نظم ”جاوید کے نام“ از علامہ اقبال
فہرست
تعارف
علامہ اقبال نے خود فرمایا ہے کہ نظم ”جاوید کے نام“ اُس موقع پر لِکھی گئی جب جاوید کے ہاتھ کا پہلا خط اُنہیں لندن میں مِلا۔ اِس نظم میں مخاطب اگرچہ جاوید اقبال ہیں لیکن اصل میں یہ تمام مسلمان نوجوانوں کے لیے ایک ضروری پیغام ہے جس میں اُنہیں گراں قدر نصیحتیں کی گئی ہیں اور سچّی اسلامی تربیّت کا راستہ بتایا گیا ہے۔
(حوالہ: مطالبِ بالِ جبریل از مولانا غلام رسول مہر)
پانچ اشعار پرم مشتمل یہ نظم بقول علامہ اقبال، اُنہوں نے اُس خط کے جواب میں لِکھی جو اُن کے بیٹے جاوید نے باپ کے نام تحریر کیا تھا۔ یہ جاوید کے ہاتھ کا لِکھا ہوا پہلا خط تھا جو اقبالؔ کو لندن میں موصول ہوا۔ یہ بات دِل کو لگتی ہے کہ بظاہر یہ نظم اُنہوں نے اپنے بیٹے کے نام ہی لِکھی لیکن بغور دیکھا جائے تو وہ اس میں مِلّتِ اسلامیہ کے تمام نوجوانوں سے مخاطب نظر آتے ہیں۔
(حوالہ: شرح بالِ جبریل از اسرار زیدی)
علامہ اقبال جب دوسری گول میز کانفرنس میں شرکت کی غرض سے لندن گیے تو آپ کے فرزند جاوید اقبال نے، جو اُس وقت چھ سال کے تھے، لاہور سے آپ کو پہلا خط لکھا اور گراموفون لانے کی فرمائش کی۔ جاوید اقبال ابھی بچے تھے، اقبالؔ گراموفون تو نہ لا سکے مگر یہ نظم لکھ کر ضرور لائے۔
(حوالہ: ریختہ)
نظم ”جاوید کے نام“ کی تشریح
دیارِ عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ، نئے صبح و شام پیدا کر
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
دیار | شہر، مُلک |
دیارِ عشق | عشق کی زمین، عشق کی حدود میں واقع علاقہ مُراد پوری دُنیا |
مقام پیدا کرنا | بلند مرتبہ حاصل کرنا |
تشریح:
اے جاوید! اگر خدا تجھے توفیق عطا فرمائے تو اُس کے عشق میں اپنا خاص مقام اور مرتبہ پیدا کر کے حیاتِ جاوید حاصل کر لے۔ اگر تُو نے یہ راستہ اختیار کر لیا تو یقیناً تجھ میں یہ صلاحیّت پیدا ہو جائے گی کہ تُو دنیا میں انقلاب پیدا کر دے گا۔
واضح ہو کہ علامہ اقبال کے نظامِ افکار میں تخلیقِ آدمِ نو کو بہت اہمیّت حاصل ہے۔ اُن کے فلسفہ اور پیغام کی غایت یہی ہے کہ مسلمان میں قوّت پیدا ہو جائے کہ وہ نیا زمانہ یا نئی دُنیا پیدا کر سکے۔ یہ نئی دُنیا کیا ہے؟ یا اس سے اُن کی مُراد کیا ہے؟ اس کا جواب تو بہت تفصیل طلب ہے، میں اجمالاً اس قدر کہہ سکتا ہوں کہ اقبالؔ کا مطلب اس سے یہ ہے کہ جس طرح سرکارِ دو عالم ﷺ نے نئی دُنیا پیدا کر دی، دُنیا میں بڑا انقلاب برپا کر دیا، اسی طرح حضور اکرم ﷺ کے غلام بھی حضور ﷺ کے نقشِ قدم پر چل کر دُنیا میں انقلاب برپا کریں اور وہ انقلاب اس کے سوا اور کیا ہے کہ مسلمان دُنیا کو، اسی دنیا کو جو اس وقت تاریکی میں غرق ہے، قرآنِ حکیم کی تعلیمات سے روشناس کرائیں، چنانچہ خود لِکھتے ہیں:-
فاش گویم آنچہ در دِل مُضمر است
ایں کتابے نیست چیزے دیگر است
چُوں بجاں در رفت جاں دیگر شَوَد
جاں چُو دیگر شد جہاں دیگر شَوَد
میں اپنے دِل کی بات بر ملا کہتا ہوں؛ یہ کتاب نہیں، کُچھ اور چیز ہے۔ جب اس کا اثر جان کے اندر داخل ہوتا ہے تو وہ اور ہو جاتی ہے؛ جان بدل جائے تو جہاں بدل جاتا ہے۔
(حوالہ: جاوید نامہ: فلک عطارد: پیغامِ افغانی با مِلّتِ رُوسیہ)
واضح ہو کہ اس جہاں کو بدل دینا ہی اقبالؔ کے پیغام کا حقیقی مقصد ہے، جسے اُنہوں نے مختلف طریقوں سے پیش کیا ہے۔
خدا اگر دل فطرت شناس دے تجھ کو
سکُوتِ لالہ و گُل سے کلام پیدا کر
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
دِلِ فطرت شناس | فطرت کو پہچاننے والا دِل، سچّے جذبات کا حامِل دِل |
سُکُوت | خاموشی |
کلام کرنا | مخاطب ہونا، بات چیت کرنا |
تشریح:
اگر خدا تجھے مطالعۂ فطرت کا ذوق عطا کرے تو تجھے لالہ و گُل سے اس کی ہستی کا ثبوت مِل سکتا ہے۔ سکُوتِ لالہ و گل سے کلام میں صنعتِ تضاد پائی جاتی ہے اور یہ ایک دِلکش انداز ہے۔ اس بات کے کہنے کا مقصد یہ کہ اگرچہ لالہ و گل زبان نہیں رکھتے لیکن اگر کوئی فطرت شناس ان کی بناوٹ پر غور کرے تو وہ زبانِ حال سے خالق و صانعِ کائنات کے وجود پر گواہی دیں گے۔ اکبر الہ آبادی نے اسی حقیقت کو یوں بیان کیا ہے:-
؎ صاف آئے گی نظر صانعِ عالم کی جھلک
سامنے کُچھ نہ رکھ آئینۂ فطرت کے سِوا
اُٹھا نہ شیشہ گرانِ فرنگ کے احساں
سفالِ ہند سے مِینا و جام پیدا کر
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
شیشہ گراں | لفظی مطلب شیشہ بنانے والے، مراد ہے اہلِ فرنگ کی فریب کاریوں سے |
فرنگ | یورپ کے شیشہ گر، مراد انگریز حکمران |
سفال | مٹی کا برتن، مٹی |
مینا و جام | صراحی و پیالہ۔ مراد اپنے مُلک کا سیاسی، مِلّی اور مذہبی شعور |
تشریح:
شیشہ گرانِ فرنگ سے یورپ کی وہ قومیں مراد ہیں جو عیّاری و مکّاری میں شہرۂ آفاق ہیں۔ شیشہ گر کے لغوی معنی ہیں کانچ کے برتن بنانے والا۔ اقبالؔ نے اس لفظ کو اقوامِ مغرب کے لیے استعمال کیا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ان قوموں کے اصولِ زندگی پائیدار نہیں ہیں نیز ان کے معاہدے کانچ کے برتنوں کی طرح کمزور اور ناقابلِ اعتماد ہیں۔ ان کے علوم و فنون اور خیالات میں بھی پختگی اور افادیّت نہیں پائی جاتی۔ غرضیکہ اقبالؔ کی یہ اصطلاح مغربی اقوام کی پوری زندگی پر غالب آ سکتی ہے۔ احسان نہ اُٹھانے سے اقبالؔ کی مراد یہ ہے کہ ان کی تہذیب اور ان کی معاشرت اختیار مت کرو، ان کے افکار اور خیالات کو مت قبول کرو۔ جو علوم و فنون انہوں نے ایجاد کیے ہیں ان کو بیشک حاصل کر سکتے ہو ان اقوام کی تقلید مت کرو۔
دوسرے مصرع کا ترجمہ یہ ہے کہ اگر شراب پینا چاہتے ہو تو ان پیالیوں میں پیو جو ہندوستان کی مٹی سے بنے ہوئے ہیں مطلب یہ ہے کہ اپنے وطن اور اپنی تہذیب سے محبت کرو۔ واضح ہو کہ اقبالؔ وطن دوستی میں کسی بڑے سے بڑی نیشنلِسٹ (Nationalist) سے کم نہیں تھے۔ اُنہوں نے ساری عمر ہندوستان کو وطن دوستی کا پیغام دیا۔ اگر میں (پروفیسر یوسف سلیم چشتی) اس جگہ ان اشعار کو نقل کر دوں تو یہ شرح ان کی متحمّل ہو سکتی۔ اس لیے آخری تصنیف ”ارمغانِ حجاز“ سے صرف ایک شعر نقل کرتا ہوں:-
؎ پیامے دہ ز من ہندوستاں را
غلام آزاد از بیداریٔ دِل
میں شاخِ تاک ہوں، میری غزل ہے میرا ثمر
مرے ثمر سے میء لالہ فام پیدا کر
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
شاخِ تاک | انگور کی بیل کی ٹہنی |
غزل | شاعری |
ثمر | پھل |
مے لالہ فام | سُرخ رنگ کی شراب، خالص اور سُرخ شراب |
تشریح:
میں انگور کی بیل ہوں اور میری غزل یعنی شاعری ہی میرا پھل ہے۔ تُو میرے اس پھل سے اپنے لیے لالہ جیسی سُرخ شراب تیار کر لے۔ علامہ اقبال نے اپنے آپ کو انگور کی بیل سے اور اپنے کلام کو خوشۂ انگور سے تشبیہ دی ہے اور اپنے فرزندِ جگر پیوند کی وساطت سے نوجوانانِ مِلّت کو یہ پیغام دیا ہے کہ اس خوشہ سے ”مئے لالہ فام“ پیدا کر، مطلب یہ ہے کہ میں نے اپنے کلام میں جو اسرار و رموز بیان کیے ہیں، اُن کی معرفت حاصل کر کے پوری طرح ذہن نشین کرو، اُن پر کار بند ہو جاؤ اور یوں اپنے اندر مذہبی، مِلّی اور سیاسی شعور پیدا کرو۔
مرا طریق امیری نہیں، فقیری ہے
خودی نہ بیچ، غریبی میں نام پیدا کر!
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
طریق | طور طریقے |
امیری | بادشاہی |
فقیری | مراد درویشی |
نام پیدا کرنا | شہرت اور ناموَری حاصل کرنا |
تشریح:
میرا زندگی گزارنے کا طور طریقہ امیری نہیں، درویشی ہے۔ تُو بھی اس طریقے کو اپنا کر اپنی زندگی کا مقصد بنا لے اور اپنی خود داری قطعات نہ بیچ بلکہ غریبی ہی میں نام پیدا کر۔ تیری خود داری تیرے لیے عظمت و شہرت کا باعث بنے گی۔
مطلب یہ ہے کہ انسان عزت اور شہرت ہی حاصل کرنے کے لیے اپنی خودی کو بیچتا ہے اور اس کے عوض دولت حاصل کرتا ہے اور دولت کے ذریعہ سے اپنا مقصود یعنی شہرت حاصل کرتا ہے۔ اقبالؔ کہتے ہیں کہ اگر انسان ہمت اور استقلال سے کام لے تو غریبی میں بھی نام پیدا کر سکتا ہے لہذا نام پیدا کرنے کے لیے ضمیر فروشی کی ضرورت نہیں۔ بقول اقبالؔ:-
؎ خودی کو نہ دے سِیم و زر کے عِوَض
نہیں شعلہ دیتے شرر کے عِوَض
(حوالہ: بالِ جبریل: خودی)
علامہ اقبال کے زمانہ میں یعنی 1915ء سے 1935ء کے درمیان اس ”انتخاب ہفت کشور“ کے بعض مسلمانوں (جن کا نام ظاہر کرنا خلافِ مصلحت ہے) انگریز کے بازارِ سیاست میں اپنی خودی کو بیچ کر سہ حرفی اور چہار حرفی خطابات مثلاً کے-بی-ای اور کے-سی-ایس-آئی بھی حاصل کیے اور نام بھی پیدا کیا لیکن نہ انہیں حسینؓ کا لقب نصیب ہو سکا اور نہ سکندر کی حیات حاصل ہو سکی۔ ان لوگوں کے مقابلہ میں اقبالؔ نے اپنی زندگی کے دن موٹر، ٹیلیفون اور اردلی کے بغیر محض اللہ کی بندہ پروری کی بدولت گذار دیے۔ مگر آج کوئی شخص ان خطاب یافتہ افراد کا تذکرہ بھی نہیں کرتا اور گوشہ نشیں اقبالؔ کا نام سارے ملک کے بچہ بچہ کی زبان پر ہے۔ اور ہر شخص خواہ وہ گورنر جنرل ہو اور چاہے ایک مدرسہ کا طالب علم اس کے کلام سے تسکینِ قلب کا سامان مہیّا کرتا ہے اور اس کا مزار بلا مبالغہ زیارت گاہِ خاص و عام بنا ہوا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ ملک کا ہر جوان اس مصرع کو لوحِ دل پر کندہ کر لے۔
؏ خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر
سچ تو یہ ہے کہ اقبالؔ نے یہ مصرع نہیں لکھا ہے دو لفظوں میں قوموں کے عروج کا فلسفہ بیان کر دیا ہے۔ میرے محدود مطالعہ کے مطابق وہ قوم کبھی سربلند نہیں ہو سکتی جس کے افراد خود فروشی کے مرض میں مبتلا ہوں۔ خود فروشی تو غلامی کی تمہید ہے۔ اسی لیے اقبالؔ نے ہمیں متنبّہ کر دیا ہے:-
؎ تری زندگی اسی سے، تری آبرو اسی سے
جو رہی خودی تو شاہی، نہ رہی تو رُو سیاہی
(حوالہ: بالِ جبریل)
تبصرہ
یہ انتہائی بلیغ نظم علامہ اقبال نے اپنے فرزند جاوید سلمہ کے ہاتھ کا لِکھا ہوا پہلا خط پڑھنے کے بعد سپُردِ قلم کی تھی، چنانچہ اس میں از اول تا آخر پِدرانہ شفقت کا رنگ نظر آتا ہے اور اس سے یہ بھی معلوم ہو سکتا ہے کہ مرحوم اپنے لختِ جگر میں کون کون سی خوبیاں دیکھنی چاہتے تھے۔
بظاہر اِس نظم میں اُنہوں نے اپنے بیٹے سے خطاب کیا ہے، لیکن بباطن اس کا اطلاق تمام فرزندانِ مِلّت پر ہو سکتا ہے کیونکہ میری نظر میں حضرتِ اقبالؔ مِلّتِ اسلامیہ کے باپ تھے۔ اُنہوں نے پوری زندگی مسلمانوں کی خدمت میں بسر کی۔ میں ذاتی تجربہ کی بِناء پر کہہ سکتا ہوں کہ وہ ساری عمر مِلّت کے غم میں تڑپتے رہے اور اسی تڑپ کا نتیجہ تھا کہ جس شخص کو بھی اُن کی صحبت میں بیٹھنے کا موقع نصیب ہوا، اُس کے اندر بھی یہی رنگ پیدا ہو گیا۔ کسی میں کم، کسی میں زیادہ اور انہیں اس بات کا اِس قدر شدید احساس تھا کہ وہ اس کو حاصلِ زندگی سمجھتے تھے۔ چنانچہ اپنے آقا اور مولیٰ سرورِ کائنات ﷺ کی خدمت میں عرض کرتے ہیں:-
حضور مِلّتِ بیضا تپیدم
نوائے دِل گدازے آفریدم
ادب گوید سُخن را مختصر گوی
تپیدم، آفریدم، آرمیدم
میں مِلّت بیضا کے حضور میں تڑپا؛ میں نے ایک نوائے دِل گُداز پیدا کی۔ ادب نے کہا: مختصر بات کر؛ میں نے (نیا جہاں) تخلیق کیا، اور پھر (آغوشِ لحد میں) آرام سے لیٹ گیا۔
(حوالہ: ارمغانِ حجاز (فارسی): حضورِ رسالت: ملوکیّت سراپا شیشہ بازی است)
(حوالہ: شرح بالِ جبریل از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)
بھت۔ مزہ آیا سن کر
نوازش محترم
بہت آچھا
نوازش محترم