”جلال و جمال“ از علامہ اقبال
فہرست
تعارف
نظم ”جلال و جمال“ میں علامہ اقبال نے اس نکتہ کو واضح کیا ہے کہ اگرچہ انسان کے لیے جلال اور جمال دونوں ضروری ہیں لیکن جلال نہ ہو تو جمال بے تاثیر ہے۔
(حوالہ: شرح ضربِ کلیم از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)
؎ خودی سے مردِ خود آگاہ کا جمال و جلال
کہ یہ کتاب ہے، باقی تمام تفسیریں
(حوالہ: ارمغانِ حجاز)
نظم ”جلال و جمال“ کی تشریح
مرے لیے ہے فقط زورِ حیدری کافی
ترے نصیب فلاطُوں کی تیزیِ ادراک
اے مخاطب! اگر تُو فلسفہ اور حکمت کو بہت وقیع (بلند پایہ / ذی عزت) یا اپنی زندگی کے لیے کافی سمجھتا ہے، تو تیری مرضی تجھے مبارک ہو، لیکن میں تو افلاطون کے فلسفہ پر زورِ حیدری (حیدر: حضرت علیؑ کا لقب) کو ترجیح دیتا ہوں کیونکہ مسلمان کا مقصد باطل کا مقابلہ کرنا ہوتا ہے اور یہ مقصد فلسفہ سے نہیں بلکہ روحانی طاقت سے حاصل ہوسکتا ہے۔ بالفاظِ دیگر میں تو عقل کے مقابلہ میں عشق کو ترجیح دیتا ہوں (واضح ہو کہ جناب حیدرِ کرار رضی اللہ عنہ میں یہ طاقت عشقِ رسول ﷺ کی بدولت پید ہوئی تھی)
مری نظر میں یہی ہے جمال و زیبائی
کہ سر بسجدہ ہیں قُوّت کے سامنے افلاک
میں تو اسی کو حقیقی جمال و زیبائی سمجھتا ہوں کہ مسلمان میں باطل کا مقابلہ پیدا کرنے کے لیے بازو میں طاقت اور دِل میں حوصلہ ہو۔ دیکھ لو! آسمانوں کو اللہ نے اپنی قدرت (قوت) ہی سے تابع فرمان بنا رکھا ہے۔اس مصرع کے دوسرے معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ قوت کے سامنے کائنات کی بڑی سے بڑی چیز مطیع (فرمانبردار) بن جاتی ہے۔
نہ ہو جلال تو حُسن و جمال بے تاثیر
نرا نفس ہے اگر نغمہ ہو نہ آتش ناک
اگر دبدبہ (جلال) نہ ہو تو حُسن و جمال میں کوئی تاثیر نہیں رہتی۔ اگر انسان میں جلال نہ ہو تو اس کی تقریر کیسی ہی دِلکش کیوں نہ ہو، پھر بھی وہ مخالف کے اندر کوئی تاثیر پیدا نہیں کرسکتی۔ اگر موسیقی میں وہ سوز و حرارت نہ ہو جو سامعین کے دِلوں کو گرمادے تو ایسا نغمہ محض ایک سانس ہے اور موسیقار کے لیے اپنی دِلی سوز و جذبہ سے خالی ہوگا، صحیح معنوں میں نغمہ نہ ہوگا۔
مجھے سزا کے لیے بھی نہیں قبول وہ آگ
کہ جس کا شُعلہ نہ ہو تُند و سرکش و بے باک!
حضرتِ علامہ طوفانوں کے مشتاق ہیں۔ وہ زندگی میں سرکشی و بیباکی کے مدّاح ہیں۔ چنانچہ فرماتے ہیں کہ میں تو سزا کے لیے بھی اُس دوزخ میں ڈالا جانا قبول نہ کروں گا جس کی آگ کے شعلے تُند و تیز اور زبردست اور لپکنے والے نہ ہوں۔ مطلب یہ ہے کہ میں سزا کے لیے بھی وہی آگ پسند کرتا ہوں، جس میں جلال کی شان بھی ظاہر ہو۔
تبصرہ
اس نظم میں اقبالؔ نے اس نکتہ کو واضح کیا ہے کہ اگرچہ انسان کے لیے جلال اور جمال دونوں ضروری ہیں لیکن جلال نہ ہو تو جمال بے تاثیر ہے۔ اس جگہ اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ ہے کہ اقبال کے اس قول کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جمال نہ ہو تو محض جلال، خودی کی تکمیل کے لیے کافی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں اپنی اپنی جگہ بہت ضروری ہیں، اور خودی کی تکمیل اِن دونوں (جلال اور جمال) پر موقوف ہے۔ اگر اِن دونوں میں سے کسی ایک کو بھی زندگی سے خارج کردیا جائے، تو خودی ناقص رہ جائے گی۔ چنانچہ اقبال نے مثنوی ”پس چہ باید کرد“ میں اس کی صراحت کردی ہے:۔
رائے بے قوّت ہمہ مکر و فسوں
قوت بے رائے جہل است و جنوں
قوت نہ ہو تو رائے مکر و فسوں ہے، اور بغیر رائے کے قوت، جہالت و پاگل پن ہے۔
یعنی جمال ہو اور اس کے ساتھ جلال نہ ہو تو وہ جمال محض مکر و فسوں ہے یعنی بے تاثیر ہے۔ مثلاً آپ کا خیال کیسا ہی اچھا کیوں نہ ہو، لیکن اگر آپ کے پاس طاقت نہیں ہے تو اُس پر کون عمل کرے گا؟ اور طاقت ہو لیکن اس کے ساتھ صحیح خیال نہ ہو تو پھر وہ طاقتور انسان چنگیز بن جاتا ہے یعنی وہ قوت چونکہ اندھی ہوتی ہے اس لیے بنی آدم کی حق میں مصیبت بن جاتی ہے۔ قصہ مختصر اس نظم میں اقبال نے صرف ایک پہلو واضح کیا ہے۔ اور جیسا کہ اوپر مذکور ہوا ہے کہ جلال نہ ہو تو جمال بے تاثیر ہے۔ نیز میں اس شرح میں کسی جگہ اس بات کی وضاحت کرچکا ہوں کہ جلال اور جمال کا منبع لا الہ الا اللہ ہے، لا الہ سے جلال اور الہ اللہ سے جمال پیدا ہوتا ہے۔
(حوالہ: شرح ضربِ کلیم از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)