”اہرامِ مِصر“ از علامہ اقبال
فہرست
تعارف
نظم ”اہرامِ مِصر“ میں علامہ اقبال نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ آرٹسٹ، اپنے آرٹ کو مرتبۂ کمال پر اس وقت پہنچا سکتا ہے جب وہ اپنے آپ کو فطرت کی تقلید سے آزاد کر لے۔ دوسرے لفظوں میں آرٹ کے اندر صفتِ دوام (ہمیشگی کی صفت) اس وقت پیدا ہو سکتی ہے جب اس کے اندر جِدّت (Originality) ہو۔
(شرح ضربِ کلیم از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)
نظم ”اہرامِ مِصر“ کی تشریح
اس دشتِ جگر تاب کی خاموش فضا میں
فطرت نے فقط ریت کے ٹیلے کیے تعمیر
حلِ لغات:
دشت | جنگل، صحرا |
جِگرتاب | دِل (جگر) کو تڑپانے والا |
خاموش فضا | خاموش آب و ہوا، خاموش ماحول |
فطرت | قدرت |
فقط | صرف |
تشریح:
مصر کے دارالحکومت قاہرہ کے قریب تپتی ہوئی ریت اور گرمی کی شِدّت لیے ہوئے ایک ایسا خاموش صحرا ہے جس کی گرمی سے آدمی کا جِگر تپ جائے۔ اس صحرا کے ماحول میں قدرت سوائے اُن ریت کے ٹیلوں کے’ جن کو گرم ہوائیں ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتی ہیں’ کچھ تعمیر نہیں کر سکی۔
اَہرام کی عظمت سے نگُوں سار ہیں افلاک
کس ہاتھ نے کھینچی اَبدِیّت کی یہ تصویر!
حلِ لغات:
عظمت | بڑائی، شان |
نگُوں سار | سر جھُکائے ہوئے |
افلاک | فلک کی جمع۔ آسمان |
ابدیّت | ہمیشگی، ہمیشہ رہنے کی حالت |
تشریح:
اہرام کی عظمت و پائداری اور تعمیری و فنی عظمت کو دیکھ کر آسمان بھی سر جھُکائے ہوئے ہے۔ آخر وہ کون لوگ تھے جنہوں نے ابدیّت (ہمیشگی) کا رنگ رکھنے والی یہ تصویریں کھینچی ہیں۔ وہ ہوائیں بھی’ جو ریت کے ٹیلوں کو ایک جگہ سے اُٹھا کر دوسری جگہ پھینکنے کی طاقت رکھتی ہیں، ان شاہکاروں کا کچھ نہیں بِگاڑ سکتیں۔ یہ صدیوں سے اپنی شان و شوکت کے ساتھ اسی طرح کھڑے ہیں۔ (اہرامِ مصر کا شمار انسان کی بنائی ہوئی عظیم ترین تعمیرات میں ہوتا ہے۔ یہ اہرام زمانہء قدیم کی مصری تہذیب کے سب سے پرشکوہ اور لافانی یادگار ہیں۔ ماہرینِ آثارِ قدیمہ میں یہ اتفاق پایا جاتا ہے کہ ان اہرام کی تعمیر کا مقصد فراعین مصر اور شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والے دیگر افراد کا مدفن تھا۔ اہرام مصر میں غزہ کا عظیم اہرام دنیا کے سات عجائبات میں سے وہ واحد عجوبہ ہے جو ابھی تک اپنی اصل حالت میں موجود ہے۔)
واضح رہے کہ آج تک حتمی طور پر یہ نہیں کہا جا سکا ہے کہ اہرامِ مصر کی تعمیر کب ہوئی۔ بعض ماہرین کے مطابق یہ پانچ ہزار اور بعض کے نزدیک دس ہزار سال پرانے ہیں۔ آج تک یہ بھی معلوم نہیں کیا جا سکا کہ اس قدر عظیم الشان شاہکار آخر کس طرح تعمیر کیے گئے۔ اس ضمن میں بھی ماہرین کی بہت سی آراء ہیں، لیکن کسی ایک رائے کو حرفِ آخر قرار نہیں دیا جا سکا۔ اہرام کی تعمیر کا مسئلہ اس قدر پیچیدہ ہے کہ بعض کے مطابق یہ کسی دوسرے سیارے کی مخلوق نے تعمیر کیے۔
فطرت کی غلامی سے کر آزاد ہُنَر کو
صیّاد ہیں مردانِ ہُنر مند کہ نخچیر!
حلِ لغات:
فطرت | قدرت |
صیّاد | شکاری |
مردانِ ہُنرمند | اہلِ فن، فن کار، ہُنر والے لوگ |
نخچیر | شکار |
تشریح:
علامہ ہنر مندوں اور فنکاروں سے فرما رہے ہیں کہ اگر تم بھی ایسا فن پیدا کرنا چاہتے ہو جس میں ہمیشگی اور عظمت ہو تو خود کو قدرت کی زنجیروں سے آزاد کرو اور ریت کے ٹیلوں کی طرح قدرت کے آگے مجبور نہ بنو بلکہ قدرت پر قابو پاؤ تاکہ تم بھی مصر کے اہرام جیسے فن کی تخلیق کر سکو۔ چونکہ تم شکاری (صیّاد) ہو اور یہ ساری کائنات تمہارا شکار (نخچیر) ہے، اس لیے تم اس کو اپنی ہنر مندی سے دام میں لے آؤ۔ اہلِ ہنر افراد قدرت کے شکاری ہوتے ہیں، وہ قدرت کا شکار نہیں بنتے، یہ قدرت کو اپنے آگے سرنگوں کر کے اعلیٰ تخلیقاتِ ہنر پیدا کرتے ہیں، اپنے آرٹ میں اپنے فکرِ اجتہاد سے رنگِ دوام پیدا کرتے ہیں۔
حوالہ جات
- شرح ضربِ کلیم از پروفیسر یوسف سلیم چشتی
- شرح ضربِ کلیم از اسرار زیدی
- شرح ضربِ کلیم از ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی
- شرح ضربِ کلیم از عارف بٹالوی