Skip to content
ضربِ کلیم 104: آزادیِ نِسواں

ضربِ کلیم 104: آزادیِ نِسواں

”آزادیِ نِسواں“ از علامہ اقبال

YouTube video

تعارف

نظم ”آزادیِ نِسواں“ میں علامہ اقبال نے بڑی خوبی کے ساتھ آزادی نسواں کے مسئلہ پر اپنی رائے کا اظہار کیا ہے یعنی در پردہ پردہ کی حمایت بھی کر دی اور بظاہر کچھ نہیں کہا۔

(حوالہ: شرح ضربِ کلیم از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)

نظم ”آزادیِ نِسواں“ کی تشریح

اس بحث کا کچھ فیصلہ مَیں کر نہیں سکتا
گو خوب سمجھتا ہوں کہ یہ زہر ہے، وہ قند

حلِ لغات:

گواگرچہ
قندشکر، شیرہ
حلِ لغات (”آزادیِ نِسواں“ از علامہ اقبال)

تشریح:

اس نظم میں اقبالؔ نے بڑی خوبی کے ساتھ آزادیٔ نسواں (مسئلۂ آزادیٔ نسواں کے بارے میں مزید معلومات ویڈیو کے آخر میں) کے مسئلہ پر اپنی رائے کا اظہار کیا ہے یعنی در پردہ پردہ کی حمایت بھی کر دی اور بظاہر کچھ نہیں کہا۔

اقبالؔ کہتے ہیں کہ میں اس بحث پر کوئی فیصلہ صادر نہیں کر سکتا، اگرچہ میں اچھی طرح سمجھتا ہوں کہ زہر کیا ہوتا ہے اور شکر کیا ہوتی ہے۔ یعنی میرے سامنے عورت کی آزادی کا زہر اور اس کی اصل اور فطری نسوانی کی حالت کی شیرینی کا فرق صاف موجود ہے، میں بخوبی جانتا ہوں کہ بے پردگی عورت کے حق میں زہر ہے اور پردہ اس زہر کا تریاق ہے لیکن میں مصلحتاً خاموش ہوں۔ اقبالؔ سب کچھ جاننے کے باوجود اس پر فیصلہ کیوں نہیں دے رہے، اس کا جواب اگلے شعر میں دیکھیے۔

اقبال پر یہ اعتراض تجدید پسند حلقوں کی جانب سے اکثر کیا جاتا ہے کہ وہ عورت کو جدید معاشرہ میں اس کا صحیح مقام دینے کے حامی نہیں ہیں اور انہوں نے اس باب میں تنگ نظری اور تعصب سے کام لیا ہے اور آزادیٔ نسواں کی مخالفت کی ہے۔ یہ اعتراض وہ لوگ کرتے ہیں جو آزادیٔ نسواں کے صرف مغربی تصور کو پیشِ نظر رکھتے ہیں اور اس معاشرتی مقام سے بے خبر ہیں جو اسلام نے عورت کو دیا ہے۔ اقبال کے تمام نظریات کی بنیاد خالص اسلامی تعلیمات پر ہے اس ليے وہ عورت کے بارے میں وہی کچھ کہتے ہیں جس کی تعلیم اسلام نے دی ہے۔ واضح رہے کہ اقبالؔ کے نزدیک عورت فطرتاً ماں بننے کے لیے پیدا ہوئی ہے اور اس کی سب سے بڑی ذمہ داری اولاد کی اچھی تربیت ہے، رموزِ بیخودی میں فرماتے ہیں:۔

؎ سیرتِ فرزندہا از اُمّہات
جوہرِ صدق و صفا از اُمّہات

مائیں بیٹوں کی سیرت و کردار بناتی ہیں اور اُنہیں صدق و صفا کا جوہر عطا کرتی ہیں۔

(حوالہ: رموزِ بیخودی: ارکانِ اساسی ملیہ اسلامیہ: در معنی اینکہ سیدۃ النساء فاطمۃ الزہرا اسوۂ کاملہ ایست برای نساء اسلام)


کیا فائدہ، کچھ کہہ کے بنوں اَور بھی معتوب
پہلے ہی خفا مجھ سے ہیں تہذیب کے فرزند

حلِ لغات:

معتُوبڈانٹ ڈپٹ کیا گیا، عتاب کو دعوت دینے والا۔ عتاب یعنی غصہ، عذاب، ناراضی کا نشانہ
خفاناراض
تہذیب کے فرزندتہذیب کے بیٹے
حلِ لغات (”آزادیِ نِسواں“ از علامہ اقبال)

تشریح:

پہلے شعر میں اقبالؔ نے جو کہا کہ میں آزادی نسواں کی بحث کا کچھ فیصلہ نہیں کر سکتا، اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ فیصلہ کرنے کے اہل نہیں، بلکہ اس کے پیچھے جو راز ہے اس کا ذکر اس شعر میں موجود ہے۔ فرماتے ہیں کہ اگر میں نے صحیح فیصلہ دیا کہ عورت اس حد تک آزاد نہیں ہونی چاہیے جس سے معاشرے میں خرابی پیدا ہو، تو موجودہ تہذیب کے بیٹے یعنی اس کے گرویدہ لوگ، جو پہلے ہی میری صحیح باتوں اور مغربی تہذیب کے خلاف فیصلوں سے مجھے اپنے زیرِ عتاب رکھے ہوئے ہیں، مجھ سے اور ناراض نہ ہو جائیں۔


اس راز کو عورت کی بصیرت ہی کرے فاش
مجبور ہیں، معذور ہیں، مردانِ خِرد مند

حلِ لغات:

رازبھید
بصیرتدانائی
فاش کرےظاہر کرے
مردانِ خِردمنددانا لوگ، عقلمند لوگ
حلِ لغات (”آزادیِ نِسواں“ از علامہ اقبال)

تشریح:

عقل مند لوگ (مردانِ خِرد مند)، جو آزادیٔ نسواں کے مسئلے پر صحیح فیصلہ دے سکتے ہیں، حالات کی مجبوری اور معذوری کے تحت خاموش ہیں کیونکہ موجودہ حالات میں عورت کی بے لگام آزادی اتنی عام ہو چکی ہے کہ اگر کوئی اسے روکنے کی کوشش کرے گا تو عورتوں اور عورتوں کی آزادی کے علمبرداروں کے زیرِ عتاب آ جائے گا۔ میں اس فیصلے کو عورت پر ہی چھوڑتا ہوں؛ جو آج کل اپنے آپ کو بہت دانا سمجھتی ہے کہ اس راز میں اپنی دانائی میں ظاہر کر دے کہ دونوں میں سے کون سی چیز صحیح اور پسندیدہ اور کون سی چیز غلط اور ناپسندیدہ ہے (یہ کون سی دو چیزیں ہیں، یہ اگلے شعر میں ملاحظہ فرمائیں)


کیا چیز ہے آرائش و قیمت میں زیادہ
آزادیِ نِسواں کہ زمرّد کا گُلوبند!

حلِ لغات:

آرائشزینت
زمرّدسبز رنگ کا قیمتی پتھر
گُلُوبندگلے میں باندھے جانے والا ایک زیور / ہار
حلِ لغات (”آزادیِ نِسواں“ از علامہ اقبال)

تشریح:

عورت کو اللہ تعالی نے اِس معاملہ میں بڑی بصیرت عطا فرمائی ہے، وہ خود فیصلہ کر سکتی ہے کہ آرائش اور قیمت میں کون سی چیز زیادہ ہے؟ آزادی اور بے پردگی یا زمرد کا گلو بند یعنی پردہ نشینی؟

لفظ ”زمرد کا گلوبند“ اس مصرع میں بہت لطف دے رہا ہے۔ اس کے تین معنی ہیں:-

1: بے پردہ عورتیں چونکہ زمرد کا گلوبند پسند نہیں کرتیں، اس لیے اس لفظ سے مراد ہے ”پردہ“

2: گلوبند سے مراد ہے پابندی اور قید، اور پردہ بھی ایک قید (رُکے رہنا) ہے۔

3: زمرد کا گلوبند بہت قیمتی چیز ہے، لہذا اقبالؔ دریافت کرتے ہیں کہ تمہیں آزادی پسند ہے، جو ادنی چیز ہے یا زمرد کا گلوبند پسند ہے، جو قیمتی چیز ہے؟ نیز زمرد کا گلوبند بہت قیمتی چیز ہے جو عموماً شوہر جہیز میں پیش کرتا ہے، اس لیے اُس سے شوہر کی فرمانبرداری بھی مراد ہو سکتی ہے۔

اللہ تعالی، جس نے مرد اور عورت کے دو الگ الگ جسمانی اور صفاتی مجسمے تخلیق کیے ہیں، قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ ہم نے مرد کو عورت پر قوام بنایا یعنی مرد کو عورت کی حفاظت کرنے والا اور گھر بیٹھے ساری ضرورتیں پوری کرنے والا (ایک قسم کا خادم) بنایا ہے۔ اب اس عورت سے، جو مردوں سے آزاد ہو کر اپنی انفرادی اور آزادانہ زندگی گزارنا چاہتی ہے، علامہ پوچھتے ہیں کہ یہ بات تُو ہی بتا دے کہ تیرے لیے بے لگام آزادی تیری زینت اور قیمت میں زیادہ ہے یا ہیروں کا وہ ہار جو تیرے گلے میں سجا ہوا ہے اور جس مرد نے تجھے گھر بیٹھے بٹھائے تیری زینت کے لیے عطا کیا ہے۔ اس سوالیہ انداز سے ہوشمند عورت تو یہی جواب نکالے گی کہ میری اس آزادی سے، جس میں مَیں نے اپنی فطری اور قدرتی ذمہ داریوں سے زیادہ خواہ مخواہ کی ذمہ داریاں مول لے لی ہیں، اس سے تو میرے لیے وہ محدود آزادی ہی بہتر ہے جو مجھے گھر بیٹھے مِلی ہوئی ہے اور جس میں بغیر میری محنت کے اور تگ و دو کے میرا مرد مجھے زندگی کی ساری نعمتیں نصیب کر رہا ہے۔ واضح رہے کہ عورت فطرتاً ماں بننے کے لیے پیدا ہوئی ہے اور اس کی سب سے اہم ذمہ داری نئی نسل کی اچھی تربیت ہے۔

اس سے ایک مطلب یہ بھی مراد ہوسکتا ہے کہ عورتیں اگر آزادی کی آرزو مند ہیں تو پھر ہر طرح کے سامانِ آرائش اور قیمتی اشیاء سے انہیں محروم ہونا پڑے گا۔ مرد ایسا سامان اور اشیاء لا کر دینے کے ذمہ دار نہ رہیں گے۔ ہاں اگر وہ گھروں ہیں میں رہیں، کہ اسی میں ان کی عزت ہے، تو مرد ان کی ہر جائز خواہش پوری کر دیں گے۔ اب یہ فیصلہ عورتوں کو کرنا ہے کہ انہیں آزادی پسند ہے یا سامانِ آرائش وغیرہ۔

مضمون: ”عورت کی آزادی“ از علامہ محمد یوسف جبریل

مغرب میں آزادیِ نسواں کا جو تصور اُبھرا ہے وہ افراد و تفریظ کا شکار ہونے کے باعث بہت غیر متوازن ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک طویل عرصہ تک دیگر معاشروں کی طرح مغرب میں بھی عورت کو کسی قسم کا کوئی معاشرتی حق حاصل نہیں تھا اور اس کی حیثیت مرد کے غلام کی سی تھی۔ اسی ردِ عمل کے طور پر وہاں آزادیٔ نسواں کی تحریک شروع ہوئی اور اس کی بنیاد مرد و زن کی مساوات پر رکھی گئی، مطلب یہ تھا کہ ہر معاملہ میں عورت کومرد کے دوش بدوش لایا جائے۔ چنانچہ معاشرت، معیشت، سیاست اور زندگی کے ہر میدان میں عورت کو بھی ان تمام ذمہ داریوں کا حق دار گردانا گیا جو اب تک صرف مرد پوری کیا کرتا تھا۔ ساتھ ہی عورت کو وہ تمام حقوق بھی حاصل ہو گئے جو مرد کو حاصل تھے۔ اسی بات کو آزادی نسواں یا مساواتِ مرد و زن قرار دیا گیا۔ اس کا نتیجہ اس بے بنیاد آزادی کی صورت میں برآمد ہوا کہ عورت تمام فطری اور اخلاقی قیود سے بھی آزاد ہو گئی۔

آج کل عورتوں کے حقوق کے حصول کی مہم دنیا کے ہر پیش رفتہ اور پسماندہ ملک میں زوروں پر ہے اور عموماً پسماندہ ملکوں کی عورتیں پیش رفتہ ملکوں کی عورتوں کی مثال کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی جدوجہد کا لائحہ عمل تیار کرتی ہیں اور اس پر عمل پیرا ہوتی ہیں۔ اس معاملے میں ہماری رائے کچھ اچھی نہیں۔ جاننا چاہیے کہ پیش رفتہ کیا ہے اور پسماندہ کیا ہے؟ یورپی ممالک دستکاری اور سائنس میں تو مانا کہ مشرقی ممالک کے مقابلے میں پیش رفتہ ہیں لیکن یہ کیسے معلوم ہو گیا کہ عورتوں کے حقوق کے معاملے میں بھی ان کی روِش قابل تقلید ہے؟ تو پھر یہ کیوں نہیں کہہ دیتے کہ مذہب بھی ان ہی کا قبول کر لینا چاہیے کہ وہ ایک پیش رفتہ اور ترقی یافتہ قوم ہیں۔ یاد رکھیئے کہ مشرق کی عورت اور مغرب کی عورت اور دونوں کے حالات و ماحول میں کوئی مشابہت اور مطابقت نہیں کم از کم تفاوت ضرور ہے۔ جن دشواریوں اور مشکلوں کے پیشِ نظر مغربی عورت کو اپنے حقوق کے حصول کے لیے پیش قدمی کرنی پڑتی ہے، مشرقی عورت کو اس کی کوئی حاجت نہیں یا کم از کم حاجت ہے۔ جن لوگوں کو یورپی ممالک دیکھنے اور ان کے معاشرتی، معاشی، سماجی، اخلاقی، مذہبی اور اقتصادی حالات کا جائزہ لینے کا موقع ملا ہے وہ ہمارے اس دعوے کوسرسری نہیں کہیں گے اور تھوڑی بہت رد و قدح کے بعد اتنا ضرور مان لیں گے کہ مشرق میں عورت ذات کو ایسی مہم پر کمربستہ ہونے کی کوئی ایسی ضرورت تو نظر نہیں آتی، البتہ انجام اس مہم کا نہایت خطرناک اور نقصان دہ ہو گا۔

ہاں یہ بات ہم مانیں گے کہ مشرقی ممالک میں عورتیں کئی لحاظ سے مظلوم ہیں مگر بھارت اور پاکستان کا اس زمرے میں شمار نہیں ہو سکتا۔ جن مشرقی ممالک میں لڑکیاں پیسے کے بدلے بیاہی جاتی ہیں یا جہاں عورتوں کی خرید و فروخت ہوتی ہے یا جہاں مردوں کو بغیر کوئی جرمانہ یا حق ادا کیے محض اپنی مرضی پر عورت کو نکال دینے کا جواز ہے یا جہاں عورت کو محض لونڈی غلام بنا کر رکھنے کا رواج ہے، ان ممالک میں عورتوں کوحق پہنچتا ہے کہ اپنی بہتری کے لیے کوئی مطالبہ کریں مگر سخت نا امُید لہجے میں کہنا پڑتا ہے کہ ایسے ممالک میں عورتوں کے لیے کوئی ایسا میدان تیار نہیں ہو سکتا یا بہت مشکل سے تیار ہو گا، مگر بھارت اور پاکستان جیسے ممالک میں نہیں۔ یہاں صرف تین ہی شکایات مناسب معلوم ہوتی ہیں۔ ایک خاوند کی بدسلوکی، مارپیٹ ،بد چلنی، آوارگی، لاپروائی اور دوسری عدمِ حق طلاق اور تیسری خاوند کی ایک سے زیادہ شادیوں کا جواز۔ تینوں شکایتیں بجا ہیں اور تینوں کا حل اسلام میں موجود ہے۔ حکومتوں کو چاہیے کہ ان امور میں اسلامی فرامین کی روشنی میں قانون وضع کریں اور اس کمزور مخلوق کو ظالموں کے پنجے سے نجات دلائیں۔ اگر ان تینوں شکایتوں میں سے کسی ایک کے لیے بھی ہماری مائیں بہنیں کوئی اقدام کریں تو ہماری ہمدردیاں ان کے ساتھ ہیں۔ خدا انہیں کامیابی عطا کرے اور ہمیں عقل و انصاف۔ باقی عرض یہ ہے کہ یہ تینوں شکایتیں مردوں کی جہالت کے سبب پیدا ہوئیں۔ اگر عوام تعلیم یافتہ اور فراخ دل ہوں گے تو عورتوں کو مارنے پیٹنے اور عذاب دینے سے باز رہیں گے۔ دوسرا ہے طلاق کا مسئلہ۔ سو اسلام نے عورت کو چند وجوہ کی بنا پر شرعاً طلاق لینے کا جواز دیا ہے۔ اسلام طلاق کی اجازت دیتا ہے مگر طلاق کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا۔ باقی رہا ایک سے زیادہ شادیوں کا سوال سو کوئی آدمی جو قرآن پر صحیح معنوں میں ایمان رکھتا ہے اور اس کی تعلیم پر عمل پیرا ہونا چاہتا ہے تو اس کے لیے قران حکیم کی ہدایت یہ ہے کہ تم چار تک شادیاں کر سکتے ہو اور شرط یہ ہے کہ تم سب کے ساتھ انصاف کر سکو اور اگر ایک سے زیادہ بیویوں والے مرد کی ہر عورت اس سے انصاف پاتی ہے تو پھر شکایت کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔

(حوالہ: ”عورت کی آزادی“ از علامہ محمد یوسف جبریل)

حوالہ جات

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments