نظم ”ابرِکوہسار“ از علامہ اقبال
فہرست
تعارف
نظم ابرِ کوہسار ۱۹۰۱ء کے رسالہ مخزن میں شائع ہوئی اور دس بندوں پر مشتمل تھی، البتہ نظرِ ثانی کے بعد صرف ۴ بند رہ گئے۔ اس نظم کا شمار علامہ اقبال کی بالکل ابتدائی دور کی شاعری میں ہوتا ہے۔ اقبالؔ کی ابتدائی دور کی شاعری پر خلیفہ عبد الحکیم اپنی کتاب ‘فکرِ اقبال’ میں یوں روشنی ڈالتے ہیں:-
اقبالؔ کی ابتدائی دور کی شاعری
۱۹۰۵ء تک اقبالؔ ایک آزاد شاعر تھے۔ وہ جن مناظر یا واقعات سے متاثر ہوتے، اس کو اپنی شاعری کا موضوع بناتے۔ البتہ اُنہوں نے تقلیدی اور روایتی شاعری سے چھٹکارہ حاصل کر لیا تھا۔
اقبالؔ کی یہ ابتدائی شاعری مغربی شاعری کے زیرِ اثر ہے۔ حالانکہ ایران اور ہندوستان اچھی آب و ہوا کے ملک ہیں، لیکن اردو اور فارسی میں مناظرِ فطرت کی شاعری نہ ہونے کے برابر ہے، جو ملتا ہے وہ بھی محض تخیّل ہے۔ فارسی شاعری گُل و بُلبُل کی شاعری ہے مگر مناظرِ فطرت کو محض عشق و عاشقی کی تمثیل کے طور پر ہی استعمال کیا گیا۔
ایسے میں اقبالؔ نے فطرت کو برائے فطرت سراہا ہے اور اس دور میں ہمالہ، ایک آرزو، گلِ رنگیں، ابر، انسان اور بزمِ قدرت جیسی کئی نظموں میں اپنی شاعری کے جوہر دکھائے۔
یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ مغربی شاعری کا سب سے اچھا اثر اقبالؔ پر یہ ہوا کہ وہ مصنوعی شاعری سے بچ گئے۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ اقبالؔ نے محض صناعی اور اظہارِ کمال کے لیے شعر نہیں کہا بلکہ کسی داخلی یا خارجی محرک سے متاثر ہو کر کہا۔
حوالہ: فکرِ اقبالؔ از ڈاکٹر خواجہ عبدالحکیم
نظم ”ابرِ کوہسار“ کی تشریح
بند ۱
ہے بلندی سے فلک بوس نشیمن میرا
ابرِ کُہسار ہوں گُل پاش ہے دامن میرا
کبھی صحرا، کبھی گُلزار ہے مسکن میرا
شہر و ویرانہ مرا، بحر مرا، بَن میرا
کسی وادی میں جو منظور ہو سونا مجھ کو
سبزۂ کوہ ہے مخمل کا بچھونا مجھ کو
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
فلک بوس | آسمان چُومنے والا |
نشیمن | آرام کی جگہ |
کہسار | پہاڑ |
گُل پاش | پھول بکھیرنے والا |
مسکن | رہنے کی جگہ |
بحر | سمندر |
بن | جنگل |
وادی | دریا کے کناروں یا پہاڑوں کے درمیان پایا جانے والا حصہ |
سبزۂ کوہ | پہاڑ پر اُگنے والا سبزہ |
مخمل | ایک قسم کا نفیس کپڑا، ویلویٹ (Velvet) |
تشریح:
اس نظم میں پہاڑوں کی چوٹیوں پر چھایا ہوا بادل کلام کر رہا ہے۔
بادل کہتا ہے کہ میں اس قدر بلند مقام پر رہتا ہوں کہ میرا گھر بلندیوں کو چومتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ میں پہاڑوں پر رہنے والا بادل ہوں اور میرے دامن میں پھول بکھرے ہوئے ہیں۔
میں کبھی صحرا میں برستا ہوں اور کبھی گلستان کو اپنا گھر بنا لیتا ہوں۔ شہر ہو، ویرانہ ہو، سمندر ہو یا جنگل سبھی کچھ میرا ہے۔
اگر میں کسی وادی میں آرام کرنا چاہوں تو پہاڑ پر اُگا ہوا سبزہ ہی میرے لیے بستر کا کام دیتا ہے۔
بند ۲
مجھ کو قُدرت نے سِکھایا ہے دُرافشاں ہونا
ناقۂ شاہدِ رحمت کا حُدی خواں ہونا
غم زدائے دلِ افسُردۂ دہقاں ہونا
رونقِ بزمِ جوانانِ گُلستاں ہونا
بن کے گیسو رُخِ ہستی پہ بکھر جاتا ہوں
شانۂ موجۂ صرصر سے سنور جاتا ہوں
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
دُر افشاں | موتی بکھیرنا |
ناقہ | تیز چلنے والی اونٹنی |
شاہدِ رحمت | خدا کی رحمت کو جوش میں لانے والا محبوب |
حُدی خواں | نغمہ گانے والا |
غم زدا | تکلیفیں مٹانے والا / ختم کرنے والا |
دِلِ افسُردہ | مغموم دِل، مایوس دِل |
دہقاں | کسان |
بزم | محفل |
جوانانِ گُلستاں | گُلستان کے جوان |
گیسو | بال |
شانہ | کنگھی (شانہ فارسی زبان کا لفظ ہے) |
موجۂ صرصر | تیز ہوا کی لہر / جھونکا |
تشریح:
ابرِ کوہسار کہتا ہے کہ قدرت نے مجھے موتی بکھیرنا سکھائے ہیں۔ موتیوں کو بارش کے قطروں کے لیے استعارہ لیا گیا ہے۔ قدرت نے مجھے اُس اونٹنی کا نغمہ گانے والا بھی بنایا ہے جس پر رحمتِ باری تعالی سوار ہے، یعنی میں خدا کی رحمت کے باعث ہی برستا ہوں۔‘شاہد’ کا لفظ کثیر المعنی ہے، یہاں اس سے ‘محبوب’ یا ‘حسینہ’ مراد ہے۔
واضح ہو کہ مصرعہ ”ناقۂ شاہدِ رحمت کا حُدی خواں ہونا“ استعارہ بالکنایہ کی بہت عمدہ مثال ہے۔ شاعر نے پہلے اللہ کی رحمت کو ایک پردہ نشین حسینہ (شاہدِ رحمت) قرار دیا ہے، پھر اس کے لیے ناقہ (اونٹنی) ثابت کی، کیونکہ شریف پردہ نشین حسینہ عموماً محمل ہی میں ہوتی ہیں (محمل ایک قسم کی ڈولی ہوتی ہے جسے اونٹ پر باندھتے ہیں)۔ اس کے بعد اس ناقہ کے لیے ایک حُدی خوان ثابت کیا ہے، کیونکہ جب حُدی خوان ناقہ کو سُرود سُناتا ہے تو وہ تیز چلتی ہے۔
استعارہ بالکنایہ: وہ استعارہ ہے جس میں صرف مستعار لُہ [جس کے لیے استعارہ لیا جاتا ہے] کا ذکر ہو اور مستعار منہ [جس سے استعارہ لیا ہو] کا ذکر نہ ہو۔
حُدی وہ نغمہ ہے جو شتربان، اونٹوں کو تیز چلانے کے لیے سناتے ہیں۔
اسی بادل کو کسان کے دُکھے ہوئے دل کے درد کو دُور کرنا بھی قدرت نے سکھایا ہے، اس لیے کہ بادل اور بارش فصل کی پیداوار پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ بادل کو سکھایا گیا ہے کہ گُلستان میں بسنے والے نوجوانوں کی محفلوں کو بھی رونق بخش دے۔ اچھے موسم سے محفلوں کا مزہ دوبالا ہوجاتا ہے۔
بادل زندگی کے چہرے پر گیسو بن کر بکھر جاتا ہے۔ بادل (اور بارش) سے پیدا ہونے والا سبزہ اور ہریالی بالکل ایسے ہی زندگی کو زیبائش عطا کرتا ہے جیسے محبوب کے چہرے پر بکھری ہوئی زُلفیں۔
یہاں کالے بادل کو گیسوؤں سے اور آندھی یا تیز ہوا کو کنگھی سے تشبیہ دی گئی ہے۔ ‘شانہءِ موجۂ صرصر’ میں بھی استعارہ بالکنایہ کی مثال ملتی ہے۔ یعنی پہلے ہوا کو ایک موج فرض کیا، پھر گیسو یا بالوں کی نسبت سے ‘موجۂ صرصر’ کو شانہ یعنی کنگھی قرار دیا، تاکہ وہ گیسوئے ابر کو شانہ کی طرح سمیٹ اور سنوار سکے۔ جب بادل بکھرے ہوں تو برسنے کے قابل نہیں ہوتے لیکن ہوا کی لہریں اُن کو اکٹھا کر کے برسنے کے قابل بنا دیتی ہیں۔
بند ۳
دُور سے دیدۂ امیّد کو ترساتا ہوں
کسی بستی سے جو خاموش گزر جاتا ہوں
سَیر کرتا ہُوا جس دم لبِ جُو آتا ہوں
بالیاں نہر کو گرداب کی پہناتا ہوں
سبزۂ مزرعِ نوخیز کی امّید ہوں میں
زادۂ بحر ہوں، پروردۂ خورشید ہوں میں
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
دیدۂ اُمید | امید رکھنے والی آنکھ |
لبِ جُو | ندی کا کنارہ |
گرداب | بھنور |
مزرعِ نوخیز | تازہ اُگی ہوئی کھیتی |
زادۂ بحر | سمندر سے پیدا ہونے والا |
پروردۂ خورشید | سورج کا پالا ہوا |
تشریح:
لوگ میری (بادل کی) طرف اُمید سے دیکھتے ہیں، لیکن یہ بھی بادل کی اداؤں میں سے ایک ادا ہے کہ وہ بِنا گرجے اور برسے بھی گزر جاتا ہے۔ شاید وہاں سے بھی جہاں اس کی سخت ضرورت ہو مگر جب میں سیر کرتا ہوا ندی کے کنارے پہنچتا ہوں، تو ہو سکتا ہے وہاں پانی کے پہلے ہی موجود ہونے کے باوجود برس جاؤں جس سے نہر میں ایک بھنور پیدا ہو جاتا ہے۔
بھنور وہ چکر ہوتا ہے جو پانی میں ہوا سے پڑتا ہے۔ اس چکر کی بنا پر قدرتی طور پر حلقے پیدا ہوجاتے ہیں، جو بالکل بالیوں کی سی شکل دیتے ہیں۔
اس شعر میں قدرت اور قدرت کے مناظر جیسے کہ بادل اور پانی کی تباہ کاری فطرت اور خصلت کو اُجاگر کیا گیا ہے۔ جو اس کی موجودگی اور عدم موجودگی دونوں سے آتی ہیں۔
بادل تازہ اُگی ہوئی فصلوں اور کھیتوں کی آس ہے جو ان کو سورج کی شدت سے پناہ عطا کرتا ہے۔ مگر جس کی شدت سے بادل بچاؤ فراہم کرتا ہے، اُسی کا پالا ہوا بھی ہے۔ پالا ہوا اِس طرح سے کہ سورج کی بدولت سمندروں کا پانی بھاپ بن کر اڑتا ہے اور بادل کی صورت اختیار کرتا ہے، اس عمل کو عملِ تبخیر (Evaporation) کہتے ہیں۔ ایک سائنسی عمل کو خوبصورتی سے شعر کا جامہ پہنایا گیا ہے۔
بند ۴
چشمۂ کوہ کو دی شورشِ قلزُم میں نے
اور پرندوں کو کیا محوِ ترنّم میں نے
سر پہ سبزے کے کھڑے ہو کے کہا قُم میں نے
غنچۂ گُل کو دیا ذوقِ تبسّم میں نے
فیض سے میرے نمونے ہیں شبستانوں کے
جھونپڑے دامنِ کُہسار میں دہقانوں کے
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
چشمۂ کوہ | پہاڑ کے دامن میں موجود پانی کل چشمہ |
شورِش | شور، طُغیانی |
قُلزم | سمندر |
محوِ ترنّم | نغمہ سرائی میں مصروف۔ مراد: چہچانے میں مگن |
قم | کھڑے ہونے کا حکم (حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا معجزہ جس کے ذریعے وہ مُردوں کو زندہ کیا کرتے تھے) |
غنچۂ گُل | پھولوں کا گلدستہ |
ذوقِ تبسم | مسکرانے کا شوق، غنچے کا کھِلنا |
فیض | کرم، مہربانی |
شبستان | امراء کے رات گزارنے کی جگہ، عشرت گاہ، محل |
تشریح:
بادل کہتا ہے کہ پہاڑوں سے نکلنے والے معمولی سے چشمے کو صرف میری مسلسل و زوردار بارش نے ہی سمندر جیسا جوش و خروش عطا کیا ہے۔ میری ہی وجہ سے گرمی کے مارے ہوئے پرندے سُکھ کا سانس لے کر چہچہانے لگتے ہیں اور نغمے گانے پر مائل ہو جاتے ہیں۔
میری وجہ سے پامال سبزے کو ایک نئی زندگی ملتی ہے۔ کیونکہ میرا اُس کے سر پر برسنا ‘قُم’ کہنے کے مترادف ہوتا ہے اور پھول تر و تازہ ہو جاتے ہیں، یوں لگتا ہے جیسے اُن میں مسکرانے کا ذوق آگیا ہو۔
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بادل کہتا ہے کہ یہ میں ہی ہوں جس کی وجہ سے پہاڑ کے دامن میں بنے ہوئے جھونپڑے بھی، خوبصورتی کی وجہ سے، امراء کے رہنے کی جگہ لگنے لگتے ہیں۔