نظم ”مقصود“ از علامہ اقبال
فہرست
تعارف
علامہ اقبال کی نظم ”مقصود“ تین اشعار پر مشتمل نظم ہے اور ہر شعر میں ایک فلسفی کے خیالات کا نچوڑ پیش کیا گیا ہے۔
نظم ”مقصود“ کی تشریح
(سپِنوزا)
نظر حیات پہ رکھتا ہے مردِ دانش مند
حیات کیا ہے، حضور و سُرور و نُور و وجود
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
حیات | زندگی |
مردِ دانِش مند | عقل مند آدمی |
حضور | موجودگی، مراد خدا کی حضوری ہونا |
سُرُور | خوشی، کیف، مسرّت |
نور | روشنی، جلوہ، عِشق |
وجود | ذات کی موجودگی، ہونے کی حالت، موجود ہونا، ذات، شخصیت |
تشریح:
پہلے شعر میں اقبالؔ نے یہ بتایا ہے کہ سپِنوزا کی رائے میں انسان کا مقصود یا نصب العین حیات ہے اور حیات کی اعلیٰ ترین صورت ہے خدا کی حضوری حاصل کرنا، پھر اُس کی حضوری سے لُطف و کیف اور حقیقت تک راہنمائی کی روشنی کا حاصل ہونا اور اپنے وجود کو ہستی سمجھنا کہ یہ موجود ہے۔ یہ ہے حیات!
حکیم اسپِنوزاؔ: یہودی الاصل تھا۔ 1632ء میں ہالینڈ (Holland) میں پیدا ہوا۔ اِبتدا میں مذہبی تعلیم حاصل کی لیکن فلسفہ کے مطالعہ کے بعد یہودی مذہب سے برگشتہ ہو گیا۔ چنانچہ 1656ء میں عُلمائے یہود نے اس کو جماعت سے خارج کر دیا۔ انجامِ کار اُس نے ہیگ (The Hague) میں مستقل سکونت اختیار کر لی اور بقیہ عمر اسی شہر میں بسر کر دی۔ وہ عینکوں کے شیشے پالش کر کے اپنی روزی کماتا تھا اور خلوَت میں فلسفیانہ تصانیف میں مشغول رہتا تھا۔ اُس کی تصانیف میں علم الاخلاق (Ethics) سے سے زیادہ مشہور ہوئی۔ اِسی کتاب میں اُس نے اپنا فلسفہ مدوّن کیا ہے جو وحدۃ الوجود پر مبنی ہے۔ 1677ء میں وفات پائی۔ سپینوزا عقلیت پسند تھا۔ اس کے نزدیک خدا اور فطرت کے قوانین ایک ہی چیز ہیں۔
(فلاطُوں)
نگاہ موت پہ رکھتا ہے مردِ دانش مند
حیات ہے شبِ تاریک میں شرر کی نمود
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
نِگاہ | نظر |
مردِ دانِش مند | عقل مند آدمی |
حیات | زندگی |
شبِ تاریک | اندھیری رات |
شرر کی نمُود | چنگاری کا ظاہر ہونا |
تشریح:
افلاطون کہتا ہے کہ ایک دانش مند ہمیشہ موت پر نظر رکھتا ہے کیونکہ حیات کی حقیقت تو بس اتنی ہی ہے جیسے اندھیری رات میں کوئی چنگاری ایک لمحہ کے لیے چمک کر فنا ہو جائے یعنی حیات کوئی مستقل چیز نہیں ہے۔ اس لیے ”حیات“ انسان کا مقصود نہیں ہو سکتی، بلکہ دانشمند وہ ہے جو موت کو مقصود بنائے، کیونکہ موت کے بعد اِنسان اس غیر حقیقی دُنیا سے رہائی پا کر حقیقی دُنیا میں داخل ہو جائے گا۔
افلاطون کے فلسفہ کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ دُنیا جو آنکھوں ستے نظر آتی ہے، غیر حقیقی (unreal) ہے، اسی لیے فانی بھی ہے اور ناقص بھی۔ اصلی یا حقیقی دُنیا نگاہوں سے مخفی ہے اور یہ دُنیا اُسی دُنیا کا ظل یا عکس ہے۔ اس بات کو افلاطون نے ایک غار اور اس میں موجود قیدیوں کی مثال سے سمجھایا ہے:-
افلاطون کے نظریات میں سے ایک اہم نظریہ مثل کا نظریہ (Theory of Forms) ہے۔ اس نظریے کو سمجھانے کے لیے افلاطون نے اپنی کتاب جمہور (The Republic) میں ایک تمثیلی کہانی سے مدد لی ہے۔
ایک غار ہے۔ چند لوگ ہیں جنہیں پیدائش سے لے کر اب تک غار کی اندرونی دیوار کی طرف رخ کر کے باندھا دیا گیا ہے، جبکہ ان کی پشت غار کے دہانے کی طرف ہے۔ ان لوگوں کے لیے غار کے دروازے کی طرف رخ کرنا ممکن نہیں۔ غار کے باہر آگ روشن ہے اور اس آگ کے سامنے سے مختلف قسم کے اجسام گزرتے ہیں جن کے سایے غار کی اندرونی دیوار پرچلتے ہوئے نظرآتے ہیں۔ان کے سامنے سے مختلف شکلوں اور اندازوں کے سایے گزرتے رہتے ہیں۔
غار میں موجود افراد کے مطابق سب کچھ یہی سایے ہیں۔ چونکہ سایوں کے علاوہ انہوں نے دیکھا ہی کچھ نہیں۔لہذا سب حقیقت ان کے نزدیک انہی سایوں میں منحصر ہے۔ ان کے علاوہ اس کائنات میں کسی چیز کا وجود نہیں۔
ایک دن اچانک غار کے اندر سے ایک بندہ اپنی زنجیر توڑنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ اس کے ذہن میں یہ سوال پہلے سے تھا کہ یہ سایے کہاں سے آتے ہیں؟زندگی میں پہلی دفعہ وہ مڑ کر پیچھے دیکھتا ہے۔ غار کے دروازے تک جاتا ہے۔ کچھ متحرک اجسام کو دیکھتا ہے۔ ان اجسام کے پیچھے جلتی آگ کا مشاہدہ کرتا ہے۔ اس کے لیے اس بات پر یقین کرنا انتہائی مشکل ہے۔ آگ کی روشنی دیکھ کر اس کی آنکھیں خیرہ ہوجاتی ہیں۔ متحرک اجسام کی شفافیت اور ان کی روشنی دیکھ کر وہ حیرت میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ اب تک اس نے صرف سایے دیکھے تھے۔ اب جب کہ وہ غار کے باہر کی طرف دیکھنے میں کامیاب ہوا ہے توایسی چیزیں دیکھنے لگا ہے جن کا رنگ ہے۔ جن کی خاص شکلیں ہیں، جن کے کئی ابعاد (dimensions) ہیں۔ چیزیں اب اس کے لیے بہت زیادہ شفاف ہیں۔ وہ چیزیں، وہ حیوانات یا حتی انسان جن کو صرف سایے کی شکل میں دیکھا تھا اب ان کی حقیقت اور خارجی وجود کو دیکھ رہا ہے۔
وہ جلدی سے غار کے اندر آتا ہے اور بلند آواز میں ان سب چیزوں کی کہانی سناتا ہے جنہیں وہ باہر دیکھ کر آیا ہے۔ لیکن غار کے اندر والے افراد اس کی بات قبول کرنے کو تیار نہیں۔ ان کا کہنا ہے جو کچھ ہے یہی سایے ہیں۔ چونکہ انہوں نے آج تک صرف یہی سایے دیکھے ہیں، لہذا ان کے علاوہ کسی بھی اور چیز کا وجود نہیں۔ جب وہ اپنی بات پر ضد کرتا ہے تو غار کے اندر موجود افراد مل کر اس کو مار دیتے ہیں۔ (جیسے یونانیوں نےافلاطون کے استاد سقراط کو مارا تھا۔ سقراط نے بھی اس بندے کی طرح لوگوں کو حقیقت سے آگاہ کرنے کی کوشش کی تھی۔)
افلاطون کے نزدیک یہ دنیا اور اس میں موجود چیزیں بھی سایے کی مانند ہیں۔ ان سایوں کو دیکھ کر فلسفی کا ذہن ان کے حقیقی وجود کی طرف منتقل ہوتا ہے۔ افلاطون کے نزیک وہ دنیا جہاں چیزوں کے حقیقی وجود پائے جاتےہیں وہ عالم مثل (Forms) ہے جبکہ اس دنیا میں جس میں ہم رہ رہے ہیں ان کے صرف سایے موجود ہیں۔
افلاطون کا غار اور دنیا کی حقیقت، تحریر: عباس حسینی صاحب
افلاطون: ملک یونان میں 427 قبلِ مسیح میں پیدا ہوا۔ پہلے مختلف اُستادوں سے فنونِ لطیفہ (شاعری، مصوّری اور موسیقی) اور فلسفہ حاصل کیا اور پھر سقراط کی شاگردی اختیار کی۔399 قبلِ مسیح میں سقراط کی وفات کے بعد مصر اور دیگر ممالک کا سفر کیا۔ اگرچہ وہ بہت بڑا فلسفی اور منطقی تھا، لیکن شاعری اور تصوّف کا بھی ذوق رکھتا تھا۔ 348 قبلِ مسیح میں وفات پائی۔ اُس کی تمام تصانیف ہم تک پہنچی ہیں۔ ان میں سے مکالمات (The Dialogues) اور جمہوریت (The Republic) بہت مشہور ہیں۔
حیات و موت نہیں التفات کے لائق
فقط خودی ہے خودی کی نگاہ کا مقصود
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
حیات | زندگی |
اِلتفات | توجہ، کسی چیز کو اہمیت دینا |
مقصود | اصلی غرض، مقصد |
تشریح:
علامہ اقبال اب اپنا فلسفہ بیان فرماتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انسان کا مقصود نہ زندگی ہے، نہ موت ہے۔۔ بلکہ خودی ہے۔ یعنی اللہ نے انسان کو اس غرض سے پیدا کیا ہے کہ وہ اطاعتِ احکامِ الہی یا اتباعِ شریعت کی بدولت اپنی خودی کی مخفی قوتوں کو بروئے کار لا کر خلافتِ الہیہ کا مستحق بن سکے۔ جو شخص ان مخفی قوتوں کو بروئے کار نہیں لاتا، وہ اپنی تخلیق کی منشاء سے بیگانگی کا ثبوت دیتا ہے۔ پس اُس کی زندگی اور موت یا اُس کا وجود اور عدم دونوں یکساں ہیں۔ اللہ نے انسان کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ اپنے نفس کا تزکیہ کرے، تاکہ فلاح پائے۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے:-
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا
ترجمہ: یقیناً فلاح پا گیا وہ جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کیا
حیات، موت اور خودی کے حوالے سے علامہ اقبال اپنے خطبات میں فرماتے ہیں:-
Life offers a scope for ego-activity, and death is the first test of the synthetic activity of the ego. There are no pleasure-giving and pain-giving acts; there are only ego-sustaining and ego dissolving acts. It is the deed that prepares the ego for dissolution, or disciplines him for a future career. The principle of the ego-sustaining deed is respect for the ego in myself as well as in others. Personal immortality, then, is not ours as of right; it is to be achieved by personal effort. Man is only a candidate for it. Death, if present action has sufficiently fortified the ego against the shock that physical dissolution brings, is only a kind of passage to what the Qur’an describes as Barzakh. The records of Sufistic experience indicate that Barzakh is a state of consciousness characterized by a change in the ego’s attitude towards time and space.
The Reconstruction of Religious Thought in Islam
by Allama Muhammad Iqbal
Lecture No. 4
سیّد نذیر نیازی ”تشکیلِ جدید الہیاتِ اسلامیہ“ میں اس کا اردو ترجمہ درج فرماتے ہیں:-
زندگی وہ فرصت ہے جس میں خودی کو عمل کے لا انتہا مواقع میسّر آتے ہیں اور جس میں موت اس کا پہلا امتحان ہے تا کہ وہ دیکھ سکے کہ اسے اپنے اعمال و افعال کی شیرازہ بندی میں کس حد تک کامیابی ہوئی۔ اعمال کا نتیجہ نہ تو لطف ہے نہ درد۔ اعمال یا تو خودی کو سہارا دیتے ہیں یا اس کی ہلاکت اور تباہی کا سامان پیدا کرتے ہیں۔ لہذا یہ امر کہ خودی فنا ہو جائے گی یا اس کا کوئی مستقبل ہے؛ عمل پر موقوف ہے۔ اس لیے خودی کو برقرار رکھیں گے تو صرف وہ اعمال جن کی بنا اس اصول پر ہے کہ ہم بلا امتیازِ من و تُو خودی کا احترام کریں۔ لہذا بقائے دوام انسان کا حق نہیں۔ اس کے حصول کا دار و مدار ہماری مسلسل جد و جہد پر ہے۔ بالفاظِ دیگر ہم اس کے امیدوار ہیں۔ خودی نے اپنے عمل اور سعی کی بدولت اگر اسی زندگی میں اتنا استحکام پیدا کر لیا ہے کہ موت کے صدمے سے محفوظ رہے، تو اس صورت میں موت کو بھی ایک راستہ ہی تصور کیا جائے گا۔ وہ راستہ جسے قرآن پاک نے برزخ کہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہم باطنی واردات اور مشاہدات سے رجوع کرتے ہیں تو ان سے بھی یہ ظاہر ہوتا ہے کہ برزخ نام ہے شعور کی اس حالت کا جس میں زمان و مکان کے متعلق خودی کے اندر کچھ تغیّر رو نما ہو جاتا ہے۔
تشکیلِ جدید الہیاتِ اسلامیہ از علامہ محمد اقبال: خطبہ نمبر 4 – مترجم: سیّد نذیر نیازی
حوالہ جات
- شرح ضربِ کلیم از پروفیسر یوسف سلیم چشتی
- شرح ضربِ کلیم از اسرار زیدی
- شرح ضربِ کلیم از ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی
بهت اچهى تشريح اور بہت موفىد هے.
نوازش محترم