نظم ”ہندوستانی بچوں کا قومی گیت“ از علامہ اقبال
فہرست
تعارف
علامہ اقبال یہ نظم فروری 1905ءکے مخزن میں ایک ہندوستانی لڑکے کا گیت کے عنوان سے شائع ہوئی۔ پھر نظرِ ثانی میں علامہ اقبال نے کُچھ ترامیم کیں اور ایک مکمل بند حذف کر دیا۔ بانگِ درا میں ہندوستانی بچوں کا قومی گیت کے نام سے رقم ہوئی۔
اِس نظم کا شمار بھی ترانۂ ہندی کی طرح علامہ اقبال کی فکر کے دورِ اوّل میں ہوتا ہے۔ جس میں آپؒ نے وطن پرستی پر مبنی شاعری فرمائی۔ اِس نظم میں بھی آپؒ نے ہندوستان کی تعریفی شاعری کی ہے اور تقریباً ہر شعر میں تلمیح کے استعمال سے اس سرزمین کی عظمت کو اُجاگر کیا ہے۔
نظم کی لسانیّات
علامہ اقبال کی اِس نظم کا شمار ترجیح بند نظموں میں ہوتا ہے۔ ترجیح بند ایسی نظم کو کہا جاتا ہے جس میں ایک ہی ٹیپ کا مصرع، ہر کُچھ اشعار کے بعد دہرایا جائے۔ یہاں ہر بند کے آخر میں میرا وطن وہی ہے، میرا وطن وہی ہے کی تکرار ہے۔
ترجیح بند ہیئت میں لکھی نظم اور ہر بند کے تمام اشعار کا ہم قافیہ و ہم ردیف ہونا، نظم کو وہ نغمگیّت عطا کرتا ہے جو ترانے کے لیے درکار ہے۔
نظم ”ہندوستانی بچوں کا قومی گیت“ مع تشریح و تبصرہ
بند نمبر 1
چشتیؒ نے جس زمیں میں پیغامِ حق سُنایا
نانک نے جس چمن میں وحدت کا گیت گایا
تاتاریوں نے جس کو اپنا وطن بنایا
جس نے حجازیوں سے دشتِ عرب چھُڑایا
میرا وطن وہی ہے، میرا وطن وہی ہے
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
چشتیؒ | حضرت خواجہ معین الدین چشتی، برِّ صغیر کے مشہور صوفی، مزار مبارک بھارت کے شہر اجمیر میں ہے۔ |
پیغامِ حق | خدا کا پیغام |
نانک | سِکھ مذہب کے بانی بابا گرو نانک، جنہوں نے سرزمینِ ہند میں توحید کا درس دیا۔ |
چمن | مراد مُلک |
وحدت | توحیدِ اِلہی |
تاتاری | ترکستان کے باشندے |
حجازی | حجاز کے رہنے والے، مراد اہلِ عرب |
دشتِ عرب | عرب کا ریگستان / صحرا |
تشریح:
وطن کی تعریف میں علامہ اقبال سب سے پہلے اس میں موجود دانشوروں کے ذکر سے شروع کرتے ہیں۔ اس کی عظمت کا باعث وہی دانِشور (Intellectual) افراد ہیں جو دنیا کے مختلف خِطّوں کو چھوڑ کر اِس وطن میں آ گئے۔
تبصرہ:
پہلے مصرعے میں خواجہ معین الدین چشتی کی طرف اشارہ ہے، جو خراسان سے ہند کے خطے میں آئے اور اس کو اپنا وطن بنایا۔ یہاں توحید کا پیغام پھیلایا اور اپنی خدمات کی وجہ سے غریب نواز کا لقب پایا۔
جہاں ایک مسلم دانشور و صوفی کا ذکر کیا، وہیں اِس دیس میں بسنے والے اور مذاہب سے وابستہ دانشمند جیسا کہ گرو نانک کو بھی سراہا۔ شعر میں اُن کی تعلیمات کا بطورِ خاص ذکر کیا، جنہوں نے پنجاب کی سرزمین کو وحدت کی تعلیم سے از سرِ نو روشناس کرایا اور اس خطّے میں موجود سماجی مسائل جیسا کہ طبقاتی نظام کو توڑا۔
تاتار ترک نسل کے لوگوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اس سے مراد وہ تمام ترک حکمران ہیں، چاہے وہ تیموری ہوں یا مغل بادشاہ جنہوں نے (انگریزوں کے بر عکس) ہندوستان کی تہذیب و تمدّن کو اپنایا اور اس کو مزید ترقّی دی۔
حجازیوں سے عرب فاتحین جیسا کہ محمد بن قاسم مراد ہیں، جو سب سے پہلے سندھ میں آئے اور پھر یہیں کے ہو کر رہ گئے۔
بند کے پہلے چاروں مصرعوں میں صنعتِ تلمیح کا استعمال ہے۔ پہلے شعر میں ہند کی دو اہم شخصیات کی طرف اشارہ ہے جبکہ دوسرے شعر میں دو قوموں کی طرف۔
یہ، میرا وطن وہ ہے کہ جو تمام دُنیا کے لوگوں کا مرکز بنا رہا۔
بند نمبر 2
یُونانیوں کو جس نے حیران کر دیا تھا
سارے جہاں کو جس نے علم و ہُنر دیا تھا
مٹّی کو جس کی حق نے زر کا اثر دیا تھا
تُرکوں کا جس نے دامن ہیروں سے بھر دیا تھا
میرا وطن وہی ہے، میرا وطن وہی ہے
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
یونانی | یونان کے فلسفی |
یونان | یورپ کا ایک مُلک |
علم و ہُنر | مختلف اقسام کے علوم و فنون |
حق | اللہ تعالیٰ |
زر | سونا |
دامن ہیروں سے بھرنا | مال و دولت سے مالا مال کر دینا |
دامن | جھولی |
تشریح:
اس وطن کی مٹّی کی زرخیزی کا اندازہ اِس میں پیدا ہونے والے علم و فلسفے، زرعات اور معدنیات سے ہوتا ہے۔
تبصرہ:
ہندو فلسفہ، علم اور ہُنر قدیم دور سے اس سطح پر رہا ہے کہ اس نے یونانی (جو کہ علم اور فلسفے کا استعارہ مانے جاتے ہیں) تک کو حیران کر دیا تھا۔ قدیم ہندوستانی تہذیبوں، جیسا کہ وادیِ سندھ کی تہذیب کا صرف نقّاسی کا نظام ہی دورِ حاضر کے لیے حیرت کا باعث ہے۔ اس کے ریاضی دانوں کی ایجادات سے پوری دنیا مستفید ہوئی۔
اِس خطّے کے زرعات کا ذکر ہو تو اس کی مٹی میں ایسا اثر ہے کہ دُنیا کی ہر فصل، پورا سال اِس میں اُگائی جا سکتی ہے اور اس کے معدنیات کے خزانوں نے اس کے ترک حکمرانوں کے حکومتی خزانے بھر دیے تھے۔ یہ وہی خزانے تھے جسکی بدولت مغل تختِ طاؤس پر شان سے بیٹھے، کوہِ نور کا ہیرا اُن کے تاج میں جڑا گیا اور وہ تاج محل جیسی عمارات بنانے میں کامیاب ہوئے۔
بند نمبر 3
ٹُوٹے تھے جو ستارے فارس کے آسماں سے
پھر تاب دے کے جس نے چمکائے کہکشاں سے
وحدت کی لَے سُنی تھی دنیا نے جس مکاں سے
میرِ عربؐ کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے
میرا وطن وہی ہے، میرا وطن وہی ہے
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
فارس | ایران کا قدیم نام |
جو ستارے ٹوٹے | جن اہلِ علم نے وہاں سے ہجرت کی |
تاب دینا | چمکا دینا، پالِش کرنا |
کہکشاں | سِتاروں کا جھُرمٹ |
وحدت | توحیدِ اِلہی |
لَے | سُر، راگ، گیت |
مکاں | مراد مُلک |
میرِ عرب | عرب کا سردار، مراد حضور اکرم ﷺ کی ذاتِ مبارک |
تشریح:
وہ ستارے، یعنی امراء، علماء، شعراء اور صوفیاء جو فارس (Persia) چھوڑ کر ہندوستان میں آ بسے، اُن کو اس سر زمین نے ایسی چمک (تاب) دی کہ وہ کہکشاں کے ستاروں کی طرح چمکنے لگے۔
تبصرہ:
وحدت کی لے سے مراد شری کرشن کی تبلیغ و تعلیمات ہیں۔
ہند سے میرِ عرب ﷺ کو ٹھنڈی ہوا آنے سے اس حدیث کی طرف اشارہ ہے۔
”طيب ريح في الأرض الهند، أهبط بها آدم عليه الصلاة والسلام فعلق شجرها من ريح الجنة“
ترجمہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: ”سب سے بہترین ہوا سرزمین ہندوستان میں ہے، سیّدنا آدم وہیں پر اُتارے گئے، اور آپ نے وہاں جنت کا خوشبودار پودا لگایا۔“ (5)
[التعليق – من تلخيص الذهبي] 3995 –
بند نمبر 4
بندے کلیم جس کے، پربت جہاں کے سِینا
نوحِؑ نبی کا آ کر ٹھہرا جہاں سفینا
رفعت ہے جس زمیں کی بام فلک کا زینا
جنّت کی زندگی ہے جس کی فضا میں جینا
میرا وطن وہی ہے، میرا وطن وہی ہے
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
کلیم | حضرت موسیٰؑ کا لقب۔ کلیم اللہ سے مرا دہے خدا سے کلام کرنے والا۔ حضرت موسیٰؑ نے چونکہ کوہِ طُور پر اللہ تعالیٰ سے کلام فرمایا تھا، اس لیے آپؑ کو کلیم اللہ کہتے ہیں۔ |
پربت | پہاڑ |
سینا | وہ پہاڑ جہاں حضرت موسیٰؑ نے خدا تعالی سے کلام کیا۔ کوہِ طُور (Mount Sinai) |
نوحِ نبی | حضرت نوح علیہ السلام |
سفینا | کشتی |
رِفعَت | بلندی |
بامِ فلک | آسمان کی چوٹی / چھت |
زینا | سیڑھی |
فضا | ماحول |
تبصرہ:
جس کے بندوں کی خصوصیات موسیٰ عَلَيْهِ ٱلسَّلَام جیسی ہیں۔ حضرت موسیٰؑ کے کلیم اللہ ہونے کی خصوصیت مقصود ہے اور اس سے اشارہ یہاں کے لوگوں کا عرفانِ الہی ہے جو قدیم زمانے سے اس کی روایت رہی۔ اس ملک کے پربت و پہاڑ طُورِ سینا (Mount Sinai) کی طرح ہیں کیونکہ اس پر خدا کا جلوہ نمایاں ہے۔
ان پہاڑوں پر نبی نوح عَلَيْهِ ٱلسَّلَامُ کا سفینہ آنا ایک قدیم روایت کی طرف اشارہ ہے، جو پہلے سچ مانی جاتی تھی اور ہندوستانیوں کے لیے فخر کا باعث تھی، مگر جدید تحقیق سے یہ بات غلط ثابت ہوئی۔
اِس مُلک میں بسنے والے دانشوروں، اس کا علم و فلسفہ، سونا اُگلنے والی اس کی زمین اور اس کی قدیم میراث نے اس کی عظمت کو اتنا بڑھا دیا ہے کہ یہ آسمان کی چھت تک پہنچنے کی سیڑھی یا بامِ فلک کا زینہ بن گیا ہے اور ایسے وطن کی فضا میں جینا گویا جنت میں زندگی گزارنا ہے۔
یہ وہ ہندوستان کی عظمت و بلندی کا گیت تھا جس میں ہر اُس شے کا ذکر ہے جس پر ہر ہندوستانی بچے کو فخر ہونا چاہیے۔ مگر جلد ہی اقبالؔ کی فکر میں وہ ارتقاء آیا کہ جس میں یہ وطنی جذبہ یک دم عالمگیریّت اختیار کر گیا، یعنی محض ایک خطّہِ زمین ہی عظمت کا استعارہ نہیں بلکہ:-
؏ مسلم ہیں ہم، وطن ہے سارا جہاں ہمارا
(حوالہ: بانگِ درا: ترانۂ مِلّی)
حوالہ جات
- [۱] شرح بانگِ درا از پروفیسر یوسف سلیم چشتی، صفحہ: ۱۳۷،۱۳۸
- [۲] شرح بانگِ درا از ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی، صفحہ: ۱۴۱-۱۴۳
- [۳] مطالبِ بانگِ درا از مولانا غلام رسول مہر، صفحہ:۹۴،۹۵
- [۴] آوازِ اقبال، از: نریش کمار شاد، صفحہ: ۱۱۰،۱۱۱
- [۵] شرح بانگِ درا از ڈاکٹر شفیق احمد، صفحہ: ۱۰۶-۱۰۷