”شِکست“ از علامہ اقبال
فہرست
تعارف
نظم شِکست میں علامہ اقبال نے مسلمانوں کو شِکست کا حقیقی مفہوم سمجھایا ہے اور اُن وجوہات سے آگاہ کیا ہے جن کی بنا پر قومیں میدانِ زندگی میں شِکست سے دوچار ہوتی ہیں۔
نظم ”شِکست“ کی تشریح
مجاہدانہ حرارت رہی نہ صُوفی میں
بہانہ بے عملی کا بنی شرابِ الَست
حلِ لغات:
مجاہدانہ حرارت | مجاہدوں والا جوش و جذبہ |
تشریح:
علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ آج کے صوفیاء میں جہاد فی سبیل اللہ کا جذبہ بالکل سرد ہوچُکا ہے اور اُس جذبے کے فنا ہوجانے کا باعث یہ ہے کہ اُن کے ذہن میں بہت سے غیر اسلامی عقیدے راسخ ہوگئے ہیں۔ مثلاً یہ قرآنی آیت:-
الستُ بِربِّکُم: کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں
قالُو بلیٰ!: روحوں نے کہا بیشک تُو ہمارا رب ہے!
(حوالہ: القرآن: سورۃ الاعراف: آیت نمبر 172)
جس میں اقرارِ عبودیت کی صراحت کی گئی ہے؛ جاہل صوفیوں کی بے عملی کا بہانہ بن گئی ہے۔ اِس طرح کہ حُجرے میں بیٹھے ہوئے ہوئے خدا کو یاد کرو اور دُنیا سے بے خبر ہو جاؤ اور جب کوئی سوال کرے کہ کیا کر رہے ہو تو کہہ دو کہ ہم تو ”جامِ الَست“ پی کر دُنیا و مافیہا سے بے خبر ہوچُکے ہیں۔ دُنیا سے لاتعلق ہو کر بے عملی کی تصویر بنے رہنا (یعنی رہبانیّت) سراسر غیر اسلامی تصوّف ہے۔
فقیہِ شہر بھی رُہبانیت پہ ہے مجبور
کہ معرکے ہیں شریعت کے جنگِ دَست بَدَست
حلِ لغات:
فقیہِ شہر | شہر کا مُفتی یا فقیہہ، اسلامی شرع سے واقف شخصیت |
معرکے | معرکہ کی جمع، مراد ہے رزم گاہ، مہم، مقابلہ |
دَست بَدَست | ہاتھ کے ہاتھ، آمنے سامنے |
تشریح:
صوفیاء نے تو ترکِ دُنیا کیا ہی تھا، ہمارے عُلماء اور فقہاء کا بھی یہ حال ہے کہ وہ بھی شریعت اور دین کی باتیں برملا کہنے پر جھجکتے ہیں۔ اِس خیال سے کہ کہیں حاکمانِ وقت سے تصادم نہ ہوجائے۔ اِس لیے فقیہِ شہر (عالمِ دین جو شہر میں رہتا ہے یا سارے شہر کا عالم مانا جاتا ہے) بھی ترکِ دُنیا پر مجبور ہے کیونکہ شریعت کی بات صاف صاف کہنے میں بالکل لوگوں اور حاکموں سے مقابلہ (جنگِ دست بدست) ضروری ہے۔ اس لیے وہ شریعت کی باتیں برملا کہنے سے کتراتا ہے۔ ہاں! آپس میں علماء کے ساتھ دست و گریباں ہونے اور فرقہ بندی کی جنگ کا دروازہ کھولنے میں وہ پیش پیش ہے۔
گُریز کَشمَکَش زندگی سے، مَردوں کی
اگر شکست نہیں ہے تو اور کیا ہے شکست!
حلِ لغات:
گُریز | فرار، علیحدگی، اجتناب، دُوری |
کَشمَکَش زندگی | زندگی کی کھینچا تانی، جدو جہد، سعی و کوشش |
تشریح:
پس کشمکشِ حیات سے مسلمانوں کا گریز کرنا یعنی زندگی کی سختیوں سے گھبرانا اور جد و جہد سے چشم پوشی کرکے غاروں اور گوشوں میں چھُپ کر زندگی گزارنا، مُراد ہے بے عمل ہوجانا، دراصل یہی تو اصل شکست اور اعترافِ شکست ہے اور یہی رویہ قوموں کی تباہی کا باعث بنتا ہے۔
تبصرہ
اقبالؔ کے مطابق قوموں کی تقدیر اُن کی قوّتِ کردار سے بنتی ہے، عمل ہی کی بدولت قوموں کے مقدّر متعین ہوتے ہیں۔ لیکن آج کے مسلمان، جنہیں قرآن نے ”مہ و پرویں کا امیر“ بنایا تھا، دُنیا و مافیہا سے ترکِ تعلق کر کے بے عملی کی زندگی بسر کر رہے ہیں، جبکہ اِنہیں تو اِس کشمکش میں سب سے آگے رہنا چاہیے تھا، لیکن اِنہوں نے اُلٹا راستہ اختیار کر لیا اور یہ ایک افسوسناک امر ہے۔ چنانچہ مسلمانوں کو چاہیے کہ قرآنی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر سراپا کردار بن جائیں اور زندگی کی سختیوں کا مردانہ وار مقابلہ کریں، کیونکہ مِلّتِ اسلامیہ کی بقا اِسی میں مضمر ہے۔
بقول علامہ اقبال:-
نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبّیری
کہ فقرِ خانقاہی ہے فقط اندوہ و دِلگیری
(حوالہ: ارمغانِ حجاز)
حوالہ جات
- شرح ضربِ کلیم از پروفیسر یوسف سلیم چشتی
- شرح ضربِ کلیم از ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی
- شرح ضربِ کلیم از اسرار زیدی
- شرح ضربِ کلیم از عارف بٹالوی
Such a great initiative from you to spread the message of Iqbal. Hope so our youth would start learning the teachings of Iqbal.
In Sha Allah.
Jazak Allah for your kind words.