Skip to content
ضربِ کلیم 53: نُکتۂ توحید

ضربِ کلیم 53: نُکتۂ توحید

نظم ”نُکتۂ توحید“ از علامہ اقبال

نظم ”نُکتۂ توحید“ میں علامہ اقبال نے توحید کے فضائل، اور اُس پر عامل ہونے کے نتائج کو بڑے دِلکش انداز میں بیان کِیا ہے۔ اِس نظم میں حقائق نگاری اور شاعری دونوں کا ایک خوشگوار اِمتزاج نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں اِس نظم کا مفہوم تو اپنے لفظوں میں بیان کر سکتا ہوں، لیکن نثر میں اِس کی دِلکشی اور طرزِ ادا کو ظاہر نہیں کر سکتا۔

(شرح ضربِ کلیم از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)

YouTube video

بیاں میں نُکتۂ توحید آ تو سکتا ہے
ترے دماغ میں بُت خانہ ہو تو کیا کہیے

ضربِ کلیم 53: نُکتۂ توحید از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح

حلِ لغات:

الفاظمعنی
نُکتۂ توحیداللہ کے سِوا کسی اور کو معبود نہ ماننے میں کیا بات/راز ہے
بُت خانہلفظی معنی: وہ عبادت گاہ جہاں بت پرستش کے لیے نصب ہوتے ہیں
(نظم ”نُکتۂ توحید“ از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

علامہ فرماتے ہیں کہ نُکتۂ توحید کوئی ایسا پیچیدہ منطقی مسئلہ نہیں ہے کہ میں بیان نہیں کر سکتا، یا تُو سمجھ نہیں سکتا۔ مثلاً اِس بات کو سمجھنے کے لیے نہ منطق درکار ہے نہ فلسفہ نہ کلام کہ اللہ کے سِوا اس کائنات میں نہ کوئی اور معبود ہے نہ فرمانروا، نہ حاکم، نہ آمر، نہ خالق، نہ مالک، نہ رازق، نہ دستگیر، نہ مُشکل کُشا، نہ حاجت روا، اُس کے سِوا کوئی شخص مجھے نفع پہنچا سکتا ہے نہ نُقصان۔ اُسی کے حُکم سے تُو پیدا ہوا ہے، اور اُسی کے حکم سے تُو وفات پائے گا۔ اُس کا کوئی شریک نہیں‘ نہ ذات میں نہ صفات میں، نہ اِختیار و حُکمرانی میں، نہ عبادت میں۔ سب کو اُس کی احتیاج ہے، لیکن اُسے کسی کی احتیاج نہیں، بلکہ وہ ہر قسم کی احتیاج سے پاک ہے اور اِس بات کے سمجھنے میں کوئی دُشواری نہیں ہو سکتی۔

اس عقیدہ کے سمجھنے کے لیے کسی ڈگری یا عملی فضیلت یا فلسفہ دانی کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ حضور سرکارِ دو عالم ﷺ نے جن لوگوں کے سامنے اِس عقیدہ کو پیش کیا تھا وہ نہ کسی مدرسے سے فارغ تھے، اور نہ کسی یونیورسٹی کے گریجویٹ تھے، نہ منطق جانتے تھے نہ فلسفہ سے آگاہ تھے۔ اِس کے باوجود وہ لوگ باآسانی اِس نُکتہ کو سمجھ گئے اور اُنہوں نے اِس کی بدولت دُنیا میں اِنقلاب برپا کر دیا۔ لیکن اے موجودہ زمانہ کے مسلمان! تیرے دِماغ میں تو ایک دو نہیں بلکہ سینکڑوں بُت جاگزیں میں، بالفاظِ دگر تیرا دماغ مجسّم بُت خانہ بنا ہوا ہے۔ مثلاً حُبِّ جاہ کا بُت، حُصولِ زر کا بُت، حصولِ مناصب کا بُت وغیرہ وغیرہ۔ الغرض جب تیرے دماغ کی یہ کیفیّت ہے تو ”نُکتۂ توحید“ نہ میں سمجھا سکتا ہوں اور نہ تُو سمجھ سکتا ہے۔


وہ رمزِ شوق کہ پوشیدہ لا اِلہٰ میں ہے
طریقِ شیخ فقیہانہ ہو تو کیا کہیے

حلِ لغات:

الفاظمعنی
رمزبھید، راز
رمزِ شوقاللہ سے عشق و جذبہ کا راز
پوشیدہچھُپا ہوا
طریقِ شیخمُلّا یا واعظ کا طریقہ/راستہ
فقیہانہفتویٰ دینے والوں کی طرح، عالِمانہ
(نظم ”نُکتۂ توحید“ از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

