”ہسپانیہ“ از علامہ اقبال
فہرست
تعارف
یہ نظم اُن جذبات کی آئینہ دار ہے جو سیاحتِ ہسپانیہ کے بعد حضرت اقبالؔ کے دِل میں موجزن ہوئے۔ اس کے اشعار اس محبت کے مظہر ہیں جو ان کو مسلمانانِ اندلس کے ساتھ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی ہر تصنیف میں قرطبہؔ اور غرناطہ کے زوال پر آنسو بہائے ہیں، وہ آنسو جو ملتِ اسلامیہ کی نظر میں ستاروں سے بھی زیادہ تابناک ہیں۔
(حوالہ: شرح بالِ جبریل از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)
ہسپانیہ میں مسلمانوں کا عروج و زوال بعض مورخین کی طرح اقبالؔ کے ہاں بھی ان کی شاعری کے حوالے سے انتہائی طور پر قابلِ توجہ رہا۔ دراصل مسلم حکمرانوں کے عہد میں ہسپانیہ نے ہر شعبۂ زندگی میں جو ترقی کی، وہ اس ملک کے لیے عہدِ زریں کی حیثیت رکھتا ہے۔ جب مسلم حکومتیں زوال پذیر ہوئیں اور یہاں عیسائی حکمرانوں نے تسلّط جمایا تو انہوں نے انتقاماً مسلمانوں کی قائم کردہ تہذیب و ثقافت کو تباہ کرنے کی کوشش کی اور اس میں وہ بڑی حد تک کامیاب بھی ہوئے۔ اقبالؔ نے اپنے اشعار میں جہاں بھی ہسپانیہ کو موضوع بنایا ہے وہاں وہ ایک طرح کے کرب میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ زیرِ شرح نظم بھی انہوں نے ہسپانیہ کی سرزمین سے واپس آتے ہوئے لکھی تھی۔
(حوالہ: شرح بالِ جبریل از اسرار زیدی)
دسویں صدی عیسوی میں اموی دارالخلافہ قرطبہ یورپ کا سب سے بڑا متمدن شہر تھا جو قسطنطنیہ اور بغداد کے ساتھ دنیا کے تین ثقافتی مراکز میں سے ایک تھا۔ ایک لاکھ تیرہ ہزار مکانات، اکیس مضافاتی اضلاع، ستر لائبریریوں، بے شمار کتب خانوں، مساجد اور محلات کی بدولت اس شہر نے بین الاقوامی شہرت حاصل کر لی اور یہ سیاحوں کے دِلوں میں تعظیم و ستائش کے جذبات جگا دیتا تھا۔ اس میں میلوں لمبی پختہ گلیاں تھیں جو دونوں اطراف میں موجود گھروں کی روشنیوں سے جگمگاتی رہتیں جبکہ اس عہد کے سات سو سال بعد بھی لندن میں ایک بھی پبلک لیمپ نہ تھا اور صدیوں بعد پیرس میں کسی بارش والے دِن جو کوئی گھر کی دہلیز سے باہر قدم رکھتا تو ٹخنوں تک کیچڑ میں دھنس جاتا۔لی اون، ناوارا یا بارسلونا کے حکمرانوں کو جب کبھی سرجن، معمار، ماہر گلوکار یا ملبوسات تیار کرنے والے کی ضرورت پڑتی تو یہ قرطبہ ہی ہوتا جس سے وہ درخواست کرتے۔ اس مسلم دارالخلافہ کی شہرت دور جرمنی تک جا پہنچی جہاں ایک سیکسن راہبہ نے اسے ”جوہرِ عالم“ کا خطاب دیا۔
(Philip K. Hitti کی تصنیف The Jewel of The World سے اقتباس)
نظم ”ہسپانیہ“ کی تشریح
ہسپانیہ تُو خُونِ مسلماں کا امیں ہے
مانندِ حرم پاک ہے تُو میری نظر میں
اے ہسپانیہ! تُو مسلمانوں کے خون کا امین ہے۔ چونکہ تیری سرزمین پر عربوں کا خون بہا ہے اور وہ تیری مٹی میں جذب ہو گیا ہے، اس لیے تُو اس خون کی بدولت میری نظروں میں حرم کی طرح مقدس ہو گیا ہے۔ ہسپانیہ کی فتح میں مسلمانوں نے قربانیاں دیں، اپنا خون بہایا اور پھر ہسپانیہ کی حفاظت کے لیے وہ دو صدیوں تک دشمنوں کے حملوں کا مقابلہ کرتے رہے۔ چونکہ وہاں مختلف شعبوں (مجاہد، مورخ، فلسفہ، ادیب و محدث وغیرہ) سے متعلق افراد دفن ہیں، اسی لیے علامہ نے اس کی قدر و عظمت کے حوالے سے دوسرا مصرع کہا ہے کہ:-
؏ مانندِ حرم پاک ہے تُو میری نظر میں
ہسپانیہ وہ سرزمین ہے جہاں صدیوں تک نہ صرف یہ کہ مسلمانوں کا اقتدار قائم رہا بلکہ وہ وقفے وقفے سے عیسائی حکمرانوں کی یلغار کا مقابلہ کرتے رہے۔ اس سرزمین کو مسلمانوں نے ہر ممکن جد و جہد اور قربانی سے زندگی کے ہر شعبے میں انتہائی عروج پر پہنچایا۔ ہسپانیہ پر اپنا تسلط برقرار رکھنے اور اس سرزمین کے دفاع میں لاکھوں مسلمانوں نے اپنے خون کا نذرانہ پیش کیا۔ بے شمار مسلم حکمران، سپہ سالار، ادیب، فلسفی، شاعر، معمار، صناع اور زندگی کے دوسرے شعبوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین اس کی خاک تلے دفن ہیں۔ اس لیے اگر اقبالؔ اس سرزمین کو مسلمانوں کے خون کی امانت دار سمجھتے ہوئے اسے حرمِ کعبہ کی طرح پاک اور محترم گردانتے ہیں تو اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں ہے۔ مسلمانوں کی قربانیوں کے سبب آج بھی ہسپانیہ کی تہذیب و ثقافت ساری دنیا میں قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے۔
پوشیدہ تری خاک میں سجدوں کے نشاں ہیں
خاموش اذانیں ہیں تری بادِ سحَر میں
اے ہسپانیہ! جب بھی چشمِ بصیرت سے دیکھا ہے تو یوں لگتا ہے کہ تیری خاک میں ابھی تک ان سجدوں کے نشان ثبت ہیں جو سات سو سال سے زیادہ عرصے تک مسلمانوں نے یہاں ادا کیے۔ اسی طرح جب یہاں صبح کی ہوا چلتی ہے تو اُس میں ماضی کی اذانوں کی گونج سنائی دیتی ہے اور اس دور کی یاد تازہ وہ جاتی ہے۔
روشن تھیں ستاروں کی طرح ان کی سنانیں
خیمے تھے کبھی جن کے ترے کوہ و کمر میں
یہ سجدے اور اذانیں ان جانثار عربوں کی یاد تازہ کرتی ہیں جو کسی زمانہ میں تجھ پر حکمران تھے۔ جنگ و جدل کے دوران جن کی تلواریں اور نیزے اس طرح سے چمکتے تھے جیسے ستارے جگمگا رہے ہوں۔ یہی وہ لوگ تھے جو آرام و آسائش کی پروا نہیں کرتے تھے، بلکہ ان کے خیمے پہاڑوں کی چوٹیوں اور ان کے دامن میں نصب ہوتے تھے۔ وہ ہر لمحے حالتِ جنگ میں ہوتے تھے، اس لیے انہیں مستقل ٹھکانوں کی پرواہ نہ تھی۔
پھر تیرے حسینوں کو ضرورت ہے حِنا کی؟
باقی ہے ابھی رنگ مرے خُونِ جگر میں!
اے ہسپانیہ! کیا تیرے حسینوں (مسجدِ قرطبہ، قصر الحمراء خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہیں) کو پھر مہندی کی ضرورت ہے؟ تو میں اس لیے حاضر ہوں کیونکہ میراخونِ جگر، جس کی سُرخی ابھی تک برقرار ہے، ان کی یہ ضرورت پوری کر سکتا ہے۔ ہسپانیہ کے عظیم اسلامی دور کی یاد نے علامہ میں زبردست جذبے پیدا کر دیے ہیں، جن کا اظہار وہ مختلف انداز میں کر رہے ہیں۔
کیونکر خس و خاشاک سے دب جائے مسلماں
مانا، وہ تب و تاب نہیں اس کے شرر میں
یہ سچ ہے کہ مسلمان کے خون میں وہ اگلی سی حرارت باقی نہیں رہی لیکن پھر بھی وہ باطل سے کسی طرح دب نہیں سکتا۔
غرناطہ بھی دیکھا مری آنکھوں نے و لیکن
تسکینِ مسافر نہ سفر میں نہ حضَر میں
ہسپانیہ میں قیام کے دوران میں نے غرناطہ کا مشہور شہر بھی دیکھا جو قرطبہ کی عظمت مِٹ جانے کے بعد اندلس کے آخری مسلمان حکمران کا دارالحکومت بنا اور جہاں وہ مشہورِ زمانہ شاہی محل اب تک موجود ہے جو قصر الحمراء کے نام سے موسوم ہے اور دنیا کے عجائبات میں شمار ہوتا ہے۔ مراد یہ ہے کہ غرناطہ جیسے عظیم الشان مناظر دیکھنے کے باوجود سکونِ قلب میسّر نہیں ہوا۔
اقبالؔ نے غرناطہ کا ذکر صراحت کے ساتھ اس لیے کیا ہے کہ ریاست غرناطہ ہسپانیہ میں مسلمانوں کی عظمتِ ماضیہ کی آخری نشانی تھی۔ اس کے سقوط کے بعد مسلمان اس ملک سے ہمیشہ کے لیے مِٹ گئے۔
دولتِ غرناطہؔ کا آخری فرمانروا ابو عبداللہ نہایت بزدِل، بے دین، بے عزت اور پست ہمت تھا۔ جب وہ قصر الحمراء کی کنجیاں ملکہ ازابیلا (Isabella) کے سپرد کر کے اپنی مہمل زندگی کے آخری ایام ذلت اور بے کسی کی حالت میں بسر کرنے کے لیے غرناطہ سے روانہ ہوا تو بیس مِیل چل کر آرام کرنے کے لیے ایک گاؤں میں قیام کیا۔ یہ گاؤں ایک پہاڑی پر واقع تھا، اس لیے جب اس کی نظر قصر الحمراء پر پڑی تو بچوں کی طرح رونے لگا۔ یہ حالت دیکھ کر اس کی غیرت مند ماں نے کہا کہ ”جب مردوں کی طرح اس محل کی حفاظت نہ کر سکا تو اب عورتوں کی طرح رونے سے کیا حاصل؟“۔۔ اس واقعہ کو ذہن نشین کرنے کے بعد آخری دو شعروں کا مطلب با آسانی سمجھا جا سکتا ہے۔
اس واقعہ کو ذہن نشین کرنے کے بعد آخری دو شعروں کا مطلب با آسانی سمجھا جا سکتا ہے۔
دیکھا بھی دِکھایا بھی، سُنایا بھی سُنا بھی
ہے دل کی تسلّی نہ نظر میں، نہ خبر میں!
میں نے (ہسپانیہ میں قدیم اسلامی دور کے آثار) خود بھی دیکھے ہیں اور دوسروں کے لیے الفاظ سے ان کی تصویر کشی بھی کی ہے۔ ان مسلمانوں کے واقعات خود بھی سنے اور دوسروں کو بھی سنائے، لیکن کسی بھی صورت میں (دیکھنے دکھانے اور سننے سنانے سے) دِل کو قرار نہیں مِلا۔ ظاہر ہے کہ کہاں عظیم ماضی اور کہاں موجودہ صورتِ حال۔۔ دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ پھر دِل کو قرار کیونکر نصیب ہو۔
حوالہ جات
- شرح بالِ جبریل از پروفیسر یوسف سلیم چشتی
- شرح بالِ جبریل از اسرار زیدی
- شرح بالِ جبریل از ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی