”پنجاب کے دہقان سے“ از علامہ اقبال
فہرست
تعارف
نظم ”پنجاب کے دہقان سے“ کی تشریح
بتا کیا تری زندگی کا ہے راز
ہزاروں برس سے ہے تُو خاک باز
اے دہقان (دیہات یا گاؤں کا باشندہ، کسان، کاشتکار)!
ہزارہا سال سے تُو خاک چھان رہا ہے اور غذائی اجناس پیدا کر رہا ہے لیکن اتنا بتا دے کہ کیا تیری زندگی ہمیشہ اسی عمل تک محدود رہے گی؟ نہ جانے تُو اسی پر کیوں اکتفا کیے ہوئے ہے جب کہ تُو زندگی کی تمام سہولتوں سے محروم ہے۔ کیا تُو نے اپنی زندگی کے مقصد کے بارے میں سوچا ہے؟
اسی خاک میں دب گئی تیری آگ
سحَر کی اذاں ہوگئی، اب تو جاگ!
تجھ میں جوش و عمل کا جو جذبہ تھا، کیا وہ اس مٹی کی نذر ہو گیا ہے کہ جس کو تُو قابلِ کاشت بناتا ہے۔ اب تو مایوسیوں کا اندھیرا دُور ہو کر اُمید کی نئی کِرنیں پھوٹ رہی ہیں۔ دنیا میں ایک نیا دور آ گیا ہے، ہر ملک کے عوام میں بیداری کے باعث جوش و ولولہ پیدا ہو رہا ہے۔ دنیا بھر میں ہر ملک کے عوام اپنے حقوق کے حصول کی خاطر بیدار ہو کر اوستحصالی قوتوں کے خلاف جد و جہد کر رہے ہیں۔ اب تیرے لیے بھی لازم ہے کہ خوابِ غفلت سے بیدار ہو کر اپنے لیے عملی جد و جہد کرے۔
زمیں میں ہے گو خاکیوں کی برات
نہیں اس اندھیرے میں آبِ حیات
اگرچہ ہر انسان اپنا حصہ (رزق) زمین ہی سے حاصل کرتا ہے، اس لیے ذراعت (کاشتکاری) بھی ضروری ہے لیکن انسان جسم کے علاوہ روح بھی تو رکھتا ہے اور روح کی غذا (آبِ حیات: وہ روایتی پانی جس کی نسبت کہا گیا ہے کہ اس کا ایک قطرہ پینے کے بعد انسان امر ہو جاتا ہے، مرتا نہیں ہے) اس زمین (اندھیرے) سے حاصل نہیں ہو سکتی۔ یہ فصلیں انسان کو ہمیشہ زندہ رکھنے کی اہل نہیں ہوتیں۔ زندگی محض یہ تو نہیں کہ فصل پیدا ہو اور اس سے پیٹ بھر لیا۔ زندگی کا مقصد تو کچھ اور بھی ہے۔
زمانے میں جھُوٹا ہے اُس کا نِگیں
جو اپنی خودی کو پرکھتا نہیں
زندگی کا حقیقی مقصد یہ ہے کہ انسان اپنی خودی کو پہچانے، اس کا تحفظ کرے اور لمحہ بہ لمحہ اس کو جانچتا رہے۔ جو شخص اس عمل سے بے بہرہ ہے اس کے بارے میں بس اتنا ہی کہہ دینا کافی ہے کہ وہ حقیقیتوں کے ادراک سے محروم ہے۔ زندگی محض کھیتی باڑی اور کھانے پینے کا نام نہیں بلکہ اپنی خودی کی معرفت حاصل کر کے اپنی بقا کا سامان کرنے کا نام ہے، اور جو ایسا نہیں کرتا وہ حقیقی زندگی اور اس کے مقصد و مرتبہ سے محروم و نا آشنا ہے۔
؎ سُنا ہے مَیں نے، غلامی سے اُمتوّں کی نجات
خودی کی پرورش و لذّتِ نمود میں ہے!
(حوالہ: ضربِ کلیم: فلسطینی عرب سے)
بُتانِ شعوب و قبائل کو توڑ
رسُومِ کُہَن کے سلاسل کو توڑ
افسوس کہ تُو بیداری کے اس عہد میں بھی نسلوں، قبیلوں اور فرقوں کے قدیم اور بے مقصد سلسلوں میں جکڑا ہوا ہے، ان کی شکست و ریخت کے بغیر تیرا منزلِ مقصود تک پہنچنا ممکن نہیں ہے۔ ملک کے دہقان کا فرض ہے کہ وہ اپنی روحانی تربیت (خودی) کی تکمیل کا بھی انتظام کرے اور ذاتوں، نسلوں اور قبیلوں کے بُت توڑ دالے، نیز تمام لایعنی (بے فائدہ) رسومات کی زنجیروں کو توڑ ڈالے یعنی اپنی زندگی سے خارج کر دے۔ پرانے طور طریقے یہی خاندانی اور ذاتوں اور قبیلوں کے چکر یا زنجیریں ہیں جنہیں توڑ کر وحدتِ مِلت کی طرف آنا چاہیے کہ اسلام میں سب انسان برابر ہیں۔
شعوب: خاندان، قبیلے، قومیں۔ْ
سلاسل: زنجیریں، سلسلہ
یہی دینِ محکم، یہی فتحِ باب
کہ دُنیا میں توحید ہو بے حجاب
یہی مضبوط و محکم اور سچا دین (دینِ محکم) نیز کامیابی کا در (فتح باب) کھلنے کا یہی حال ہے کہ دنیا میں توحیدِ خداوندی بے پردہ ہو جائے۔ فرقہ بندی، نسلی و خاندانی امتیاز وغیرہ اسلام میں جائز نہیں ہے، ان سے بچنا ضروری ہے۔ یہی وہ عمل ہے جو صحیح معنوں میں توحید کی بنیادی ضرورت ہے، یعنی دنیا کے تمام مسلمان ایک جھنڈے (اسلام) تلے جمع ہوں۔ چنانچہ ان دو زبردست غیر اسلامی لعنتوں (فرقہ بندی اور بے مقصد رسوم) سے پاک ہونے کے بعد تُو توحید پر عامل ہو جا یعنی توحید کو اپنے عمل سے دنیا میں نمایاں کر دے۔ قول، فعل، رفتار، گفتار اور معاملات۔۔ غرض کہ زندگی کے ہر پہلو سے اسلام کا اظہار ہو۔ جب کوئی غیر مسلم تجھے دیکھے تو بے اختیار پکار اٹھے کہ یہ شخص مسلمان ہے۔ غایتِ اسلام اور طریقِ کامیابی یہ ہے کہ مسلمان دنیا میں توحیدِ الہی کے عقیدہ کا اثبات کرے اور اس طرح کہ اہلِ دنیا توحید کے شیدائی اور اسلام کے تمنّائی بن جائیں اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب مسلمان پہلے خود موحّد (توحیدی) نظر ائیں۔
بخاکِ بدن دانۂ دل فشاں
کہ ایں دانہ داردزحاصِل نشاں
اے دہقانِ پنجاب! تُو اپنے بدن کی مٹی میں دِل کا دانہ بو، کیونکہ یہی بیج / دانہ ہے جو پیداوار کی نشان دہی کرتا ہے۔ دِل کے دانے اور پیداوار سے مراد دِلِ زندہ پیدا کرنا ہے جس سے انسان کی عظمت و شرف کا سامان ہوتا ہے۔ یعنی دِلِ زندہ ہی سے انسان جہد و عمل کی طرف راغب ہوتا ہے اور زبردست کارنامے سر انجام دے کر بقا حاصل کرتا ہے۔ حقیقی زندگی دِلِ زندہ ہی سے ممکن ہے۔ جب تک انسان کے دِل میں حقیقی نصب العین کے حصول کی تڑپ نہ پیدا ہو جائے اُس وقت تک وہ ناقابلِ فراموش کارنامے سر انجام نہیں دے سکتا۔ یہی تڑپ دراصل انسان کو خوابِ غفلت سے بیدار کرتی ہے۔
؎ دلِ مُردہ دل نہیں ہے، اسے زندہ کر دوبارہ
کہ یہی ہے اُمّتوں کے مَرضِ کُہن کا چارہ
(حوالہ: ضربِ کلیم)
اب رہا بونے کا طریقہ تو جس طرح زمین میں دانہ بونے کا طریقہ کسی اہلِ زمین سے سیکھتے ہو، اسی طرح جسم میں دانہ بونے کا طریقہ کسی صاحبِ دِل سے پوچھ لو۔ کیا خوب کہا ہے اقبالؔ نے:-
؎ حدیثِ دل کسی درویشِ بے گلیم سے پوچھ
خدا کرے تجھے تیرے مقام سے آگاہ
(حوالہ: بالِ جبریل)
حوالہ جات
- شرح بالِ جبریل از پروفیسر یوسف سلیم چشتی
- شرح بالِ جبریل از ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی
- شرح بالِ جبریل از اسرار زیدی