Skip to content
بانگِ درا 108: بزمِ انجُم

بانگِ درا 108: بزمِ انجُم


”بزمِ انجُم“ از علامہ اقبال

فہرست

تعارف

اِس دلکش تمثیلی نظم ”بزمِ انجُم“ میں علامہ اقبال نے تاروں کی زبان سے قومی زندگی کا راز فاش کیا ہے، یعنی یہ حقیقت واضح کی ہے کہ مسلمان اگر بحیثیت قوم ترقی کرنا چاہتے ہیں تو تاروں کی زندگی سے سبق حاصل کریں۔ ان کا نظام، جذبِ باہمی سے قائم ہے۔ اسی طرح مسلمان بھی الفتِ باہمی کی بدولت ترقی کر سکتے ہیں۔

(حوالہ: شرح بانگِ درا از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)

YouTube video

بند نمبر 1

سُورج نے جاتے جاتے شامِ سیہ قبا کو
طشتِ اُفُق سے لے کر لالے کے پھُول مارے

حلِ لغات:

سیہ قباسیاہ لباس پہنے ہوئے
طشتتھال
اُفقوہ کنارا جہاں آسمان اور زمین باہم مِلے ہوئے نظر آتے ہیں
لالے کے پھولمراد ہے شام کے وقت آسمان پر پھیل جانے والی شفق کی سُرخی
حلِ لغات (بانگِ درا 108: بزمِ انجُم)

تشریح:

اس بند میں شام کے وقت کا منظر پیش کیا گیا ہے۔ آسمان کی وسعتوں میں پھیلے ہوئے بادل کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے سورج کی شعاعوں کے انعکاس کی وجہ سے سُرخی مائل نظر آرہے تھے۔ علامہ اقبال اس منظر کو پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:-

سورج نے غروب ہوتے ہوئے اُفق کے طشت سے لالے کے پھول چنے اور وہ پھول سیاہ لباس پہننے والی شام کو مارے۔ چونکہ شام کے وقت سیاہی چھا جاتی ہے اس لیے شاعر نے شام کو سیاہ لباس پہنایا ہے۔

”لالے کے پھول مارے“ یعنی سورج نے افق کو سُرخ کر دیا۔

شفق: جب سورج طلوع یا غروب ہوتا ہے تو آسمان پر سُرخی (شفق) چھا جاتی ہے، اقبالؔ نے اُسے لالے کے پھول کہا ہے۔


پہنا دیا شفَق نے سونے کا سارا زیور
قُدرت نے اپنے گہنے چاندی کے سب اُتارے

حلِ لغات:

شَفَقآسمان پر صبح اور شام کے وقت پھیلنے والی سُرخی
گہنےزیور
حلِ لغات (بانگِ درا 108: بزمِ انجُم)

تشریح:

دن کے وقت قدرت کی ہر چیز سفید نظر آتی تھی، لیکن اب یوں لگتا ہے کہ قدرت نے چاندی کا جو زیور پہن رکھتا تھا، وہ اتار دیا ہے اور شفق (شام کی سرخی) نے ہر چیز کو سونے کے زیورات پہنا دیے ہیں یعنی ہر چیز سنہری نظر آنے لگی ہے۔


محمِل میں خامشی کے لیلائے ظُلمت آئی
چمکے عروسِ شب کے موتی وہ پیارے پیارے

حلِ لغات:

محمِلایک قسم کی ڈولی جو اونٹ پر باندھتے ہیں
خامشیخاموشی
لیلائے ظُمتاندھیرے کی لیلیٰ۔ مُراد اندھیرا
عروشِ شبرات کی دُلہن
موتیگہر۔ مراد ستارے
حلِ لغات (بانگِ درا 108: بزمِ انجُم)

تشریح:

رات کے اندھیرے کی لیلیٰ خاموشی کی ڈولی میں بیٹھ کر آئی (یعنی اندھیرا چھانے لگا اور شور و غُل کی جگہ خاموشی پھیلنے لگی) اور رات کی دلھن کے وہ پیارے پیارے موتی (تارے) چمکنے لگے۔


وہ دُور رہنے والے ہنگامۂ جہاں سے
کہتا ہے جن کو انساں اپنی زباں میں ’تارے‘

حلِ لغات:

ہنگامۂ جہاںدُنیا کی رونق / چہل پہل
حلِ لغات (بانگِ درا 108: بزمِ انجُم)

تشریح:

رات کی دلہن کے  وہی موتی جو دنیا کے ہنگاموں سے بہت دور رہتے ہیں اور جنہیں انسان اپنی زبان میں ”تارے“ کہتا ہے۔


محوِ فلک فروزی تھی انجمن فلک کی
عرشِ بریں سے آئی آواز اک ملَک کی

حلِ لغات:

محومگن، مصروف
فلک فروزیآسمان کو سجانا / روشن کرنا
انجمن فلک کیمراد چاند تارے، ستاروں کا ہجوم
عرشِ بریںسب سے اونچا عرش
مَلَکفرشتہ
حلِ لغات (بانگِ درا 108: بزمِ انجُم)

تشریح:

چونکہ تارے آسمان کی انجمن (محفل) ہیں، اس لیے وہ نمودار ہوتی ہی آسمان کی آرائش و سجاوٹ (یعنی آسمان کو روشن کرنے) میں مگن ہو گئے کہ عین اسی وقت عرشِ بریں سے ایک فرشتے کی آواز سُنائی دی۔

بند نمبر 2

اے شب کے پاسانو، اے آسماں کے تارو!
تابندہ قوم ساری گردُوں نشیں تمھاری

حلِ لغات:

شبرات
پاسبانوپاسبان کی جمع۔ محافظ، پہرے دار
تابندہروش، چمک دار
گردُوں نشیںآسمان پر رہنے والا، بلند مرتبہ
حلِ لغات (بانگِ درا 108: بزمِ انجُم)

تشریح:

فرشتے کی وہ صدا کیا تھی؟ یہی کہ:-

اے رات کے محافظو!  اے آسماں کے تارو!

بیشک تمھاری ساری روشن اور چمکدار قوم آسمان کی بلندیوں پر رہنے والی ہے۔ (یعنی تم بہت عظمت اور بلندی والے ہو)


چھیڑو سرود ایسا، جاگ اٹھّیں سونے والے
رہبر ہے قافلوں کی تابِ جبیں تمھاری

حلِ لغات:

سُرودگیت، نغمہ، راگ
رہبرراستہ دِکھانے والا، رہنما
تابِ جبیںپیشانی کی چمک / روشنی
حلِ لغات (بانگِ درا 108: بزمِ انجُم)

تشریح:

اے ستارو! تمھاری پیشانی کی چمک قافلوں کو راستہ دکھاتی ہے (یعنی قافلے تاروں کو دیکھ کر اپنی منزلِ مقصود کی راہ لیتے ہیں)۔

تم کوئی ایسا نغمہ چھیڑو جو سونے والوں کو جگا دے یعنی انسان خوابِ غفلت سے بیدار ہو جائے۔


آئینے قسمتوں کے تم کو یہ جانتے ہیں
شاید سُنیں صدائیں اہلِ زمیں تمھاری

حلِ لغات:

آئینے قسمتوں کےعام خیال ہے کہ تاروں کی گردِش سے انسانوں کی تقدیریں وابستہ ہیں
صداآواز
اہلِ زمیںزمیں پر رہنے والے۔ مراد انسان
حلِ لغات (بانگِ درا 108: بزمِ انجُم)

تشریح:

یہ لوگ تمھیں اپنی قسمتوں کا آئینہ تصوّر کرتے ہیں، یعنی تمھاری چال اور کیفیت سے اپنی قسمت کا حال معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

چونکہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہماری قسمت ستاروں سے وابستہ ہے یا ستارے ہماری قسمت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اس لیے امید واثق ہے کہ وہ تمہارے پیغام کو بڑے غور سے سُنیں گے اور یہ حقیقت جان لیں گے کہ جہد و عمل ہی سے انسان اپنی قسمت بدل سکتا ہے، بے حس اور بے عمل رہنے والے کا مقدر کبھی نہیں چمکتا۔

؎ عبث ہے شکوۂ تقدیرِ یزداں
تُو خود تقدیرِ یزداں کیوں نہیں ہے
(حوالہ: ارمغانِ حجاز)


رُخصت ہوئی خموشی تاروں بھری فضا سے
وسعت تھی آسماں کی معمور اس نوا سے

حلِ لغات:

رُخصت ہوئیروانہ ہوئی
خموشیخاموشی
وُسعَتچوڑائی، عرض، پھیلاؤ، کُشادگی
معموربھرا ہوا، پُر، لبریز
نَوَاآواز، صدا، نِدا
حلِ لغات (بانگِ درا 108: بزمِ انجُم)

تشریح:

فرشتے کی یہ صدا سُن کر ستاروں کی فضا سے خاموشی ختم ہو گئی اور آسمان کی وسعتوں میں یہ صدا گونجنے لگی (یعنی ستاروں نے اپنا نغمہ گانا شروع کر دیا)

بند نمبر 3

”حُسنِ ازل ہے پیدا تاروں کی دلبری میں
جس طرح عکسِ گُل ہو شبنم کی آرسی میں

حلِ لغات:

