Skip to content
ضربِ کلیم 47: اے روحِ محمد ﷺ

ضربِ کلیم 47: اے روحِ محمد ﷺ


”اے روحِ محمد ﷺ“ از علامہ اقبال

تعارف

علامہ مسلمانوں کے اِس عقیدہ کے پیشِ نظر کہ حضرت محمدِ مصطفی ﷺ ظاہری موت سے ضرور گزرے ہیں لیکن حقیقت میں حیات النبی ﷺ یعنی پسِ پردۂ موت زندہ ہیں اور جب چاہیں اور جہاں چاہیں اللہ کے دیے ہوئے اختیارات کی بدولت اس دنیا میں تصرّف فرما سکتے ہیں۔ اس عقیدہ کے پیشِ نظر علامہ اقبال نظم ”اے روحِ محمد ﷺ“ میں روحِ محمد ﷺ سے، جو کائنات میں جاری و ساری ہے، خطاب کرتے ہیں۔

(حوال: شرح ضربِ کلیم از اسرار زیدی)

نظم ”اے روحِ محمد ﷺ“ کی تشریح

شِیرازہ ہُوا ملّتِ مرحوم کا ابتر
اب تُو ہی بتا، تیرا مسلمان کِدھر جائے!

حلِ لغات:

شیرازہلفظی معنی ہیں کتاب کی جُزبندی کرنے والا فیتہ۔ یہاں مراد نظام، انتظام، بند و بست۔
مِلّتِ مرحوموہ قوم جس پر رحم / رحمتِ خداوندی ہو، مراد اُمّتِ مسلمہ، مسلمان قوم
ابتربکھرا ہوا
حلِ لغات (ضربِ کلیم 47: اے روحِ محمد ﷺ)

تشریح:

حضرت علامہ اقبال حضور سرورِ کائنات ﷺ کی روحِ مقدّسہ سے فریاد کرتے ہیں کہ اے تاجدارِ مدینہ ﷺ! آپ ﷺ کی مِلّت، جو کبھی زندہ و تابندہ تھی، آج اُس کا شیرازہ بالکُل بکھر چُکا ہے، مسلم قوم مختلف فرقوں میں تقسیم ہو کر منتشر ہو چُکی ہے اور اُس میں ہر قسم کا نظم و ربط ختم ہو چُکا ہے۔ ایسے میں آپ ﷺ ہی فرمائیں کہ آپ ﷺ کا اُمّتی، آپ ﷺ کا مسلمان کیا صورت اختیار کرے، کِدھر جائے۔



وہ لذّتِ آشوب نہیں بحرِ عرَب میں
پوشیدہ جو ہے مجھ میں، وہ طوفان کِدھر جائے

حلِ لغات:

لذّتِ آشوبشورش / طوفان یا ہنگامے کی لذّت
بحرِ عربعرب میں واقع سمندر کا نام۔ مراد ہے عرب قوم۔
پوشیدہچھُپا ہوا
حلِ لغات (ضربِ کلیم 47: اے روحِ محمد ﷺ)

تشریح:

یا رسول اللہ ﷺ! ہندی مسلمانوں سے تو کیا شکایت ہے، حقیقت تو یہ ہے کہ اہلِ عرب بھی اب مسلمان نہیں رہے۔ اہلِ عرب کے سمندر میں بھی کوئی شورش اور طوفان نہیں ہے۔ یہ عرب قوم کہ جو کل تک ساری دُنیا پر چھائی ہوئی تھی، آج مُردہ و افسردہ ہ اور لذّتِ شورش سے بالکل محروم ہے۔ مسلمانوں میں دینِ اسلام کے لیے سرفروشی کا مادہ بالکل بھی باقی نہیں رہا۔ اب جب صورتِ حال یہ ہے تو میرے سینے میں جو طوفان بھرے جذبات ہیں، وہ میں ان تک کیوں پہنچاؤں اور جو کُچھ میرے سینے میں امانت ہے وہ کس کے سامنے کھول کر رکھوں اور اِس امانت کا اہل کون ہے؟ جب کہ صورتِ حال تو یہ ہے کہ وہ (اہلِ عرب) تو اس حد تک بے شور ہو چُکے ہیں، اُن کے دِل اُن پاکیزہ جذبات سے اس قدر خالی ہو چُکے ہیں کہ میرا طوفان بھی اُن میں کوئی حرکت پیدا نہیں کر سکے گا۔



ہر چند ہے بے قافلہ و راحلہ و زاد
اس کوہ و بیاباں سے حُدی خوان کِدھر جائے

حلِ لغات:

راحلہسواری
زادسفر کا سامان
کوہ و بیاباںپہاڑ اور جنگل
حُدی خوانحُدی پڑھنے والا۔ ساربان۔ قافلے کے آگے آگے چلنے والا، قافلے کے اونٹوں کو مست کرنے اور گرم رکھنے والا گیت گاتا ہوا شخص،مراد ہے علامہ اقبال سے۔ اقبالؔ اپنی شاعری کو حُدی کہتے ہیں۔
حلِ لغات (ضربِ کلیم 47: اے روحِ محمد ﷺ)

تشریح:

عرب کے پہاڑوں اور جنگلوں میں جو عرب ہیں، وہ بے قافلہ ہیں، نہ اُن کے پاس سواریاں ہیں اور نہ ہی سامانِ سفر۔ مراد یہ کہ عرب بالکل مفلس، بے آواز اور بے کار ہو کر رہ گئے ہیں۔ نہ اُن پاس دولت ہے، نہ تجارت ہے، نہ علم ہے، نہ ہی اُن کے پاس کسی قسم کی مادی طاقت ہے اور نہ روحانی قوّت ہے۔ اُن میں سے حُدی خوان (قافلوں کے آگے گانے والے) بھی غائب ہو گئے یعنی اُن کو دوبارہ زندہ قوم بنانے کے لیے اُن میں کوئی راہبر بھی نظر نہیں آتا۔

(اگر حُدی خوان سے مراد خود اقبالؔ اور حُدی سے مراد اُن کی شاعری لی جائے، تو پھر یہ معنی ہوں گے کہ قافلہ والے کہیں ہوں تو اُن کو اپنی شاعری کے ذریعے جگاؤں، جب قافلے والے ہی تتر بتر پو چُکے ہیں تو اُن کو کیسے جگاؤں)



اس راز کو اب فاش کر اے رُوحِ محمدؐ
آیاتِ الہیٰ کا نگہبان کِدھر جائے!

حلِ لغات:

راز فاش کرناراز ظاہر کر دینا / کھول دینا
آیاتِ الہیخدا کی نشانیاں، اللہ کی آیات
نگہبانحفاظت کرنے والا
حلِ لغات (ضربِ کلیم 47: اے روحِ محمد ﷺ)

تشریح:

یا رسول اللہ ﷺ! اب وقت آ گیا ہے کہ آپ ﷺ اِس نافرمان اور نالائق قوم پر نگاہِ کرم فرمائیں اور اس کی دستگیری فرمائیں۔ یہ قوم لاکھ بُری سہی، لیکن آپ ﷺ کی نام لیوا ہے اور اللہ کے کلام پر عامل نہ سہی، اُس کی نگہبان تو ہے۔ آخر یہ دُنیا سے نیست و نابود تو نہیں ہو سکتی، کیونکہ آپ ﷺ کا پیغام ازلی اور ابدی ہے، پس لِلہ ان پر نگاہِ کرم فرمائیے اور دنیا میں ان کی باعزت زندگی کا کوئی انتظام فرمائیے۔

کرم اے شہِؐ عَرب و عجم کہ کھڑے ہیں منتظرِ کرم
وہ گدا کہ تُو نے عطا کِیا ہے جنھیں دماغِ سکندری
(حوالہ: بانگِ درا: میں اور تُو)

نوٹ: میں نے حتی المقدور اِس نظم کو سلیس انداز میں بیان کر دیا ہے لیکن اگر قارئین اُس سوز و گُداز سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں، جو اِس نظم میں ہے تو پھر اس کو اقبالؔ ہی کے لفظوں میں پڑھیں۔ جو سوز و گُداز اِس مصرع میں ہے:-

؏ اب تُو ہی بتا، تیرا مُسلمان کِدھر جائے

وہ میرے لفظوں سے ہرگز پیدا نہیں ہو سکتا۔

(حوالہ: شرح ضربِ کلیم از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)

حوالہ جات


Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments