Skip to content
بانگِ درا 145: بلالؓ

بانگِ درا 145: بلالؓ


”بلالؓ“ از علامہ اقبال

نظم ”بلالؓ“ تعارف

علامہ اقبال نے بانگِ درا کے پہلے حصہ میں بھی سیدنا بلالؓ کی منقبت میں ایک نظم لکھی ہے، چونکہ انہیں حضرت موصوف سے بہت زیادہ عقیدت تھی اس لیے اس نظم میں، با اندازِ دگر، ان کی خدمت میں خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ اقبالؔ کی عقیدت کا سبب صرف یہ ہے کہ سیدنا بلالؓ اسلام اور بانئ اسلام حضرت محمد ﷺ دونوں ہی کے عاشقِ زار تھے۔ حضرت موصوفؓ نے اسلام قبول کرنے کے بعد مُدتوں تک اس قدر مصائب برداشت کیے کہ راقم الحروف جیسے نقلی مسلمان ایک دن کے لیے بھی ان کی تاب نہیں لا سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ سکندرِ رومی کا نام تو صرف تاریخوں میں باقی رہ گیا ہے لیکن حضرت بلالؓ کا نام آج بھی زندہ ہے اور قیامت تک زندہ رہے گا۔

(حوالہ: شرح بانگِ درا از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)

YouTube video

بند نمبر 1

لِکھّا ہے ایک مغربیِ حق شناس نے
اہلِ قلم میں جس کا بہت احترام تھا

حلِ لغات:

مغربییورپ سے تعلق رکھنے والا
حق شناسحق کو پہچاننے والا
حلِ لغات (بانگِ درا 145: بلالؓ)

تشریح:

یورپ کا ایک عالم جسے حق شناسی (یعنی سچائی کو پہچاننے) میں بڑی مہارت حاصل تھی اور اہلِ قلم اُس کی بہت عزت کرتے تھے، لکھتا ہے کہ:-


جولاں گہِ سکندرِ رومی تھا ایشیا
گردُوں سے بھی بلند تر اُس کا مقام تھا

حلِ لغات:

جولاں گہگھوڑے دوڑانے کی جگہ، جنگ کا میدان
سکندرِ رومیمشہور یونانی بادشاہ اسکندرِ اعظم (Alexander – The Great)
گردُوںآسمان
بُلند ترزیادہ اونچا
حلِ لغات (بانگِ درا 145: بلالؓ)

تشریح:

ایشیا سکندرِ رومی کے لیے جنگ کا میدان (جولانگاہ) بنا، یعنی مقدونیہ میں پیدا ہونے والا سکندر نو عمری میں ہی ایشیا کے مختلف ممالک کو فتح کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اسی سے اندازہ کر لیجیے کہ اس کا مقام و مرتبہ آسمان سے بھی زیادہ اونچا تھا۔


تاریخ کہہ رہی ہے کہ رومی کے سامنے
دعویٰ کِیا جو پورس و دارا نے، خام تھا

حلِ لغات:

رومیروم (Rome) سے تعلق رکھنے والا۔ مراد اسکندرِ اعظم
پورسہندوستان کا مشہور راجہ جسے اسکندرِ اعظم نے شکست دی
داراقدیم ایران کا مشہور بادشاہ۔ اِس کو بھی سکندر نے شکست دی
خامکچا، بے حقیقت، بے بنیاد
حلِ لغات (بانگِ درا 145: بلالؓ)

تشریح:

تاریخِ عالم اس امر کی گواہی دے رہی ہے کہ ہندوستانی بادشاہ پورس اور ایرانی بادشاہ دارا نے اپنی جرأت و ہمت کو جو دعوے کیے تھے، وہ غلط تھے۔ سکندر کے مقابلے میں اُن کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔


دنیا کے اُس شہنشہِ انجم سپاہ کو
حیرت سے دیکھتا فلکِ نیل فام تھا

حلِ لغات:

شہنشہِ انجم سپاہایسا شہنشاہ جس کی فوج ستاروں جیسی تھی یعنی تعداد میں بہت بڑی تھی، لاتعداد فوج والا
فلکِ نیل فامنیلے رنگ کا آسمان
حلِ لغات (بانگِ درا 145: بلالؓ)

تشریح:

سکندر دنیا میں ایسا بادشاہ ہو گزرا ہے جس کی فوج کی تعداد ستاروں جتنی تھی۔ اسی لیے آسمان تک اِس شخص کو حیرت سے دیکھا کرتا تھا۔

سکندرِ رومی: دنیا کا مشہور فاتح جس نے 328 قبلِ مسیح اربیلہؔ کے مقام پر ایران کے بادشاہ دارا کو اور 327 قبلِ مسیح میں ٹیکسلا کے مقام پر راجہ پورس کو شکست دی تھی۔


آج ایشیا میں اُس کو کوئی جانتا نہیں
تاریخ دان بھی اُسے پہچانتا نہیں

حلِ لغات:

تاریخ دانتاریخ سے آگاہی رکھنے والا، تاریخ کا ماہر
حلِ لغات (بانگِ درا 145: بلالؓ)

تشریح:

اس کے باوجود صورتِ حال یہ ہے کہ آج ایشیا کے اس عظیم فاتح کو ایشیا میں کوئی بھی نہیں جانتا۔ عام لوگوں کا تو ذکر ہی کیا، تاریخ دان بھی اُس کے کارناموں سے واقف نہیں ہے۔

بند نمبر 2

لیکن بِلالؓ، وہ حبَشی زادۂ حقیر
فطرت تھی جس کی نُورِ نبوّت سے مُستنیر

حلِ لغات:

حبشی زادہحبشی نسل کا، سیاہ فام
حقیرمعمولی
نورِ نبّوتحضور اکرم ﷺ کی نبوّت کی روشنی
مُستنیرروشن، منوّر
حلِ لغات (بانگِ درا 145: بلالؓ)

تشریح:

لیکن وہ بلالؓ، جو ایک معمولی سے حبشی کے بیٹے تھے۔۔ جن کی فطرت نے نبوّت کے نور سے روشنی حاصل کی تھی۔


جس کا امیں ازل سے ہُوا سینۂ بِلالؓ
محکوم اُس صدا کے ہیں شاہنشہ و فقیر

حلِ لغات:

امیںامانتدار
سینہمُراد دِل
محکومزیرِ فرمان، ماتحت، تابع
صداآواز۔ مراد اذان
شاہنشہ و فقیرامیر اور غریب، شاہ و گدا، بادشاہ اور رعایا
حلِ لغات (بانگِ درا 145: بلالؓ)

تشریح:

جن کا سینہ ازل سے اس اذان کا امانت دار قرار پایا تھا جو بادشاہ سے لے کر فقیر تک پر حکومت کرتی ہے یعنی اذان ہوتی ہے تو کیا بادشاہ اور کیا فقیر۔۔ سب اس کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں، ادب سے سنتے ہیں اور پھر نماز ادا کرتے ہیں۔


ہوتا ہے جس سے اسوَد و احمر میں اختلاط
کرتی ہے جو غریب کو ہم پہلوئے امیر

حلِ لغات:

اسوَدکالا، سیاہ
احمرسُرخ
اؐختلاطمیل جول، ربط و ضبط
ہم پہلوبرابر، ساتھ ساتھ کھڑے ہونے والا
حلِ لغات (بانگِ درا 145: بلالؓ)

تشریح:

وہ اذان جس کی وجہ سے کالے گورے سب آپس میں مِل جاتے ہیں اور غریب امیر کے پہلو میں کھڑا ہو جاتا ہے، سیاہ و سرخ میں باہمی محبت پیدا ہوتی ہے، نسلی امتیاز نہیں رہتا اور جو غریب کو امیر کا ہم پلہ بنادیتی ہے:-

؂ ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز
(حوالہ: بانگِ درا: شکوہ)


ہے تازہ آج تک وہ نوائے جگر گداز
صدیوں سے سُن رہا ہے جسے گوشِ چرخِ پیر

حلِ لغات:

تازہزندہ
نوائے جگر گُدازدِل پِگھلا دینے والی پُرسوز آواز
گوشکان
چرخِ پیربوڑھا آسمان
حلِ لغات (بانگِ درا 145: بلالؓ)

تشریح:

حضرت بلالؓ کا دِل پگھلا دینے والا نغمہ (اذان) آج تک برقرار ہے جسے یہ بوڑھا آسمان صدیوں سے سُن رہا ہے۔


اقبالؔ! کس کے عشق کا یہ فیضِ عام ہے
رومی فنا ہُوا، حبَشی کو دوام ہے

حلِ لغات:

کس کے عشق کااشارہ ہے حضور اکرم ﷺ کی ذاتِ مبارک کی طرف
فیضِ عامسب کو فائدہ پہنچانا
دوَامہمیشگی
حلِ لغات (بانگِ درا 145: بلالؓ)

تشریح:

اقبالؔ کہتے ہیں کہ غور کرنا چاہیے کہ یہ کس ہستی کا فیضان ہے کہ سکندرِ رومی جیسا عظیم بادشاہ تو مِٹ گیا لیکن بلالِؓ حبشی کو دائمی زندگی حاصل ہو گئی۔

اقبالؔ کہنا چاہتے ہیں کہ سکندر اپنے فتوحات کے باوجود فنا ہو گیا لیکن بلالؓ حبشی عشقِ رسول ﷺ اور اسلام کی برکات کی وجہ سے دائمی (ہمیشہ قائم رہنے والی) شہرت اور ناموَری حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے اور حیاتِ جاوید پا گئے۔

آپؓ کا دِل پگھلا دینے والا نغمہ (اذان) قیامت تک آسمان کی فضاؤں میں گونجتا رہے گا۔

حوالہ جات


Subscribe
Notify of
guest
2 Comments
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments
اعجاز علی

ما شاء اللہ – بہت اچھا ترجمہ کیا ہے آپ نے – جس کی وجہ سے ہم جیسے لوگ بھی ان اشعار کو سمجھنے کے قابل ہو گئے