Skip to content
بالِ جبریل 165: پنجاب کے پیرزادوں سے

بالِ جبریل 165: پنجاب کے پیرزادوں سے

نظم ”پنجاب کے پیرزادوں سے“ از علامہ اقبال

تعارف

نظم ”پنجاب کے پیرزداوں سے“ ایک عجیب و غریب نظم ہے جس میں علامہ اقبال نے اشعار کے پردہ میں بُت شِکنی کا مومنانہ فریضہ انجام دیتے ہوئے پنجاب کے پیرزادوں پر کڑی تنقید کی ہے۔ علامہ کا بنیادی اعتراض یہ ہے کہ پنجاب کے پیرزادے، جو کبھی فقر و درویشی کے امین تھے، اب اپنے اسلاف کی وراثت کو بھول چُکے ہیں۔ اُن کی روحانی گدیاں دنیاوی جاگیروں میں تبدیل ہو چکی ہیں، جہاں ”کُلَہِ فقر“ (درویش کی ٹوپی) کو چھوڑ کر ”طُرّۂ دستار“ (جاگیرداروں کی عالیشان پگڑی) اپنا لی گئی ہے۔ اِن پیرزادوں نے اپنے دینی فرائض سے انحراف کیا اور اپنی ساری توجہ ”خدمتِ سرکار“ یعنی برطانوی حکومت کی وفاداری اور خوشامد پر مرکوز کر دی ہے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ جب انگریزوں نے ہندوستان پر اپنا تسلط جمایا تو اُنہوں نے مفادات کے لیے ان پیرزادوں کو استعمال کیا اور نہ صرف اُن کی جاگیروں کو برقرار رکھا بلکہ ان کی ”خدمات“ کے عِوض ان کی جاگیروں اور مناصب میں بھی اضافہ کر دیا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ پنجاب کے پیرزادوں کی یہ حقیقت حضرت مجدد شیخ احمد سرہندیؒ کی زبان مبارک سے بیان کی گئی ہے جو ہندوستان میں اسلامی فقر کے بہت بڑے علم بردار تھے۔

YouTube video

نظم ”پنجاب کے پیرزادوں سے“ کی تشریح

حاضِر ہُوا میں شیخِ مجدّدؒ کی لحَد پر
وہ خاک کہِ ہے زیرِ فلک مطلعِ انوار

بالِ جبریل 165: پنجاب کے پیرزادوں سے از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح

حلِ لغات:

الفاظمعنی
شیخِ مجددؒمراد حضرت مجدد الف ثانیؒ، جہانگیری دور کے مشہور صوفی
لحدقبر، مزار
خاکمٹی
مطلعِ انوارنور کے پھوٹنے کی جگہ
(نظم ”پنجاب کے پیرزادوں سے“ از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

علامہ محمد اقبالؒ حضرت مجدد الف ثانیؒ کے مزار پر اپنی حاضری کا تذکرہ کرتے ہوئے، اُس مردِ کامل کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں جس نے برِصغیر میں اکبر کے خود ساختہ ”دینِ الہی“ کے باطل نظریات کے خلاف علمِ حق بلند کیا۔ اکبر کا ”دینِ الہی“ ایک ایسا من گھڑت مذہب تھا جسے شاہی اقتدار کو مذہبی بنیاد دینے کے لیے مختلف مذاہب (اسلام، ہندومت، زرتشتیت وغیرہ) کے اجزاء سے ملا کر بنایا گیا، جس کے نتیجے میں اسلامی عقائد اور شریعت کی بنیاد کمزور پڑ گئی تھی۔ حضرت مجددؒ نے بروقت تجدیدِ دین کا فریضہ انجام دیا اور اسلام کی روحِ توحید کو زندہ کیا۔ اقبالؒ کے نزدیک جنابِ مجددؒ کا مزار محض ایک زمین کا ٹکڑا نہیں بلکہ آسمان کے نیچے نورانی تجلیات کا مرکز ہے، کیونکہ اس میں وہ ہستی آسودہ ہے جس کی روحانی روشنی نے ظلمت میں ڈوبی ہوئی ملتِ اسلامیہ کو منور کیا۔ درحقیقت، اقبالؔ کی یہ حاضری اُسی نورِ تجدید سے فیض یاب ہونے کی خواہش تھی، جو غلام قوموں کے دلوں میں خودی، مضبوط ایمان اور حُریّت (آزادی) کی چنگاری روشن کرتا ہے۔


اس خاک کے ذرّوں سے ہیں شرمندہ ستارے
اس خاک میں پوشیدہ ہے وہ صاحبِ اسرار

حلِ لغات:

الفاظمعنی
پوشیدہمخفی، پِنہاں
صاحبِ اسراربھیدوں کو جاننے والا
(نظم ”پنجاب کے پیرزادوں سے“ از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

علامہ اقبال کے نزدیک حضرت مجدد الف ثانیؒ کے مزار کی خاک کا مرتبہ اتنا بلند ہے کہ اس کے ذروں کی چمک اور درخشانی کے سامنے آسمان کے ستارے بھی شرمندہ محسوس کرتے ہیں اور ان کی روشنی ماند پڑ جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ محض مٹی نہیں بلکہ ایک صاحبِ اسرار، یعنی معرفتِ الہی کے بھیدوں سے واقف بلند مقام عارف کا مدفن ہے۔ اقبالؔ کے لیے ”صاحبِ اسرار“ وہ انسانِ کامل ہے جس پر حقیقتِ مطلقہ کے تمام پردے اُٹھ چُکے ہوں، اور جو روحانی بصیرت کے ذریعے حق تک رسائی حاصل کر چکا ہو۔ شیخ مجدد الف ثانیؒ جیسے اولو العزم بزرگ اور باطن کے رازوں سے واقف ہستی کے آسودۂ خاک ہونے کے باعث، یہ مٹی فیض یاب ہو کر ایسی تابانی اختیار کر چُکی ہے کہ ستاروں کی چمک دمک بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔


گردن نہ جھُکی جس کی جہانگیر کے آگے
جس کے نفَسِ گرم سے ہے گرمیِ احرار

بالِ جبریل 165: پنجاب کے پیرزادوں سے از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح

حلِ لغات:

الفاظمعنی
جہانگیرمغلیہ بادشاہ نورالدین جہانگیر
نَفَسِ گرمگرم سانسیں جو زندگی کی علامت ہیں
گرمیِ احرارآزاد مردوں کا جذبہ، حُرّیت
(نظم ”پنجاب کے پیرزادوں سے“ از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

حضرتِ مجددؒ ایسی اولو العزم شخصیت تھے جن کی گردن شہنشاہ جہانگیر جیسے جابر اور عالی شان بادشاہ کے سامنے بھی نہ جھُکی۔ یہ واقعہ اُس وقت پیش آیا جب دربار میں مخالفین نے حضرت مجددؒ کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کی شکایتیں کیں، اس لیے کہ دربار کے اکثر اکابر اور فوج کے بڑے بڑے سالار اُن کے مرید تھے، جس پر جہانگیر نے اُنہیں طلب کِیا۔ حضرت مجددؒ نے وقت کے درباری رواج کے خلاف نہ تو تعظیمی سجدہ کیا اور نہ ہی غیر مسنون طریقِ سلام اختیار کیا، جس پر جہانگیر کو غصہ آیا اور اُس نے اُنہیں گوالیار کے قلعے میں نظربند کروا دیا۔ تاہم، اس استقامت اور جُرأت نے مجددؒ کے مقام کو مزید بلند کیا، اور بعد ازاں جہانگیر نے خود ہی انہیں رہا کیا اور ان کی تعظیم کی اور خاصی مُدت تک اپنے ساتھ رکھا اور ایک مرتبہ کشمیر جاتے ہوئے حضرت مجددؒ کی دعوت بھی قبول کی ۔ اقبالؔ کے نزدیک، حضرت مجددؒ کی اسی بے خوفی اور عزیمت کے سبب اُن کے ”نفسِ گرم“ سے حُریت پسند اور آزاد انسانوں (احرار) کی محفلوں میں آج بھی جوش و ولولہ اور گرمیِ عمل قائم ہے۔


وہ ہِند میں سرمایۂ ملّت کا نِگہباں
اللہ نے بروقت کیا جس کو خبردار

حلِ لغات:

الفاظمعنی
نگہبانحفاظت کرنے والا، محافظ، پاسبان
سرمایۂ مِلت کا نگہباںمِلتِ اسلامیہ یعنی مسلم قوم کے سرمائے کا نگہبان
(نظم ”پنجاب کے پیرزادوں سے“ از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

بادشاہ اکبر کے عہد میں جب دینِ اکبری (دینِ الہی) کے نام پر ایک نئے مذہبی فلسفے کی بنیاد رکھی گئی، جس کا مقصد مختلف مذاہب کے عقائد کو ملا کر ایک ہمہ گیر نظام بنانا تھا، تو یہ دراصل اسلام کی خالص تعلیمات کو کمزور کرنے کی ایک فکری تحریک بن گئی۔ اس ماحول میں حضرتِ مجددؒ نے اس بگاڑ کے خلاف کھُلم کھُلا آواز بلند کی۔ اُنہوں نے اپنے مکتوبات اور ارشادات کے ذریعے یہ واضح کیا کہ حق صرف دینِ محمدی ﷺ میں ہے اور کسی بھی فلسفے یا بادشاہی نظریے کے نام پر اس میں ملاوٹ قابلِ قبول نہیں۔ اُن کی یہی فکری اور دینی مزاحمت دربار کے بعض اثرورسوخ رکھنے والے گروہوں کو ناگوار گزری، چنانچہ جہانگیر کے عہد میں اُنہیں گوالیار کے قلعے میں نظر بند کر دیا گیا۔ مگر بالآخر بادشاہ نے خود اُن کی عظمت کو تسلیم کیا، رہائی دی اور اُنہیں احترام کے ساتھ اپنے قریب رکھا۔ حضرت مجددؒ کی اسی اصلاحی جدوجہد کے باعث وہ برِصغیر میں اسلامی روحِ ایمان کے احیاء کی علامت بن گئے اور اقبالؔ نے اُنہیں بجا طور پر ”ہند میں سرمایۂ ملت کا نگہباں“ کہا۔


کی عرض یہ میں نے کہ عطا فقر ہو مجھ کو
آنکھیں مری بِینا ہیں، و لیکن نہیں بیدار!

بالِ جبریل 165: پنجاب کے پیرزادوں سے از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح

حلِ لغات:

الفاظمعنی
بِینادیکھنے والی (آنکھیں)
(نظم ”پنجاب کے پیرزادوں سے“ از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

اقبالؔ کہتے ہیں کہ حضرت مجدد الف ثانیؒ سے میں نے دست بسته درخواست کی کہ آپ تو رازِ فطرت کے امین ہیں۔ از راہِ کرم مجھے بھی فقر کی دولت عطا کر دیں۔ ہر چند میری آنکھوں میں اشیا کو ظاہری سطح پر دیکھنے کا جو ہر تو موجود ہے اس کے باوجود باطن تک ان کی رسائی ممکن نہیں۔ ان کو وہ روشنی عطا ہو کہ اس ضمن میں کامیاب ہو سکیں۔


آئی یہ صدا سلسلۂ فقر ہُوا بند
ہیں اہلِ نظر کِشورِ پنجاب سے بیزار

حلِ لغات:

الفاظمعنی
سلسلۂ فقرفقر کا دروازہ
کِشوَرملک، صوبہ
بیزارمتنفر، اُکتایا ہوا، خفا، ناخوش
(نظم ”پنجاب کے پیرزادوں سے“ از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

میری اس درخواست کے جواب میں شیخِ مجددؒ کی قبر سے آواز آئی کہ پنجاب میں فقر کا جو سلسلہ تھا وہ تو ایک عرصے سے بند ہو چُکا ہے کیونکہ اہلِ حق یہاں کے لوگوں اور اُن کی ولایت سے مایوس و بیزار ہو چکے ہیں۔


عارف کا ٹھکانا نہیں وہ خِطّہ کہ جس میں
پیدا کُلَہِ فقر سے ہو طُّرۂ دستار

بالِ جبریل 165: پنجاب کے پیرزادوں سے از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح

حلِ لغات:

الفاظمعنی
عارفاللہ تعالی کی معرفت رکھنے والا، صوفی، اللہ والے لوگ
کُلۂ فقردرویش کی ٹوپی مراد سلسلۂ تصوف
طُرۂ دستارلمبے طُرے والی پگڑی (جو جاگیردار پہنتے ہیں)
(نظم ”پنجاب کے پیرزادوں سے“ از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

اس لیے کہ جو لوگ معرفتِ الہی کا ادراک رکھتے ہیں وہ ایسے خطۂ ارض میں قیام کرنا پسند نہیں کرتے جہاں طُرّۂ دستار (لمبے طُرے والی پگڑی جو جاگیردار پہنتے ہیں) عملاً کُلہِ فقر (درویش کی ٹوپی) کی جگہ لے لے۔ یعنی اہلِ فقر اپنے منصب کو بھلا کر ظاہری عِز و جاہ کے چکر میں پڑ جائیں۔ وہ لوگ جو یہاں فقیری اور درویشی کی گدیوں کے مالک تھے، اب وہی دنیاوی جاہ و جلال اور امارت کے سحر میں گرفتار ہو کر اپنے حقیقی مسلک سے منحرف ہو چکے ہیں۔ اُنہوں نے اپنے اسلاف کی دولت و عزت کو دینی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی بجائے ذاتی اغراض کے لیے وقف کر دیا ہے۔ ایسے لوگوں کے ساتھ اہلِ حق کا رشتہ برقرار نہیں رہا کرتا۔


باقی کُلَہِ فقر سے تھا ولولۂ حق
طُرّوں نے چڑھایا نشۂ ’خدمتِ سرکار‘!

حلِ لغات:

الفاظمعنی
کُلۂ فقردرویش کی ٹوپی مراد سلسلۂ تصوف
ولولۂ حقکلمۂ حق کہنے کا جوش، صداقت کا جذبہ، عشقِ الہی
طُروںطُرہ کی جمع۔ پگڑی پر لگائے جانے والے تاروں کا گُچھا، جو امارت کی نشانی ہے
(نظم ”پنجاب کے پیرزادوں سے“ از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

عشقِ حقیقی کا ولوَلہ اور جوش تو ”کُلہِ فقر“ تک محدود تھا، جب تک درویشی کا سلسلہ قائم رہا اور اہلِ فقر اس کی عظمت و منصب کے نگہبان رہے، اُن کے مقاصد کو گزند نہ پہنچا لیکن جب ”طُرۂ دستار“نے” کُلہِ فقر“ کی جگہ لے لی تو روحانیت کی جگہ ریاکاری، چاپلوسی اور مفاد پرستی آگئی۔ اب وہ درویش جو کبھی حق کے علمدار تھے، اُن کی اولادیں دُنیاوی اقتدار کے درباروں کی زینت بن گئی ہے۔ فقر اور عشق کی جگہ حکمرانوں کی خوشامد اور”خدمتِ سرکار“ کا نشہ غالب آ گیا ہے۔ یہ لوگ خدمتِ حق کی جگہ انگریز اور دیگر حکمرانوں کی خدمت گزاری کو اپنا نصب العین قرار دیے بیٹھے ہیں۔ ایسے لوگوں سے خیر کی توقع رکھنا عبث ہے۔

حوالہ جات

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments