقِ جُستجو رہتا ہوں میں

لیکن کیا بات ہے کہ (ایک ہی چمن سے ہونے کے باوجود) اے پھول! تُو خوش اور مطمئن نظر آتا ہے، مگر میں (یعنی انسان)، پریشان اور منتشر ہوں۔ مسلسل ایک ایسے بِسمِل کی سی حالت ہے کہ جو تلاش اور جستجو کی تلوار سے زخمی کیا گیا ہو۔ میں ہر دم سچ کی، اور اپنی اصل کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہوں۔ میرے اندر تحقیق و جستجو کا مادہ ہے اور یہ مادہ مجھے ہر وقت آمادۂ تلاش رکھتا ہے۔ واضح ہو کہ تجسس کے ذوق کی بنا پر ہی انسان بے قراری کا شکار رہتا ہے۔ وہ ہر لمحہ نِت نئی تلاش میں لگا رہتا ہے‘ اسی کی بنا پر وہ دنیا میں تبدیلیاں لاتا رہتا ہے۔ اگر اس میں یہ ذوق نہ ہوتا تو یہ کائنات جمود میں ڈوبی رہتی۔
تبصرہ:
یہاں پھول اور انسان کے درمیان جو فرق واضح کیا گیا ہے۔ وہ شعور کا فرق ہے۔ پھول اور انسان دونوں کو خدا نے تخلیق کیا، فرق یہ ہے کہ انسان میں اپنی روح میں سے پھونکنے سے جو شعور آگیا، تو اسکو اپنی اصل کی تلاش رہتی ہے، اور جب تک اسے وہ حاصل نہ ہو وہ پھول کی طرح مطمئن نہیں ہوسکتا اور مضطرب ہی رہے گا۔
اَلَّـذِىٓ اَحْسَنَ كُلَّ شَىْءٍ خَلَقَهُ ۖ وَبَدَاَ خَلْقَ الْاِنْسَانِ مِنْ طِيْنٍ(۷) ثُـمَّ جَعَلَ نَسْلَـهُ مِنْ سُلَالَـةٍ مِّنْ مَّـآءٍ مَّهِيْنٍ (۸)ثُـمَّ سَوَّاهُ وَنَفَخَ فِيْهِ مِنْ رُّوْحِهٖ ۖ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْئِدَةَ ۚ قَلِيْلًا مَّا تَشْكُـرُوْنَ (۹)
ترجمہ: وہ جس نے جو چیز بنائی خوب بنائی اور انسان کی پیدائش کی ابتدا مٹی کے گارے سے کی پھر اُس کی نسل ایک حقیر پانی کے خلاصے سے چلائی، پھر اُس کو سنوارا، پھر اس میں اپنی روح میں سے پھونکا۔ پھر تم کو عطا کی تمہارے لیے سماعت اور بصارت اور دل۔ تم کیا ہی تھوڑا شکر گزار ہوتے ہو۔
(حوالہ: القرآن- سورۃ سجدہ، ۷-۹)
بند ۴
حلِ لغات:
| الفاظ | معنی |
|---|---|
| سامانِ جمیّعت | دل کے جمعی ہونے کا یعنی اطمنان کا باعث |
| جگر سوزی | کوشش و کاوش |
| جام جم | کہتے ہیں کہ ایران کے قدیم بادشاہ جمشید کے پاس ایک ایسا پیالہ تھا جس میں جھانک کر وہ ساری دُنیا کے حالات دیکھ لیا کرتا تھا |
| چراغِ خانۂ حکمت | عقل اور شعور کا چراغ |
| شمعِ جہاں آفروز | دنیا کو روشن کرنے والی شمع |
| تلاشِ متصّل | مسلسل تلاش |
| توسن | گھوڑا |
| توسنِ ادراکِ انساں | عقلِ انسانی کا گھوڑا [انسانی شعور] |
| خرام آموز | چلنا سکھانے والا |
یہ پریشانی مری سامانِ جمعیّت نہ ہو
یہ جگر سوزی چراغِ خانۂ حکمت نہ ہو

تشریح:
پچھلے بند میں اقبالؔ نے انسان کے اپنے اصل کی تلاش میں رہنے کی وجہ بیان کی۔ اس بند میں بیان کرتے ہیں کہ اس کا حصول کیونکر ممکن ہے۔
فرماتے ہیں کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ مَیں، جس کا مقدر پھول کے مقابلے میں بھٹکنا اور پریشان رہنا ہے، یہ میری پریشانی ہی ہے جو میرے لیے اسبابِ اطمینان فراہم کرتی ہے، یہی جدوجہد اور کوشش و کاوِش ہی میری عقل و دانش میں اضافہ کرتی اور اُسے حیات و کائنات کے پیچیدہ مسائل سمجھنے پر اُکساتی ہے۔ تحقیق و تلاش کے سلسلہ میں جس قدر جگر سوزی اور کاوِش مجھے کرنا پڑتی ہے‘ اُس کا صلہ یہ ملتا ہے کہ میرے علم میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ یعنی بظاہر تو میری زندگی سراپا سوز و گداز ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ فطرت نے میرے ساتھ ناانصافی نہیں کی ہے۔
ناتوانی ہی مری سرمایۂ قوّت نہ ہو
رشکِ جامِ جم مرا آئینۂ حیرت نہ ہو

تشریح:
پھر میں جو خود کو کمزور و ناتواں سمجھ رہا ہوں، کہیں ایسا تو نہیں کہ یہی ناتوانی میری قوت کا سرمایہ ہے؟ یعنی بظاہر تو مَیں ناتواں ہوں، نہ شیر کے سے پنجے ہیں، نہ ناخن ہیں۔ لیکن یہی ناتوانی مجھے حفاظت کا سامان مہیّا کرنے پر آمادہ کرتی ہے۔ اور اگرچہ میں حیران رہتا ہوں، لیکن یہی حیرانی مجھے تحقیق پر راغب کرتی ہے، یوں میرے آئینۂ حیرت پر ”جامِ جم“ کو بھی رشک آتا ہے۔ (جامِ جم: جمشید کا پیالہ، کہا جاتا ہے اُس میں ساری دُنیا کا حال نظر آتا تھا۔ جمشیدؔ قدیم ایران کا نامور بادشاہ گذرا ہے۔)
؎ ہر لحظہ نیا طُور، نئی برقِ تجلّی
اللہ کرے مرحلۂ شوق نہ ہو طے!
(حوالہ: ضربِ کلیم: شاعر)
یہ تلاشِ متصّل شمعِ جہاں افروز ہے
تَوسنِ ادراکِ انساں کو خرام آموز ہے

تشریح:
سچ تو یہ ہے کہ یہ جستجوئے پیہم جو بظاہر مجھے پریشان رکھتی ہے‘ اِس دُنیا کی ساری دِل فریبی کا سبب ہے۔ اگر یہ جذبہ کار فرما نہ ہوتا تو انسان ابھی تک عالمِ برہنگی میں غاروں کے اندر ہی زندگی بسر کرتا ہوتا۔ اسی جذبۂ تحقیق نے انسان کی قوتِ مدرکہ کو ترقی اور بلندی کی راہ پر گامزن کیا ہے۔ یعنی اِس کی بدولت تہذیبِ انسانی نے موجودہ بلند مرتبہ تک ترقی کی ہے۔ یہ تلاشِ متصل ہی ہے، جس کی بدولت دنیا میں تمدن کی ترقی ہوتی ہے‘ اسی لیے تلاش کو شمعِ جہاں افروز سے تعبیر کیا ہے۔ تلاش اور تحقیق سے انسان کی قوتِ مدرکہ میں ترقی ہوتی ہے، اِسی کی ترقی سے دنیا ترقی کرتی ہے۔ اگر انسان میں تحقیق اور تلاش کا مادہ نہیں تو آج نہ ریڈیو ہوتا نہ تار، نہ بجلی کی روشنی ہوتی، نہ ریل اور موٹر کار، نہ تہذیب و تمدّن کا نشان ہوتا، نہ ہی علوم و فنون کا چرچا ہوتا۔
اختتامیہ
یہ بات غور طلب ہے کہ یہ نظم اقبالؔ کی فکر کے ابتدائی مراحل کے دور کی ہے، جس میں وہ زیادہ تر انگریزی شعراء کی فطرت کی شاعری کے زیرِ اثر نظر آتے ہیں۔ البتہ یہ بات حیران کن ہے کہ خودی کے پیامبر کا فلسفہِ خودی یہاں بھی موجود اور قائم ہے۔ اپنی تمام تر لطافت کے ساتھ مکمل شکل میں نہیں بلکہ اپنی ابتدائی شکل میں۔
بقول خلیفہ عبد الحکیم:-
(حوالہ: فکرِ اقبالؔ از خلیفہ عبد الحکیم، صفحہ ۴۵)
”اِن نظموں میں زندگی کے ہر پہلو سے متاثر ہونے والا شاعر ملتا ہے۔ اس کی شاعری کے موضوع ابھی محدود نہیں ہوئے لیکن بہت کم نظمیں ایسی ہیں جو فلسفیانہ فکر سے خالی ہوں۔ اقبالؔ کے کلام میں شروع سے توام نظر آتی ہیں۔ لیکن کہیں بھی خالی فلسفہ شعریت پر غالب نہیں آیا۔“
حوالہ جات
- [۱] شرح بانگِ درا از پروفیسر یوسف سلیم چشتی
- [۲] شرح بانگِ درا از ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی
- [۳] مطالبِ بانگِ درا از مولانا غلام رسول مہر
- [۴] آوازِ اقبال – بانگِ درا مع مطالب از نریش کمار شادؔ
- [۵] شرح بانگِ درا ا ڈاکٹر شفیق احمد
- [۶] شرح بانگِ درا از پروفیسر حمید اللہ شاہ ہاشمی
- [۷] شرح بانگِ درا از اسرار زیدی






