Skip to content
بانگِ درا 48: کنارِ راوی

بانگِ درا 48: کنارِ راوی

”کنارِ راوی“ از علامہ اقبال

فہرست

نظم ”کنارِ راوی“ میں علامہ اقبال نے زندگی و موت کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار فرمایا ہے۔


علامہ اقبال یکم ستمبر 1905ء کو لاہور سے یورپ کو اعلیٰ تعلیم کے لیے روانہ ہوئے۔ مندرجہ بالا نظم کے تیسرے شعر میں لِکھا ہے کہ وہ راوی کے کنارے کھڑے ہیں۔اس کے معنی یہ ہیں کہ یہ نظم اگست 1905ء تک لِکھ دی گئی ہوگی۔یہ ”مخزن“ 1905ء میں شائع ہوئی تھی۔ اس وقت اِس کے کُل شعر 14 تھے۔ بانگِ درا میں شائع کرتے وقت دو شعر خآرج کر دیے گئے۔ نقشِ اول میں چار بند تھے، نقشِ ثانی میں تین رہ گئے۔ یہ نظم شاعرانی مصوّری کا بہترین نمونہ ہے۔ اِس میں شام کے وقت دریائے راوی کا منظر خوبصورت انداز سے دِکھایا گیا ہے۔

(حوالہ: شرح بانگِ درا از پروفیسر حمید اللہ شاہ ہاشمی)


آپ کے کُتب خانہ کی تمام حیرت انگیز کتابی علم کی قدر راوی کے کنارے ایک پُرشکوہ غروبِ آفتاب کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔

(حوالہ: ”منتشر خیالاتِ اقبالؔ“ از علامہ محمد اقبال)
(مترجم: میاں ساجد علی)

YouTube video

نظم ”کنارِ راوی“ کی تشریح

سکُوتِ شام میں محوِ سرود ہے راوی
نہ پُوچھ مجھ سے جو ہے کیفیت مرے دل کی

حلِ لغات:

سکُوتِ شامشام کی خاموشی
محوِ سُرودگانے میں مگن
حلِ لغات (بانگِ درا 48: کنارِ راوی)

تشریح:

اِس نظم کا منظر نامہ دریائے راوی کا کنارہ ہے۔ اس مقام پر کھڑے ہوئے اقبال دریائے راوی کے پانی کے بہاؤ کے باعث پیدا ہونے والے شور کو اس کا نغمہ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ شام کو جب ہر طرف خاموشی چھا گئی ہے، دریائے راوی اپنے نغموں میں کھویا ہوا ہے۔

اس منظر کو دیکھ کر میرے دِل میں جس نوعیت کے جذبات اُمڈ آتے ہیں، اُن کو بیان کرنا آسان نہیں ہے۔


پیام سجدے کا یہ زیروبم ہُوا مجھ کو
جہاں تمام سوادِ حرم ہُوا مجھ کو

حلِ لغات:

سجدے کا پیاماللہ تعالی کے حضور جھُکنے کا اشارہ
زیر و بممُراد لہروں کا اٗبھرنا گِرنا، نیچا اونچا سُر
سوَادِ حرمحرمِ کعبہ کے گِرد و نواح
حلِ لغات (بانگِ درا 48: کنارِ راوی)

تشریح:

دریا کی روانی کو دیکھ کر میرے دِل میں خدا کی ہستی کا یقین پیدا ہوگیا ہے، اس لیے اس کے حضور سر جھکانے کو جی چاہتا ہے

اِس منظر کو دیکھ کر میں اس عالمِ جذب میں ہوں کہ ساری دنیا مجھے خانہ کعبہ اور گرد و پیش سے ہم آہنگ نظر آتی ہے (یعنی مجھے ساری دنیا میں خدا کی ہستی جلوہ گر نظر آنے لگی ہے)

زیر و بم: یہ موسیقی کی اصطلاح ہے۔ زیر نیچی آواز یا نیچے سُروں کو کہتے ہیں اور بم اونچے سُروں کو۔ لہروں کے زیر و بم سے مُراد اُن کا اوپر نیچے حرکت کرنا ہے۔


سرِ کنارۂ آبِ رواں کھڑا ہوں میں
خبر نہیں مجھے لیکن کہاں کھڑا ہوں میں

حلِ لغات:

سرِ کنارہکنارے پر
سرِ کنارۂ آبِ رواںبہتے ہوئے پانی کے کِنارے
حلِ لغات (بانگِ درا 48: کنارِ راوی)

تشریح:

اگرچہ میں اس وقت راوی کے بہتے ہوئے کنارے (دریا کے کنارے) کھڑا ہوں لیکن اس ذاتِ ایزدی (اللہ تعالی) کے جلوہ میں (جو اس منظر میں نمایاں ہے) اس قدر محو ہوچکا ہوں کہ مجھے یہ خبر نہیں کہ میں کہاں کھڑا ہوں۔


شرابِ سُرخ سے رنگیں ہوا ہے دامنِ شام
لیے ہے پیرِ فلک دستِ رعشہ دار میں جام

حلِ لغات:

شرابِ سُرخمراد شَفَق (طلوعِ آفتاب اور غروبِ آفتاب کے وقت آسمان پر پھیل جانے والی سُرخی)
پیرِ فلگبوڑھا آسمان، پُرانا آسمان
دستِ رعشہ دارکانپتے ہوئے ہاتھ
حلِ لغات (بانگِ درا 48: کنارِ راوی)

تشریح:

شام کے وقت زوال کے باعث سورج کی روشنی سُرخی مائل ہوجاتی ہے۔

اِسی بناء پر اقبال نے بوڑھے آسمان کو ساقی قرار دیتے ہوئے سورج کو ایسے پیالے سے تشبیہ دی ہے جو سُرخ شراب سے بھرا ہوا ہے اور یہ پیالہ اپنی منازلِ سر بہت تیزی سے طے کررہا ہے۔۔ چونکہ ساقی (پیرِ فلک، بوڑھا آسمان) کا ہاتھ مسلسل کانپ رہا ہے اور مسلسل لرزِش میں ہے۔ اسی وجہ سے پیالے (سورج) میں سے شراب گر گئی اور شام کا دامن رنگین ہوگیا۔


عَدم کو قافلۂ روز تیزگام چلا
شفَق نہیں ہے، یہ سورج کے پھُول ہیں گویا

حلِ لغات:

عدمفنا، موت، اگلا جہان
تیز گامتیز قدم چلنا
شَفَقطلوعِ آفتاب اور غروبِ آفتاب کے وقت آسمان پر پھیل جانے والی سُرخی
حلِ لغات (بانگِ درا 48: کنارِ راوی)

تشریح:

اِس وقت دن کا تیزی سے چلنے والا قافلہ عدم کی منزل کی طرف بڑھ رہا ہے یعنی دِن ختم ہورہا ہے اور سورج کے غروب ہونے کی وجہ سے آسمان پر شفق چھا گئی ہے۔ شفق کو دیکھ کر یوں معلوم ہوتا ہے جیسے یہ شفق نہ ہو بلکہ سورج کے پھول ہوں۔

سورج کے پھول: یہاں پر پھول سے مراد گُل نہیں بلکہ وہ راکھ ہے جو ہندوؤں میں مردہ جسم کو جلانے کے بعد حاصل ہوتی ہے اور جسے عموماً گنگا اور جمنا دریا میں بہایا جاتا ہے۔ مولانا غلام رسول مہر نے پھولی کی وضاحت یوں کی ہے کہ میت پر عموماً پھول چڑھائے جاتے ہیں اور شفق نے سورج کی میت پر چڑھانے کے لیے پھول تیار کیے ہیں۔

(حوالہ: شرح بانگِ درا از ڈاکٹر شفیق احمد)

بہرحال اس کا مطلب یہ ہے کہ سورج کا سفر اپنے اختتام کو پہنچا۔

شفق: طلوعِ آفتاب اور غروبِ آفتاب کے وقت آسمان پر جو سُرخی چھا جاتی ہے، اُسے شفق کہتے ہیں۔


کھڑے ہیں دُور وہ عظمت فزائے تنہائی
منارِ خواب گہِ شہسوارِ چغتائی

حلِ لغات:

عظمت فزائے تنہائیتنہائی کی عظمت بڑھانے والے
خواب گہمحل، آرام کرنے کی جگہ
شہسوَارِ چغتائیچغتائی نسل کا شہسوَار۔ مُراد ہے جہانگیر سے
حلِ لغات (بانگِ درا 48: کنارِ راوی)

تشریح:

اس کنارے سے دُور شہسوارِ چغتائی (جہانگیر) کی خواب گاہ کے، تنہائی کی عظمت میں اضافہ کرنے والے، مینار کھڑے ہیں۔


فسانۂ ستمِ انقلاب ہے یہ محل
کوئی زمانِ سلَف کی کتاب ہے یہ محل

حلِ لغات:

فسانۂ سِتمِ انقلابگردشِ زمانہ کے ظلم کی داستان
محلجگہ، مقام
زمانِ سَلَفگُزرا ہوا زمانہ، گُزشتہ دور
حلِ لغات (بانگِ درا 48: کنارِ راوی)

تشریح:

یہ جگہ (مقبرۂ جہانگیر) انقلاب کے ظلم و سِتم کی داستان ہے۔ یہ مقبرہِ جہانگیر دیکھا جائے تو انقلاباتِ زمانہ اور ان کے ظلم و ستم کا مظہر ہے۔۔ یہ دراصل مسلمانوں کی عظمتِ رفتہ کے نشانات ہیں۔۔ یہی نہیں بلکہ اسے گزرے ہوئے زمانے کی کتاب (تاریخ کی کتاب) قرار دیا جاسکتا ہے۔۔ گویا اس مقبرے پر نظر پڑتے ہی ماضی آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے۔


مقام کیا ہے، سرودِ خموش ہے گویا
شجر، یہ انجمنِ بے خروش ہے گویا

حلِ لغات:

سُرودِ خموشخاموش راگ
شَجَردرخت
انجمنِ بے خروشبے شور مجلس / محفل
حلِ لغات (بانگِ درا 48: کنارِ راوی)

تشریح:

یہ محل و مقام (مقبرۂ جہانگیر) درحقیقت ایک خاموش نغمے کی حیثیت رکھتا ہے اور یہاں  پر کھڑے درخت ایسی محفل کی حیثیت رکھتے ہیں جو ہنگامے سے خالی ہو۔


رواں ہے سینۂ دریا پہ اک سفینۂ تیز
ہُوا ہے موج سے ملاّح جس کا گرمِ ستیز

حلِ لغات:

رَوَاںجاری، بہہ رہا
سینۂ دریادریا کی سطح
موجلہر
ملاحکشتی چلانے والا
گرمِ ستیزمصروفِ جنگ، لڑائی کر رہا ہے
حلِ لغات (بانگِ درا 48: کنارِ راوی)

تشریح:

ایسے میں اقبالؔ دریا میں ایک کشتی کو دیکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ دریا کے درمیان ایک کشتی نہایت تیزی سے سفر کررہی ہے۔۔ اس کشتی کا ملاح اپنی کشتی کو لہروں اور موجوں سے بچاتا ہوا منزلِ مقصود تک لے جانے کی کوشش کررہا ہے۔


سبک روی میں ہے مثلِ نگاہ یہ کشتی
نِکل کے حلقہ حدّ نظر سے دُور گئی

حلِ لغات:

سُبُک رَویتیز چلنا، تیز رَوی
حلقہدائرہ
حدِ نظرنظر کی اخیر
حلِ لغات (بانگِ درا 48: کنارِ راوی)

تشریح:

یہ کشتی انسانی نگاہ کی رفتار سے اپنا سفر طے کررہی ہے یعنی بہت تیز ہے۔ اسی لیے بہت جلد میری نگاہوں سے اوجھل ہوگئی اور اب نظر نہیں آتی۔


جہازِ زندگیِ آدمی رواں ہے یونہی
ابَد کے بحر میں پیدا یونہی، نہاں ہے یونہی

حلِ لغات:

جہازِ زندگیِ آدمیانسان کی زندگی کا جہاز
ابدہمیشگی، زمانہ
بحرسمندر
پیداظاہر
نہاںپوشیدہ
حلِ لغات (بانگِ درا 48: کنارِ راوی)

تشریح:

یہ منظر دیکھ کر اقبالؔ کا ذہن انسانی زندگی کی طرف پلٹتا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ انسانی زندگی کی بھی یہی صورت ہے اور حیات بھی اسی  طرح اپنا سفر طے کررہی ہے۔

اس کائنات میں زندگی اس کشتی کی مانند ظاہر ہوتی اور چھُپ جاتی ہے۔ مراد یہ ہے کہ جس طرح کشتی کے نظروں سے اوجھل ہوجانے سے کشتی کی فنا لازم نہیں آتی، اسی طرح انسان کا ہماری نظروں سے اوجھل ہوجانا اس کے فنا ہوجانے کی دلیل نہیں ہے۔

؎ جوہرِ انساں عدم سے آشنا ہوتا نہیں
آنکھ سے غائب تو ہوتا ہے، فنا ہوتا نہیں
(حوالہ: بانگِ درا: والدہ مرحومہ کی یاد میں)


شکست سے یہ کبھی آشنا نہیں ہوتا
نظر سے چھُپتا ہے لیکن فنا نہیں ہوتا

حلِ لغات:

شِکستٹوٹنا، ٹوٹ پھوٹ
آشناواقف
حلِ لغات (بانگِ درا 48: کنارِ راوی)

تشریح:

اِس امر کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انسانی زندگی کبھی ٹوٹ پھوٹ سے دوچار نہیں ہوتی، یہ نظر سے چھپ بھی جائے تو اسے انسانی زندگی کا خاتمہ نہیں سمجھنا چاہیے-

؎ مرنے والے مرتے ہیں لیکن فنا ہوتے نہیں
یہ حقیقت میں کبھی ہم سے جدا ہوتے نہیں

؎ زندگی کی آگ کا انجام خاکستر نہیں
ٹوٹنا جس کا مقدر ہو یہ وہ  گوہر نہیں

(حوالہ: بانگِ درا: والدہ مرحومہ کی یاد میں)

حوالہ جات

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments