”ستارہ“ از علامہ اقبال
فہرست
تعارف
نظم ”ستارہ“ میں اقبالؔ کا بنیادئ تصوّر تغیّر و انقلاب کے علاوہ مسئلہ جبر و قدر کی نشاندہی سے متعلق بھی ہے۔ یہ نظم محض آٹھ اشعار پر مشتمل ہے جن میں علامہ نے کمالِ فنی چابکدستی کے ساتھ اپنے نقطۂ نظر کا اظہار کیا ہے۔
(حوالہ: شرح بانگِ درا از اسرار زیدی)
یہ نظم جولائی 1909ء کے مخزن میں شائع ہوئی تھی اور من و عن بانگِ درا میں شامل کی گئی۔ نظم کا بنیادی تصوّر یہ ہے کہ دُنیا کارگہِ انقلاب ہے۔ یہاں ہر گھڑی، ہر چیز میں تغیّر و انقلاب رونما ہوتا رہتا ہے۔ کسی چیز کو لمحہ بھر کے لیے بھی ایک حالت پر ثبات و قرار نہیں ہے۔ ثبات و دوام اگر ہے تو صرف تغیّر کو۔
(حوالہ: شرح بانگِ درا از پروفیسر حمید اللہ شاہ ہاشمی)
بند نمبر 1
قمر کا خوف کہ ہے خطرۂ سحَر تجھ کو
مآلِ حُسن کی کیا مِل گئی خبر تجھ کو؟
اقبالؔ ستارہ سے کہتے ہیں کہ تُو اس قدر خوف زدہ کیوں رہتا ہے؟ کیا تجھے یہ خوف ہے کہ چاند طلوع ہو گیا یا صبح ہوگئی تو میں فنا ہوجاؤں گا؟
اس کے علاوہ کہیں ایسا تو نہیں کہ تجھے اس حقیقت کا پتہ چل گیا ہے کہ حُسن کا انجام آخر کیا ہوتا ہے؟ مراد یہ ہے کہ ستارہ بھی ایک حُسن ہوتا ہے اور زوال بالآخر حُسن کا مقدر ہے۔ سو اسی پسِ منظر میں یہ بات کہی گئی ہے۔
؏ وہی حسیں ہے حقیقت زوال ہے جس کی
(حوالہ: بانگِ درا: حقیقتِ حُسن)
متاعِ نُور کے لُٹ جانے کا ہے ڈر تجھ کو
ہے کیا ہراسِ فنا صورتِ شرر تجھ کو؟
کہیں تجھے یہ خوف تو نہیں کہ سورج کے طلوع ہوتے ہی تیری روشنی کی دولت لُٹ جائے گی۔
یا تجھے یہ خوف ہے کہ تُو بھی چنگاری کی طرح کچھ دیر چمکنے کے بعد فنا ہوجائے گا۔
زمیں سے دُور دیا آسماں نے گھر تجھ کو
مثالِ ماہ اُڑھائی قبائے زر تجھ کو
اگر ایسی بات ہے تو تجھے خوفزدہ تو نہیں ہونا چاہیے کہ قدرت نے تجھے سطح زمین سے کافی بلندی پر گھر عطا کیا ہے اور صرف بلندی ہی نہیں بلکہ چاند جیسا سنہری لباس یعنی روشنی بھا عطا کی ہے۔
غضب ہے پھر تری ننھّی سی جان ڈرتی ہے!
تمام رات تری کانپتے گزرتی ہے
اس کے باوجود تجھ پر خوف طاری رہتا ہے اور تُو اس خوف کی وجہ سے ساری رات کانپتا رہتا ہے۔
یہ شعر حُسنِ تعلیل کی اچھی مثال ہے۔ اقبالؔ نے ستاروں کی جھلملاہٹ کو کانپنے سے تعبیر کیا ہے۔
بند نمبر 2
چمکنے والے مسافر! عجب یہ بستی ہے
جو اوج ایک کا ہے، دوسرے کی پستی ہے
اے چمکنے والے مسافر ( یعنی ستارہ)! یہ کائنات ایک عجیب و غریب شے ہے۔ یہاں کی کیفیت یہ ہے کہ ایک شے کو عروج حاصل ہوتا ہے تو زوال دوسری شے کا مقدر بن جاتا ہے۔ یہاں ایک کی بلندی دوسرے کی پستی اور ایک کی بقا (زندگی) دوسرے کی فنا (موت) کا سبب بن جاتی ہے۔
اجل ہے لاکھوں ستاروں کی اک ولادتِ مہر
فنا کی نیند مئے زندگی کی مستی ہے
اس کی مثال کچھ یوں ہے کہ جب سورج طلوع ہوتا ہے تو لاکھوں ستارے فنا ہو جاتے ہیں۔ جو چیز ان ستاروں کے حق میں فنا کی نیند ہے، وہ آفتاب کے حق میں زندگی کی مستی بن جاتی ہے۔
وداعِ غنچہ میں ہے رازِ آفرینشِ گُل
عدم، عدم ہے کہ آئینہ دارِ ہستی ہے!
جب غنچہ فنا ہو جاتا ہے تو اس کی فنا سے پھول کی پیدائش ہو جاتی ہے۔ لہذا ثابت ہوا کہ ایک کا عدم دوسرے کی ہستی کا سبب ہے، یا ایک کی فنا دوسرے کی بقا کا سبب بنتی ہے۔
غنچہ کھِل کر اپنی ہئیت کھو بیٹھتا ہے اور بالآخر ایک شگفتہ پھول بن جاتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہ غنچے کی مورت عملاً پھول کی زندگی بن جاتی ہے۔ چنانچہ اس صورتِ حال کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اس صورتِ حال کا جائزہ لیا جائے تو یہ راز آشکار ہو کر سامنے آئے گا کہ ہم جسے موت کا نام دیتے ہیں وہ عملاً موت نہیں ہے ، اس کے برعکس زندگی کے اظہار کا نام ہے۔
سکُوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں
ثبات ایک تغیّر کو ہے زمانے میں
سو اے ستارے! یہ جان لے کہ اس کائنات میں سکون نا ممکن ہے۔ یہاں ہر گھڑی انقلاب اور تغیّر رونما ہوتا رہتا ہے۔ اگر اس کائنات میں کسی چیز کو دوام اور پائیداری حاصل ہے تو وہ یہی قانونِ تغیّر ہے۔ پس جب تغیّر اور انقلاب اس دنیا کا قانون ہے تو کسی انسان کو اُس تغیّر یا انقلاب سے خوفزدہ یا غمگین نہیں ہونا چاہیے جو اس دنیا میں پیدا ہو، کیونکہ تغیّر اور انقلاب سے کوئی شخص محفوظ نہیں رہ سکتا۔
؎ فریبِ نظر ہے سکون و ثبات
تڑپتا ہے ہر ذرۂ کائنات
(حوالہ: بالِ جبریل: ساقی نامہ)
؎ ایک صورت پر نہیں رہتا کسی شے کو قرار
ذوقِ جِدّت سے ہے ترکیبِ مزاجِ روزگار
(حوالہ: بانگِ درا: گورستانِ شاہی)
حوالہ جات
- شرح بانگِ درا از پروفیسر یوسف سلیم چشتی
- شرح بانگِ درا از اسرار زیدی
- شرح بانگِ درا ا ڈاکٹر شفیق احمد
- شرح بانگِ درا از پروفیسر حمید اللہ شاہ ہاشمی