”گورستانِ شاہی“ از علامہ اقبال
فہرست
تعارف
نظم گورستانِ شاہی سب سے پہلے رسالہ مخزن (جون، 1910ء) میں شائع ہوئی تھی۔ علامہ اقبال نے اس کی تمہید میں لکھا تھا کہ:-
”حیدر آباد (دکن) کے مختصر قیام کے دِنوں میں میرے عنایت فرما جناب مسرور علی حیدری صاحب (بی-اے) معتمد محکمہ فنانس، بعد ازاں نواب حیدا یار جنگ بہادر جن کی قابلِ قدر خدمات اور وسیع تجربہ سے دولتِ آصفیہ مستفید ہورہی ہے، مجھے ایک شب ان شاندار مگر حسرت ناک گنبدوں کی زیارت کے لیے لے گئے جن میں سلاطینِ قطب شاہیہ سورہے ہیں۔ رات کی خاموشی، ابرآلود آسمان اور بادلوں سے چھِن چھِن کر آتی ہوئی چاندنی نے اس پُر حسرت منظر کے ساتھ مِل کر میرے دِل پر ایسا اثر کیا جو کبھی فراموش نہ ہوگا۔ ذیل کہ نظم انہیں بے شمار تاثرات کا اظہار ہے۔ اسے میں اپنے سفر کی یادگار میں مسٹر حیدری اور ان کی لئیق بیگم صاحبہ مسز حیدری کے نام نامی منسوب کرتا ہوں، جنہوں نے میری مہمان نوازی اور میرے قیامِ حیدر آباد کو دِل چسپ ترین بنانے میں کوئی دقیقہ فر و گزاشت نہ کیا۔“
(حوالہ: شرح بانگِ درا از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)
علامہ اقبال کی یہ نظم جون، 1910ء کے رسالہ مخزن میں شائع ہوئی تھی۔ علامہ نے اس کے ساتھ اپنے نوٹ میں یہ لکھا تھا کہ:-
”حیدر آباد کے مختصر قیام کے دنوں میں میرے عنایت فرما جنات نذر علی حیدری، معتمد محکمہ فنانس، مجھے ایک شب شاندار مگر حسرتناک قبروں کی زیارت کے لیے لے گئے، جن میں سلاطینِ قطب شاہی سورہے ہیں؛ رات کی خاموشی اور بادلوں مین سے چھِن چھِن کے آتی ہوئی نے اُس پُرحسرت منظر کے ساتھ مِل کے میرے دِل پر ایسا اثر کیا جو کبھی فراموش نہ ہوگا۔ ذیل کہ نظم انہی بے شمار تاثرات کا اظہار ہے۔“
اقبالؔ کی یہ نظم فلسفہ اور شاعری کے ایک نہایت خوشگوار امتزاج کو نمونہ ہے جس میں اُنہوں نے زندگی کی بے ثباتی کو بڑے مؤثر انداز میں واضح کیا ہے۔
(حوالہ: شرح بانگِ درا از ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی)
یہ مقبرے حیدر آباد شہر سے تقریباً پانچ میل کے فاصلہ پر گولکنڈہ کے پاس ہیں۔ قطب شاہیہ شلطنت کا دارالحکومت گولکنڈہ ہی تھا۔ حیدرآباد اس سلطنت کے آخری دور میں آباد ہوا۔ عالم گیراعظم نے گولکنڈہ اور سلطنتِ قطب شاہیہ کو 1687ء میں فتح کیا۔
(حوالہ: مطالبِ بانگِ درا از غلام رسول مہر)
بند نمبر 1
آسماں، بادل کا پہنے خرقۂ دیرینہ ہے
کچھ مکدّر سا جبینِ ماہ کا آئینہ ہے
رات کا وقت ہے، آسمان نے بادل کی پرانی گدڑی پہن رکھی ہے (یعنی فضا میں بادل چھائے ہوئے ہی اور ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے آسمان نے بادلوں کا پرانا لباس پہن رکھا ہو)
آسمان پر چھائے ہوئے بادلوں کی وجہ سے چاند کی پیشانی (جبینِ ماہ) کا آئینہ کسی قدر دھندلا سا ہوگیا ہے۔ علامہ اقبال نے چاند کو آئینہ قرار دیا ہے، چونکہ بادلوں کی وجہ سے چاند صاف نظر نہ آتا تھا،اس لیے کہا کہ آئینہ کسی قدر میلا ہوگیا ہے۔
چاندنی پھیکی ہے اس نظّارۂ خاموش میں
صُبحِ صادق سو رہی ہے رات کی آغوش میں
بادشاہوں کے قبرستان کے اِس خاموش منظر میں آسمان پر بادل ہونے کی وجہ سے چاندنی پھیکی پھیکی نظر آتی ہے۔
رات کی گود میں صبح صادق سو رہی ہے یعنی ابھی صبح نہیں ہوئی لیکن تھوڑی دیر میں ہونے والی ہے۔اس تشبیہ میں کمال یہ ہے کہ پھیکی چاندنی کو صبح صادق قرار دیا ہے۔ دونوں کی مشابہت کسی تشریح کی محتاج نہیں ہے۔ چونکہ رات کا وقت ہے، چاندنی پھیکی پھیکی ہے، یعنی روشنی تو ہے۔۔ پو پھٹتی ہوئی معلوم ہوتی ہے ۔۔لیکن رات کی گود میں ہونے کے باعث اس پر قدرے سیاہی چھائی ہوئی ہے۔ دوسری خوبی یہ ہے کہ پو پھٹنے کے وقت پرندوں کے چہچہے شروع ہوجاتے ہیں، اذان کی آواز فضا میں گونجنے لگتی ہے لیکن یہ چیزیں شاعر کے نزدیک منظر میں موجود تھیں، اس لیے کہا کہ صبح صادق رات کی آغوش میں سورہی ہے۔
کس قدر اشجار کی حیرت فزا ہے خامشی
بربطِ قُدرت کی دھیمی سی نوا ہے خامشی
سارے درختوں پر خاموشی کا عالم طاری ہے۔ درختوں کی خاموشی دیکھ کر حسرت میں کس قدر اضافہ ہوتا ہے!
یہ کہنا مناسب ہوگا کہ یہ خاموشی قدرت کے ساز کا ایک دھیمہ سا نغمہ ہے، جو مدھم سُروں میں گایا جارہا ہے۔ اقبالؔ کے نزدیک ہر حالت قدرت کے ساز کا ایک نغمہ ہے۔ وہ خاموشی کو بھی نغمہ ہی قرار دیتے ہیں لیکن دھیما نغمہ
باطنِ ہر ذرّۂ عالم سراپا درد ہے
اور خاموشی لبِ ہستی پہ آہِ سرد ہے
ایسا کیوں ہے؟ شاید اس لیے کہ اس دنیا کا ہر ذرہ (ہر شے، ہر فرد) رنج و غم میں ڈوبا ہوا ہے۔ کون ہے جسے اس دنیا میں کسی نہ کسی رنج یا مصیبت سے سابقہ نہیں پڑا؟ ساری ہستی (کائنات) غم اور الم میں غرق ہے۔ زندگی نام ہی رنج و کلفت (بے قراری) کا ہے۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہستی، اس خاموشی کے پردہ میں آہیں بھر رہی ہے۔ اس دنیا کے ہر ذرے کا دِل درد سے اس درجہ لبریز ہے کہ کہا جاسکتا ہے، وہ ہمہ تن درد ہے اور خاموشی زندگی کے لب پہ اِک سرد آہ کی حیثیت رکھتی ہے یعنی جب دنیا کی ہر شے درد ہی درد ہے، تو اس کی آہ بھی ہونی چاہیے، یہ کام خاموشی پورا کرتی ہے۔
بند نمبر 2
آہ! جولاں گاہِ عالم گیر یعنی وہ حصار
دوش پر اپنے اُٹھائے سیکڑوں صدیوں کا بار
اس وقت میں گولکنڈہ کے اُس عظیم الشان تاریخی قلعہ کے سامنے کھڑا ہوں جسے حضرت عالمگیرؒ نے 1687ء میں فتح کیا تھا۔ مشہور مغل بادشاہ اورنگ زیب عالمگیرؒ کا میدانِ جنگ (جولاں گاہ: گھوڑے دوڑانے کی جگہ) دیکھ کر افسوس ہوتا ہے۔
جولانگاہ: لغوی معنی وہ جگہ جہاں گھوڑے دوڑئے جائیں۔ اس ایک لفظ میں اقبالؔ نے گولکنڈہ کے محاصرہ کی تاریخ بند کردی ہے۔ حق یہ ہے کہ اُنھیں موزوں الفاظ کے انتخاب میں یدِ طولٰی حاصل تھا۔ دنیا کے ہر قادر الکلام شاعر میں یہ وصف پایا جاتا ہے۔
گولکنڈہ جو کسی زمانہ میں بڑا شاندار شہر تھا۔ حیدر آباد (دکن) سے مغرب کی جانب 7 میل کے فاصلہ پر واقع ہے۔ چونکہ اس ریاست کا آخری فرمانروا ابو الحسن مسلمان ہونے کے باوجود دشمنوں سے ساز باز رکھتا تھا اور اُس نے قوم فروشی کو اپنا شعارِ زندگی بنا لیا تھا۔ اس لیے قلعہ کے آس پاس کا میدان حضرت عالمگیرؒ کی جولاں گاہ (وہ جگہ جہاں گھوڑے دوڑائے جائیں) بنا اور حضرت عالمگیرؒ نے 1687ء میں اس غدار کو گولکنڈہ میں شکست دی۔
یہ قلعہ ایک پہاڑی پر بنا ہوا ہے اور ہندوستان کے ان چند قلعوں میں سے ہے جو ناقابلِ تسخیر خیال کیے جاتے تھے۔ یہ بہت پُرانا ہے اور اسے بنے ہوئے صدیاں گزر چُکی ہیں۔ اس قلعے نے اپنے کندھوں پر سینکڑوں صدیوں کا بوجھ اُٹھا رکھا ہے۔
زندگی سے تھا کبھی معمور، اب سنسان ہے
یہ خموشی اس کے ہنگاموں کا گورستان ہے
یہ قلعہ کسی زمانہ میں زندگی کی چہل پہل اور رونق سے بھرا ہوا تھا اور اس کی رگ رگ میں زندگی کے آثار نظر آتے تھے، لیکن اب بالکل ویران و سنسان ہے۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ خاموشی اس کے پرانے ہنگاموں کا قبرستان (گورستان) بن گئی ہے یعنی قلعہ نے ہنگاموں کے جتنے منظر دیکھے، ان پر موجودہ خاموشی نے پردہ دال رکھا ہے۔
اپنے سُکاّنِ کُہن کی خاک کا دلدادہ ہے
کوہ کے سر پر مثالِ پاسباں اِستادہ ہے
یہ قلعہ اپنے پرانے باشندوں (سُکّانِ کہن) کی خاک کا عاشق (دِلدادہ) ہے، یعنی ان کی قبریں اس کے اندر بنی ہوئی ہیں (اشارہ ہے بادشاہوں کے گنبدوں کی طرف) اور پہاڑ کی چوٹی پر ایک پہریدار کی طرح کھڑا ہے۔ (قلعہ میں اب کوئی آبادی نہیں ہے۔ جب سے حیدرآباد سلطنت کا مرکز بنا یہ ویران ہوگیا۔ اگرچہ اس کی دیواریں قائم ہیں۔ اقبالؔ کے دل میں اس کی بے رونقی کو دیکھ کر پرانے زمانے کی یاد تازہ ہوگئی)
بند نمبر 3
ابر کے روزن سے وہ بالائے بامِ آسماں
ناظرِ عالم ہے نجمِ سبز فامِ آسماں
بعض جگہ بادل گہرا نہیں ہے۔ ایسے میں یوں لگتا ہے جیسے بادلوں میں سوراخ ہوگئے ہیں۔ ایک سوراخ میں سے سبز لباس پہنے ہوئے ستارہ (نجم) آسمان کی بلندیوں سے دنیا کو دیکھ رہا ہے۔
خاک بازی وسعتِ دنیا کا ہے منظر اسے
داستاں ناکامیِ انساں کی ہے ازبر اسے
اس کائنات کی وسعت کا منظر اس (ستارے) کے لیے مٹی کا کھیل ہے یعنی انتہائی معمولی بات ہے۔ اِس ستارے کو انسان کی تمام ناکامیوں کی کہانی زبانی یاد ہے۔ اس نے سینکڑوں نامور افراد اور اقوام کے عروج و زوال کا تماشا دیکھا ہے۔ اس لیے اس کو بنی آدم کی ناکامی کی داستان حِفظ یاد ہے۔
ہے ازل سے یہ مسافر سُوئے منزل جا رہا
آسماں سے انقلابوں کا تماشا دیکھتا
یہ مسافر (ستارہ) ازل سے منزلِ مقصود کی طرف جارہا ہے، چلتے چلتے آسمان سے اُن تمام انقلابات کا نظارہ بھی کررہا ہے، جو دنیا میں برپا ہورہے ہیں۔
گو سکُوں ممکن نہیں عالم میں اختر کے لیے
فاتحہ خوانی کو یہ ٹھہرا ہے دم بھر کے لیے
اگرچہ ستاروں کا مقدّر سفر ہے اور انہیں کسی جگہ مستقل قیام کی اجازت نہیں ہے، البتّہ یہ ستارہ (اختر) مرنے والوں کی فاتحہ خوانی کے لیے ذرا دیر کو رُک گیا ہے۔
رنگ و آبِ زندگی سے گُل بدامن ہے زمیں
سینکڑوں خُوں گشتہ تہذیبوں کا مدفن ہے زمیں
حق یہ ہے کہ یہ دنیا زندگی کی دِل فریبیوں سے معمور ہے، گویا اِس زمین کا دامن زندگی کی تازگی اور شادابی والے پھولوں سے بھرا ہوا ہے۔ زندگی کی آب و تاب اس زمین کی رونق ہے اور زندگی کی چمک دمک سے زمین کا دامن بھرا ہوا ہے، ان سب رونقوں کے ساتھ ساتھ زمین ایسے قبرستان کی حیثیت بھی رکھتی ہے جس میں اب تک سینکڑوں قومیں اور تہذیبیں بر سرِ عروج آچکی اور ختم ہوچکی ہیں مثلاً مصری تہذیب، بابلی تہذیب وغیرہ۔
بند نمبر 4
خواب گہ شاہوں کی ہے یہ منزلِ حسرت فزا
دیدۂ عبرت! خراجِ اشکِ گُلگُوں کر ادا
حسرت اور کرب کو بڑھانے والی یہ منزل یعنی قبرستان بادشاہوں کے سونے کی جگہ ہے۔ یہ قلعہ قطب شاہی خاندان کے بادشاہوں کی آخری آرامگاہ (مدفن) ہے۔ اے عبرت حاصل کرنے والی آنکھ! تجھے یہاں خون کے آنسوؤں کا خراج پیش کرنا چاہیے۔
ہے تو گورستاں مگر یہ خاک گردُوں پایہ ہے
آہ! اک برگشتہ قسمت قوم کا سرمایہ ہے
بے شک یہ ایک قبرستان ہے لیکن اس کی مٹی کو آسمان کا رتبہ حاصل ہے،کیونکہ یہاں ایک بدقسمت قوم کے ناموَر بادشاہ سورہے ہیں۔ یہ قبرستان ایک ایسی قوم کی دولت ہے جس کی قسمت اُلٹ گئی ہو۔
مقبروں کی شان حیرت آفریں ہے اس قدر
جنبشِ مِژگاں سے ہے چشمِ تماشا کو حذر
اِن مزارات کی شان و شوکت اس حد تک حیرانی پیدا کرتی ہے کہ دیکھنے والے کی آنکھیں پلک جھپکنے سے بھی احتراز کرتی ہیں یعنی مسلسل ان مزارات کو تکتی رہتی ہیں۔
کیفیت ایسی ہے ناکامی کی اس تصویر میں
جو اُتر سکتی نہیں آئینۂ تحریر میں
ان مقبروں میں انسان کی ناکامی کی تصویر کی ایک ایسی کیفیت ہے، جسے صرف محسوس کیا جاسکتا ہے۔۔ الفاظ کے ذریعے بیان نہیں کیا جاسکتا۔
بند نمبر 5
سوتے ہیں خاموش، آبادی کے ہنگاموں سے دُور
مضطرب رکھتی تھی جن کو آرزوئے ناصبور
وہ بادشاہ جنہیں اُن کی پوری نے ہونے والی تمنّائیں بیتاب و بے چین رکھتی تھیں، اب مرنے کے بعد شہروں اور آبادیوں سے دُور ان مقبروں میں خاموشی سے سورہے ہیں۔
قبر کی ظُلمت میں ہے اُن آفتابوں کی چمک
جن کے دروازوں پہ رہتا تھا جبیں گستر فلک
آج وہ آفتاب (بادشاہ)، کہ جن کی چوکھٹ پر آسمان سجدے کیا کرتا تھا، وہ (بادشاہ) اب صرف قبر کے اندھیرے میں چمک رہے ہیں۔
کیا یہی ہے اُن شہنشاہوں کی عظمت کا مآل
جن کی تدبیرِ جہاں بانی سے ڈرتا تھا زوال
یہ حسرت ناک منظر دیکھ کر اقبالؔ دریائے عبرت میں ڈوب جاتے ہیں اور بے اختیار پکار اُٹھتے ہیں:-
؏ کیا یہی ہے اُن شہنشاہوں کی عظمت کا مآل؟
جن شہنشاہوں کی ملک داری اور نظم و نسق کی تدبیروں سے خود زوال خوف کھاتا تھا، کیا ان کی عظمت اور برتری کا انجام یہی ہے؟ اور کیا زندگی کا یہی انجام ہے کہ انسان کچھ عرصہ تک اس دنیا میں ہنگامہ برپا کرکے قبر کی آغوش میں چلا جائے؟
رعبِ فغفوری ہو دنیا میں کہ شانِ قیصری
ٹل نہیں سکتی غنیمِ موت کی یورش کبھی
سچ یہ ہے کہ دنیا کا بڑے سے بڑا بادشاہ فغفورِ چین ہو یا قیصرِ روم، موت کے حملہ کی تاب نہیں لاسکتا۔ یہ بات حق ہے کہ موت کے لُٹیرے کا حملہ ٹل نہیں سکتا۔ موت کا لُٹیرا زندگی کا خزانہ لُوٹ کر ہی دم لیتا ہے۔ نہ چین کے شہنشاہ (فغفور) کا رعب اُس پر کوئی اثر ڈال سکتا ہے، نہ روم کے تاج دار (قیصر) کی شان ہی اسے روکنے میں کامیاب ہوسکتی ہے۔
بادشاہوں کی بھی کشتِ عمر کا حاصل ہے گور
جادۂ عظمت کی گویا آخری منزل ہے گور
عام لوگوں کی طرح اِن بڑے بڑے بادشاہوں کی زندگی کی کھیتی کا پھل بھی قبر (گور) ہی ہے۔ انسانی زندگی کو اگر عظمت و بڑائی کی ایک سڑک قرار دیا جائے تو اس سڑک کی آخری منزل بھی “قبر” ہی ہے- یعنی سب مرتے ہیں اور عظیم الشان انسان بھی آخر قبر ہی میں سوجاتے ہیں۔ آخری مصرع کے مضمون کو انگریزی کے مشہور شاعر ٹامس گرے نے اپنی نظم مرثیہ میں یوں بیان کیا ہے:
The Paths Of Glory Lead But To The Grave.
یعنی جاہ و جلال کے راستے بھی قبر ہی کی طرف جاتے ہیں۔
بند نمبر 6
شورشِ بزمِ طرب کیا، عُود کی تقریر کیا
درد مندانِ جہاں کا نالۂ شب گیر کیا
یہ اولوالعزم بادشاہ، جو اب قبروں میں سورہے ہیں۔۔ ان کو نہ عیش و عشرت یا رنگ راگ کی محفلوں کے ہنگامے جگا سکتے ہیں نہ ہی عود جیسے سازِ موسیقی کے نغمے۔
نہ ہی اُن درد مندوں اور مصیبت زدوں کی رات میں کی جانے والی نالہ و فریاد (نالۂ شب گیر) ہی انہیں اِس ابدی نیند سے جگا سکتی ہے۔
عرصۂ پیکار میں ہنگامۂ شمشیر کیا
خُون کو گرمانے والا نعرۂ تکبیر کیا
ان بہادروں کو اب میدانِ جنگ میں تلوار کے ہنگامے اور خون کو گرما دینے والا نعرۂ تکبیر بھی بیدار نہیں کرسکتا۔
اب کوئی آواز سوتوں کو جگا سکتی نہیں
سینۂ ویراں میں جانِ رفتہ آ سکتی نہیں
غرضیکہ کسی بھی طرح کی آواز ہو لیکن ان سونے والوں کو جگا نہیں سکتی۔۔ جو سینے جان نکل جانے کا باعث اُجڑ چکے ہیں، ان میں پھر سے جان واپس نہیں آسکتی۔ جو شخص ایک دفعہ مرگیا ہے قیامت تک پھر زندہ نہیں ہوسکتا۔
بند نمبر 7
روح، مُشتِ خاک میں زحمت کشِ بیداد ہے
کوچہ گردِ نَے ہُوا جس دم نفَس، فریاد ہے
انسان کی روح خاک کی مٹی (مُشتِ خاک) یعنی جسم میں مظالم برداشت کررہی ہے۔ زندگی انسان کے لیے مصیبتوں کا گھر ہے۔ اس کی مثال بانسری کی سی ہے۔۔ کہ جب سانس کی ہوا بانسری میں داخل ہوتی ہے تو یہی ہوا فریاد اور نغمے میں بدل جاتی ہے۔ باکل اسی طرح انسان کے جسم میں جب تک سانس کی آمد و رفت جاری رہتی ہے، وہ سراپا فریاد ہی بنا رہتا ہے۔
زندگی انساں کی ہے مانندِ مرغِ خوش نوا
شاخ پر بیٹھا، کوئی دم چہچہایا، اُڑ گیا
انسان کی زندگی بہت مختصر ہے۔ یہ اس میٹھے گیت گانے والے پرندے (مُرغِ خوش نوا) کی سی ہے جو کسی شاخ پر آکر بیٹھتا ہے، چند لمحوں کے لیے نغمے گاتا ہے اور اُڑ جاتا ہے۔
آہ! کیا آئے ریاضِ دہر میں ہم، کیا گئے!
زندگی کی شاخ سے پھُوٹے، کھِلے، مُرجھا گئے
افسوس! کہ ہم دنیا کے باغ میں تھوڑی دیر کے لیے آئے اور چلے گئے۔ہماری زندگی تو اس کلی کی مانند مختصر ہے جو آج شاخ سے نکلتی ہے، کل پھول بنتی ہے اور پرسوں مرجھا جاتی ہے۔
موت ہر شاہ و گدا کے خواب کی تعبیر ہے
اس ستم گر کا ستم انصاف کی تصویر ہے
بادشاہ ہو یا فقیر؛ ہر ایک کی زندگی کے خواب کی تعبیر موت ہے۔ یعنی سب کے لیے مرنا لازم ہے۔ یہ موت ہے تو سِتم گر (یعنی موت لطفِ زندگی کا خاتمہ کردیتی ہے) لیکن اس کے ستم میں بھی انصاف کا پہلو بھی پوشیدہ ہے۔۔ اور وہ یہ کہ کسی کے ساتھ رعایت نہیں کرتی! اس کی حکومت میں شیر اور بکری سب ایک گھاٹ سے پانی پیتے ہیں۔ یہ چھوٹے بڑے کی رعایت نہیں کرتی۔ اس کی نظر میں چھوٹے، بڑے سب برابر ہیں۔
بند نمبر 8
اِس بند اور اگلے دو بندوں میں زندگی کی ناپائیداری اور بے ثباتی کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔
سلسلہ ہستی کا ہے اک بحرِ نا پیدا کنار
اور اس دریائے بے پایاں کی موجیں ہیں مزار
زندگی ایک ایسا وسیع سمندر ہے جِس کا کنارہ نظر نہیں آتا۔ اِس وسیع سمندر (زندگی) میں لاکھوں موجیں اُبھرتی رہتی ہیں۔ یعنی ان گِنت لوگ پیدا ہوتے اور مرتے رہتے ہیں۔ گویا قبریں اِس اتھاہ سمندر (زندگی) کی موجیں ہیں۔
قبروں کو موجوں سے اس لیے تشبیہ دی ہے کہ دونوں میں ابھار ہوتا ہے۔ اقبالؔ کہتے ہیں کہ اگر زندگی کو ایک بہت بڑا سمندر فرض کریں، جس کے کنارے دکھائی نہ دیتے ہوں، تو قبریں اس کی موجیں (لہریں) ہیں، یعنی زندگی کا انجام موت ہے۔
اے ہوَس! خُوں رو کہ ہے یہ زندگی بے اعتبار
یہ شرارے کا تبسّم، یہ خسِ آتش سوار
دنیا میں بہت عرصے تک جینے کی خواہش کو خون کے آنسو رونا چاہیے کہ زندگی ناقابلِ اعتبار اور بہت جلد ختم ہونے والی ہے۔ ہم خوب جانتے ہیں کہ زندگی کا انجام موت کی صورت میں مِلتا ہے، اس کے باوجود ہر شخص جینے کی ہوَس کرتا ہے۔
ناپائیداری کے اعتبار سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ زندگی شرارے کی مسکراہٹ ہے یا اس تِنکے کی مانند ہے جو آگ کی لپیٹ میں آچُکا ہے۔ (ظاہر ہے کہ شرارے کی روشنی پل بھی کر لیے ہوتی ہے اور آگ کی لپیٹ میں آجانے والے تِنکے کی زندگی بھی)
چاند، جو صورت گرِ ہستی کا اک اعجاز ہے
پہنے سیمابی قبا محوِ خرامِ ناز ہے
اب چاند ہی کو دیکھ لیجیے۔ یہ زندگی کو پیدا کرنے والی ہستی (اللہ تعالیٰ کا معجزہ ہے)۔ یہ کس قدر حسین ہے! اس کا وجود قدرتِ خداوندی کی دلیل ہے کہ زمین سورج کے گرد گردِش کررہی ہے اور یہ (چاند) زمین کے گِرد گردِش کررہا ہے۔ اس کے باوجود کبھی کسی اجرامِ فلکی سے متصادم نہیں ہوتا۔
یہ آسمان کی وسعتوں میں پارے جیسا سفید لباس (سیمابی قبا) پہنے اپنے سفر میں مگن رہتا ہے۔
چرخِ بے انجم کی دہشت ناک وسعت میں مگر
بے کسی اس کی کوئی دیکھے ذرا وقتِ سحَر
لیکن صبح کے وقت، جب دہشت ناک حد تک آسمان پر کوئی ستارہ نہیں ہوتا، اس وقت اس (چاند) کی بے کسی پر کوئی نظر تو ڈالے۔
اک ذرا سا ابر کا ٹُکڑا ہے، جو مہتاب تھا
آخری آنسو ٹپک جانے میں ہو جس کی فنا
وہی چاند جو رات کو خوب چمک رہا تھا، اور ستاروں کے جھُرمٹ میں بڑی شان کے ساتھ جلوہ گر تھا، اب (صبح کے وقت) یوں لگتا ہے جیسے وہ بادل کا ایک چھوٹا سا ٹُکڑا بن ہو اور جس کی فنا (موت) آخری آنسو ٹپک جانے میں ہو۔ گو بارش کا آخری قطرہ ٹپک جانے پر بادل ختم ہوجاتا ہے، کچھ یہی کیفیت چاند کی ہے کہ اِدھر سورج مکمل طور پر طلوع ہوا، اُدھر چاند غائب۔ آنی و فانی والی بات ہے۔
بند نمبر 9
زندگی اقوام کی بھی ہے یونہی بے اعتبار
رنگ ہائے رفتہ کی تصویر ہے ان کی بہار
چاند کی طرح قوموں کی زندگی کا بھی اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔ جس طرح فرد اور افراد کی زندگی بے اعتبار ہے، اُسی طرح قوموں کی زندگی بھی بے ثبات، یعنی ناپائیدار ہے۔
جسے ان (قوموں) کی بہار کہا جاتا ہے، وہ اصل میں گزرے ہوئے رنگوں (بہار، مراد ہے گذشتہ اقوام کا عروج) کی ایک تصویر ہے۔ مراد یہ ہے کہ وہ پہلی قوموں کی شان و شوکت کو لُوٹ کر اپنے لیے عروج کا سامان پیدا کرتی ہیں۔ ان کا عروج (بہار) در اصل، گذشتہ اقوام کے عروج کی تصویر ہے۔ یعنی جس طرح وہ قومیں فنا ہوگئیں، اسی طرح موجودہ قومیں بھی فنا ہوجائیں گی۔ جس طرح وہ قومیں شکست سے دوچار ہوئیں، اُسی طرح یہ بھی کسی قوم سے متصادم ہو کر شکست سے دوچار ہوجائیں گی۔
اس زیاں خانے میں کوئی ملّتِ گردُوں وقار
رہ نہیں سکتی ابد تک بارِ دوشِ روزگار
یہ دنیا کہ جو نقصان کا گھر ہے، اِس میں آسمان جیسے اونچے رُتبے والی قوم بھی ہمیشہ کے لیے بر سرِ اقتدار نہیں رہ سکتے۔ جس طرح لوگ پیدا ہوتے اور مرتے ہیں، اقوام کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے۔ ہر عروج کو زوال ہے۔
اس قدر قوموں کی بربادی سے ہے خُوگر جہاں
دیکھتا بے اعتنائی سے ہے یہ منظر جہاں
یہ دنیا قوموں کی بربادی کی اِس قدر عادی ہوچکی ہے کہ قوموں کی تباہی کے منظر کو بالکل لاتعلقی سے دیکھتی رہتی ہے اور اس پر کسی طرح کے غم و افسوس کا اظہار نہیں کرتی۔ اس لیے کہ یہ معمول تو ازل سے چلا آرہا ہے، اگر کوئی نئی بات ہو تو توجہ سے دیکھے۔
ایک صورت پر نہیں رہتا کسی شے کو قرار
ذوقِ جدّت سے ہے ترکیبِ مزاجِ روزگار
اس دنیا میں ہر وقت انقلاب رونما ہوتا رہتا ہے۔ دنیا کی ترکیب ہی اس طرح ہوئی ہے کہ اِس میں ہر وقت نئی نئی باتیں ظاہر ہوتی رہتی ہیں، نِت نئے حادثات رونما ہوتے رہتے ہیں۔
علامہ اقبال اسی حقیقت کو یوں بیان فرماتے ہیں:-
؎ سکُوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں
ثبات ایک تغیّر کو ہے زمانے میں
(حوالہ: بانگِ درا: ستارہ)
ہے نگینِ دہر کی زینت ہمیشہ نامِ نو
مادرِ گیتی رہی آبستنِ اقوامِ نو
زمانے کا نگینہ ہر وقت نئے نام سے زینت پاتا ہے اور جہان کی ماں نئی نئی قوموں کو جنم دیتی رہتی ہے۔ یعنی اِس عالم میں ہمیشہ نئے نئے آدمی بر سرِ عروج رہتے ہیں مثلاً سکندر، تیمور، نیپولین اور ہٹلر۔۔ اور یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہتا ہے۔
کیا خوب کہا ہے شیخ سعدیؔ نے:-
؎ ہر کہ عمارتِ نو ساخت
رفت و منزل بدیگرے پرداخت
چونکہ شاعر نے گیتی کو ”مادر“ قرار دیا ہے۔ اس لیے آبستن کا لفظ نہایت موزوں ہے۔ یعنی دنیا (زمین) وہ عورت ہے جس کے رحم میں ہمیشہ نئی نئی قومیں بنتی رہتی ہیں۔
بند نمبر 10
ہے ہزاروں قافلوں سے آشنا یہ رہ گزر
چشمِ کوہِ نُور نے دیکھے ہیں کتنے تاجور
دنیا کی گزرگاہ ہزاروں قومیں دیکھ چکی ہے۔ اس جہان میں آج تک ہزاروں قومیں بر سرِ عروج آچکی ہیں۔ کوہِ نُور ہیرا کتنے ہی بادشاہوں کے تاج کی زینت بن چکا ہے۔
کوہ نورجنوبی بھارت کے علاقے گولکنڈہ سے ملا۔ کئی راجے مہاراجے نسل در نسل اس ہیرے کے وارث بنے۔ اسلامی تاریخ میں اس ہیرے کی موجودگی کا ذکر اس طرح سے ہے کہ ابراہیم لودھی کی والدہ بوا بیگم نے مغل شہزادے ہمایوں کو نذرانے میں دیا اور اس طرح یہ ہیرا دہلی کے مغل بادشاہوں کے پاس رہا۔
1739ء میں نادر شاہ نے جب ہندوستان فتح کیا تو اسے اپنے ساتھ ایران لے گیا اور غالباً اسی نے اس ہیرے کا نام اس کی چمک دمک دیکھ کر کوہ نور رکھا۔ احمد شاہ ابدالی نادر شاہ کا جرنیل تھا نادر شاہ کے قتل کے بعد افغانستان کا علاقہ احمد شاہ ابدالی کے قبضہ میں آ گیا یہ ہیرا بھی احمد شاہ ابدالی کے قبضہ میں رہا اس کی موت کے بعد اس کے بیٹے شاہ تیمور اور اس کے بعد احمد شاہ ابدالی کے پوتے شاہ شجاع والیٔ قندھار کے پاس رہا۔جب اس کے مخالفین نے اسے تخت سے معزول کر دیا تو وہ بھاگ کر ہندوستان آیا تو یہ ہیرا اس کے ساتھ تھا، یہاں مہاراجہ رنجیت سنگھ نے اسے پناہ دی اور کھوئی ہوئی حکومت کی بحالی کا وعدہ کیا اس دوران مہاراجا کو کوہ نور ہیرے کے بارے علم ہوا۔ رنجیت سنگھ نے یہ ہیرا شاہ شجاع سے طلب کیا مگر شاہ نے جواب دیا کہ اس ہیرے کو قرض کے عوض کابل کے تاجروں کے پاس بطور رہن رکھوا چکا ہے اس پر مہاراجا غضب ناک ہو گیا (گذشتہ سے پیوستہ) اس نے شاہ شجاع کے خاندان کو اندرون لاہور مبارک حویلی میں سخت پہرے میں رکھا (گرمی کا موسم تھا مئی کے آخری ایام تھے) ان کا کھانا پینا بند کروا دیا بھوک اور پیاس سے معصوم بچوں کا رورو کر برا حال ہو گیا تین دن کی ناقابل برداشت ذلت اور سختیوں سے تنگ آ کر شاہ شجاع نے ہیرا رنجیت سنگھ کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا اور شرط عائد کی کہ وہ کوہ نور ہیرا خود مہاراجا کے حوالے کرے گا۔ یہ سن کر مہاراجا بہت خوش ہوا اس نے خود جا کر معزول بادشاہ سے ملاقات کی اور وہ ہیرا حاصل کر لیا۔ رنجیت سنگھ نے پوچھا:- “اس کی قیمت کیا ہوگی؟ شاہ شجاع نے جواب دیا :- “ طاقت! جس کے ذریعے ہر بادشاہ نے اسے حاصل کیا میرے آباؤ اجداد نے اسے حاصل کیا اور اب مجھ سے آپ طاقت کے ذریعے حاصل کر رہے ہیں کل کوئی اور طاقت کے ذریعے آپ سے حاصل کر لے گا“۔ یہ ہیرا مہاراجا رنجیت سنگھ کی خلعت کی زینت بنا رہا۔ 1839ء میں مہاراجا کا انتقال ہو گیا اس کے بعد خالصہ دربار سازشوں کا گڑھ بن گیا سکھ قوم آپس میں ٹکراتی رہی اور کمزور ہوتی گئی۔ 1846ء میں سکھ انگریز جنگ میں سکھوں کو شکست ہوئی یہ ہیرا بھی برطانیہ کے قبضہ میں چلا گیا۔ سکھ حکمران مہاراجا دلیپ سنگھ سے یہ ہیرا برطانیہ کے ہاتھ لگا اور یہ ہیرا سر لارنس گورنر پنجاب کے پاس موجود رہا اسے ایک حکم ملا کہ خفیہ طور پر یہ ہیرا لندن بھیجا جائے اس حکم کی فوراً تعمیل ہوئی۔ لندن میں اس ہیرے کو تراشنے کے بعد تاج برطانیہ کی زینت بنایا گیا۔ اب تاج برطانیہ کی زینت ہے۔ اس کی عظمت چمک دمک کی بنا پر اکثر چیزوں وغیرہ کا نام کوہ نور رکھ لیتے ہیں۔
مصر و بابِل مٹ گئے، باقی نشاں تک بھی نہیں
دفترِ ہستی میں ان کی داستاں تک بھی نہیں
مصر (Egypt) و بابل (Babylon) کی عظیم الشان سلطنطیں مِٹ گئیں، آج اُن کے آثار تک موجود نہیں۔ آج زندگی کے دفتر میں اُن کی کہانی ڈھونڈنے سے بھی نہیں مِلتی۔
آ دبایا مہرِ ایراں کو اجل کی شام نے
عظمتِ یُونان و روما لُوٹ لی ایّام نے
ایران (Persia) کی عظمت کے سورج کو موت کی شام نے دبوچ لیا۔ زمانہ نے یونان (Greece) اور روما (Rome) کی شان و شوکت کو بھی لُوٹ کر خاک میں مِلا دیا۔
آہ! مسلم بھی زمانے سے یونہی رخصت ہوا
آسماں سے ابرِ آذاری اُٹھا، برسا، گیا
ان اقوام (مصر، بابل، ایران، روم) کے تذکرہ کے بعد اقبالؔ اپنی قوم کا ذکر کرتے ہیں اور جب اس کے زوال کا تصور کرتے ہیں تو اُن کے نازک دِل پر چوٹ سی لگتی ہے اور وہ بے اختیار پکار اُٹھتے ہیں:-
؏ آہ! مُسلم بھی زمانہ سے یونہی رُخصت ہوا
مسلمان بھی گذشتہ قوموں کی طرح دنیا سے رخصت ہوگئے۔ جیسے آسمان پر بہار کے موسم کا ایک بادل آتا ہے، برستا ہے اور چلا جاتا ہے۔۔ یہی مثال مسلمانوں کی ہے۔
اربابِ نظر اور اصحابِ علم جانتے ہیں کہ اس دو حرفی لفظ “آہ” کے اندر مسلمانوں کی عظمت کی ساری داستان پوشیدہ ہے۔ کیا آج کوئی شخص (خواہ وہ یورپ سے ہو یا ایشیاء سے) یہ یقین سے کہہ سکتا ہے کہ سولہویں صدی عیسوی تک ترکوں کی سطوَت کا یہ عالم تھا کہ قسطنطنیہ سے دو ہزار میل دُور جزیرۂ انگلستان کی عورتیں اپنے ضدّی بچوں کو سُلانے کے لیے یہ لوری دیا کرتی تھیں:-
“سوجا مُنّے سوجا! ترک آرہے ہیں!”
Hush! Baby Hush! The Turks Are Coming!
کیا آج کوئی شخص یہ باور کرسکتا ہے کہ ہارونؔ الرشید نے قیصرِ روم کے گستاخانہ خط کا جواب ان الفاظ میں دیا تھا:-
”مسلمانوں کے امیر ہارون کی طرف سے رومی کُتے فغفور کے نام!“
بات یہ ہے کہ ہمارے اندر ابنؔ علقمی، حسینؔ علی، عمادؔ الملک، شجاع الدولہ، مرزا نجف خاں، میر جعفر، میر صادق اور نواب الٰہی بخش معروف جیسے بزرگ پیدا نہ ہوتے تو شاید ہماری حالت اتنی زبوں نہ ہوگئی ہوتی۔
بند نمبر 11
اس بند میں اقبالؔ نے نفسِ مضمون سے گریز کرکے زندگی کی گوناگوں دلچسپیوں کی تصویر کھینچی ہے۔ اس بند کا اندازِ بیاں بہت دِلکش ہے۔ اُنھوں نے تشبیہہ، استعارہ اور کنایہ کا انبار لگادیا ہے۔
ہے رگِ گُل صبح کے اشکوں سے موتی کی لڑی
کوئی سُورج کی کرن شبنم میں ہے اُلجھی ہوئی
پھول کی شاخ صبح کے آنسوؤں یعنی شبنم کے قطروں کے باعث موتیوں کی لڑی معلوم ہوتی ہے۔ شبنم کے قطروں کو چمکتا ہوا دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے سورج کی شعاع شبنم میں اُلجھ کر رہ گئی ہے۔
سینۂ دریا شُعاعوں کے لیے گہوارہ ہے
کس قدر پیارا لبِ جُو مہر کا نظّارہ ہے
دریا کا سینہ سورج کی شعاعوں کے لیے پالنے (گہوارے) کا کام دینا ہے۔ سینۂ دریا پر شعاعیں کھیل رہی ہیں۔ ندی کے کنارے سورج کا منظر کس قدر خوبصورت معلوم ہوتا ہے۔
محوِ زینت ہے صنوبر، جوئبار آئینہ ہے
غنچۂ گُل کے لیے بادِ بہار آئینہ ہے
یوں لگتا ہے جیسے صنوبر کا درخت اپنی آرائش میں مصروف ہے اور بہتی ہوئی ندی اس کے لیے آئینے کا کام دے رہی ہے۔۔ جبکہ بہار کی زندگی بخش ہوا پھولوں اور غنچوں کے لیے آئینے کا کام کرتی ہے۔
نعرہ زن رہتی ہے کوئل باغ کے کاشانے میں
چشمِ انساں سے نہاں، پتّوں کے عُزلت خانے میں
باغ میں کوئل انسان کی آنکھوں سے چھُپ کر اور پتوں میں بیٹھ کر گانا گانے میں مصروف رہتی ہے۔
اور بُلبل، مطربِ رنگیں نوائے گُلِستاں
جس کے دم سے زندہ ہے گویا ہوائے گُلِستاں
گلستان میں رنگین نغمے گانے والی اس بلبل کی وجہ سے گلستان کی فضا میں زندگی کے آثار نظر آتے ہیں۔
عشق کے ہنگاموں کی اُڑتی ہوئی تصویر ہے
خامۂ قُدرت کی کیسی شوخ یہ تحریر ہے
یہ بلبل عشق کی اُڑتی ہوئی تصویر ہے اور قدرت کے قلم نے یہ کتنی شوخ عبارت لکھی ہے۔
باغ میں خاموش جلسے گُلِستاں زادوں کے ہیں
وادیِ کُہسار میں نعرے شباں زادوں کے ہیں
باغ میں پودے اور درخت بالکل چپ چاپ کھڑے ہیں اور پہاڑ کی وادیوں میں گدڑیوں کے لڑکے کھیل کُود میں مصروف ہیں اور نعرے لگا رہے ہیں۔
زندگی سے یہ پُرانا خاکداں معمور ہے
موت میں بھی زندگانی کی تڑپ مستور ہے
یہ پرانا خاکداں (قلعہ) زندگی سے بھرپور ہے ۔۔ گو اِس قلعے میں رہنے والے موت کا چکار ہوچکے ہیں لیکن اس کے باوجود یہاں موت کے پردے میں زندگی کی تڑپ چھُپی ہوئی ہے۔
پتّیاں پھولوں کی گرتی ہیں خزاں میں اس طرح
دستِ طفلِ خُفتہ سے رنگیں کھلونے جس طرح
ان ہی زندگی کے ہنگاموں میں موت بھی صیّاد کی طرح گھات میں بیٹھی ہوئی ہے۔ اگر ایک طرف باغ میں کوئل گارہی ہے اور بلبل سے عہد و پیمانِ وفا باندھ رہی ہے تو دوسری طرف باغ میں موجود ان ہی پھولوں کی پتّیاں مرجھا کر اِس طرح زمین پر گر رہی ہیں، جِس طرح سوتے ہوئے بچے کے ہاتھ سے رنگین کھلونے گِر پڑیں۔ (یہ تشبیہ اتنی پاکیزہ اور اچھوتی ہے کہ اس کی تعریف نہیں ہوسکتی)
داد طلب بات یہ ہے کہ ایسا دِلخراش مضمون باندھتے وقت بھی اقبالؔ کی شاعرانہ طبیعت اپنے فرض سے غافل نہیں ہوئی، یعنی پھولوں کی مرجھائی ہوئی پتیوں کے گِرنے کو، دستِ طفلِ خفتہ کے ہاتھوں سے کھلونا گرنے سے تشبیہ دینا، بلاشبہ اقبال کے کمالِ فن کی دلیل ہے۔
اس نشاط آباد میں گو عیش بے اندازہ ہے
ایک غم، یعنی غمِ ملّت ہمیشہ تازہ ہے
عیش و شادمانی کی زندگی میں اگرچہ خوشی کے بے اندازہ سامان جمع ہیں، لیکن اقبالؔ کہتے ہیں کہ یہ ”بے اندازہ عیش“ میرے دِل سے ملتِ اسلامیہ کی بربادی کے غم کو دُور نہیں کرسکتا۔۔ ملتِ اسلامیہ کے تنزل اور بربادی کا غم ہمارے دِلوں میں ہمیشہ زندہ رہنے والا غم ہے۔
بند نمبر 12
دل ہمارے یادِ عہدِ رفتہ سے خالی نہیں
اپنے شاہوں کو یہ اُمّت بھولنے والی نہیں
اقبالؔ کہتے ہیں کہ ہمارے دِلوں میں اپنی قوم کی عظمت کی داستان ہنوز تازہ ہے اور ہم اپنے نامور اور عادِل بادشاہوں کو کبھی فراموش نہیں کریں گے۔
اگرچہ اقبالؔ نے صراحت نہیں کی، لیکن میرا ظنِ غالب یہ ہے کہ ”اپنے شاہوں“ سے اُن کی مراد صرف وہ بادشاہ ہیں، جنہوں نے اسلام اور مسلمانوں کی سر بلندی کے لیے حکومت کی۔ مثلاً سلطان صلاح الدینؒ ایوبی، سلطان نور الدینؒ زنگی، سلطان محمودؒ بگڑہ، سلطان عالمگیرؒ اور سلطان ٹیپوؒ شہید۔
(حوالہ: شرح بانگِ درا از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)
اشک باری کے بہانے ہیں یہ اُجڑے بام و در
گریۂ پیہم سے بینا ہے ہماری چشمِ تر
یہ آثارِ قدیمہ ہمارے لیے عبرت کے سامان مہیّا کرتے ہیں اور جب ہم اپنی قوم کی بربادی پر آنسو بہاتے ہیں تو ہماری آنکھ بینا ہوجاتی ہے یعنی ہمارے اندر اصلاح کا جذبہ پیدا ہوجاتا ہے۔۔ گویا ہماری آنسوؤں سے بھیگی ہوئی آنکھ مسلسل رونے کی وجہ (یعنی جو سرمایہ کھو گیا ہے، اُس کا غم کرنے کی وجہ سے) سے دیکھنے کے قابل ہے۔
دہر کو دیتے ہیں موتی دیدۂ گریاں کے ہم
آخری بادل ہیں اک گزرے ہوئے طوفاں کے ہم
ہم مسلمان اپنی رونے والی آنکھ سے زمانے (دہر) کو موتی عطا کرتے ہیں۔ موجودہ زمانے کے مسلمان گزرے ہوئے تند و تیز طوفان کے آخری بادل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یعنی ہم موجودہ زمانے کے مسلمان عظیم الشان ملتِ اسلامیہ کے نام لیوا ہیں اور اگرچہ نہایت زبوں حال ہیں لیکن گئی گزری حالت میں بھی ہمارے اندر اتنی صلاحیت باقی ہے کہ ہم دنیا میں دوبارہ انقلاب پیدا کرسکتے ہیں۔
ہیں ابھی صدہا گُہر اس ابر کی آغوش میں
برق ابھی باقی ہے اس کے سینۂ خاموش میں
اس بادل کی گود میں اب بھی سینکڑوں موتی باقی ہیں۔ اس کے خاموش سینہ میں اب بھی بجلیاں (برق) چھپی ہوئی ہیں۔
وادیِ گُل، خاکِ صحرا کو بنا سکتا ہے یہ
خواب سے اُمّیدِ دہقاں کو جگا سکتا ہے یہ
یہ بادل (یعنی مسلمان) اب بھی بیابان کی خاک کو پھولوں کی وادی بنا سکتا ہے، یعنی ہمارے اندر ابھی اس قدر خوبیاں باقی ہیں کہ ہم خاکِ صحرا (اس دنیا کو جو ہمارے اُجڑنے سے اُجڑ گئی ہے) کو وادیٔ گُل (نہایت دِلکش مقام) بنا سکتے ہیں۔
دہقان (اقوامِ عالم) کھیتی کی طرف سے نا امید ہوچکا ہے، یعنی کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ شاید مسلمان اب دوبارہ سربلند نہ ہوسکیں۔ لیکن ہمارے اندر اب بھی اس قدر طاقت باقی ہے کہ ہم دنیا کو پھر عدل و انصاف سے معمور کرسکتے ہیں۔
ہو چُکا گو قوم کی شانِ جلالی کا ظہور
ہے مگر باقی ابھی شانِ جمالی کا ظہور
آخری شعر میں اقبالؔ نے اپنی اس رجائیت (امیدِ ترقی کے اثبات) کی وجہ بیان کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ امتِ اسلامیہ کے لیے دنیا میں سربلندی کے دو زمانے (دور) مقدر ہیں۔ پہلے دور میں مسلمانوں نے شانِ جلال دکھائی یعنی تلوار کے زور سے دنیا کو فتح کیا، اب دوسرے دور میں شانِ جمال دکھائیں گے یعنی دلائلِ عقلیہ کے زور سے دنیا کو فتح کریں گے۔ بخوفِ طوالت جلال اور جمال کی تفصیل تو درج نہیں کرسکتا۔ صرف اس قدر لکھتا ہوں کہ چونکہ آپ ﷺ کی حیاتِ مبارکہ میں یہ دونوں شانیں (شانِ جلالی اور شانِ جمالی) پائی جاتی ہیں۔ مکّی زندگی شانِ جمال کی مظہر ہے اور مدنی زندگی شانِ جلال کی۔ اس لیے آپ ﷺ کی اُمت میں بھی ان دونوں شانوں کا پایا جانا ضروری ہے۔
شانِ جلالی سے مراد ہے رعب و دبدبہ، شان و شوکت اور حکمرانی و فتوحات، جبکہ شانِ جمالی کا منشا حُسنِ اخلاق اور ادب و فنون کی کامیابی ہے۔
تبصرہ
بلاشبہ گورستانِ شاہی بڑی اثر آفریں ہے اور معنوی خوبیوں کے علاوہ اس میں صنائع لفظی اور محاسنِ شعری بھی بکثرت موجود ہیں۔ تفصیل تو دشوار ہے۔ چند اشعار پر قناعت کرتا ہوں:-
(1) اس نظم میں اقبالؔ نے منطر کشی اور مرقع نگاری کا کمال دکھایا ہے۔
(2) یہ نظم تشبیہات اور استعارات، زمردایماء اور کنایات سے معمور ہے۔
(3) بعض مصرعے صنعتِ تضاد کے حامل ہیں۔ مثلاً:-
؏ بربطِ قدرت کی دھیمی سی نوا ہے خامشی
یا
؏ اس ستمگر کا ستم، انصاف کی تصویر ہے
واضح ہو کہ نوا: خاموشی کی، اور ستم: انصاف کی ضِد ہے۔
(4) بعض مصرعوں میں صنعتِ ایجاز پائی جاتی ہے یعنی طویل داستان چند لفظوں میں بیان کردی ہے۔ مثلاً
؏ شاخ پر بیٹھا، کوئی دم چہچہایا، اُڑ گیا
یا
؏ زندگی کی شاخ سے پھوٹے، کھِلے، مرجھاگئے
(5) گورستانِ شاہی میں اقبالؔ نے زندگی کی بے ثباتی کو بڑے مؤثر طریقے سے واضح کیا ہے۔
(6) ساری نظم اول سے آخر تک سوزو گداز میں ڈوبی ہوئی ہے۔
(7) اس نظم میں فلسفہ اور شاعری کا خوبصورت امتزاج پایا جاتا ہے۔
(8) چونکہ یہ نظم اقبالؔ نے ایک خاص جذبہ کے تحت لکھی تھی، اس لیے اس کے اکثر اشعار میں جوشِ بیان کی بہت عمدہ مثالیں ملتی ہیں۔ مثلاً:-
؏ جادۂ عظمت کو گویا آخری منزل ہے گور
(شرح بانگِ درا از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)