نظم ”شکر و شکایت“ از علامہ اقبال
فہرست
تعارف
نظم شکر و شکایت میں علامہ اقبال مسلمانوں کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ غلامی پر رضامند ہو جانا کسی بھی قوم کے لیے باعثِ عزت نہیں ہے۔ مسلمان تو اپنے دِل کو ایسے تصوّر سے بھی آلودہ نہیں کر سکتا۔ اِس مفہوم کو اِنتہائی پُر تاثیر بنانے کے لیے یہ اسلوبِ بیان اِختیار کیا گیا، جو صرف بارگاہِ حق سے فیض یافتہ شاعر ہی اِختیار کر سکتا ہے۔ واضح رہے کہ یہ نہیں کہا کہ مُلک کے باشندے غلامی میں مبتلا ہو گئے کہ یہ ایک اِتّفاقی حادثہ ہے جو ہر قوم کو پیش آ سکتا ہے۔ فرمایا، غلامی پر راضی ہو گئے، یعنی صرف ظاہری حالات ہی ناسازگار نہیں بلکہ اُن کے دِلوں میں آزادی کے لیے تڑپ ہی باقی نہیں رہی۔ یہ حالت فرد یا قوم کی زندگی میں دِل اور روح کی موت ہے۔
(حوالہ: مطالبِ بانگِ درا از مولانا غلام رسول مہر)
تشریح
میں بندۂ ناداں ہوں، مگر شُکر ہے تیرا
رکھتا ہوں نہاں خانۂ لاہُوت سے پیوند
حلِ لغات:
الفاظ | معانی |
---|---|
بندۂ ناداں | بے خبر انسان، نا سمجھ انسان |
نہاں خانۂ لاہُوت | لاہُوت کا چھُپا ہوا گھر۔ یہاں مُراد عالمِ بالا یا اوپر کی دُنیا کے بھید، فرشتوں کا جہاں |
پیوند | تعلق، رِشتہ، جوڑ |
تشریح:
اِس نظم میں علامہ اقبال نے اللہ کی بارگاہ میں اپنے دردِ دِل کا اظہار کیا ہے، فرماتے ہیں کہ:-
اے مولا! اگرچہ میں ایک بندۂ ناداں ہوں، لیکن تیرا شُکر ادا کرتا ہوں کہ تُو نے اپنی محبّت مجھے عطا فرمائی ہے اور میری روح کو عالمِ بالا کے اُس چھُپے ہوئے پاکیزہ جہان سے وابستہ کر دیا ہے اور اسی لیے میرے دِل میں مذہب و مِلّت کی خدمت کا جذبہ موجزن ہے۔
اک ولولۂ تازہ دیا مَیں نے دلوں کو
لاہور سے تا خاکِ بخارا و سمرقند
حلِ لغات:
الفاظ | معانی |
---|---|
ولولۂ تازہ | نیا جوش و خروش |
خاکِ بخارا و سمرقند | مراد ساری اسلامی دُنیا |
تشریح:
یا رب! یہ بھی تیرے فضل و کرم ہی کے باعث ہے کہ میں نے اپنی جوش و ولولہ کی حامل شاعری کے ذریعے مسلمانوں کو قرآن مجید کا پیغام سُنایا اور اُن کے دِلوں میں اِسلام کو دُنیا میں سربُلند کرنے کا ولولہ پیدا کر دیا۔ میری شاعری نے مسلمانوں میں بیداری کی لہر پیدا کر دی ہے اور وہ ذِلّت کی غلامانہ زندگی کی بجائے باوقار آزاد زندگی گزارنے کے لیے کوشش کرنے لگے ہیں۔
تاثیر ہے یہ میرے نفَس کی کہ خزاں میں
مُرغانِ سحَر خواں مری صحبت میں ہیں خورسند
حلِ لغات:
الفاظ | معانی |
---|---|
تاثیر | اثر کا ہونا |
نفَس | روح، جان۔ مراد شاعری |
مرغان | مرغ کی جمع۔ پرِندہ |
سحر خواں | صبح سویرے نغمہ الاپنے والے، صبح کو پڑھنے والے |
صحبت | رفاقت، ہمراہی، ساتھ، میل جول، دوستی، تعلق |
خورسند | خوش |
تشریح:
یہ میری شاعری ہی کی تاثیر ہے کہ آج جب کہ اُمّتِ مُسلمہ مصائب میں گرفتار ہے اور مسلمانوں پر زوال کی حالت طاری ہے، یعنی اُن کی زندگی کی چمن زار پر خزاں چھائی ہوئی ہے، لیکن اس دور میں بھی میری قوم کے درد مند افراد میرے اشعار ذوق و شوق سے پڑھتے اور اُن سے مستفید ہوتے ہیں۔ چونکہ میرے اشعار مسلمانوں کو اُمید کی کِرن دِکھاتے ہیں اور اُن کی عظمتِ گذشتہ کی یاد دِلاتے ہیں، اس لیے اُن کے مطالعہ سے بہار کا لُطف آتا ہے۔ (یہاں علامہ صاحب نے در اصل اپنے کلام کی حقیقی حیثیّت کا اظہار بڑے ہی دِل کش اور پُر تاثیر اور انداز و اسلوب میں کیا ہے۔)
لیکن مجھے پیدا کیا اُس دیس میں تُو نے
جس دیس کے بندے ہیں غلامی پہ رضا مند!
حلِ لغات:
الفاظ | معانی |
---|---|
دیس | مُلک |
بندے | لوگ |
رضا مند | راضی، خوش |
تشریح:
لیکن میں بڑے رنج کے ساتھ تیری جناب میں عرض کرتا ہوں کہ جہاں تُو نے مجھے اعلی درجے کے حیات بخش جواہر سے نوازا، وہاں اِس مُلک میں پیدا کر کے میرے لیے ایک طرح سے دُکھ کا سامان کر دیا ہے۔ یہاں کے باشندے نمازیں بھی پڑھتے ہیں، روزے بھی رکھتے ہیں، لیکن انگریز کی غلامی پر رضا مند ہیں۔ تعجّب ہے کہ وہ کلمہ تو تیرا پڑھتے ہیں لیکن اطاعت انگریز کی کرتے ہیں۔ واضح ہو کہ یہ نظم، در اصل ایک لطیف شاعرانہ اندازِ بیان ہے۔ اقبالؔ اپنی قوم سے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جو مسلمان کافر کی غلامی پر رضا مند ہو اور اس غلامی سے رہائی کی کوشش نہ کرے وہ مسلمان ہی نہیں، کیونکہ اللہ کا بندہ، انگریز کا بندہ کیسے ہو سکتا ہے۔ (سلطان ٹیپو شہیدؒ نے اسی اصول پر عمل کیا اور حیاتِ جاوید حاصل کی اور نظام علی خان آف حیدر آباد نے انگریزوں کی حمایت کرکے ابدی لعنت خرید لی۔)
؏ یا بندۂ خدا بن یا بندۂ زمانہ
(حوالہ: بالِ جبریل)