Skip to content
بالِ جبریل 134: جاوید کے نام

بالِ جبریل 134: جاوید کے نام

”جاوید کے نام“ از علامہ اقبال

تعارف

نظم ”جاوید کے نام“ میں علامہ اقبال نے اپنے فرزند جاوید کو حقائق و معارف سے بھی آگاہ کیا ہے اور نصائح (نصیحتیں) بھی کی ہیں اور دعائیں بھی دی ہیں۔ چونکہ مرحوم کو اپنے چھوٹے بیٹے سے نسبتاً زیادہ محبت تھی اس لیے اس کی ولادت کے بعد جس قدر کتابیں ان کے قلم سے نکلیں یعنی جاوید نامہ، بالِ جبریل، ضربِ کلیم اور ارمغانِ حجاز۔ ان چاروں کتابوں میں اس کا ذکر کیا گیا ہے۔

زبورِعجم جاوید کی ولادت سے ایک سال پہلے شائع ہوئی تھی۔ اس لیے وہ اس کے نام یا ذکر سے خالی ہے۔ جاویدؔ نامہ پہلی تصنیف ہے جو جاوید کے زندگی میں شائع ہوئی۔ جاویدؔ نامہ کے بعد بالِ جبریل شائع ہوئی اور اس میں اقبالؔ نے دو نظمیں اپنے بیٹے کے نام لکھی ہیں۔

ضربِ کلیم میں جاوید سے خطاب کرکے تین نظمیں لکھی ہیں۔ ان نظموں میں بھی جاویدؔ کے پردہ میں قوم کے نوجوانوں سے خطاب کیا گیا ہے۔

ارمغانِ حجاز میں دو رباعیوں میں جاوید کا تذکرہ ہے اور ایک رباعی میں سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے اس کے لیے دعا کی ہے۔ اس کا دوسرا شعر اس جگہ درج کرتا ہوں:-

ہمیں یک آرزو دام کہ جاوید
زعشق تو بگیرد رنگ و بوئے

اب میری صرف یہی ایک آرزو ہے؛ کہ جاوید کو آپ ﷺ کے عشق کی چاشنی نصیب ہو۔

(حوالہ: ارمغانِ حجاز: حضورِ رسالت)

اس رباعی سے ناظرین کو یہ معلوم ہوسکتا ہے کہ اقبالؔ اپنے پیارے بیٹے کو عشقِ رسول ﷺ سے سرشار دیکھنا چاہتے تھے۔

(حوالہ: شرح بالِ جبریل از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)


یہ نظم اقبالؔ نے اپنے عزیز فرزند جاوید کو مخاطب کرکے لکھی ہے جس میں گراں قدر نصیحتیں بھی ہیں اوردعائیں بھی، لیکن ان کے مخاطب  تمام نونہالانِ اُمّت ہیں۔

(حوالہ: مطالبِ بالِ جبریل از مولانا غلام رسول مہر)

YouTube video

نظم ”جاوید کے نام“ کی تشریح

خودی کے ساز میں ہے عُمرِ جاوداں کا سُراغ
خودی کے سوز سے روشن ہیں اُمتوں کے چراغ

حلِ لغات:

سازساز و سامان
عُمرِ جاوداںہمیشہ کی زندگی
سُراغنشان
سوزتپش، جوش و خروش، ولولہ، سوز و گُداز
اُمّتوں کے چراغمُراد قوموں کی ترقی اور عروج
حلِ لغات (بالِ جبریل 134: جاوید کے نام)

تشریح:

اس شعر میں سازِ خودی اور سوزِ خودی۔۔ یہ دو ترکیبیں بہت غور کے لائق ہیں۔

پہلی بات یہ ہے کہ اقبالؔ نے ان دو لفظوں کو اپنی تصانیف میں بکثرت استعمال کیا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ لفظ کثیر المعانی ہیں۔

سازؔ کے معنی ہیں ساز و سامان، اسبابِ خانہ جنگی، اسلحہ، سامانِ جنگ، آلات و موسیقی مطابقت موافقت ہم ؔآہنگی، ضیافت، زادِ راہ، عقل و خِرد۔

سوزؔ کے معنی ہیں جلن، آگ، حرارت، گرمی، محبت، عشق، جوش و خروش، ولولہ، سوز و گداز، تاثیر یا کیفیات، مرثیہ۔

سوزؔ و سازؔ کے معنی ہیں عشق و محبت کی کیفیات۔

یہاں خودی کے ساز سے مراد ہے خودی کی ایسی تربیت کہ وہ مرتبۂ کمال تک پہنچ جائے۔ کہتے ہیں کہ اے جاوید! اگر تُو حیاتِ ابدی (ہمیشہ قائم رہنے والی زندگی) کا آرزو مند ہے تو خودی کی صحیح (اسلامی طریق پر) تربیت کر۔ اقبالؔ کا مسلک یہ ہے کہ خودی اگر پختہ ہوجائے تو ابدی زندگی حاصل ہوجاتی ہے۔

؏ خودی چون پختہ گردد لازوال است
خودی جب پختہ ہوجائے تو ہمیشہ باقی رہتی ہے۔
(حوالہ: زبورِ عجم: گلشن راز جدید: سوال ہشتم)

؎ ہو اگر خود نگر و خود گر و خودگیر خودی
یہ بھی ممکن ہے کہ تُو موت سے بھی مر نہ سکے
(حوالہ: ضربِ کلیم: حیاتِ جاوید)

خلاصۂ کلام یہ ہے کہ خودی کے ساز سے خودی کی پختگی مراد ہے۔ اور خودی کے سوز سے اس کی وہ کیفیت مراد ہے جو عشق کے بعد اس پر طاری ہوتی ہے۔ جب تک خودی میں رنگِ عشق پیدا نہ ہو تو کوئی فرد دنیا میں ترقی نہیں کرسکتا اور اُمت افراد ہی کے مجموعہ کا دوسرا نام ہے یعنی اگر کوئی قوم ترقی کی آرزومند ہو تو لازمی ہے کہ اُمت کے افراد میں عشق کا جذبہ کار فرما ہو یعنی ہر فرد کفن بردوش میدان میں آجائے۔ خودی ہی افراد کو جاودانی بناتی ہے اور خودی ہی قوموں کو اوج و عروج تک پہنچاتی ہے۔


یہ ایک بات کہ آدم ہے صاحبِ مقصود
ہزار گُونہ فروغ و ہزار گُونہ فراغ!

حلِ لغات:

مقصودارادہ کیا ہوا، غرض، مُدعا (مقصد)
صاحبِ مقصودآدمی ایک اہم مقصد لے کر آیا ہے، ایسا شخص جس نے ارادہ کیا ہو، جس کا کوئی مقصد ہو
ہزار گُونہ فروغہزاروں قسم کی رونق و روشنی، ترقی (فروغ: روشنی، نور)
فراغسکون اور اطمینان، آرام
حلِ لغات (بالِ جبریل 134: جاوید کے نام)

تشریح:

یہ بات کہ انسان اس دنیا میں ایک عظیم مقصد لے کر آیا ہے، ہزار قسم کی ترقیوں اور ہزار قسم کے سکون و اطمینان کا سامان کرتی ہے (یعنی عظیم مقصد اس کے پیشِ نظر ہو اور اس کے حصول کے لیے وہ جہد و عمل کرتا ر ہے تو بلند مرتبگی و عظمت اور دائمی زندگی اس کا مقدر بن جاتی ہے)

انسان کی قدر و قیمت اس کے لباس یا دولت یا ساز و سامان یا منصب پر موقوف نہیں۔ دنیا میں ہزاروں آدمی بڑے بڑے جاگیردار، دولت مند اور عہدہ دار گزرے ہیں، لیکن انہیں کوئی نہیں جانتا۔ اس لیے کہ ان کے سامنے کوئی مقصد نہ تھا۔ اس کے برعکس انسان خواہ کتنی ہی غربت یا مفلسی یا گمنامی کی حالت میں زندگی بسر کردے۔۔ نہ اس کے پاس کوٹھی ہو نہ سکوٹر ہو۔۔ نہ ٹیلیفون ہو، نہ عہدہ ہو، نہ جاگیر ہو۔۔ لیکن اگر وہ اس حقیقتِ کبریٰ کو مدِ نظر رکھے کہ میں ”صاحبِ مقصود“ یعنی مجھ کو اللہ تعالی نے اس لیے پیدا کیا ہے کہ میں اپنی خودی کی تربیت کرکے خلافتِ الٰہیہ کیا مستحق بن جاؤں، تو یہ تصور اس کو فروغ (ترقی) بھی عطا کرسکتا ہے اور فراغ (طمانیت) بھی۔ میرے پاس اگرچہ کوئی ساز و سامان نہیں، نہ جاگیر حاصل ہے، نہ دولت، نہ عہدہ لیکن میرے سامنے ایک مقصد ہے اور اسی نے مجھے تمام سامانوں سے بے نیاز کر رکھا ہے۔ اے میرے پیارے بیٹے! تجھے بھی کوئی نصب العین تجویز کرلینا چاہیے اور تیری طرح ہر مسلمان نونہال کے لیے شایان یہی ہے۔


ہوئی نہ زاغ میں پیدا بلند پروازی
خراب کر گئی شاہیں بچے کو صُحبتِ زاغ

حلِ لغات:

زاغکوّا
بلند پروازیاُونچی اُڑان
خراب کرنابِگاڑنا
شاہیں بچہشاہین کا بچّہ۔ مُراد مُسلِم
صُحبتِ زاغکوّے کی صحبت
حلِ لغات (بالِ جبریل 134: جاوید کے نام)

تشریح:

اے جاوید! بدکاروں اور کمینہ خصلت لوگوں کی صحبت سے ہمیشہ اجتناب کرنا کیونکہ جن لوگوں کی سرشت میں خباثت ہوتی ہے وہ کبھی نیکی اور پاکیزگی اختیار نہیں کرسکتے۔ چنانچہ اس کی مثال درکار ہو تو زاغؔ (کوا) اور شاہین کے بچہ کی صحبت پر غور کرسکتے ہو۔۔ اگر کسی شاہین بچہ کو زاغوں کی صحبت میں رکھا جائے تو کسی زاغؔ میں شاہین کی سی بلند پروازی تو پیدا نہیں ہوسکتی۔ یاں یہ ضرور ہوگا کہ اس شاہین بچہ میں کوّے کی دو ایک بری عادتیں ضرور پیدا ہوجائیں۔

؎ وہ فریب خوردہ شاہیں کہ پلا ہو کرگسوں میں
اُسے کیا خبر کہ کیا ہے رہ و رسمِ شاہبازی
(حوالہ: بالِ جبریل)


حیا نہیں ہے زمانے کی آنکھ میں باقی
خدا کرے کہ جوانی تری رہے بے داغ

حلِ لغات:

حیاشرم
بے داغبُرائیوں سے پاک
حلِ لغات (بالِ جبریل 134: جاوید کے نام)

تشریح:

اے فرزند! مغربی طرزِ تعلیم اور عریانی پسند ادب کی عام اشاعت اور مغربی تہذیب کے فروغ کی بدولت دنیا والوں کی آنکھ میں حیا باقی نہیں رہی ہے۔۔ بلکہ بے حیائی اور عریانی عام ہوگئی ہے اور رسول اکرم ﷺ کے ارشاد کے مطابق حیا ایمان کا ایک جزو ہے۔ اس لیے میں اللہ تعالی سے دعا کرتا ہوں کہ وہ تجھے ان ”کج کلاہوں“ اور ”کافر نگاہوں“ کی دستبرد سے محفوظ رکھے (یعنی تیری جوانی کو برائی کے ہر دامن سے پاک رکھے۔۔ تُو نیک اور صالح جوان بنے اور یہی دعا مِلت کے ہر نونہال کے لیے ہے)

نوٹ:۔ میں (پروفیسر یوسف سلیم چشتی) نے یہ دونوں لفظ (”کج کلاہاں“ اور ”کافر نگاہاں“) علامہ اقبال کی اس رباعی سے مستعار لیے ہیں، جس میں انہوں نے نوجوان قوم کے حق میں دعا کی ہے۔

یکے بنگر فرنگی کج کلاہاں
تو گوئی آفتاب مانندِ ماہاں
جوانِ سادۂ من گرم خون است
نگہدارش ازیں کافر نگاہاں

ذرا کج کلاہ فرنگی حسینوں کو دیکھیں؛
گویا چندے آفتاب چندے ماہتاب ہیں۔
میرا سادہ دِل نوجوان گرم خون ہے؛
اِن کافر نگاہوں سے اس کی حفاظت فرمائیے۔

(حوالہ: ارمغانِ حجاز: حضورِ رسالت)


ٹھہَر سکا نہ کسی خانقاہ میں اقبالؔ
کہ ہے ظریف و خوش اندیشہ و شگُفتہ دماغ

حلِ لغات:

ظریفزندہ دِل، خوش طبع، زیرک
خوش اندیشہاچھی سعچ رکھنے والا، خوش فکر
شگُفتہ دِماغتر و تازہ طبیعت والا، صاحبِ ذوق
حلِ لغات (بالِ جبریل 134: جاوید کے نام)

تشریح:

آج کل خودی کی تربیت خانقاہوں میں نہیں ہوسکتی کیونکہ ان میں (مراد ہے خانقاہوں میں) ذہنی قوتوں کی تربیت کا کوئی انتظام نہیں ہے اور ذہنی تربیت تکمیلِ خودی کے لیے شرطِ اولیں ہے۔

اقبالؔ کہتے ہیں کہ میں چونکہ بفضلِ خدا ظریف و زیرک ذہن و طباع اور دولتِ فکر کا مالک ہوں، اس لیے خانقاہی رنگ سے محفوظ رہا۔

؎ یہ معاملے ہیں نازک، جو تری رضا ہو تُو کر
کہ مجھے تو خوش نہ آیا یہ طریقِ خانقاہی
(حوالہ: بالِ جبریل)

حوالہ جات

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments