نظم ”اے پیرِ حرم“ از علامہ اقبال
فہرست
تعارف
نظم اے پیرِ حرم میں علامہ اقبال نے علماء اور صوفیائے اسلام سے خطاب کیا ہے اور اُن کو اُن کا دینی فرض یاد دِلایا ہے۔
نظم ”اے پیرِ حرم“ کی تشریح
اے پِیرِ حرم! رسم و رہِ خانقہی چھوڑ
مقصود سمجھ میری نوائے سَحری کا
حلِ لغات:
الفاظ | معانی |
---|---|
پیرِ حرم | حرم کا پیر، مکہ کا پیر، مراد مسلمانوں کا مذہبی رہنما، عالمِ دین |
خانقہی | خانقاہ میں بیٹھے رہنا، ترکِ دُنیا، رہبانیّت |
مقصود | مطلب، غرض، نوا |
نوائے سحری | صبح سویرے کا نغمہ، آواز، آہ و زاری۔ مراد: شاعری |
تشریح:
علامہ اقبال فرماتے ہیں:-
اے مسلمانوں کے رہنماؤ! (خواہ تمہارا تعلق دین سے ہے یا تصوف سے)، یہ دور تُم سے عمل کا تقاضا کرتا ہے۔ اپنی خانقاہوں اور مسجدوں سے نِکل کر مسلمان قوم کو بیدار کرنے کی تدبیر کرو اور اُن میں عمل کا جذبہ بیدار کرو۔ میں صبح کے وقت اللہ کے حضور اس مقصد کے لیے جو دعائیں اور فریادیں کرتا رہتا ہوں اُن کو سمجھو اور میری شاعری میں مسلمانوں کے لیے جو پیغام ہے، اُسے سمجھو اور اُس پر عمل کرو۔ ”طریقِ خانقاہی“ سے مُراد ہے وہی تن آسانی اور بے عملی، جس نے مسلمانوں کو غلام بنا دیا۔ وہی موت کا ڈر اور جہاد کے تصوّر سے لرزہ بر اندام ہو جانا، جس نے ہمیں ذلیل کر دیا۔ بقول اقبالؔ:-
؎ یہ معاملے ہیں نازک، جو تری رضا ہو تُو کر
کہ مجھے تو خوش نہ آیا یہ طریقِ خانقاہی
(حوالہ: بالِ جبریل)
اللہ رکھے تیرے جوانوں کو سلامت!
دے ان کو سبق خود شکَنی، خود نگَری کا
حلِ لغات:
الفاظ | معانی |
---|---|
خود شِکنی | خود کو توڑنا، تکبر چھوڑنا، اپنی جھوٹی انا سے باہر آنا |
خود نِگری | خود کو دیکھنا۔ مراد: اپنی ذات کی شناخت / معرفت |
تشریح:
اے پیرانِ حرم! تمہاری قوم کے نوجوان بڑے کام کی چیز ہیں۔ اُن میں بڑے جوہر پوشیدہ ہیں۔ اُن پر کام کرنے کی ضرورت ہے، پھر دیکھیے یہی نوجوان نسل جس سے تُم دُور رہتے ہو، اسلام کے لیے کیا کیا اعجازی کام کرتی ہے۔ میری دعا ہے کہ تمہارے یہ نوجوان صدا سلامت رہیں۔ تمہیں چاہیے کہ انہیں قرآن کی تعلیم دو تاکہ یہ اپنے بُتوں کو توڑنا سیکھ جائیں، اپنے عیوب کی اصلاح کر سکیں اور اپنی خودی کی تربیت و حفاظت کر سکیں۔ اِن دو باتوں کے بغیر یہ ترقی نہیں کر سکتے۔
تُو ان کو سِکھا خارا شگافی کے طریقے
مغرب نے سِکھایا انھیں فن شیشہ گری کا
حلِ لغات:
الفاظ | معانی |
---|---|
خارا شِگافی | سخت پتھر توڑنا۔ مراد: سخت جد و جہد اور محنت کرنا |
شیشہ گری | شیشہ بنانا، مراد: ظاہری بناؤ سنگھار، آرام طلب ہونا |
تشریح:
مغربی اقوام نے مسلمان نوجوانوں کو ایک خاص منصوبہ اور سازش کے تحت تعلیمی، تہذیبی اور ثقافتی شراب میں ملا کر مسلم کَش اور اسلام نفوس زہر پِلا دیا ہے اور ان کو شیشے کی طرح نازک یعنی آرام طلب اور عمل سے گریز کرنے والا بنا دیا ہے۔ تم اے مسلمانوں کے رہنماؤ! چاہے تمہارا تعلق جلوَت (شریعت) سے ہے اور چاہے خلوَت (طریقت) سے ہے، ان کو سخت بنا دو، ایسا سخت کہ وہ سخت پتھروں میں بھی سوراخ کر ڈالیں۔ بڑے سے بڑے عمل سے گریز نہ کریں۔ بڑی سے بڑی مہم سر کرنے سے نہ رُکیں اور نہ ڈریں۔ یعنی آپ صاحبان اُنہیں سمجھائیں کہ وہ اپنے اندر مردوں کے صفات پیدا کریں۔ نیز اُنہیں محنت، مشقّت اور جہاد کی طرف مائل کیجیے۔
دِل توڑ گئی ان کا دو صدیوں کی غلامی
دارُو کوئی سوچ ان کی پریشاں نظَری کا
حلِ لغات:
الفاظ | معانی |
---|---|
دِل توڑ گئی | حوصلے کم کر گئی، ہمت ختم کر گئی |
دارُو | دوا، علاج |
پریشاں نظری | پریشاں خیالی |
تشریح:
مسلمانوں نے بارہ سو سال تک مشرق و مغرب پر حکومت کی ہے اور جملہ اقوام کو نور و دانِش اور علم کے زیور سے آراستہ کیا ہے۔ پِچھلے دو سو سال سے مسلم ممالک پر مغربی اقوام کی برتری اور قبضہ ہے۔ انہوں نے مسلمانوں کے برعکس اپنی مفتوح اقوام کو حیوانیّت، بے حیائی اور تہذیب کے پردے میں جہالت سے آشنا کیا ہے۔ جس کے نتیجے میں مسلم نوجوان بھی ان کے اثرات کے زخم کھائے بیٹھے ہیں اور اُن کے افکار و خیالات حرم کے مرکز سے ہٹ کر فرنگی نظریات کے مندِروں میں بھٹک رہے ہیں۔ علامہ مسلمان رہنماؤں کو یہ یقین دِلانا چاہتے ہیں کہ قصور مسلمان نوجوانوں کا نہیں جن سے تُم دُور رہتے ہو، قصور اس دو سو سالہ محکومی کا اور اس دوران مغربی تہذیب کے اثرات کا ہے کہ وہ دِل شِکستہ و پریشان حال ہیں اور اعلی مقاصد سے محروم ہو چُکے ہیں۔ تُم ان سے رابطہ پیدا کرو۔ اُن کو پھر سے مغربی مندر سے نکال کر حرمِ کعبہ سے وابستہ کر دو۔ اُنہیں اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کا پیغام سناؤ اور بتاؤ کہ اگر وہ اللہ کے دین کی مدد کریں گے، تو اللہ اُن کی مدد کرے گا۔
کہہ جاتا ہوں مَیں زورِ جُنوں میں ترے اَسرار
مجھ کو بھی صِلہ دے مری آشُفتہ سری کا!
حلِ لغات:
الفاظ | معانی |
---|---|
زورِ جنوں | عشق کی شدت، شودا کا جوش |
اسرار | سر کی جمع۔ بمعنی بھید / راز کی باتیں |
صِلہ | معاوضہ |
آشفتہ سری | سر میں پریشانی ہونا، دیوانہ پن، مراد عشق |
تشریح:
میں اپنے عشق اور عشق کی دیوانگی میں قوم اور قوم کی حیات و بقا کے راز کہہ جاتا ہوں۔ مجھے بھی اِس عشق و شیفتگی کا صلہ اور انعام عطا ہو۔
اس شعر میں اگر خدا سے خطاب ہو رہا ہے تو اقبالؔ خدا سے صلہ مانگ رہے ہیں۔ اگر پیرِ حرم سے مخاطب ہیں تو اپنی بات کا معاوضہ طلب کر رہے ہیں۔ دونوں صورتیں ہو سکتی ہیں۔ بہرحال اقبالؔ کہہ رہے ہیں کہ میں نے اپنے جوشِ جُنوں میں تیرے چھُپے ہوئے بھید ظاہر کر دیے ہیں۔ میرے اس جنون کا کُچھ تو معاوضہ مِلنا چاہیے اور پیرِ حرم کو یا خدا کو نوجوانوں کی ڈوبی ہوئی کشتی کو پار لگانا چاہیے۔ یہ اگر پار لگ جائے تو میں سمجھوں گا کہ مجھے میری محنت کا، میرے پیغام کا اور میرے عشق کا صِلہ (معاوضہ) مِل گیا۔
حوالہ جات
- شرح ضربِ کلیم از پروفیسر یوسف سلیم چشتی
- شرح ضربِ کلیم از اسرار زیدی
- شرح ضربِ کلیم از ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی
- شرح ضربِ کلیم از عارف بٹالوی