نظم ”پیام“ از علامہ اقبال
فہرست
تعارف
نظ پیام مخزن (فروری 1906ء) میں ”پیغامِ راز” کے عنوان سے شائع ہوئی تھی۔ اُس وقت اِس میں 12 شعر تھے۔ بانگِ درا میں شامل کرتے وقت علامہ اقبال نے اس کے پانچ اشعار خارج کر دیے، جبکہ بقیہ سات میں اصلاح کی گئی۔ نظم کی اشاعت کے وقت شیخ عبدالقادر (مدیرِ مخزن) نے اس پر درج ذیل نوٹ لِکھا:-
![](https://res.cloudinary.com/du0wkv3ku/images/w_451,h_985,c_scale/f_webp,q_auto:eco/v1735035600/Screenshot-2024-12-24-151928/Screenshot-2024-12-24-151928.webp?_i=AA)
”شیخ محمد اقبال جب سے کیمبرج (Cambridge) یونیورسٹی کے ٹرِنِٹی کالج (Trinity College) پہنچے ہیں، اپنے نئے مشاغلِ علمی میں بے حد مصروف ہو گئے ہیں۔ نظم کے حصے کا وقت نذرِ جستجو ہو رہا ہے اور کتب خانوں کی ورق گردانی باقی سب شوقوں پر غالب ہے۔ اِن دنوں اُنہیں لکھنے کی تحریک کرتے ہوئے بھی تامّل ہوتا ہے۔ خدا بھلا کرے شیخ نذر محمد صاحب بی-اے (اسسٹنٹ انسپکٹر مدراس حلقۂ دہلی) کا کہ اُن کے ایک خط نے ذیل کے اشعار لِکھوا لیے۔ یہ گویا اُن کے خط کا جواب ہے۔ معلوم نہیں اُنہوں نے خط میں کیا لِکھا تھا جس کے جواب میں یہ رنگین شعر نکلے ہیں۔ اِس وقت ہم رازدار نہیں محض پیامبر ہیں، ہاں اتنا جانتے ہیں:-
؏ یہی اشعار زبانوں پہ ہیں رہنے والے
(مخزن، بابت فروری 1906ء)
نظم ”پیام“ کی تشریح
عشق نے کر دیا تجھے ذوقِ تپش سے آشنا
بزم کو مثلِ شمعِ بزم حاصلِ سوز و ساز دے
![نظم پیام از علامہ اقبال - حلِ لغات اور تشریح کے ساتھ](https://res.cloudinary.com/du0wkv3ku/images/w_1024,h_576,c_scale/f_webp,q_auto:eco/v1735035463/1_16614dcacd/1_16614dcacd.webp?_i=AA)
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
ذوقَ تپش | تڑپنے کی لذت یعنی اضطرابِ مُسلسل جو عشق کا ثمرہ یا نتیجہ ہ |
بزم | محفل۔ بزم سے دُنیا یا دُنیا والے مُراد ہیں |
شمعِ بزم | وہ شمع جو محفل میں جلتی ہے |
حاصلِ سوز و ساز | سوز و ساز کا نتیجہ |
تشریح:
اے مخاطب! اگر عشقِ حقیقی تیرے اندر سوز و گداز کا رنگ پیدا کر دے تو تیرا فرض ہے کہ جیسے شمع، اہلِ محفل کو اپنے سوز و گُداز (جلنے) سے فائدہ (روشنی) پہنچاتی ہے، اُسی طرح تُو بھی اپنی محفل (دُنیا والوں) کو اپنے سوز و گُداز (ہمدردی) سے فائدہ پہنچائے یعنی عشقِ حقیقی انسان کے اندر بنی آدم کے ساتھ حُسنِ سلوک اور ہمدردی کا جذبہ پیدا کر دیتا ہے۔ واضح ہو کہ ”حاصلِ سوز و ساز“ بہت بلیغ ترکیب ہے اور اس سے وہ لطیف اور پاکیزہ جذبات مراد ہیں جو عاشقانہ زندگی کی بدولت حاصل ہوتے ہیں یا وہ روحانی فوائد جو عشق کا لازمی نتیجہ ہیں۔
شانِ کرم پہ ہے مدار عشقِ گرہ کشاے کا
دَیر و حرم کی قید کیا! جس کو وہ بے نیاز دے
![](https://res.cloudinary.com/du0wkv3ku/images/w_1024,h_576,c_scale/f_webp,q_auto:eco/v1735035529/2_1661584ed0/2_1661584ed0.webp?_i=AA)
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
شانِ کرم | اللہ تعالیٰ کا فضل مراد ہے |
مدار | اِنحصار |
عشقِ گرہ کُشائے | مُشکلات کا حل کرنے والا عشق، گانٹھیں کھولنے والا عشق |
دَیر و حرم | (کعبہ و بُت خانہ) مُراد مختلف مذاہب |
قید | پابندی |
تشریح:
عشقِ گرہ کشائے (مشکلات کی گُتھیوں کو سُلجھانے والا عشق) کا دار و مدار کسی خاص مقام یا ظاہری خصوصیت پر نہیں ہے بلکہ فضلِ الہی پر ہے یعنی اگر خدا کا فضل شاملِ حال ہو جائے تو کافر اور سیہ کار بھی نعمتِ عشق سے مالامال ہو سکتا ہے۔ بالفاظِ دِگر خدا‘ مسجد یا مندر میں محدود نہیں ہے اور نہ اس کا فضل کسی خاص فرد سے وابستہ ہے۔
؎ شہیدِ محبت نہ کافر نہ غازی
محبت کی رسمیں نہ ترکی نہ تازی
(بالِ جبریل: محبت)
عشقِ حقیقی کی خاصیت یہ ہے کہ وہ تمام گِرہوں (دُشواریوں) کو کھول دیتا (حل کر دیتا) ہے اور تمام خرابیوں کا ازالہ کر دیتا ہے۔ جب بندہ اللہ سے ملنا چاہتا ہے تو اُس کی راہ میں دُشواریاں آتی ہیں لیکن عشق اُن کو دُور کر دیتا ہے اور بندہ اللہ سے واصل ہو جاتا ہے۔ وہ دُشواریاں جیسا کہ میں (پروفیسر یوسف سلیم چشتی) لکھ چُکا ہوں، پانچ ہیں: شہوتؔ، غضبؔ، فریفتگیؔ، حرصؔ اور تکبّرؔ۔
صورتِ شمع نُور کی مِلتی نہیں قبا اُسے
جس کو خدا نہ دہر میں گریۂ جاں گداز دے
![نظم پیام از علامہ اقبال - حلِ لغات اور تشریح کے ساتھ](https://res.cloudinary.com/du0wkv3ku/images/w_1024,h_576,c_scale/f_webp,q_auto:eco/v1735035473/3_1661639959/3_1661639959.webp?_i=AA)
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
صورتِ شمع | شمع کی مانند |
قبا | لباس |
دہر | دُنیا |
گریۂ جاں گُداز | دِل کو پگھلا دینے والا گِریہ و زاری |
تشریح:
سوز و گداز کے بغیر انسان کے اندر نورانیت یا روحانیت پیدا نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ دیکھ لو، شمع نے پہلے اپنے اندر سوز و گداز کا رنگ پیدا کیا تو قدرت نے اُسے نور کی قبا (نورانی زندگی) عطا کی۔ یعنی جو لوگ دوسروں کے غم میں روتے اور اپنی جان پر دُکھ سہتے ہیں، وہی بارگاہِ ایزدی سے نورانی قبا پاتے ہیں۔ شمع کی نورانی قبا یعنی اُس کی روشنی سوزو گُداز ہی کا نتیجہ ہوتی ہے۔ جو لوگ دُنیا کے لیے روشنی اور رہنمائی کا ذریعہ بننا چاہیں، لازم ہے کہ جاں گُداز گریہ و زاری میں مشغول رہیں۔
؎ در غمِ دیگر بسوز و دیگراں را ہم بسوز
گفتمت روشن حدیثے گر توانی دار گوش
اب قوم کے غم میں اپنے آپ کو گھُلا دو‘ اور دوسروں کو بھی گھُلا دو یعنی خود قوم کو بیدار کرو اور دوسروں کو بھی اسی کام کی ترغیب دو۔ میں نے تم سے ایک قیمتی بات کہہ دی ہے، اگر تم میں صلاحیت ہے تو اس کو سُنو، سمجھو اور اِس پر عمل کرو۔
(بانگِ درا: شمع اور شاعر)
اس لیے اے مخاطب! جب تُو اشیائے کائنات کو دیکھے تو اُن میں اِمتیاز مت کر کہ یہ پھول ہے اور یہ کانٹا ہے۔ پھول میں بھی وہی پوشیدہ ہے اور کانٹے میں بھی اُسی کا جلوہ ہے۔ اِس شعر میں وحدۃالوجود کا رنگ پایا جاتا ہے۔
تارے میں وہ، قمر میں وہ، جلوہ گہِ سحَر میں وہ
چشمِ نظارہ میں نہ تُو سُرمۂ امتیاز دے
![](https://res.cloudinary.com/du0wkv3ku/images/w_1024,h_576,c_scale/f_webp,q_auto:eco/v1735035518/4_16617d6fae/4_16617d6fae.webp?_i=AA)
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
قمر | چاند |
جلوہ گہِ سحر | صبح کا جلوہ ظاہر ہونے کی جگہ |
چشمِ نظارہ | دیکھنے والی آنکھ |
سُرمۂ اِمتیاز | فرق قائم کرنے والا سُرمہ |
تشریح:
اے انسان! وہ ذاتِ کریم ستاروں میں، چاند اور سورج میں، صبح کی جلوہ گاہ میں، نیز اس کائنات کی ہر شے میں اُسی کا جلوہ پوشیدہ ہے اور ہر جگہ اُسی کی صفات کا ظہور ہو رہا ہے۔ اس لیے تُو اپنی آنکھ میں اِمتیاز (فرق کرنا) کا سُرمہ مت لگا۔ اس کا دوسرا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ جب اُس ذات کا جلوہ کائنات کی ہر شے میں نمایاں ہے، تو اللہ تعالی کی تمام مخلوقات سے محبت کرنی چاہیے اور کسی میں فرق نہیں کرنا چاہیے۔
؎ صحرا و دشت و در میں، کُہسار میں وہی ہے
انساں کے دل میں، تیرے رُخسار میں وہی ہے
(بانگِ درا: چاند)
عشق بلند بال ہے رسم و رہِ نیاز سے
حُسن ہے مستِ ناز اگر تُو بھی جوابِ ناز دے
![](https://res.cloudinary.com/du0wkv3ku/images/w_1024,h_576,c_scale/f_webp,q_auto:eco/v1735035507/5_166180f1d1/5_166180f1d1.webp?_i=AA)
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
بلند بال | بلند مرتبہ، اونچا اُڑنے والا |
رسم و رہِ نیاز | عاجزی کا طور طریقہ |
تشریح:
اقبالؔ کی رائے میں عشقؔ کا تقاضا یہ نہیں کہ عاشق اپنی خودداری کو بالائے طاق رکھ دے۔ اگر حُسن مستِ ناز ہے یعنی عاشق سے تغافل کرتا ہے تو عاشقوں کو بھی خودداری سے کام لینا چاہیے۔واضح ہو کہ عشق عاجزی اور انکساری کے دستور سے بہت بالا ہے اور وہ اس انداز کو کبھی اختیار نہیں کرتا۔ اس لیے اگر حُسن اپنے ناز و ادا میں مست و سرشار نظر آتا ہے تو عاشق کو بھی جھکنے اور خاکساری کی بجائے اسی انداز سے جواب دینا چاہیے۔ یہی مراد ہو سکتی ہے کہ تُو (عاشق) ایسے جذبوں سے سرشار ہو جا کہ محبوبِ حقیقی خودبخود تیری طرف توجہ فرمائے۔
پیرِ مغاں! فرنگ کی مے کا نشاط ہے اثر
اس میں وہ کیفِ غم نہیں، مجھ کو تو خانہ ساز دے
![](https://res.cloudinary.com/du0wkv3ku/images/w_1024,h_576,c_scale/f_webp,q_auto:eco/v1735035487/6_16619ad643/6_16619ad643.webp?_i=AA)
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
پیرِ مغاں | آتش پرستوں کا پیشوا، شراب بیچنے والا |
مئے | شراب |
فرنگ کی مئے | مراد مغرب کی مادی تعلیم و تربیت |
نشاط | خؤشی، مسرت، شادمانی |
کیفِ غم | غم کی کیفیّت |
خانہ ساز | گھریلو، گھر کی بنی ہوئی شراب۔ مراد اسلامی معاشرت اور علوم |
تشریح:
اے مسلمانوں کے لیڈر! انگریزی تعلیم اور مغربی تہذیب مسلمانوں کے لیے کبھی مفید نہیں ہو سکتی۔ مغربی تعلیم و تربیت کا نتیجہ ”نشاط“ (مادی فارغ البالی) کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ حالانکہ مسلمان کے لیے جو چیز ضروری ہے وہ ”کیفِ غم“ یعنی عشقِ رسول ﷺ ہے۔ اس لیے اے رہنما! تُو مسلمانوں کو خانہ ساز شراب پِلا یعنی اسلامی تعلیمات سے روشناس کر اور اُن کے دِلوں میں عشقِ رسول ﷺ پیدا کر۔
اقبالؔ نے انگلستان پہنچ کر فرنگستانی تہذیب کا قریب سے مطالعہ کرتے ہی جو خاص اثرات قبول کیے، اِس شعر میں اُن کی پہلی جھلک نظر آتی ہے۔ پھر یہ اثرات اِتنے گہرے اور وسیع ہو گئے کہ فرنگستانی تہذیب سے دُور رہنے کی دعوت کلامِ اقبالؔ کے کلام کا ایک خاص جزو بن گئی۔ نظم ”شمع اور شاعر“ میں فرماتے ہیں:-
؎ پھر یہ غوغا ہے کہ لا ساقی شرابِ خانہ ساز
دِل کے ہنگامے مئے مغرب نے کر ڈالے خموش
(بانگِ درا: شمع اور شاعر)
نِشاط: یہ بہت بلیغ لفظ ہے جو اقبالؔ نے اس مصرع میں اپنے مفہوم کو ادا کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ لفظی معنی تو یہ ہوئے کہ فرنگ کی شراب سے نشاط (مسرت) حاصل ہوتی ہے لیکن شاعر کا مطلب یہ ہے کہ مغربی تہذیب اور مغربی تعلیم سے انسان دولت یا ثروت یا عہدہ حاصل کر سکتا ہے اور اس مادی ترقی سے اُسے سطحی قسم کی مادی مسرت حاصل ہو سکتی ہے لیکن اس میں ”کیفِ غم“ نہیں ہے یعنی مغربی تہذیب سے دِل میں عشقِ الہی کی آگ روشن نہیں ہو سکتی۔
تجھ کو خبر نہیں ہے کیا! بزم کُہن بدل گئی
اب نہ خدا کے واسطے ان کو مئے مجاز دے
![نظم پیام از علامہ اقبال - حلِ لغات اور تشریح کے ساتھ](https://res.cloudinary.com/du0wkv3ku/images/w_1024,h_576,c_scale/f_webp,q_auto:eco/v1735035494/7/7.webp?_i=AA)
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
بزمِ کُہن | پُرانی مجلس |
مئے مجاز | وپ شراب جو حقیقی نہ ہو۔ بناوٹی شراب |
تشریح:
اے رہنمائے قوم! کیا تجھ کو خبر نہیں کہ زمانہ بدل گیا ہے۔ مسلمانوں کی زندگی میں ایک عظیم الشان انقلاب رونما ہو چُکا ہے۔ وہ جس ملک میں صدیوں تک حاکم رہے، اب اُسی مُلک میں محکوم ہیں۔ اس لیے اب اُن کو مجاز کی شراب مت پِلا یعنی مجازی دُنیا سے نکال کر حقیقی دُنیا میں لا اور زندگی کے حقائق سے روشناس کر۔ بالفاظِ دِگر اُنہیں یہ بتا کہ:-
؎ خدا نے آج تک اُس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
(مولانا ظفر علی خان)
افسوس صد افسوس کہ ہندوستان اور پاکستان کے مسلمانوں نے ابھی تک حقائقِ حیات سے آگاہی نہیں حاصل کی۔ وہ بدستور خوابِ غفلت میں گرفتار کرشمۂ قدرت کے اُمیدوار ہیں حالانکہ قدرت (اللہ) صرف اُن کی مدد کرتی ہے جو اپنے آپ کو امداد کا مستحق ثابت کرتے ہیں۔
مئے مجاز: واضح ہو کہ اقبالؔ کے یہاں یہ تین ترکیبیں بہت مستعمل ہیں۔ حقیقت و مجاز، سوز و گُداز اور ناز و نیاز۔ مجاز حقیقت کی ضِد ہے۔ مثلاً شیر کے حقیقی معنی ایک خونخوار درِندہ کے ہیں لیکن مجازی طور پر بہادر آدمی کو بھی ”شیر“ کہہ دیتے ہیں۔ مطلب اقبالؔ کا یہ ہے کہ مسلمانوں کے رہنماؤں کو لازم ہے کہ اب قوم کو حقیقت سے روشناس کریں۔ ”مجاز“ کی وادی میں تو وہ مُدّتِ دراز تک سرگرداں رہ چُکی ہے۔ مثلاً جب ہم دیوانِ حافظؔ میں شراب اور شاہد کا ذکر پڑھتے ہیں تو استاد بچوں یا طلباء سے کہہ دیتا ہے کہ یہاں شراب اور شاہد کے لغوی معنی مراد نہیں ہیں۔ بالفاظِ دِگر ہم مجازی معنی لیتے ہیں۔ (بقول پروفیسر یوسف سلیم چشتی) اقبالؔ کہتے ہیں کہ اب قوم کو دیوانِ حافظ اور اس قسم کی کتابوں کی بجائے قرآن اور حدیث کا مطالعہ کرنا چاہیے۔
تبصرہ
یہ نظم بہت غور طلب نظم ہے کیونکہ ایک تو اِس میں خیالات بہت بلند ہیں، دوسرا یہ کہ اس سے اقبالؔ کے اُس ذہنی انقلاب کا علم حاصل ہو سکتا ہے جو یورپ جا کر اُن کے اندر پیدا ہوا۔ یعنی یہ پہلی نظم ہے جس میں اُنہوں نے ”پیغام گو“ کی حیثیت اختیار کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نظم کا عنوان ”پیام“ ہے۔ ضربِ کلیم میں یہی پیام کی مَے ہے جو چہار آتِشہ ہو گئی ہے۔ دوسری خصوصیت اِس نظم کی یہ ہے کہ اِس میں وحدۃالوجود کا رنگ پایا جاتا ہے، جو اِبتدا ہی سے اقبالؔ کے دِل و دماغ پر چھایا ہوا تھا۔
(شرح بانگِ درا از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)
حوالہ جات
- شرح بانگِ درا از پروفیسر یوسف سلیم چشتی
- شرح بانگِ درا از ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی
- شرح بانگِ درا ا ڈاکٹر شفیق احمد
- شرح بانگِ درا از پروفیسر حمید اللہ شاہ ہاشمی
- مطالبِ بانگِ درا از مولانا غلام رسول مہر