”کارل مارکس کی آواز“ از علامہ اقبال
فہرست
نظم کا تعارف
نظم ”کارل مارکس کی آواز“ میں اقبالؔ نے اِشتراکیّت (Socialism) کے بانی کی تعلیمات کی ایک خصوصیّت کو واضح کیا ہے، جو یہ ہے کہ نظامِ معیشت ایسا ہونا چاہیے جس میں مزدور کو اُس کی محنت کا پورا صِلہ مِل سکے اور سرمایہ داری میں سب کُچھ ہے لیکن یہ چیز نہیں ہے اور اِسی کے فقدان سے یہ دُنیا جہنّم بن گئی ہے۔ اِس ملعون نظا م میں مزدور (محنت کش) طبقہ اِنسان کے درجہ سے گِر کر حیوانات سے بھی بدتر ہو جاتا ہے کیونکہ بعض سرمایہ داروں کے کُتّے بھی مزدوروں سے بہتر زندگی بسر کرتے ہیں۔ کیا یہ انتہائی ظُلم و سِتم نہیں کہ جو مزدور، دولت مندوں کے لیے عالیشان محل تعمیر کرتا ہے، وہ خود ”فُٹ پاتھ“ پر اپنی بے کیف زندگی کے دِن ایڑیاں رگڑ رگڑ کر کاٹتا ہے! اقبالؔ نے مزدور کی حالت کا جو نقشہ کھینچا ہے اُس میں سے تین شعر میں اِس جگہ لِکھتا ہوں:-
خواجہ نانِ بندۂ مزدور خورد
آبروی دُخترِ مزدور برد
ایسا آقا اپنے مزدور غلام کی روٹی اور اس کی بیٹی کی آبرو چھین لیتا ہے۔
در حضورش بندہ می نالد چو نے
بر لبِ اُو نالہ ہای پے بہ پے
اس کے سامنے غلام بانسری کی طرح فریاد کرتا ہے، اس کے لبوں پر متواتر ہائے ہائے کی فریاد رہتی ہے۔
نے بجامش بادہ و نے در سبوست
کاخہا تعمیر کرد و خود بکوست
نہ مزدور کے جام میں شراب ہے نہ اس کے سبو میں ، وہ (دوسروں کے لیے) محلات تعمیر کرتا ہے اور خود کوٹھڑی میں رہتا ہے۔
(حوالہ: پس چہ بائد کرد: در اسرارِ شریعت)
یعنی سرمایہ دار مزدور سے روٹی بھی چھین کر کھا جاتا ہے اور اُس کی بیٹی کی آبرُو بھی لے لیتا ہے (یہ شاعری نہیں ہے، بالکل حقیقت ہے۔ اگر کسی کو شک ہو تو وہ دیہات میں جا کر اپنی آنکھوں سے اِس تلخ حقیقت کا مشاہدہ کر سکتا ہے)۔ مزدور کی حالت یہ ہے کہ وہ سرمایہ دار (زمیندار) کے سامنے گِریہ و زاری کرتا ہے بلکہ اُس کی پوری زندگی ایک مسلسل فریاد ہے۔ حد یہ ہے کہ روٹی۔۔ جس کے لیے وہ بے چارہ رات دِن محنت کرتا ہے، نہ اُس کے پیٹ میں ہے نہ ہاتھ میں ہے۔ ظُلم کی اِنتہا یہ ہے کہ وہ سرمایہ دار کے لیے قصر (محل) تعمیر کرتا ہے لیکن خود بے گھر رہتا ہے۔ اُسی کی محنت سے سرمایہ دار ”سُوٹ“ پہن کر گھومتا ہے لیکن وہ خود نیم عُریاں پھِرتا ہے۔
(حوالہ: شرح ضربِ کلیم از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)
کارل مارکس کا تعارف
کارل مارکس (Karl Marx) جو حکیمانہ اِشتراکیّت (Scientific Socialism) کا بانی ہے، یہودی الاصل تھا۔ 1818ء میں جرمنی میں پیدا ہوا اور فلسفی ہیگلؔ (Georg Wilhelm Friedrich Hegel) کے مشہور متبع فائر باخ (Ludwig Feuerbach) کی تصانیف کی بدولت ہیگلؔ کے فلسفہ کا پیرو بن گیا۔ لیکن کُچھ عرصہ بعد اُس کے خیالات میں انقلابِ عظیم پیدا ہو گیا اور اُس نے خدا اور مذہب دونوں کا اِنکار کر دیا۔ چنانچہ اُس کا یہ فقرہ بہت مشہور ہے: ”مذہب عوام کے لیے بمنزلۂ افیون ہے“۔
سیاسی اِختلافات کی بنا پر اربابِ حکومت نے اُس کو جِلا وطن کر دیا۔ چنانچہ اُس نے کُچھ عرصہ ”بادیہ پیمائی“ کرنے کے بعد لندن میں سکونت اختیار کر لی اور وہیں بحالتِ عسرت 1883ء میں وفات پائی۔ اُس کی مشہور تصنیف سرمایہ (Das Kapital) ہے جس میں اُس نے ہیگلؔ کے مشہور جدلیاتی طریق (Dialectic Method) کی مدد سے اپنے معاشی نظام کو مدوّن کِیا ہے اور رُوس کے اِشتراکی اس کتاب کو وہی مرتبہ دیتے ہیں جو عیسائی لوگ بائبل کو دیتے ہیں۔ اقبالؔ نے مارکس کے فلسفہ یا معاشی نظام پر اس شعر میں بہت جامع تبصرہ کر دیا ہے:-
؎ دین آن پیغمبر حق نا شناس
بر مساواتِ شِکم دارد اساس
اس حق ناشناس یعنی خدا کے منکر پیغمبر (کارل مارکس) کا دین پیٹ کی مساوات کی بنیاد پر قائم ہے۔
(حوالہ: جاوید نامہ: فلک عطارد: اِشتراک و ملوکیّت)
(حوالہ: شرح ضربِ کلیم از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)
نظم ”کارل مارکس کی آواز“ کی تشریح
یہ علم و حکمت کی مُہرہ بازی، یہ بحث و تکرار کی نمائش
نہیں ہے دُنیا کو اب گوارا پُرانے افکار کی نمائش
حلِ لغات:
الفاظ | معانی |
---|---|
مہرہ بازی | مہروں سے کھیلنا۔ مراد عیّاری اور مکّاری |
نمائش | دِکھاوا، ظہور، نمود، تزئین |
گوارا | پسند |
پُرانے افکار | وہ خیالات جو موجودہ حالات کے لیے مناسب نہیں |
تشریح:
کارل مارکس، اُن عُلمائے معاشیّات سے، جو سرمایہ دارانہ نِظام کی حمایت کرتے اور اِشتراکیّت کے مخالف ہیں، کہتا ہے کہ میرے نظام اشتراکیت کے خلاف اور سرمایہ دارانہ نظام کے حق میں تم جتنی بھی علم و حکمت کی باتیں کرتے ہو، یہ دراصل تمہاری عیاری اور مکاری کی باتیں ہیں اور اس سلسلے میں تم جو بحث و تکرار بھی کرتے ہو وہ دل سے نہیں بلکہ محض اپنی نمود کے لئے کرتے ہو۔ سچ تو یہ ہے کہ تمہارا علم فرسودہ ہو چُکا ہے اور لوگوں کی مالی مُشکِلات حل نہیں کر سکتا۔ تمہاری یہ مکاری کسی کام نہیں آئے گی کیونکہ اب لوگوں کے خیالات میں انقلاب پیدا ہو چُکا ہے، مزدور طبقہ اپنے حقوق سے آگاہ ہو گیا ہے، اس لیے وہ اب اِس فرسودہ نظامِ سرمایہ داری قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ وہ دور گزر گیا جب سرمایہ دار مزدوروں کے حقوق کی پامالی کیا کرتے تھے، آج تو ہر محنت کش کی زبان پر ایک ہی نعرہ ہے:-
؎ حُکمِ حق ہے لَیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَاسَعیٰ
کھائے کیوں مزدور کی محنت کا پھل سرمایہ دار
(حوالہ: بانگِ درا)
تری کتابوں میں اے حکیمِ معاش رکھّا ہی کیا ہے آخر
خطوطِ خم دار کی نمائش، مریز و کج دار کی نمائش
حلِ لغات:
الفاظ | معانی |
---|---|
حکیمِ معاش | معاشیات (Economics) کا مفکّر، اِقتصادی امور سے متعلق علوم کا عالم |
خطوطِ خمدار | ٹیڑھے خط |
مریز و کج دار | لفظی معنی ”نہ گِرا “ اور ”ٹیڑھا رکھ“۔ کسی کی جھولی میں سب کُچھ ڈالنے کی کوشش کرنا لیکن کُچھ نہ ڈالنا، کُچھ نہ دینا |
تشریح:
اے معاشیات کے وہ مفکّر جو اشتراکیّت کے مقابلے میں سرمایہ دارانہ نظام کی حمایت کر رہا ہے، تُو نے اپنی کتابوں میں جو کچھ لکھا ہے وہ سوائے اس کے اور کیا ہے کہ اس میں کچھ ٹیڑھی تِرچھی لکیریں ہیں اور جو مضمون ہے وہ کچھ اس انداز کو لئے ہوئے ہے کہ کسی کی جھولی میں سب کچھ ڈالنے کا ارادہ ظاہر کرنا لیکن ڈالنا کُچھ بھی نہیں۔ دراصل بات یہ ہے کہ تمہارے پاس ایسا کوئی دستورِ حیات ہی نہیں ہے جو محنت کش طبقہ کو خوشحالی عطا کر سکے۔ تم اپنی کتابوں میں غریبوں، مزدوروں اور کسانوں کی ہمدردی کا دعویٰ تو کرتے ہو لیکن عملاً اُن کے لئے کچھ کرنے کا طریقہ نہ بتاتے ہو نہ نافذ کرتے ہو، اس کے مقابلے میں مجھے دیکھو میں نے اپنی کتاب بنام ”سرمایہ“ میں مزدور کی جھولی کو خالی نہیں رکھا۔
جہانِ مغرب کے بُت کدوں میں، کلیسیاؤں میں، مَدرسوں میں
ہَوس کی خُون ریزیاں چھُپاتی ہے عقلِ عیّار کی نمائش
حلِ لغات:
الفاظ | معانی |
---|---|
کلیسا | عیسائی مذہبی ادارہ |
ہوَس | لالچ، حرص |
خون ریزی | خون بہانا |
عیّار | دھوکے باز، مکّار |
نمائش | دِکھاوا، ظہور، نمود، تزئین |
تشریح:
کیا تم نے یورپ کے بُت کدوں، کلیساؤں اور مدرسوں کو نہیں دیکھا کہ وہ بظاہر تو انسانیت کی پرورِش و نمود کا دم بھرتے ہیں، لیکن پسِ پردہ مکار عقل کے ذریعے نئے نئے حربے استعمال کرکے غریبوں اور مزدوروں کا خون چُوستے ہیں۔ یہ ایسی پالیسیاں وضع کرتے ہیں جن سے سرمایہ دارانہ نظام واقعی بھلا معلوم ہوتا ہے حالانکہ حقیقت اس کے بر عکس ہے۔
مثال کے طور پر آج کا سود پر مبنی بینکنگ کا نظام۔۔ جو بظاہر بہت پر کشش معلوم ہوتا ہے لیکن اگر ایک بار اس میں کوئی پھنس جائے تو اس دلدل سے نکلنا محال ہے۔ مختصر یہ کہ اب کہیں بھی زندگی کے سکون کے سامان نظر نہیں آتے۔ آج کے مدبّر صرف خود غرض رہ گئے ہیں اور اُن کی تمام تر عقل اپنے مفاد کی فکر میں گُم ہے۔ کسی کو اِنسانیّت کی فلاح منظور نہیں ہے۔ علامہ اقبال نے اس سے پہلی نظم به عنوان ”اشتراکیت“ میں اشتراکی نظامِ معاش کی برائی دکھائی تھی اور زیرِ بحث نظم میں کارل مارکس کے خیالات کے ذریعے سرمایہ دارانہ نظام کی خرابیوں اور مکاریوں کو ظاہر کیا ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ نہ کارل مارکس کا اشتراکی نظام انسان کی بھلائی کے لئے ہے اور نہ یورپ والوں کا سرمایہ دارانہ نظام۔ اگر کوئی نظام امیر و غریب کے تفرقے اور چپقلش کو ختم کرتا ہے اور ہر چھوٹے بڑے طبقہ کی بھلائی کا علم بردار ہے تو وہ صرف قرآن اور اسلام کا معاشی نظام ہے۔
حوالہ جات
- شرح ضربِ کلیم از پروفیسر یوسف سلیم چشتی
- شرح ضربِ کلیم از اسرار زیدی
- شرح ضربِ کلیم از عارف بٹالوی