نظم ”فقر و راہبی“ از علامہ اقبال
فہرست
تعارف
نظم ”فقر و راہبی“ میں علامہ اقبال نے فقر اور رہبانیّت (ترکِ دُنیا) کا فرق واضح فرمایا ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ فقر ایک اسلامی اصول ہے اور رہبانیّت اور غیر اسلامی اصول ہے۔
نظم ”فقر و راہبی“ کی تشریح
کچھ اور چیز ہے شاید تری مسلمانی
تری نگاہ میں ہے ایک، فقر و رُہبانی
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
فقر | لغوی معنےٰ تنگ دست، لیکن اصطلاح میں وہ جو مسلمان کو محبوبِ حقیقی سے مِلا کر دُنیا کی ہر شے سے بے نیاز کر دیتا ہے |
رُہبانی | دُنیا کو ترک کرنا |
تشریح:
اے مخاطب! اگر تُو فقر اور رپبانیّت (ترکِ دُنیا) کو ایک ہی بات سمجھتا ہے اور عیسائیوں کے پادریوں اور ہندوؤں کے جوگیوں یوگیوں کی طرح مسلمان فقیر کو بھی یہی سمجھتا ہے کہ وہ تارک الدنیا (دُنیا ترک کرنے والا) ہے، تو پھر تُو مسلماں نہیں ہے، بلکہ کسی اور مذہب کا پیرو ہے کیونکہ اسلامی تعلیمات کی رو سے فقر اور رہبانیّت ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ رہبانیّت یعنی ترکِ دُنیا کو اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ سلسلہ ابتدائی دور کے عیسائیوں نے شروع کیا اور قرآن مجید کی سورۃ الحدید (آیت نمبر 27) میں صاف صاف واضح کر دیا کہ ترکِ دُنیا عیسائیوں کی اپنی نکالی ہوئی بات ہے لہذا اسے اسلامی فقر اور درویشی کا ہم معنی قرار دینا سراسر غلط اور اسلامی تعلیم کے خلاف ہے۔
ثُـمَّ قَفَّيْنَا عَلٰٓى اٰثَارِهِـمْ بِـرُسُلِنَا وَقَفَّيْنَا بِعِيْسَى ابْنِ مَرْيَـمَ وَاٰتَيْنَاهُ الْاِنْجِيْلَۙ وَجَعَلْنَا فِىْ قُلُوْبِ الَّـذِيْنَ اتَّبَعُوْهُ رَاْفَـةً وَّّرَحْـمَةً ؕ وَّرَهْبَانِيَّةً ِۨ ابْتَدَعُوْهَا مَا كَتَبْنَاهَا عَلَيْـهِـمْ اِلَّا ابْتِغَآءَ رِضْوَانِ اللّـٰهِ فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَايَتِـهَا ۖ فَاٰتَيْنَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا مِنْـهُـمْ اَجْرَهُـمْ ۖ وَكَثِيْـرٌ مِّنْـهُـمْ فَاسِقُوْنَ
پھر اس کے بعد ہم نے اپنے اور رسول بھیجے اور عیسٰی ابن مریم کو بعد میں بھیجا اور اسے ہم نے انجیل دی، اور اس کے ماننے والوں کے دلوں میں ہم نے نرمی اور مہربانی رکھ دی، اور ترک دنیا جو انہوں نے خود ایجاد کی ہم نے وہ ان پرفرض نہیں کی تھی مگر انہوں نے رضائے الٰہی حاصل کرنے کے لیے ایسا کیا پس اسے نباہ نہ سکے جیسے نباہنا چاہیے تھا، تو ہم نے انہیں جو ان میں سے ایمان لائے ان کا اجر دے دیا، اور بہت سے تو ان میں بدکار ہی ہیں۔
(القرآن: سورۃ الحدید: آیت نمبر 27)
سکُوں پرستیِ راہب سے فقر ہے بیزار
فقیر کا ہے سفینہ ہمیشہ طوفانی
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
سکُوں پرستی | سکون سے محبت، آرام طلبی |
فقیر | مراد درویش، خدا مست |
سفینہ | کشتی |
طوفانی | جو طوفان میں پھنسا ہوا ہو |
تشریح:
سچا درویش ہندوؤں اور عیسائیوں کے درویشوں کی طرح آرام طلب، گوشہ گیر اور تارک الدنیا نہیں ہوتا بلکہ اس کی زندگی کی کشتی ہمیشہ طوفانوں سے کھیلی رہتی ہے۔ وہ ہمیشہ باطل سے ٹکراتا ہے، قوم کو بناتا ہے۔ افراد کو سلجھاتا ہے۔ دنیا پرست اور نفس پرست بھی نہیں ہوتا، وہ اس دنیا کا باشندہ ہوتا ہے جو آخرت کے راستے کی رکاوٹ نہیں بنتی (چنانچہ سلطان ٹیپو شہیدؒ جب تک زندہ رہا، کافروں سے مسلسل لڑتا رہا، یعنی اپنی اسلامی خودی کا جلوہ دُنیا کو دِکھاتا رہا)۔
پسند رُوح و بدن کی ہے وا نمود اس کو
کہ ہے نہایتِ مومن خودی کی عُریانی
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
بدن | جسم |
وا نُمُود | دِکھانا، ظاہر کرنا — مراد نمائش |
نہایتِ مومن | مومن کی انتہا |
عُریانی | ننگا پن |
تشریح:
غیر مسلم درویش بدن کو مارتے ہیں۔ مسلمان درویش بدن کو بھی قائم رکھتا ہے اور روح کی پرورش بھی کرتا ہے۔ وہ غیر مسلم درویشوں کی طرح بدن کی جائز ضروریات نہیں بھولتا۔ خودی بے نقاب صرف اس وقت ہو سکتی ہے جب بدن اور روح دونوں کی ساتھ ساتھ پرورش ہو۔ چنانچہ فقیر (راہبوں کے اصولِ حیات کے خلاف) ہمیشہ اپنی روح اور اپنے بدن کی میدانِ جنگ میں نمائش کرتا رہتا ہے یعنی وہ راہبوں کی طرح جنگلوں میں خلوت کی زندگی بسر نہیں کرتا۔ فقیر روح و بدن کی نمود پر مجبور ہے۔ بقول اقبالؔ:-
؎ یہ ہے مقصدِ گردشِ روزگار
(بالِ جبریل: ساقی نامہ)
کہ تیری خودی تجھ پہ ہو آشکار
نوٹ: تہذیبِ مغرب کا طغرائے امتیاز یہ ہے کہ وہ انسان کے جسم کو عُریانی پر مائل کرتی ہے اور تہذیبِ اسلام یعنی فقر کی خصوصیّت یہ ہے کہ وہ انسان کی روح کو عریانی کی طرف راغب کرتی ہے۔ عریانی کا مفہوم یہ ہے کہ فقر، خودی کے محاسن کی نمائش کرتا ہے، جس طرح کفر، جسم کے محاسن کی نمائش کرتا ہے۔1
الغرض مومن کے روحانی کمالات کی انتہا یہ ہے کہ اُس کی خودی پوری قوت کے ساتھ منظرِ عام پر آ جائے اور وہ منظرِ عام عموماً میدانِ جہاد ہی ہوتا ہے۔
1 یورپ میں جو عورتیں عریانی کی طرف مائل ہیں اُس کی وجہ یہی تو ہے کہ وہ اپنے جسم کی خوبصورتی کی نمائش چاہتی ہیں، اسی طرح فقیر، اپنی خودی کے کمالات کی نمائش چاہتا ہے۔
وجود صیرفیِ کائنات ہے اُس کا
اُسے خبر ہے، یہ باقی ہے اور وہ فانی
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
وجود | ہستی |
صیر فیِ کائنات | کائنات کے کھرے کھوٹے کو پرکھنے والا |
باقی | دائم، ہمیشہ رہنے والا، غیر فانی، فانی کی ضد |
فانی | مٹنے اور نابود ہونے والا، فنا ہو جانے والا |
تشریح:
مسلمان فقیر کائنات کا ”صیر فی“ ہوتا ہے۔ جس طرح صرّاف (سونا، چاندی، روپیہ پیسہ پرکھنے والا) سونے کو کسوٹی پر لگا کر بتا دیتا ہے کہ یہ کھوٹا ہے یا کھرا ہے، اسی طرح مسلمان فقیر کائنات اور اس کی پر شے کو جانتا ہے کہ یہ کھوٹی ہے، یہ کھری ہے، یہ حق ہے، یہ باطل ہے، یہ باقی رہنے والی ہے، یہ فنا ہو جانے والی ہے۔ جب کہ غیر مسلم درویش اس بارے میں اندھا ہے۔ اُس نے جب کائنات ہی ترک کر دی تو اِس کے کھوٹے کھرے کو کیا سمجھے گا۔ اُسے فانی و باقی کی کیا خبر ہو گی۔
؎ قُدرت کے مقاصد کا عیار اِس کے ارادے
(ضربِ کلیم: مردِ مُسلمان)
دُنیا میں بھی میزان، قیامت میں بھی میزان
اُسی سے پوچھ کہ پیشِ نگاہ ہے جو کچھ
جہاں ہے یا کہ فقط رنگ و بو کی طُغیانی
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
پیشِ نگاہ | نظر کے سامنے |
فقط | صرف، محض، تنہا، بس |
رنگ و بو کی طُغیانی | رنگ اور خوشبو کا طوفان — مراد اس فانی دُنیا کی عارضی خوبصورتی کی کثرت |
تشریح:
بہتر یہی ہے کہ اپنے اطمینانِ قلب کی خاطر تُو کسی مردِ مومن سے یہ دریافت کر لے کہ جو کُچھ تُو نظارہ کر رہا ہے آیا اسے ثبات ہے یا یہ محض ایک رنگ و بو کا طوفان ہے جو چڑھ کر اُتر جائے گا۔ یعنی حسن و جمال، دولت، محلات، باغات، خطابات اور جاگیریں یہ سب محض فانی اور عارضی چیزیں ہیں، بلکہ فریبِ نظر ہیں۔ ان میں سے کسی کو ثبات نہیں۔ درویش کی نظروں میں دنیا کی کسی شے کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی۔ ۔ اصل حقیقت اُس کی اپنی ہے، اُس کے خدا کی ہے۔ وہ سب کو ٹھُکرا کر صرف خدا کی رضا پوری کرنے میں لگ جاتا ہے اور اپنے فکر و عمل سے ایسی دنیا بناتا ہے، جو دنیا ہوتے ہوئے دین بن جاتی ہے۔
یہ فقر مردِ مسلماں نے کھو دیا جب سے
رہی نہ دولتِ سلمانی و سلیمانی
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
دولتِ سلمانی | حضرت سلمان فارسیؓ کی دولت — مراد درویشی کی دولت |
دولتِ سلیمانی | حضرت سلیمان علیہ السلام کی دولت، بادشاہی، حکمرانی، شان و شوکت، سلطنت |
تشریح:
جب سے مسلمانوں میں وہ فقر غائب ہوا جس کی خصوصیات مذکورہ بالا اشعار میں بیان کی گئی ہیں اور مسلمانوں نے غیر مسلموں کا سا فقر اور پیشہ ور فقر بلکہ گدائی اختیار کر لی، اُس وقت سے مسلمان دنیا میں بالکل ذلیل و خوار ہو کر رہ گئے۔ اُن میں نہ تو سلمانی شان رہی ہے اور نہ سلیمانی شکوہ رہا یعنی نہ تزکیہ، تقویٰ، پرہیزگاری اور درویشانہ صفات رہیں اور نہ دنیاوی جاہ و جلال، جہاں بانی اور حکمرانی باقی رہی۔
دولتِ سلمانی سے مراد ہے حضرت سلمان فارسیؓ کی سی پاکیزہ اسلامی سیرت یعنی تقویٰ اور دولتِ سلیمانی سے مراد ہے حضرت سلیمان علیہ السلام کی سی سلطنت اور حکومت۔
حوالہ جات
- شرح ضربِ کلیم از پروفیسر یوسف سلیم چشتی
- شرح ضربِ کلیم از اسرار زیدی
- شرح ضربِ کلیم از عارف بٹالوی
- مطالبِ ضربِ کلیم از مولانا غلام رسول مہر