کلمہ لا الہ الا اللہ میں ”رمزِ شوق“ پوشیدہ ہے یعنی جب مسلمان اِس کلمہ طیّبہ کے مفہوم پر غور کرتا ہے تو اُس پر یہ حقیقت منکشف ہو جاتی ہے کہ چونکہ کائنات میں اللہ کے سِوا کوئی ہستی اِس لائق نہیں کہ اُس کو اپنا معبود یا مسجود بنایا جائے۔ نیز یہ کہ اللہ ہی وہ ذات ہے جو ہر نوع کے عیب، نقصان، نقص، کمزوری، ضعف، بُرائی اور احتیاج سے پاک اور منزّہ ہے۔ اور ہر قسم کے کمالات، محاسن اور خوبیوں اور نیکیوں کا منبع ہے۔ اس لیے اللہ کے سِوا کوئی ہستی اِس قابل نہیں کہ اُسے اپنا مقصود اور مطلوب اور محبوب بنایا جائے، اور جب یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے تو بندہ کے دِل میں اُس سے محبت کا جذبہ پیدا ہو جاتا ہے۔ اِسی جذبہ کو اقبالؔ نے ”رمزِ شوق“ سے تعبیر کِیا ہے۔

لیکن اگر کوئی شخص توحید کے اِس دِلکش پہلو کو نظر انداز کر کے‘ ظاہر پرست فقہاء کی طرح صرف منطقی طور پر خدا کو ایک مان لے اور اُس سے محبّت کا جذبہ اپنے دِل میں پیدا نہ کرے تو وہ اِس ”رمزِ شوق“ کو کیسے سمجھ سکتا ہے؟ اگر ایک شخص اللہ کی محبت اور حقیقت کو صرف ایک خشک فقہی طریقے سے سمجھنے کی کوشش کرتا ہے، یعنی بغیر کسی روحانی جذبے کے، تو اس کا کیا فائدہ؟ شیخ یا فقیہ وہ شخص ہوتا ہے جو دین کی ظاہری تعلیمات کے پیچھے ہوتا ہے، لیکن اگر اس کے اندر حقیقی عشق اور روحانی شوق نہیں، تو اس کے دین کو سمجھنے کا کوئی معنی نہیں۔ مجموعی طور پر اقبالؔ اس اشعار میں یہ بتا رہے ہیں کہ روحانی شوق اور محبت کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے صرف ظاہری علم یا فقہ کافی نہیں ہے، بلکہ اس کے لیے شوق اور عشق درکار ہے۔ ایسا ایمان درکار ہے جو عشق کی حد تک پُختہ ہو۔

مولانا غلام رسول مہر رقم طراز ہیں:


سُرور جو حق و باطِل کی کارزار میں ہے
تُو حرب و ضرب سے بیگانہ ہو تو کیا کہیے

ضربِ کلیم 53: نُکتۂ توحید از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح

حلِ لغات:

الفاظمعنی
سُرُورمستی، مزہ، لُطف
حق و باطِلسچ اور جھوٹ، مراد اسلام اور کُفر
کارزارلڑائی‘ جنگ
حرب و ضربلڑائی اور وار کرنا، جنگ و جِدال
بیگانہناواقِف
(نظم ”نُکتۂ توحید“ از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

سچ یا جھوٹ یا کُفر و اِسلام کی جنگ میں جو لطف اور مزہ ہے اگر تجھے جنگ کے ساز و سامان کے طریقہ کار کا ہی علم نہ ہو تو ہم کیا کہیں۔

جب ایک مومن جذبۂ عشقِ اِلہی سے سرشار ہوکر، میدانِ جنگ میں اللہ کے نام کو بلند کرنے کے لیے اور کُفر کو مِٹانے کے لیے جہاد کرتا ہے تو اُس کو اِس فعل میں ایسی لذّت حاصل ہوتی ہے کہ تمام دُنیا کی لذّتیں اُس کے سامنے ہیچ ہیں۔ لیکن اگر کسی شخص میں جہاد فی سبیل اللہ کا جذبہ ہی موجود نہ ہو، یعنی اللہ اور اُس کے رسول ﷺ سے محبت ہی نہ ہو تو وہ اِس لذت کا احساس کیسے کر سکتا ہے اور وہ اس سرور کی کیا قدر کر سکتا ہے؟


جہاں میں بندۂ حُر کے مشاہدات ہیں کیا
تِری نگاہ غلامانہ ہو تو کیا کہیے

حلِ لغات:

الفاظمعنی
بندۂ حُرآزاد اِنسان (حُرّیت: خود مختاری، آزادی)
مشاہداتمشاہدہ کی جمع۔ کسی شے کو دیکھنا، معائنہ کرنا، غور و خوض کرنا
(نظم ”نُکتۂ توحید“ از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

جو شخص اللہ کی محبّت میں فنا ہو کر حقیقی حُرّیت کے مقام پر سرفراز ہو جاتا ہے، وہ اِس کائنات کی بڑی سے بڑی طاقت کو خاطر میں نہیں لاتا اور دُنیا کے بڑے بڑے سلاطین کو اپنے سامنے ہیچ سمجھتا ہے۔ بلکہ وہ یہ مشاہدہ کرتا ہے کہ اللہ کے سِوا مجھ پر کوئی حکمرانی کے لائق نہیں اور یہ ساری کائنات میری خادم ہے۔ لیکن جو شخص اپنے ہی جیسے اِنسانوں کا غلام ہو، اور اُن کے سامنے سرِ تسلیم خم کرتا ہو، وہ بندۂ حُر کے مشاہدات سے کیسے بہرہ اندوز ہو سکتا ہے؟ بقول علامہ:-


مقامِ فقر ہے کتنا بلند شاہی سے
روِش کسی کی گدایانہ ہو تو کیا کہیے!

ضربِ کلیم 53: نُکتۂ توحید از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح

حلِ لغات:

الفاظمعنی
فقردرویشی
شاہیبادشاہی
روِشطور طریقہ
گدایانہبھکاریوں کی طرح
(نظم ”نُکتۂ توحید“ از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

مقامِ فقر، حقیقت میں شاہی سے کہیں زیادہ بلند اور عظمت کا حامل ہے۔ فقر کا وارث، دراصل خلیفۃ اللہ علی الارض ہوتا ہے، جو اللہ کی نمائندگی کرتا ہے اور اس کا مقام ایسی بلندی پر ہوتا ہے کہ دُنیا کے تمام حکمران اس کے سامنے لرزہ براندام ہو جاتے ہیں۔

مقامِ فقر، حقیقت میں شاہی سے کہیں زیادہ بلند اور عظمت کا حامل ہے۔ فقر کا وارث، دراصل خلیفۃ اللہ علی الارض ہوتا ہے، جو اللہ کی نمائندگی کرتا ہے اور اس کا مقام ایسی بلندی پر ہوتا ہے کہ دُنیا کے تمام حکمران اس کے سامنے لرزہ براندام ہو جاتے ہیں۔ اس کے برعکس، دُنیاوی بادشاہ، اگرچہ طاقت اور اقتدار کا حامل ہوتا ہے، مگر یہ طاقت عارضی اور محدود ہوتی ہے۔ ایسا حکمران اکثر اپنی طاقت کے نشے میں آ کر انسانی اقدار سے غافل رہتا ہے، اور اُس کی قدرت اور اثر کا دائرہ محض دنیوی ہوتا ہے۔ دوسری جانب، فقر کا وارث اپنی بے نیازی، انکساری، اور اللہ کے ساتھ اپنے تعلق کے ذریعے ہمیشہ ایک بلند و بالا مقام پر فائز رہتا ہے۔ وہ اپنی روحانی عظمت اور اللہ کی رضا کے راستے پر گامزن رہ کر لوگوں میں مقبول ہو جاتا ہے، کیونکہ وہ صرف اللہ کو حاجت روا مانتا ہے اور اس کا دل دنیا کی فریب کاریوں سے آزاد ہوتا ہے۔ اس کی شخصیت میں ایسی کشش ہوتی ہے جو دوسروں کو بھی اللہ کے قریب لے آتی ہے، اور اس کی سادگی و عجز میں ہی ایک عظمت پنہاں ہوتی ہے جو دُنیاوی حکمرانوں کی شان و شوکت سے کہیں بڑھ کر ہوتی ہے۔ علامہ فرماتے ہیں:

اب اگر کسی شخص کی طرزِ حیات گدایانہ ہو، یعنی وہ دوسروں کے سامنے دستِ سوال دراز کرتا ہو اور اُنہیں حاجت روا سمجھتا ہو، تو اُس کے فقر اور اُس کی خودی بارے میں کیا خیال کیا جا سکتا ہے؟ ایسی حالت میں وہ نہ صرف مقامِ فقر کی حقیقت سے بیگانہ ہوتا ہے، بلکہ فقر کی عظمت کا بھی کوئی ادراک نہیں کر سکتا۔

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments