”مُسلمان کا زوال“ از علامہ اقبال
فہرست
تعارف
نظم ”مُسلمان کا زوال“ میں بتایا گیا ہے کہ مسلمان کے زوال کا سبب بے زری نہیں بلکہ فقر سے محرومی ہے۔
(حوالہ: شرح ضربِ کلیم از پروفیسر حمید اللہ شاہ ہاشمی)
؎ غیرت ہے طریقتِ حقیقی
غیرت سے ہے فقر کی تمامی
(حوالہ: ضربِ کلیم: جاوید سے)
نظم ”مُسلمان کا زوال“ کی تشریح
اگرچہ زر بھی جہاں میں ہے قاضی الحاجات
جو فقر سے ہے مَیّسر، تونگری سے نہیں
حلِ لغات:
زر | سونا، دولت |
قاضی الحاجات | ضرورتیں پوری کرنے والا |
فقر | درویشی، اللہ پر بھروسہ کرنا |
مَیّسر | |
توَنگری | امیری، دولت مندی |
تشریح:
اگرچہ دولت (زر) بھی اِس دُنیا میں ہماری ضرورتوں کو پورا کرسکتی ہے لیکن جو عزت اور وجاہت، ایک انسان کو شانِ فقر سے حاصل ہوسکتی ہے، وہ دولت سے حاصل نہیں ہوسکتی۔ گویا مال و زر سے ایسے عظیم کارنامے سرانجام نہیں فیے جاسکتے جو فقر و درویشی کی بدولت سرانجام دیے جاسکتے ہیں۔ فقر سے یہاں مُراد غریبی نہیں بلکہ قلندری اور درویشی ہے (فقر کے حوالے سے مزید معلومات ویڈیو کے آخر میں ملاحظہ فرمائیں)
اگر جواں ہوں مری قوم کے جسوُر و غیور
قلندری مری کچھ کم سکندری سے نہیں
حلِ لغات:
جسُور | دلیر، نڈر |
غیور | غیرت والے |
قلندری | قلندر ہونا، دُنیا سے بے نیاز ہو کر صرف اللہ تعالی کی ذات سے متعلق ہونا |
تشریح:
اگر مسلمان نوجوان اپنے اندر بہادری (جسور: ہمت والے، دِلیر) اور غیرت (غیور: غیرت مند) کا جذبہ پیدا کرلیں تو قوم مُفلسی کے باوجود دُنیا میں سکندری یعنی حکمرانی کرسکتی ہے۔ حکومت کے لیے دراصل دولت اور کثرتِ افراد درکار نہیں، بلکہ جسارت، حوصلہ اور غیرتِ دینی درکار ہے۔ یعنی دین پر مر مِٹنے کا جذبہ۔
؎ غیرت ہے بڑی چیز اس جہانِ تگ و دو میں
پہناتی ہے درویش کو تاجِ سرِ دارا
(حوالہ: ارمغانِ حجاز: بُڈھے بلوچ کی نصیحت بیٹے کو)
سبب کچھ اور ہے، تُو جس کو خود سمجھتا ہے
زوال بندۂ مومن کا بے زری سے نہیں
حلِ لغات:
زوال | ہلاکت، تباہی، ترقی یا عروج کے کم ہونے یا ختم ہونے کی کیفیت، تنزل، انحطاط |
بے زری | دولت کا نہ ہونا، غریبی |
تشریح:
اگر دُنیا میں مسلمانوں کا زوال ہوا تو وہ بے زری سے نہیں ہوا بلکہ اس کا سبب کُچھ اور ہے، جس سے تُو بخوبی واقف ہے (یعنی بے غیرتی)۔ اسی خیال کو اقبالؔ نے یوں بیان کیا ہے:-
؎ تا کجا بے غیرتِ دیں زیستن!
اے مسلمان مُردن است ایں زیستن!
