”سرگزشتِ آدم“ از علامہ اقبال
فہرست
تعارف
نظم ”سرگزشتِ آدم“ علامہ اقبال کی جدتِ فکر کی ایک بڑی عمدہ مثال ہے۔ اس قسم کی نظموں کے لیے تین باتیں شرط ہیں:-
- پہلی یہ کہ شاعری کا علمی پایہ بہت بلند ہو۔
- دوسری یہ کہ طبیعت میں جِدّت طرازی کا مادہ ہو۔
- تیسری یہ کہ کلام پر قدرت حاصل ہو۔
اِس نظم میں جیسا کہ اس کے عنوان ہی سے ظاہر ہے، اقبالؔ نے آدم کی سرگذشت از ابتدا تا ایندم بڑے دِلکش پیرایہ میں بیان کی ہے۔
(حوالہ: شرح بانگِ درا از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)
یہ نظم ”مخزن“ 1904ء میں غزل کے طور پر شائع ہوئی تھی۔ بانگِ درا میں اِس کے چند اشعار حذف کر کے ایک مربوط نظم کے طور پر پیش کر دیا گیا۔ بِالخصوص ابتدائی دو اور آخری پانچ اشعار جو نظم کے تسلسل میں حائل تھے، خارج کر دیے گئے۔
”سرگزشتِ آدم“ علامہ اقبال کی جِدّتِ طبع اور نُدرتِ افکار کا عُمدہ نمونہ ہے۔ چند اشعار میں اِنسان کی اِبتدائے آفرینش سے اِس وقت تک کی پوری داستان قلمبند کر دی ہے۔ اِس کے ہر قسم کے عملی و عقلی، مذہبی و روحانی رحجانات کو تلمیحات کے ذریعے بیان کیا گیا ہے۔ گویا دریا کو کوزے میں بند کر دیا ہے۔ ہر شاعر اِس طرح کی نظمیں نہیں لِکھ سکتا۔
(حوالہ: شرح بانگِ درا از پروفیسر حمید اللہ شاہ ہاشمی)
نظم ”سرگزشتِ آدم“ کی تشریح
سُنے کوئی مِری غربت کی داستاں مجھ سے
بھُلایا قصّۂ پیمانِ اوّلیں میں نے
کاش کوئی میری (انسان) کی مسافرت اور اپنے حقیقی وطن سے دُوری (غربت) کی کہانی سُنے۔ میں نے ازل کے دِن خدا کے رب ہونے کا جو عہد (پیمانِ اولین) باندھا تھا، اُسے بالکل بھلا دیا۔ پیمانِ اولیں سے اشارہ ہے اس عہد کی طرف جو انسان نے اس دنیا میں آنے سے قبل عالمِ ارواح میں اللہ سے باندھا یعنی جب اللہ تعالی نے بنی آدم کی ارواح کو پیدا کیا تو ان سے دریافت کیا کہ:-
”اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ“
کیا میں تمھارا رب نہیں ہوں؟
تو انہوں نے یک زبان ہو کر:-
”قَالُوْا بَلٰى“
یعنی بے شک تُو ہمارا رب ہے، کہا۔ مطلب یہ کہ انسان نے دنیا میں آکر اس عہد کو بھلا دیا اور بنی آدم کی اکثریت شرک میں مبتلا ہو گئی۔ حالانکہ اللہ تعالی نے سے اس نے وعدہ کیا تھا کہ ہم تیرے سوا کسی کو اپنا معبود نہیں بنائیں گے۔
وَاِذْ اَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَنِىٓ اٰدَمَ مِنْ ظُهُوْرِهِـمْ ذُرِّيَّتَـهُـمْ وَاَشْهَدَهُـمْ عَلٰٓى اَنْفُسِهِـمْۚ اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ ۖ قَالُوْا بَلٰىۚ شَهِدْنَاۚ اَنْ تَقُوْلُوْا يَوْمَ الْقِيَامَةِ اِنَّا كُنَّا عَنْ هٰذَا غَافِلِيْنَ
اور اے نبی لوگوں کو یاد دلاؤ وہ وقت جب کہ تمہارے رب نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی نسل کو نکالا تھا اور انہیں خود ان کے اوپر گواہ بناتے ہوئے پوچھا تھا ”کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟“ انہوں نے کہا ”ضرور آپ ہی ہمارے رب ہیں، ہم اس پر گواہی دیتے ہیں۔“ یہ ہم نے اس لیے کیا کہ کہیں تم قیامت کے روز یہ نہ کہہ دو کہ ”ہم تو اس بات سے بے خبر تھے ۔“
(حوالہ: القرآن: سورۃ اعراف: 172)
لگی نہ میری طبیعت ریاضِ جنّت میں
پیا شعُور کا جب جامِ آتشیں میں نے
میری طبیعت جنت کے باغ (ریاضِ جنت) میں نہ لگی اور میں نے آگاہی / شعور کی تند و تیز شراب (جامِ آتشیں) کا پیالہ پی لیا۔ یعنی جب میری عقل و دانش نے مجھے میری حقیقی اہمیت سے آگاہ کیا تو عجیب کیفیت رونما ہوئی اور میرا دِل جنت کے باغ سے اُکتا گیا۔ اس سے حضرت آدمؑ اور حضرت حواؑ کے قصے کی طرف اشارہ ہے۔ جب انسان میں ذاتی شعور پیدا ہوا تو جنّت کی زندگی سے طبیعت اچاٹ ہو گئی اور اُس نے جنت کی زندگی کو خیر باد کہہ دیا۔ اس لیے کہ اس میں سکون ہی سکون تھا اور اس دنیا میں جد و جہد کی زندگی کا آغاز ہوا۔
رہی حقیقتِ عالم کی جُستجو مجھ کو
دِکھایا اوجِ خیالِ فلک نشیں میں نے
زمین پر اُتر کر میں نے اسے اپنا مستقل مقام بنا لیا اور یہاں مجھے کائنات کی حقیقت کو جاننے کی جستجو رہی۔ اس بات کا بے حد شوق رہا کہ میں یہ جانوں کہ اس کائنات کے اسرار و رموز کیا ہیں۔ (یہ شوق قدرت نے انسان کی فطرت میں رکھ دیا، اس لیے دنیا میں آکر انسان کے اندر ذاتی شعور کی بناء پر تحقیق و تلاش کا جذبہ پیدا ہو گیا) اور یوں میرے آسمان تک پہنچنے والے بلند تخیّل نے اپنی بلند پروازی کا مظاہرہ کیا۔
مِلا مزاج تغیّر پسند کچھ ایسا
کِیا قرار نہ زیرِ فلک کہیں میں نے
مجھے ایسا مزاج ملا جو برابر بدلتا رہتا تھا یعنی اسے تبدیلیاں ہی پسند تھیں، میری طبیعت کسی بھی حالت پر قناعت نہیں کرتی تھی، اِسی وجہ سے جنت میں بھی میرا دِل نہ لگا۔ لہذا دنیا میں بھی میں نے ایک جگہ رہنا پسند نہ کیا اور اِس سفر میں مختلف مراحل سے دوچار ہوا۔
چونکہ انسان فطری طور پر تبدیلی اور انقلاب کا آرزو مند ہے اس لیے ایک حالت میں زندگی بسر کرنا اسے پسند نہ آیا یعنی انسان پر انقلابات آنے شروع ہو گئے، میں نے کہیں بھی سکون نہ پایا اور بے قراری کی حالت میں رد و بدل کا سلسلہ شروع کر دیا۔ (تفصیل آئندہ اشعار میں)
نکالا کعبے سے پتھّر کی مورتوں کو کبھی
کبھی بُتوں کو بنایا حرم نشیں میں نے
مثلاً کبھی میں نے حضرت ابراہیمؑ کی صورت میں جلوہ گر ہو کر کعبے کو بُتوں سے پاک کیا اور کبھی آزر (بت پرست) بن کر عبادت گاہوں میں بُت پہنچا دیے۔
(تارح یا آزر کے متعلق بعض علما نے فرمایا کہ یہ ابراہیم علیہ السلام کے والد کا نام تھا، بعض نے فرمایا کہ والد نہیں چچا کا نام تھا، والد کا نام تارخ تھا جو مسلمان تھے اور بعض نے فرمایا کہ آزر بُت کا نام تھا، ویکی پیڈیا)
وَتَاللّهِ لَاَكِيْدَنَّ اَصْنَامَكُمْ بَعْدَ اَنْ تُـوَلُّوْا مُدْبِـرِيْنَ (57) فَجَعَلَـهُـمْ جُذَاذًا اِلَّا كَبِيْـرًا لَّـهُـمْ لَعَلَّهُـمْ اِلَيْهِ يَرْجِعُوْنَ (58) قَالُوْا مَنْ فَعَلَ هٰذَا بِاٰلِـهَتِنَـآ اِنَّهٝ لَمِنَ الظَّالِمِيْنَ (59) قَالُوْا سَـمِعْنَا فَـتًى يَّذْكُرُهُـمْ يُقَالُ لَـهٝٓ اِبْـرَاهِيْـمُ (60) قَالُوْا فَاْتُـوْا بِهٖ عَلٰٓى اَعْيُنِ النَّاسِ لَعَلَّـهُـمْ يَشْهَدُوْنَ (61) قَالُـوٓا ءَاَنْتَ فَعَلْتَ هٰذَا بِاٰلِـهَتِنَا يَآ اِبْـرَاهِيْـمُ (62) قَالَ بَلْ فَعَلَـهٝ كَبِيْـرُهُـمْ هٰذَا فَاسْاَلُوْهُـمْ اِنْ كَانُـوْا يَنْطِقُوْنَ (63) فَرَجَعُـوٓا اِلٰٓى اَنْفُسِهِـمْ فَقَالُـوٓا اِنَّكُمْ اَنْتُـمُ الظَّالِمُوْنَ (64) ثُـمَّ نُكِسُوْا عَلٰى رُءُوْسِهِـمْ لَقَدْ عَلِمْتَ مَا هٰٓؤُلَآءِ يَنْطِقُوْنَ (65)
(ابراہیمؑ نے کہا) اور خدا کی قسم جب تم پیٹھ پھیر کر چلے جاؤ گے تو میں تمہارے بتوں سے ایک چال چلوں گا۔ پھر ان (بتوں) کو توڑ کر ریزہ ریزہ کردیا مگر ایک بڑے (بت) کو (نہ توڑا) تاکہ وہ اس کی طرف رجوع کریں۔ (انہوں نے آکر بتوں کا یہ حال دیکھا تو) کہنے لگے ” ہمارے خدائوں کا یہ حال کس نے کردیا ؟ وہ بڑا ہی کوئی ظالم تھا وہ “۔ لوگوں نے کہا کہ ہم نے ایک جوان کو ان کا ذکر کرتے ہوئے سنا ہے اس کو ابراہیم کہتے ہیں۔ وہ بولے کہ اسے لوگوں کے سامنے لاؤ تاکہ گواہ رہیں۔ (جب ابراہیم آئے تو) بت پرستوں نے کہا کہ ابراہیم بھلا یہ کام ہمارے معبودوں کے ساتھ تم نے کیا ہے؟۔ (ابراہیم نے) کہا (نہیں) بلکہ یہ ان کے اس بڑے (بت) نے کیا (ہوگا)۔ اگر یہ بولتے ہیں تو ان سے پوچھ لو۔ انہوں نے اپنے دل غور کیا تو آپس میں کہنے لگے بےشک تم ہی بےانصاف ہو۔ پھر (شرمندہ ہو کر) سر نیچا کرلیا (اس پر بھی ابراہیم سے کہنے لگے کہ) تم جانتے ہو یہ بولتے نہیں۔
(حوالہ: القرآن: سورۃ الانبیاء: آیت 57 تا 62)
کبھی میں ذوقِ تکلّم میں طور پر پہنچا
چھُپایا نورِ ازل زیرِ آستیں میں نے
کبھی میں اللہ تعالی سے گفتگو کرنے کے شوق میں کوہِ طُور پر جا پہنچا اور کلیم اللہ کا لقب پایا، کبھی میں نے آستین میں اللہ تعالی کے نور کو چھپایا۔ یہ دونوں اشارے حضرت موسیؑ کی طرف ہیں۔
وَهَلْ اَتَاكَ حَدِيْثُ مُوْسٰى (9) اِذْ رَاٰ نَارًا فَقَالَ لِاَهْلِـهِ امْكُـثُـوٓا اِنِّـىٓ اٰنَسْتُ نَارًا لَّعَلِّـىٓ اٰتِيْكُمْ مِّنْـهَا بِقَبَسٍ اَوْ اَجِدُ عَلَى النَّارِ هُدًى (10) فَلَمَّآ اَتَاهَا نُـوْدِىَ يَا مُوْسٰى (11) اِنِّـىٓ اَنَا رَبُّكَ فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ ۖ اِنَّكَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى (12)
اور کیا تجھے موسٰی کی بات پہنچی ہے۔ جب اس نے آگ دیکھی تو اپنے گھر والوں سے کہا کہ ٹھہرو میں نے آگ دیکھی ہے شاید کہ میں اس سے تمہارے پاس کوئی چنگاری لاؤں یا وہاں کوئی رہبر پاؤں۔ پھر جب وہ اس کے پاس آئے تو آواز آئی کہ اے موسٰی۔ میں تمہارا رب ہوں سو تم اپنی جوتیاں اتار دو، بے شک تم پاک وادی طوٰی میں ہو۔
(حوالہ: القرآن: سورۃ طہ: آیت نمبر 9 تا 12)
آگے ارشاد ہوا ہے:-
وَمَا تِلْكَ بِـيَمِيْنِكَ يَا مُوْسٰى (17) قَالَ هِىَ عَصَاىَۚ اَتَوَكَّؤُا عَلَيْـهَا وَاَهُشُّ بِـهَا عَلٰى غَنَمِىْ وَلِىَ فِيْـهَا مَاٰرِبُ اُخْرٰى (18) قَالَ اَلْقِهَا يَا مُوْسٰى (19) فَاَلْقَاهَا فَاِذَا هِىَ حَيَّةٌ تَسْعٰى (20) قَالَ خُذْهَا وَلَا تَخَفْ ۖ سَنُعِيْدُهَا سِيْـرَتَـهَا الْاُوْلٰى (21) وَاضْمُمْ يَدَكَ اِلٰى جَنَاحِكَ تَخْرُجْ بَيْضَآءَ مِنْ غَيْـرِ سُوٓءٍ اٰيَةً اُخْرٰى (22) لِنُرِيَكَ مِنْ اٰيَاتِنَا الْكُبْـرٰى (23) اِذْهَبْ اِلٰى فِرْعَوْنَ اِنَّهٝ طَغٰى (24)
اور اے موسٰی تیرے دائیں ہاتھ میں کیا ہے۔ کہا یہ میری لاٹھی ہے، اس پر ٹیک لگاتا ہوں اور اس سے اپنی بکریوں پر پتے جھاڑتا ہوں اور اس میں میرے لیے اور بھی فائدے ہیں۔ فرمایا اے موسٰی اسے ڈال دو۔ پھر اسے ڈال دیا تو اسی وقت وہ دوڑتا ہوا سانپ ہوگیا۔ فرمایا اسے پکڑ لے اور نہ ڈر، ہم ابھی اسے پہلی حالت پر پھیر دیں گے۔ اور اپنا ہاتھ اپنی بغل سے ملا دے بلا عیب سفید ہو کر نکلے گا یہ دوسری نشانی ہے۔ تاکہ ہم تجھے اپنی بڑی نشانیوں میں سے بعض دکھائیں۔ فرعون کے پاس جا بے شک وہ سرکش ہو گیا ہے۔
(حوالہ: القرآن: سورۃ طہ: آیت نمبر 17 تا 24)
کبھی صلیب پہ اپنوں نے مجھ کو لٹکایا
کِیا فلک کو سفر، چھوڑ کر زمیں میں نے
کبھی مجھے میرے اپنے عزیز و اقرباء یعنی انسانوں نے سُولی پر لٹکا دیا، اور مجھے زمین چھوڑ کر آسمان پر مقیم ہونا پڑا۔ اس شعر میں حضرت عیسیؑ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، یعنی یہودیوں نے تو انہیں اپنی دانست میں مصلوب کر دیا، لیکن اللہ تعالی نے انہیں اپنی طرف اُٹھا لیا۔
وَقَوْلِـهِـمْ اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيْحَ عِيْسَى ابْنَ مَرْيَـمَ رَسُوْلَ اللّـٰهِ وَمَا قَتَلُوْهُ وَمَا صَلَبُوْهُ وَلٰكِنْ شُبِّهَ لَـهُـمْ ۚ وَاِنَّ الَّـذِيْنَ اخْتَلَفُوْا فِيْهِ لَفِىْ شَكٍّ مِّنْهُ ۚ مَا لَـهُـمْ بِهٖ مِنْ عِلْمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ ۚ وَمَا قَتَلُوْهُ يَقِيْنًا (157) بَلْ رَّفَـعَهُ اللّـٰهُ اِلَيْهِ ۚ وَكَانَ اللّـٰهُ عَزِيْزًا حَكِـيْمًا (158)
اور بسبب ان کے یہ کہنے کے کہ ہم نے قتل کیا مسیح عیسیٰ ابن مریم کو اللہ کے رسول کو ! حالانکہ نہ تو انہوں نے اسے قتل کیا اور نہ ہی اسے سولی دی بلکہ اس کی شبیہہ بنا دی گئی ان کے لیے اور جو لوگ اس کے بارے میں اختلاف میں پڑے ہوئے ہیں وہ یقیناً شکوک و شبہات میں ہیں ان کے پاس اس ضمن میں کوئی علم نہیں ہے سوائے اس کے کہ گمان کی پیروی کر رہے ہیں اور یہ بات یقینی ہے کہ انہوں نے اسے قتل نہیں کیا۔ بلکہ اللہ نے اسے اٹھا لیا اپنی طرف اور اللہ تعالیٰ زبردست ہے کمال حکمت والا۔
(حوالہ: القرآن: سورۃ النساء: آیت نمبر 157 تا 158)
کبھی میں غارِ حرا میں چھُپا رہا برسوں
دیا جہاں کو کبھی جامِ آخریں میں نے
کبھی میں طویل مدت دنیا اور اہلِ دنیا سے قطع تعلق کر کے غارِ حرا میں مصروفِ عبادت رہا اور وہاں سے جب باہر نکلا تو لوگوں کے لیے ایسا دین لایا جو زمین پر بسنے والوں کے لیے خدا کی طرف سے آخری دین کی حیثیت رکھتا ہے۔
اِس شعر میں آپ ﷺ کی طرف اشارہ ہے اور جامِ آخریں سے آپ ﷺ پر نبوت کے سلسلے کے خاتمے کا ذکر کیا گیا ہے۔
سُنایا ہند میں آ کر سرودِ ربّانی
پسند کی کبھی یُوناں کی سر زمیں میں نے
کبھی میں نے ہندوستان میں آ کر سرودِ ربانی (خدا کا گیت) سنایا۔ اس شعر کے پہلے مصرع میں بظاہر اشارہ سری کرشن کی طرف ہے جو ہندوؤں کے نزدیک بہت بڑے اوتار تھے اور بانسری بجانا اُن سے منسوب ہے۔
(سرودِ ربانی: کرشن جی کی بانسری کا نغمہ، یعنی کرشن نے ہند میں نغمۂ توحید سنایا، توحید کا پیغام سنایا)
اور کبھی میں نے یونان کی سر زمین کو پسند کیا۔ حکیم افلاطون یونانی کے پیغامِ توحید کی طرف اشارہ ہے۔ حکیم افلاطون کو ہمارے صوفیہ عارفوں میں شمار کرتے ہیں۔ اقبالؔ نے اسرارِ خودی میں افلاطون (Plato) کو ”راہبِ اول“ قرار دیا اور ”گوسفندانِ قدیم“ میں سے بتایا۔
؎ راہبِ اول فلاطونِ حکیم
از گروہِ گوسفندانِ قدیم
حکیم افلاطون جو ایک قدیم زمانے کا راہب تھا؛ وہ اپنے عہد کے گوسفندوں کے گروہ میں سے تھا۔
(حوالہ: اسرارِ خودی: درمعنی اینکہ افلاطون یونانی کہ تصوف و ادبیات اقوامِ اسلامیہ از افکار و اثر عظیم پذیر رفتہ بر مسلکِ گوسفندی رفتہ است و از تخیلات او احتراز واجب است)
دیارِ ہند نے جس دم مری صدا نہ سُنی
بسایا خطّۂ جاپان و مُلکِ چیں میں نے
جب ہندوستان کے باسیوں نے میرے پیغام پر توجہ نہ دی تو میں جاپان و چین کے ممالک کی طرف ہجرت کر گیا۔ اس شعر میں گوتم بدھ کی طرف اشارہ ہے، جنہوں نے اہلِ ہند کو بت پرستی ترک کرنے کی تلقین کی تھی لیکن جب ہندوؤں نے تلوار کے زور سے ان کے مذہب کا ہندوستان سے خاتمہ کر دیا تو ان کے پیروکار ہندوؤں کے ظلم و ستم سے تنگ آکر چین و جاپان چلے گئے۔ یہ دونوں ملک آج بھی بدھ مت کے مرکز ہیں۔
نوٹ: اقبالؔ نے بڑی خوبصورتی کے ساتھ بُدھ دھرم کی تاریخ دو مصرعوں میں بیان کر دی ہے۔
بنایا ذرّوں کی ترکیب سے کبھی عالم
خلافِ معنیِ تعلیمِ اہلِ دیں میں نے
کبھی انسان نے سائنسدان کی حیثیت سے غور و فکر کرتے ہوئے مذہب کے ماننے والوں کے خلاف یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اس کائنات کا کوئی خالق نہیں ہے۔ یہ دنیا محض ذراتِ مادی کی ترکیب کا نتیجہ ہے۔ چونکہ مادہ کے علاوہ اور کوئی شئے موجود نہیں اس لیے انسان میں روح بھی نہیں ہے اور وہ مرنے کے بعد ہمیشہ کے لیے فنا ہو جاتا ہے۔
یہ اشارہ 400 قبلِ مسیح میں پیدا ہونے والے ایک مشہور سائنسدان کی طرف ہے جس کا نام دیمقراطیس (Democritus) تھا اور جس نے پہلی بار یہ نظریہ پیش کیا تھا۔
؎ زندگی کیا، ہے عناصر میں ظہورِ ترتیب
موت کیا ہے، انہیں اجزاء کا پریشاں ہونا
(شاعر: برج نرائن چکبست)
لہُو سے لال کیا سینکڑوں زمینوں کو
جہاں میں چھیڑ کے پیکارِ عقل و دیں میں نے
کبھی انسان نے کائنات میں عقل و منطق اور دین میں سے کسی ایک کی برتری منوانے کے لیے جنگ و جدال کی اور ہزاروں لوگوں کے تہ تیغ ہونے کے باعث سینکڑوں شہر اور بہت سے ملک خون سے سُرخ ہو گئے۔
اِس شعر میں اُسی آویزش کی طرف اشارہ ہے جو قرونِ وسطی میں یورپ کے رومن کیتھولک کلیسا (مسیحیت) اور حکماء و فلاسفہ کے درمیان پیدا ہو گئی تھی۔کلیسا کی تعلیم یہ تھی کہ حق وہ ہے جو کلیسا پیش کرے، اس کے خلاف حکماء یہ کہتے تھے کہ حق وہ ہے جو عقل سے ثابت ہو سکے۔ حکماء کا خاتمہ کرنے کے لیے کلیسا نے محکمۂ احتساب قائم کیا اور کئی سو سال تک ان کے قتل کا سلسلہ جاری رہا۔ بالآخر کلیسا کو شکست ہوئی اور یورپ میں عقلیت کا بازار گرم ہو گیا۔
سمجھ میں آئی حقیقت نہ جب ستاروں کی
اسی خیال میں راتیں گزار دیں میں نے
جب ستاروں کی حقیقت میری سمجھ میں نہ آئی تو میں نے راتیں اسی خیال میں بسر کر دیں۔ دیکھتا، سوچتا اور غور کرتا رہا کہ یہ کیا چیزیں ہیں۔اس شعر میں اشارہ اٹلی کے مشہور عالمِ ہئیت گلیلیو کی طرف ہے، جس نے زمین کے مظاہر کے ساتھ ساتھ ستاروں کے بارے میں بھی غور و فکر کیا اور اپنی زندگی کی بے شمار راتیں انہی کو دیکھتے ہوئے گزار دیں۔ اس بات پر لطف اس لیے ہے کہ اس میدان میں انسان کی کاوش اور جدوجہد کو واضح کیا گیا ہے اور اس لیے بھی کہ ستارے بہرحال رات کو نظر آ سکتے ہیں۔
گلیلیو (Galileo Galilei) ایک اطالوی ماہر فلکیات اور فلسفی تھا۔ سائنسی انقلاب پیدا کرنے میں اس کا کردار اہم ہے۔ وہ شاقول اور دوربین كا نامور موجد ہے- گلیلیو نے اشیا کی حرکات، دوربین، فلکیات کے بارے میں بیش قیمت معلومات فراہم کیں۔ اسے جدید طبیعیات کا باپ کہا جاتا ہے۔ (حوالہ: ویکی پیڈیا)
ڈرا سکِیں نہ کلیسا کی مجھ کو تلواریں
سِکھایا مسئلۂ گردشِ زمیں میں نے
میں نے زمین کی گردش کا مسئلہ دنیا کو سکھایا اور مسیحی پادریوں کی تلواریں مجھے ڈرا نہ سکیں۔
اس شعر میں کاپرنیکس (Nicolas Copernicus) کی طرف اشارہ ہے جس نے کلیسا کی مخالفت کے باوجود اپنا نظریہ دنیا کے سامنے پیش کیا کہ آفتاب ساکن ہے اور زمین اس کے گرد گھومتی ہے۔ کلیسا نے اس تعلیم کی بنا پر اسے کافر قرار دے دیا اور قتل کی دھمکی دی لیکن اُس نے اس دھمکی کی مطلق پرواہ نہیں کی۔ یہ حکیم موجودہ علمِ ہئیت کا بانی ہے۔ اس کے بعد کیلبر کاپرنیکس، گلیلیو اور نیوٹن نے اس کے نظریہ کی حمایت کی۔
کشش کا راز ہوَیدا کِیا زمانے پر
لگا کے آئنۂ عقلِ دُور بیں میں نے
انسان نے بہت دور تک دیکھنے اور غور و فکر کرنے والی عقل کے ذریعے یہ بھید پایا کہ آخر فضا میں چھوڑی جانے والی چیزیں اوپر کی طرف یا اِدھر اُدھر جانے اور فضا میں معلق رہنے کی بجائے زمین پر ہی کیوں گِرتی ہیں۔ عقل نے بتایا یہ زمین ہی ان اشیاء کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔
اِس شعر میں نیوٹن کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، جس نے یہ کششِ ثقل کا نظریہ نہ صرف پیش کیا، بلکہ تجربات سے اسے ثابت بھی کیا تھا۔
کِیا اسیر شعاعوں کو، برقِ مُضطر کو
بنادی غیرتِ جنّت یہ سرزمیں میں نے
کبھی انسان نے شعاعوں کو اسیر کیا اور کبھی بے چین و بے تاب بجلی کو اپنا قیدی بنایا اور اس طرح اس دنیا کو جنت سے بھی زیادہ خوبصورت بنا دیا۔
اِس شعر کے پہلے مصرع میں دو سائنسدانوں ڈاکٹر رونٹیگن اور ڈاکٹر فیریڈے کی طرف اشارہ ہے۔
رونٹیگن (Wilhelm Röntgen) نے 1895ء میں اتفاقی طور پر ان شعاعوں کو دریافت کیا تھا جبکہ وہ مختلف قسم کے برقی تجربے کر رہا تھا، چونکہ وہ اس وقت ان کی ماہت سے ناواقف تھا، اس لیے ان کا نام X ریز (شعاعِ غیر معلوم) رکھا، آج کل ان شعاعوں کے ذریعے سے جسم کے اندرونی اعضاء کا فوٹو لیا جاتا ہے۔
ڈاکٹر فیریڈے (Michael Faraday) نے بجلی (جس سے مختلف کام لیے جاتے ہیں اور بلب روشن ہوتے ہیں) کے سلسلہ میں بہت مفید تحقیقات کیں۔
مگر خبر نہ مِلی آہ! رازِ ہستی کی
کِیا خرد سے جہاں کو تہِ نگیں میں نے
انسان نے یہ سب کچھ کیا اور عقل سے ساری دنیا کو غلام بنا لیا، اس کے باوجود اسے زندگی کے حقیقی رازوں کی خبر نہ مل سکی۔ ان تمام حیرت انگیز ایجادات کے باوجود، انسان ہستی کی حقیقت سے آگاہ نہ ہو سکا۔ خرد سے جہاں کو تہ نگیں کیا یعنی تمام دنیا اپنے تصرف میں لے آیا، عقل کی بدولت میں نے قوائے فطرت کو مسخر کر لیا لیکن یہ نہ معلوم ہو سکا کہ اس کائنات کا بنانے والا کون ہے؟ اسی بات کو اقبالؔ نے ضربِ کلیم میں یوں بیان کیا ہے:۔
؎ جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا
زندگی کی شبِ تاریک سحر کر نہ سکا
(حوالہ: ضربِ کلیم: زمانۂ حاضر کا انسان)
ہُوئی جو چشمِ مظاہر پرست وا آخر
تو پایا خانۂ دل میں اُسے مکیں میں نے
بہرحال جب میری مظاہر پرست (ظاہری چیزوں کی پوجا کرنے والی) آنکھ کھلی تو میں نے اسے اپنے دل کے گھر میں مکیں پایا۔ مطلب یہ کہ جس حقیقت کی مجھے تلاش تھی وہ تو میرے دِل کی گہرائیوں میں موجود ہے اور وہ یہ کہ اس حقیقت کا راز وہ خالقِ کائنات یعنی ذاتِ خداوندِ کریم ہے۔ انسان اسے جنگلوں / بیابانوں میں راہب / پادری بن کر تلاش کر رہا ہے، جبکہ خود اس کے ارشاد کے مطابق وہ انسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے اور اس کے دل میں مکیں ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ انسان اس حقیقت سے کیسے آگاہ ہو سکتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ عشق کی بدولت۔
خلاصہ اس نظم کا یہ ہے کہ دنیا کے حاصل کرنے کا طریقہ عقل ہے اور خدا کے حاصل کرنے کا طریقہ عشق ہے۔
حوالہ جات
- شرح بانگِ درا ا ڈاکٹر شفیق احمد
- شرح بانگِ درا از پروفیسر یوسف سلیم چشتی
- شرح بانگِ درا از ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی
- شرح بانگِ درا از اسرار زیدی
- مطالبِ بانگِ درا از مولانا غلام رسول مہر
- شرح بانگِ درا از پروفیسر حمید اللہ شاہ ہاشمی