حُسنِ ازلخدا کا حُسن، خدا کی قدرت کا جلوہ
دِلبریپیارا ہونا
عکسِ گُلپھول کی تصویر
آرسیچھوٹا سا ائینہ
حلِ لغات (بانگِ درا 108: بزمِ انجُم)

تشریح:

تاروں کی چمک دمک میں خدا کی قدرت کا جلوہ نظر آتا ہے، “خدا کا عکس” تاروں میں اسی طرح نظر آتا ہے جس طرح پھولوں کا عکش شبنم کے صاف اور شفاف قطروں میں۔


آئینِ نو سے ڈرنا، طرزِ کُہن پہ اَڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں

حلِ لغات:

آئینِ نونیا انتظام / دستُور / قانون
طرزِ کُہنپرانا طریقہ
کٹھِندُشوار، مُشکِل
حلِ لغات (بانگِ درا 108: بزمِ انجُم)

تشریح:

آئینِ نو (نیا  قانون و دستور، رسم و رواج جس سے قومی زندگی میں اچھی تبدیلی ہو) سے ڈرنا اور پرانے انداز ہی اختیار کیے رکھنا، یہی وہ امر ہے جو قوموں کی زندگی میں نت نئی دشواریاں پیدا کرتا ہے۔

جو قوم ”لکیر کی فقیر“ بنی رہتی ہے اور حالاتِ حاضرہ سے مطابقت نہیں کرتی، وقت کے تقاضوں کو نہیں پہچانتی، وہ ترقی نہیں کر سکتی۔

خود اسلام کے پیغام کا جواب بھی بعض طبقوں نے یہی دیا تھا، قرآن میں ارشاد ہے:-

وَاِذَا قِيْلَ لَـهُـمُ اتَّبِعُوْا مَآ اَنْزَلَ اللّـٰهُ قَالُوْا بَلْ نَتَّبِــعُ مَآ اَلْفَيْنَا عَلَيْهِ اٰبَآءَنَا ۗ اَوَلَوْ كَانَ اٰبَآؤُهُـمْ لَا يَعْقِلُوْنَ شَيْئًا وَّلَا يَـهْتَدُوْنَ (170)

اور جب انہیں کہا جاتا ہے کہ اس کی پیروی کرو جو اللہ نے نازل کیا ہے تو کہتے ہیں بلکہ ہم تو اس کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا، کیا اگرچہ ان کے باپ دادا کچھ بھی نہ سمجھتے ہوں اور نہ سیدھی راہ پائی ہو؟

(حوالہ: القرآن: سورۃ البقرہ: 170)

یعنی ہم تو انہی رسموں کے پابند رہیں گے جو ہمارے باپ دادا نے اختیار کر رکھی تھیں۔ جو قومیں نئے تقاضوں کا صحیح جواب نہیں دیتیں وہ زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتی ہیں، یہاں تک کہ ختم ہو جاتی ہیں۔ نئی اور پرانی چیزوں کی کشمکش کا دور ہر قوم کے لیے حد درجہ خطرناک ہوتا ہے۔ جو قوم اس منزل سے بخیر و خوبی گزر جاتی ہے وہی زندگی کی دوڑ میں کامیاب رہتی ہے۔ نئی یا پرانی چیزیں سب کی سب اچھی نہیں ہوتیں، قوموں اور ان کے لیڈروں میں انتخاب کا سلیقہ ہونا چاہیے۔


یہ کاروانِ ہستی ہے تیز گام ایسا
قومیں کُچل گئی ہیں جس کی رواروی میں

حلِ لغات:

کاروانِ ہستیزندگی کا قافلہ یعنی زندگی
تیزگامتیز دوڑنے والا، تیز قدم
کُچل جاناپاؤں تلے روندے جانا، فنا ہوجانا، مِٹ جانا
روَا روَیچل چلاؤ، بھاگ دوڑ
حلِ لغات (بانگِ درا 108: بزمِ انجُم)

تشریح:

زمانہ ہر لمحہ  آگے بڑھتا رہتا ہے۔ جو قومیں زمانہ کا ساتھ نہیں دیتیں اور اپنی جگہ بے حِس پڑی رہتی ہیں، اُن کے اس جمود کا نتیجہ اس کے سوا اور کچھ نہیں نکلتا کہ دوسری قومیں ان کو کچلتی ہوئی آگے نکل جاتی ہیں۔


آنکھوں سے ہیں ہماری غائب ہزاروں انجم
داخل ہیں وہ بھی لیکن اپنی برادری میں

حلِ لغات:

انجُمنجم کی جمع۔ مراد ستارے
غائباوجھل، پوشیدہ
داخل ہیںشامل ہیں
برادریخاندان، قبیلہ
حلِ لغات (بانگِ درا 108: بزمِ انجُم)