اے مسلمان تُو کب تک غیرتِ دین کے بغیر زندگی بسر کرے گا؛
ایسی زندگی زندگی نہیں بلکہ موت ہے۔
(حوالہ: پس چہ بائد کرد: فقر)
اگر جہاں میں مرا جوہر آشکار ہُوا
قلندری سے ہُوا ہے، تو نگری سے نہیں
حلِ لغات:
جوہر | صلاحیت |
آشکار ہوا | ظاہر ہوا |
توَنگری | امیری، مالداری، دولت مندی |
تشریح:
اے مسلمان! اگر دُنیا میں میری عزت ہوئی ہے اور مجھے بلند مقام نصیب ہوا ہے، یا میری صلاحیتیں نمایاں ہوئی ہیں، تو یہ شرف مجھے توَنگری (دولتمندی) سے حاصل نہیں ہوا، کیونکہ دولت تو میرے پاس ہے ہی نہیں، بلکہ یہ عزت مجھے قلندری سے حاصل ہوئی ہے۔ واضح ہو کہ اقبالؔ نے قلندری کو فقر کے معنوں میں استعمال کیا ہے۔
خلاصہ
نظم ”مسلمان کا زوال“ کا خلاصہ یہ ہے کہ اقبالؔ کی رائے میں مُسلمان کے زوال کا باعث یہ نہیں کہ وہ بے زر (بے دولت) ہے، بلکہ یہ ہے کہ اُس میں شانِ فقر نہیں پائی جاتی۔
(حوالہ: شرح ضربِ کلیم از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)
اقبالؔ اور فقر
خودیؔ کی طرح اقبالؔ نے فقرؔ کو بھی بڑی اہمیت دی ہےاور اس کا سبب یہ ہے کہ خودی کی تربیت اور اس کا مرتبۂ کمال تک پہنچنا، سب کچھ فقرؔ پر منحصر ہے۔ اس لیے مختصر طور پر فقر کو بھی سمجھ لینا چاہیے۔
فقر کے ایک معنی تو مفلسی کے ہیں، مثلاً
”کاد الفقر ان یکون کفرا“
قریب ہے کہ مفلسی انسان کو کافر بنا دے یعنی مفلسی انسان کو کُفر کے قریب پہنچا دیتی ہے۔
(حوالہ: مشکوۃ: حدیث نمبر 5051)
فقرؔ کے دوسرے معنی ہیں صرف اللہ پر بھروسہ کرنا اور دُنیا سے بے نیاز ہو کر، اپنی تمام حاجات اللہ کی درگاہ میں پیش کرنا۔ یہ وہ صورت ہے کہ مردِ مومن پہلے دُنیا فتح کرتا ہے، پھر اللہ کے لیے اُس دُنیا اور اُس کی دِلفریبی اور لذّت پر لات مارتا ہے۔ اگرچہ رومؔ اور شامؔ، عراقؔ اور ایرانؔ اُس کے باجگذار (محکوم / خراج ادا کرنے والے) ہوتے ہیں لیکن وہ بوریئے پر سوتا ہے اور پیوند لگا ہوا کُرتا پہنتا ہے۔
(دوسری مثال) سارا عرب اُس کے زیرِ نگیں ہوتا ہے، لیکن ایک ایک مہینہ تک اُس کے چولہے میں آگ نہیں جلتی۔ اور جس کمرے میں وہ (ﷺ) رہتا ہے، اُس میں ایک چارپائی، ایک بوریا اور ایک پانی کے گھڑے کے علاوہ اور کوئی سامان نہیں ہوتا۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے ”الفقر فخری“، میں اپنی شانِ فقر پر فخر کرتا ہوں۔ یا فقر میرے لیے باعثِ فخر ہے۔ یعنی جس طرح دُنیا کے بادشاہ اپنی دولت، فوج اور طاقت پر فخر کرتے ہیں، میں اپنے فقر پر فخر کرتا ہوں کہ دُنیا میں کسی کا محتاج نہیں ہوں، صرف اللہ کا محتاج ہوں۔
فقرؔ، اقبالؔ کی اصطلاح ہے اور مجھے افسوس ہے کہ میں اس جگہ اس کی پوری تشریح نہیں کر سکتا۔ کیونکہ میں نے اس کی تشریح میں دو سو صفحے کی کتاب انگریزی میں لِکھی ہے۔ جو ابھی تک طبع نہیں ہوئی۔ بس دو لفظوں میں اس قدر کہہ سکتا ہوں کہ فقر کے تیسرے معنی، یعنی اقبالی معنی روحِ اسلام کے ہیں اور یہی وہ جوہر ہے جس کی بدولت خودی مرتبۂ کمال کو پہنچتی ہے۔
اب اقبالؔ کی زبان سے اس کی تشریح سُنو!
اقبالؔ فرماتے ہیں کہ
؎ فقر قرآں اختلاطِ ذکر و فکر
فِکر را کامِل ندیدم جُز بہ ذکر
قرآن پاک کا فقر ذکر و فکر کا اختلاط ہے،
میں نے فکر کو ذکر کے بغیر کامل نہیں دیکھا۔
(حوالہ: جاوید نامہ – فلک عطارد: پیغام افغانی با مِلّتِ روسیہ)
یعنی فقر دو چیزوں کے مجموعہ کا نام ہے؛ ذِکر اور فِکر۔ ذکر کے معنی ہیں یاد کرنا، یاد رکھنا، دھیان رکھنا، ہر گھڑی مدِ نظر رکھنا، محبت کرنا، اطاعت کرنا، تعمیلِ احکام کرنا، فرمانبرداری اور فکر کے معنی ہیں تدبّر (سوچ بچار) کرنا، غور کرنا، تعقّل کرنا (سمجھنا)، غور و حوض کرنا اور ادراکِ حقائق کرنا۔ یہ دو لفظ قرآن پاک کی اس آیت سے ماخوذ ہیں:-
الَّذِيۡنَ يَذۡكُرُوۡنَ اللّٰهَ قِيَامًا وَّقُعُوۡدًا وَّعَلٰى جُنُوۡبِهِمۡ وَيَتَفَكَّرُوۡنَ فِىۡ خَلۡقِ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِۚ رَبَّنَا مَا خَلَقۡتَ هٰذَا بَاطِلًا ۚ سُبۡحٰنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ۞
ترجمہ: صاحبانِ عقل وہ لوگ ہیں جو کھڑے، بیٹھے اور لیٹے یعنی ہر حالت میں اور ہر وقت اللہ کو یاد کرتے ہیں۔ یعنی ہر حال میں اُس کی اطاعت کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غور و فِکر کرتے ہیں اور اِس غور و فِکر کی بِناء پر وہ بے اختیار یہ کہہ اُٹھتے ہیں کہ اے ہمارے رب! تُو نے اِس کائنات کو بِلا مقصد پیدا نہیں کیا۔
(حوالہ: القرآن: سورۃ آل عمران: آیت نمبر 191)
اقبالؔ فرماتے ہیں کہ ایک فقر تو وہ ہے جس کی تلقین دُنیا کے اکثر مذاہب کرتے ہیں یعنی رہبانیت یا ترکِ دُنیا۔ لیکن اسلام جس فقر کی تعلیم دیتا ہے وہ رہبانیت نہیں، بلکہ وہ ذکر اور فکر کے امتزاج کا نام ہے یعنی مومن اللہ سے محبت کرتا ہے اور بوجہ محبت اس کے احکام کی اطاعت کرتا ہے اور ساتھ ساتھ اپنی عقلِ خُداداد سے کام لے کر کائنات میں غور و فکر کرتا ہے اور تحقیق سے کام لے کر عناصر پر حکمرانی کرتا ہے یعنی فقر کا مفہوم ہے اللہ کی اطاعت اور کائنات پر حکومت۔ یہی وہ فقر ہے جس کی بدولت خودی مرتبۂ کمال کو پہنچتی ہے۔ چنانچہ اقبالؔ خود لِکھتے ہیں:-
؎ چڑھتی ہے جب فقر کی سان پہ تیغِ خودی!
ایک سپاہی کی ضرب کرتی ہے کارِ سِپاہ!
(حوالہ: بالِ جبریل)
اسی طرح اقبالؔ ایک جگہ فرماتے ہیں:-
؏ خودی ہے تیغ، فساں لا الہ الا اللہ
(حوالہ: بالِ جبریل)
یعنی خودی کو اگر تلوار فرض کیا جائے تو توحید اُس تلوار کی فساں (تلوار کو تیز کرنے والا پتھر) ہے۔ جبکہ یہاں اُنہوں نے کہا ہے:-
؏ چڑھتی ہے جب فقر کی سان پہ تیغِ خودی
یعنی خودی تیغ ہے، فقر سان (فساں) ہے۔ پس ثابت ہوا کہ توحید اور فقر ہم معنی ہیں کیونکہ خودی کے حق میں دونوں کا اثر یکساں ہے۔ توحید بھی سان ہے اور فقر بھی۔
غور کیا جائے تو جب تک آدمی صحیح معنوں میں موحد (توحیدی) نہ ہو، اُس میں شانِ فقر پیدا نہیں ہو سکتی۔ یعنی در اصل موحد اور فقیر مترادف (ہم معنی) الفاظ ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ جب کسی مُسلمان میں شانِ فقر پیدا ہوجاتی ہے، تب وہ موحدِ کامِل بنتا ہے۔
(حوالہ: شرح ضربِ کلیم از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)
حوالہ جات
- شرح ضربِ کلیم از پروفیسر یوسف سلیم چشتی
- شرح ضربِ کلیم از ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی
- شرح ضربِ کلیم از اسرار زیدی
- شرح ضربِ کلیم از پروفیسر حمید اللہ شاہ ہاشمی