”آزادیِ افکار“ از علامہ اقبال
فہرست
تعارف
نظم ”آزادیِ افکار“ کی تشریح
جو دُونیِ فطرت سے نہیں لائقِ پرواز
اُس مُرغکِ بیچارہ کا انجام ہے اُفتاد
دُونیِ فطرت | فطرتی پستی / کمینگی |
لائق | قابل |
مُرغکِ بیچارہ | بے چارہ / بے بس پرندہ |
اُفتاد | گِرنا |
تشریح:
جو پست فطرت پرندہ فضاء میں بلندی پر اُڑنے کی صلاحیت سے محروم ہو، اس صورت میں اگر وہ اُڑنے کی جسارت کرے گا تو اس کا انجام اس کے سوا اور کچھ نہ ہو گا کہ دھڑام سے نیچے گِر پڑے۔ مراد یہ کہ افکار کی بلندی اور آزادی ہر فرد کی فطرت سے مطابقت نہیں رکھتی۔ اخلاقی و فنی قوانین سے آزاد ہو کر بلند افکار پیدا نہیں کیے جا سکتے۔
اقبالؔ یہ نصیحت کرتے ہیں کہ دنیا میں حقیقی حُسن و جمال اور صحیح ترقی صرف اخلاقی اور فنی قوانین کی پابندی سے ممکن ہے۔ مثال کے طور پر اگر کسی نغمہ یا راگنی کو فنِ موسیقی کی قیود سے آزاد کر دیا جائے تو اس کا جمال اور دِلکشی بالکل غائب ہو جائے گی۔ اس کے علاوہ کسی مسئلہ میں اظہارِ رائے کا حق صرف اس شخص کو حاصل ہے جس نے اس فن میں مہارتِ تامہ حاصل کی ہے جس پر وہ مسئلہ مبنی ہے۔ مثلاً اُس شخص کو کسی طبیب کے نسخہ پر اظہارِ رائے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے جس نے فنِ طب باضابطہ حاصل نہ کیا ہو، اسی طرح اُس شخص کو دینی معاملات میں رائے دینے کا کوئی حق حاصل نہیں جس نے علومِ دینی کی باقاعدہ تکمیل نہ کی ہو۔
ہر سینہ نشیمن نہیں جبریلِ امیں کا
ہر فکر نہیں طائرِ فردوس کا صیّاد
نشیمن | آشیانہ، مکان، آماج گاہ، ٹھکانہ |
طائرِ فردوس | جنّت (بہشت) کا پرندہ |
صیّاد | شکار کرنے والا، شکاری |
تشریح:
ہر فرد کا سینہ اس قابل نہیں ہوتا کہ جبریلِ امین حق بجانب پیغامات کے ساتھ اُس پر اُتریں، مراد یہ ہے کہ حضرت جبریلِ امین کو تو محض اس امر کا ذمہ قرار دیا گیا تھا کہ وہ حق تعالی کے پیغامات اور احکامات دنیا میں اس کے پیغمبروں تک پہنچادیں کہ ہر شخص کو ان پیغامات کا اہل قرار نہیں دیا جا سکتا، صرف پیغمبر ہی ان پیغامات کے اہل ہوتے ہیں کیونکہ اُن کا سینہ ہر طرح کے باطل خیالات سے پاک ہوتا ہے۔ اسی طرح ہر فکر جنت الفردوس کے پرندے کا شکار نہیں کر سکتی (فردوس کا پرندہ استعارہ ہے اعلی اور بلند خیالات کا) یعنی بلندیِ افکار کی حامل نہیں ہو سکتی
اُس قوم میں ہے شوخیِ اندیشہ خطرناک
جس قوم کے افراد ہوں ہر بند سے آزاد
شوخیِ اندیشہ | سوچ اور فکر کی تیزی / بے باکی |
بند | قید، بندھن، بندشیں، پابندیاں |
تشریح:
یہ شعر بھی اپنے مطالب کے لحاظ سے پچھلے دو اشعار کے تسلسل میں ہے۔ یہاں اقبالؔ واضح طور پر اپنے اس نقطۂ نظر کا اظہار کرتے ہیں کہ جو قوم اور معاشرہ خود کو ہر نوع کی اخلاقی و تہذیبی آزادی اور دوسری انسانی اقدار کو مُسترد کر کے خود کو مادر پِدر آزاد قسم کی قوم اور معاشرہ تصور کر لے، اُس کے لیے آزادیٔ افکار ہمیشہ خطرناک اور نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔ یعنی آزادیٔ اظہار و افکار کے لیے بھی بعض معاشرتی اور اخلاقی اقدار کی پابندی ناگُزیر (لازمی) ہے۔ جس قوم کے افراد ان تمام پابندیوں سے آزاد ہوں، جو اجتماعی زندگی کی بنیادی شرط ہیں، تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اس قوم میں فکر و خیال کی شوخی خود اُس کے لیے بڑی خطرناک ثابت ہوگی۔
گو فکرِ خدا داد سے روشن ہے زمانہ
آزادیِ افکار ہے اِبلیس کی ایجاد
فکرِ خداداد | اللہ تعالیٰ کی بخشی ہوئی عقل |
ازادیِ افکار | خیالات کی آزادی |
تشریح:
اقبالؔ کہتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ عقل و خِرد وہ نعمت ہے جس کی بدولت یہ دنیا ترقی کی منزلیں طے کر رہی ہے اور اس دنیا میں جس قدر روشنی نظر آرہی ہے یہ سب فکرِ خداداد ہی کا کرشمہ ہے۔ ربِ ذوالجلال نے انسان کو غور و فکر اور اپنے نقطۂ نظر کے اظہار کے لیے جو صلاحیت عطا کی ہے وہ معاشرے کے لیے روشن ہدایات کا کام دیتی ہے اور راہنمائی کا سبب بنتی ہے۔
لیکن جہاں تک ”مادر پِدر آزادی“ کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں شاید یہ غلط نہ ہو کہ یہ تو شیطان کی ان ایجادات اور لعنتوں میں سے ایک ہے جو اس نے دنیا میں وارد ہو کر انسان کو گمراہی اور ذِلّت سے ہم کنار کرنے کے لیے وضع کی ہیں اور جس کا نتیجہ تباہی و بربادی کے سوا اور کچھ نہیں! ابلیسؔ کا مقصد یہ ہے کہ بنی آدم روحانیت اور اخلاقِ حسنہ سے معرّا ہو جائیں اور انسانیت کے مرتبہ سے تنزل کر کے واپس حیوانیت کے دائرہ میں آجائیں۔ اس لیے اس نے انہیں سمجھایا کہ چونکہ تم آزاد ہو اس لیے اپنی فکر کو بھی تمام اخلاقی قیود سے آزاد کر دینا چاہیے۔ چنانچہ ایک بار پھر اس نقطہ کا اعادہ غیر ضروری نہیں ہوگا کہ اقبالؔ آزادیٔ افکار و اظہار کے قطعی طور پر مخالف نہیں ہیں، تاہم اس کے لیے کچھ حدود کا تعین ضروری سمجھتے ہیں جن کے بغیر یہ آزادی کارِ ابلیس کے سوا اور کچھ نہیں رہتی۔
یہی وجہ ہے کہ آج وہ لوگ دینی معاملات میں مجتہدانہ اظہارِ رائے کر رہے ہیں جنہوں نے نہ تو علمِ دین حاصل کیا اور نہ کسی شیخ کی صحبت اُٹھائی۔ محض اخبارات و رسائل کی ادارت کے وسیلہ سے ”امیرِ جماعت“ کے منصبِ عالیہ پر سرفراز ہو گئے اور آج پاکستان کے سادہ لوح مسلمانوں کو ”صالح نمائندوں“ کی معرفت اسلامی حکومت کے قیام کا سبز باغ دکھا کر اپنی دکان چمکا رہے ہیں۔
چنانچہ ایک بار پھر اس نقطہ کا اعادہ غیر ضروری نہیں ہوگا کہ اقبالؔ آزادیٔ افکار و اظہار کے قطعی طور پر مخالف نہیں ہیں، تاہم اس کے لیے کچھ حدود کا تعین ضروری سمجھتے ہیں جن کے بغیر یہ آزادی کارِ ابلیس کے سوا اور کچھ نہیں رہتی۔
حوالہ جات
- شرح بالِ جبریل از پروفیسر یوسف سلیم چشتی
- شرح بالِ جبریل از ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی
- شرح بالِ جبریل از اسرار زیدی