تشریح:

اگرچہ ہماری آنکھوں سے ہزاروں ستارے غائب ہیں (وہ نظر نہیں آتے) لیکن وہ بھی اپنی برادری میں شامل ہیں۔ اس استعارے سے یہی مراد ہو سکتی ہے کہ جو مسلمان ہماری نظروں سے دُور ہیں اور ہمارے وطن میں نہیں رہتے وہ بھی بہر حال ہماری ہی جماعت کے افراد ہیں، انہیں غیر نہیں سمجھنا چاہیے۔

چنانچہ مسلمانوں پر لازم ہے کہ صرف ان ہی مسلمانوں کو اپنا بھائی نہ سمجھیں جو ان کی نظروں کے سامنے ہیں (ان کے شہر میں رہتے ہیں) بلکہ تمام دنیا کے مسلمانوں کو اپنا بھائی سمجھیں (جو دوسرے مُلکوں میں رہتے ہیں)


اک عمر میں نہ سمجھے اس کو زمین والے
جو بات پا گئے ہم تھوڑی سی زندگی میں

حلِ لغات:

اِک عمر میںاک لمبے عرصے تک
بات پا جانابات سمجھ جانا
حلِ لغات (بانگِ درا 108: بزمِ انجُم)

تشریح:

ہمیں زندگی گزارنے کے لیے تھوڑا سا وقت ملا یعنی صرف ایک رات یا اس سے بھی کم، لیکن اس بہت اہم اصولِ زندگی کو ہم اس تھوڑی سی عمر میں سمجھ گئے جبکہ انسان ایک طویل عمر گزارنے کے باوجود اِس حقیقت تک نہیں پہنچ سکا۔


ہیں جذبِ باہمی سے قائم نظام سارے
پوشیدہ ہے یہ نُکتہ تاروں کی زندگی میں“

حلِ لغات:

جذبِ باہمیآپس کی کشش / محبّت
نظام قائم ہوناانتظام برقرار / جاری رہنا
پوشیدہچھُپا ہوا
نُکتہگہری / اہم / باریک بات
حلِ لغات (بانگِ درا 108: بزمِ انجُم)

تشریح:

وہ اصول اور حقیقت کیا ہے! وہ یہ ہے کہ دنیا کے سارے نظام جذبِ باہمی ہی سے چل رہے ہیں۔ یہ گہری بات تاروں کی زندگی میں پوشیدہ ہے۔ مسلمانوں کو ستاروں کی زبان سے یہ درس دیا گیا ہے کہ باہمی اتحاد و محبت پیدا کرو، مِل جُل کر رہو، ایک دوسرے سے محبت کرو اور ہر مسلمان کو اپنا بھائی سمجھو تاکہ تمہاری زندگی بھی ستاروں کی طرح روشن ہو جائے اور تم دوسری قوموں کے ہاتھوں ذلیل و خوار ہونے سے بچ جاؤ۔

خلاصۂ کلام یہ کہ اقبالؔ نے مسلمانوں کو تنطٰم اور ربط و ضبطِ باہمی کا پیغام دیا ہے۔

واضح ہو کہ  اس کائنات میں تمام  اجسام (ستارے، سیارے وغیرہ) صرف اس وقت تک قائم ہیں جب تک وہ کششِ ثقل کے اصول کی بنا پر  ایک دوسرے کو کھینچ رہے ہیں۔ اگر ذرا دیر کے لیے ستارے اس کشش سے آزاد ہو جائیں تو پوری کائنات آنِ واحد میں ختم ہو جائے۔ جذبِ باہمی کا یہی اصول انسان کو بھی اپنانا چاہیے۔

قرآن پاک میں ارشاد ہے:-

وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّـٰهِ جَـمِيْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا ۚ وَاذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّـٰهِ عَلَيْكُمْ اِذْ كُنْتُـمْ اَعْدَآءً فَاَلَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِكُمْ فَاَصْبَحْتُـمْ بِنِعْمَتِهٓ ٖ اِخْوَانًاۚ وَكُنْتُـمْ عَلٰى شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَكُمْ مِّنْـهَا ۗ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّـٰهُ لَكُمْ اٰيَاتِهٖ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ (103)

اور سب مل کر اللہ کی رسی مضبوط پکڑو اور پھوٹ نہ ڈالو، اور اللہ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو جب کہ تم آپس میں دشمن تھے پھر تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی پھر تم اس کے فضل سے بھائی بھائی ہو گئے، اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر تھے پھر تم کو اس سے نجات دی، اس طرح تم پر اللہ اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ۔

(حوالہ: القرآن: سورۃ آل عمران: 103)

حوالہ جات


Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments