نظم ”نماز“ از علامہ اقبال
فہرست
تعارف
اِس دو شعر پر مشتمل نظم میں علامہ اقبال نے نماز کی حقیقت بیان کی ہے۔ یعنی اگر مسلمان سچے دِل سے خداپرستی اختیار کر لے تو ساری دُنیا سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔
نظم ”نماز“ کی تشریح
بدل کے بھیس پھر آتے ہیں ہر زمانے میں
اگرچہ پِیر ہے آدم، جواں ہیں لات و منات

حلِ لغات:
| الفاظ | معنی |
|---|---|
| بھیس | شکل، صورت، رُوپ |
| پیر | بوڑھا |
| آدم | مراد انسان |
| لات و منات | کعبہ میں رکھے ہوئے بُتوں کا نام |
تشریح:
یہ اشعار اس حقیقت کو ظاہر کرتے ہیں کہ کفر و حق کی کشمکش انسان کی تخلیق کے آغاز سے ہی جاری ہے اور انسان اگرچہ ہزاروں برس کے تجربات کے باعث ”پیر“ ہو چُکا ہے، مگر اُسے گمراہ کرنے والے بُت آج بھی ”جواں“ ہیں۔ اقبالؔ لات و منات کا ذکر بطور مثال کرتے ہیں کہ پرانے زمانے میں لات و منات نام کے جو بُت پوجے جاتے تھے وہ ختم نہیں ہوئے بلکہ آج بھی موجود ہیں۔ حرص، لالچ، اقتدار، دولت، عہدے، شہرت اور طاقت کے جدید بُت ہر دور میں نئے بھیس بدل کر انسان کو خدا سے دور کرتے رہتے ہیں۔ یوں انسان اگر خدا کے سوا کسی اور کے سامنے جھکے، خواہ وہ انسان ہو، طاقت ہو یا خواہش، تو یہ بھی بُت پرستی ہی ہے۔
یہ ایک سجدہ جسے تُو گِراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات!

حلِ لغات:
| الفاظ | معنی |
|---|---|
| گِراں | بوجھل، بھاری |
| نجات | رِہائی |
تشریح:
اقبالؔ کہتے ہیں کہ انسان خدا کے حضور سچے سجدے کو تُو بوجھ سمجھتا ہے، مگر دنیاوی طاقتوں، حکمرانوں، عہدوں، مال و دولت اور مجازی خداؤں کے آگے برسوں جھُکا رہتا ہے۔ آج کا مسلمان بلند مناصب اور دنیوی فوائد کے لیے انسانوں کے در پر طواف کرتا ہے، جہاں اسے بار بار جھکنا پڑتا ہے، لیکن اگر وہ خلوصِ دل سے صرف ایک خدا کے سامنے سجدہ کرے تو اسے ان سب جھوٹے سجدوں کی محتاجی سے نجات مل جائے۔ اصل شرط اخلاص اور حقیقی توحید ہے، کہ دل ہر قسم کے باطنی بتوں، حرص، لالچ اور خوف سے پاک ہو؛ تب ہی نماز، نماز بنتی ہے اور سجدہ، سجدہ۔ اقبالؔ کا پیغام یہ ہے کہ جو شخص اپنے ربِ واحد کا بندہ بن جاتا ہے، وہ دنیا کی تمام غلامیوں، محتاجیوں اور جھوٹے سجدوں سے آزاد ہو جاتا ہے، مگر افسوس کہ آج یہی ایک سچا سجدہ انسان پر گراں گزرتا ہے، حالانکہ اسی میں اس کی مکمل نجات پوشیدہ ہے۔
تبصرہ
واضح ہو کہ اقبالؔ کے نزدیک سجدہ صرف پیشانی جھکانے کا نام نہیں؛ بلکہ یہ انسان کی مکمل اطاعت، کردار اور زندگی کی سِمت کو اللہ کی تعلیمات کی سِمت میں کر دینے کا اعلان ہے۔ حقیقی سجدہ وہ ہے جو انسان کو قرآن کے مطابق اٹھنے، بیٹھنے، چلنے اور فیصلے کرنے پر آمادہ کرے۔ اگر سجدہ محض ایک رسم بن جائے اور دل میں لالچ، حرص، خوف، اور جھوٹے سہاروں کے بت قائم رہیں تو وہ سجدہ، سجدہ نہیں رہتا۔ اقبالؔ اسی حقیقت کو اس شعر میں واضح کرتے ہیں:
؎ یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے، حقیقت میں ہے قُرآن!
(ضربِ کلیم: مردِ مسلمان)
یعنی مومن صرف قرآن پڑھنے والا نہیں ہوتا، بلکہ قرآن کی تعلیمات کو اپنے وجود میں جذب کر کے خود ”قرآنِ زندہ“ بن جاتا ہے۔ جب انسان کا ہر عمل، ہر فیصلہ اور ہر جھکاؤ اللہ کی رضا کے مطابق ہو جائے تو یہی وہ سچا سجدہ ہے جو اُسے دنیا کی ہر غلامی اور ہر جھوٹے سجدے سے نجات دیتا ہے، اور یہی اُس کی حقیقی فلاح اور آزادی کا راستہ ہے۔
حوالہ جات
- شرح ضربِ کلیم از پروفیسر یوسف سلیم چشتی
- شرح ضربِ کلیم از اسرار زیدی
- شرح ضربِ کلیم از ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی
- شرح ضربِ کلیم از عارف بٹالوی
- شرح ضربِ کلیم از پروفیسر حمید اللہ شاہ ہاشمی






