”بلالؓ“ از علامہ اقبال
فہرست
تعارف
نظم ”بلالؓ“ ستمبر 1904ء کے مخزن میں شائع ہوئی تھی۔ اُس وقت اس کے اشعار کی تعداد سولہ تھی۔ نظرثانی میں تین شعر قلمزد کر دیے گئے جو سرودِ رفتہ اور باقیاتِ اقبالؔ میں موجود ہیں۔
(حوالہ: شرح بانگِ درا از ڈاکٹر شفیق احمد)
یہ نظم 1904ء کے مخزن میں شائع ہوئی تھی اور اس کے سولہ شعر تھے۔ نظرِ ثانی میں تین حذف کر دیے گئے۔
سب سے پہلے حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ کے حالات اختصاراً بیان کر دینے مناسب معلوم ہوتے ہیں:-
حضرت بلالؓ جن کی ذاتِ گرامی سے اس نظم نے شرف پایا۔ بلال نام، ابو عبداللہ کنیت، والد کا نام رباح، والدہ کا نام حمامہ، حبشی الاصل غلام تھے۔ مکہ میں پیدا ہوئے۔ ان خوش نصیب ہستیوں میں سے ہیں جنہوں نے اسلام کی دعوت پر لبیک کہنے میں سبقت لی۔ بیان کیا جاتا ہے کہ پہلے سات مسلمانوں میں سے ایک بلالؓ تھے۔ چونکہ غلام تھے، اس لیے سب سے بڑھ کر ظلم و ستم کا نشانہ بنے۔ ظالم قریش انہیں تپتی ہوئی ریت، جلتے ہوئے سنگ ریزوں اور دہکتے ہوئے انگاروں پر لٹاتے۔ ان کے گلرئے مبارک میں رسیاں ڈال کر لڑکے بازاروں میں کھینچتے پھرتے۔ ابوجہل انہیں منہ کے بل سنگریزوں پر لٹا کر چکّی کا پاٹ اوپر رکھ دیتا۔ جب دھوپ تیز ہو جاتی اور حضرت بلالؓ پر بے قراری کی حالت طاری ہوتی تو کہتا: ”بلالؓ! اب بھی خدائے محمد ﷺ سے باز آ!“۔ اس شیدائے حق کی زبان مبارک پر اس وقت بھی ”احد احد“ کا ترانہ جاری رہتا۔
امیہ بن خلف کبھی حضرت بلالؓ کو گائے کی کھال میں لپیٹٹا، کبھی لوہے کی زرہ پہنا کر تیز دھوپ میں بٹھا دیتا، حضرت ابو بکر صدیقؓ نے ایک روز اُن پر ظلم ہوتے ہوئے دیکھا تو درد ناک نظارہ برداشت نہ کر سکے، بھاری رقم معاوضے میں دے کر انہیں خرید کر آزاد کر دیا۔ رسول اکرم ﷺ نے یہ سنا تو فرمایا: ”ابوبکرؓ! مجھے بھی اس میں شریک کر لو“۔ عرض کیا: ”یا رسول اللہ ﷺ! میں آزاد کر چکا ہوں“
ہجرت کے بعد حضرت ابورویحہؓ سے بھائی چارا ہوا اور اتنی گہری محبت پیدا ہو گئی کہ جب حضرت بلالؓ نے حضرت عمر فاروقؓ کے عہد میں جہاد کی غرض سے شام جانے کا ارادہ کیا تو اپنا وظیفہ وصول کرنے کا مختار بھی ابو ردیحہ کو ہی بنایا۔
حضرت بلالؓ کی آواز انتہائی دلکش تھی۔ نماز کے بلاوے کے سلسلے میں اذان کا طریقہ جاری ہوا تو سب سے پہلے حضرت بلالؓ ہی اذان دینے پر معمور ہوئے۔ وہ اذان دیتے تو سب لوگ کاروبار چھوڑ کر بیتابانہ ان کے اردگرد جمع ہو جاتے، یہاں تک کہ بچے بھی کھیل کُود چھوڑ دیتے۔ فتح مکہ کے بعد حضرت بلالؓ ہی نے خانۂ کعبہ کی چھت پر چڑھ کر سب سے پہلی اذان دی تھی۔
رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد اذان نہ دینے کا عہد کر لیا۔ حضرت ابوبکرؓ نے مدینہ ٹھہرنے پر اصرار کیا اور کہا: ”بلالؓ! تمہیں خدا اور اپنے حق کا واسطہ دیتا ہوں کہ بڑھاپے میں مجھے جدائی کا داغ نہ دو۔۔“ اس لیے حضرت بلالؓ ٹھہرے رہے، لیکن حضرت عمرؓ کی خلافت میں جہاد کی غرض سے شام چلے گئے۔ جب حضرت عمرؓ نے شام کا دورہ کیا تو ایک روز حضرت بلالؓ سے اذان کی فرمائش کی۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی خواہش پوری کرنے کے لیے اذان دی۔ جہاں تک آواز پہنچی، لوگوں میں رسول اللہ ﷺ کی عہدِ مبارک کی یاد تازہ ہو گئی اور سب تڑپ اُٹھے۔ حضرت ابو عبیدہؓ، حضرت معاذ بن جبلؓ بے اختیار رو رہے تھے۔ خود حضرت عمرؓ کی ہچکی بندھ گئی۔
ایک مرتبہ شام سے مدینہ تشریف لائے تو حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کی خواہش پر صبح کے وقت اذان دی۔ اس موقع پر لوگوں کی بے قراری کا پھر وہی منظر رونما ہوا جو حضرت عمرِ فاروقؓ کے سفرِ شام میں دیکھا گیا۔ 20ھ میں دمِشق میں وفات پائی۔ باب الصغیر کے قریب دفن ہوئے۔ آپؓ کی قبر پر ایک چھوٹا سا قب٘ہ بنا ہوا ہے جو زیارت گاہِ عام ہے۔
اقبالؔ نے اس نظم میں حضرت بلالؓ کے عشقِ رسول اللہ ﷺ ہی کو نظر میں رکھا ہے اور عشقِ رسول اللہ ﷺ ہی اس نظم کا اصل موضوع ہے۔
(حوالہ: مطالبِ بانگِ درا از مولانا غلام رسول مہر)
جیسا کہ سب کو معلوم ہے کہ بلالِؓ حبشی کا شمار حضور سرورِ کائنات ﷺ کے ممتاز صحابیوں میں ہوتا ہے۔ ان کا سب سے بڑا اعزاز یہ تھا کہ مسجدِ نبوی ﷺ میں باقاعدہ طور پر اذان دیا کرتے تھے۔ تاریخی سطح پر یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ بڑے خوش الحان تھے۔ علامہ نے یہ نظم ان کی شخصیت سے متاثر ہو کر کہی ہے۔
(حوالہ: شرح بانگِ درا از اسرار زیدی)
بند نمبر 1
چمک اُٹھا جو ستارہ ترے مقدّر کا
حبَش سے تجھ کو اُٹھا کر حجاز میں لایا
یا سیّدی بلالؓ! آپؓ کی قسمت کا ستارہ چمکا تو آپؓ کو حبش سے حجاز لے آیا۔ مطلب یہ نہیں کہ خود حضرت بلالؓ حبش سے حجاز آئے، بلکہ آپؓ مکہ ہی میں پیدا ہوئے لیکن حبشی الاصل (حضرت بلالؓ کے آباء و اجداد برِ اعظم افریقہ کے ملک حبش سے تعلق رکھتے تھے) ہونے کے سبب اقبالؔ نے یہ لکھا کہ حبش سے ان کی قسمت انہیں حجاز لے آئی جہاں آپؓ کو حضورِ اکرم ﷺ کا قرب حاصل ہوا، حبش میں رہتے تو اس قرب سے محروم رہتے اور اس خوش قسمتی پر کسے رشک نہ ہوگا۔
یہ واقعی بڑی خوش بختی کی بات ہے کہ آپؓ حجاز پہنچے جہاں آپؓ کو حضورِ اکرم ﷺ کا قرب حاصل ہوا، حبش میں رہتے تو اس قرب سے محروم رہتے۔
ہُوئی اسی سے ترے غم کدے کی آبادی
تری غلامی کے صدقے ہزار آزادی
چونکہ حضرت بلالؓ غلام تھے اور بے وطنی کے غموں میں مبتلا ہوئے۔ لیکن یہی غلامی آپؓ کے غمکدے (دکھوں کا گھر) کی آبادی کا سامان بن گئی۔ آپؓ اگر مکہ میں نہ ہوتے تو دینِ حق کی صدا آپؓ تک کیسے پہنچتی اور وہ بلند مقام کیسے حاصل ہوتا جو شہنشاہوں کے لیے بھی باعثِ رشک ہے۔ آپؓ کسی کافر کے غلام تھے۔ اسلام قبول کرنے پر اُس نے آپؓ پر بہت ظلم ڈھائے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے آپؓ کو خرید کر آزاد فرما دیا۔ یہ غلامی آپؓ کے لیے اس قدر مبارک ثابت ہوئی کہ اس پر ہزاروں آزادیاں قربان کی جاسکتی ہیں۔ اسی غلامی کی بدولت دینِ اسلام جیسی نعمت عطا ہوئی، حضور اکرم ﷺ کے صحابی ہونے کا شرف حاصل ہوا اور پہلے مؤذنِ اسلام کہلائے۔
وہ آستاں نہ چھُٹا تجھ سے ایک دم کے لیے
کسی کے شوق میں تو نے مزے ستم کے لیے
آپؓ سے رسول اللہ ﷺ کی چوکھٹ ایک دم کے لیے بھی نہ چھُوٹی۔ اس سلسلے میں اہلِ مکہ نے آپؓ پر جو بھی ظلم و ستم ڈھائے، آپؓ نے وہ سب شکایت کے بغیر برداشت کیے۔ حضورِ اکرم ﷺ کے عشق کے طفیل آپؓ کو مخالفوں کے ظلم و ستم میں بھی لُطف آتا رہا۔
جفا جو عشق میں ہوتی ہے وہ جفا ہی نہیں
ستم نہ ہو تو محبت میں کچھ مزا ہی نہیں
در اصل آپؓ اس راز سے آگاہی حاصل فرما چکے تھے کہ محبوب کے عشق میں غیروں کی جو جفائیں (ظلم و سِتم) برداشت کرنا پڑتی ہیں، وہ اہلِ دِل کے لیے جفا نہیں ہوتیں، کیونکہ جس محبت کے نتیجے میں انسان پر کسی نہ کسی طرح مصائب نازل نہ ہوں، اس محبت میں کوئی لطف نہیں ہوتا۔
بند نمبر 2
نظر تھی صورتِ سلماںؓ ادا شناس تری
شرابِ دید سے بڑھتی تھی اور پیاس تری
حضرت سلمان فارسیؓ کی طرح آپؓ کی نظر بھی عشق و محبت کی تمام اداؤں اور خوبیوں کو پہچانتی تھی اور حضور اکرم ﷺ کی عظمتوں سے پوری طرح آگاہی رکھتی تھی۔ آپؓ جس قدر حضور ﷺ کی زیارت فرماتے تھے، اُسی قدر آپؓ کا شوقِ دیدار بڑھتا تھا۔ آپؓ جتنی دیدار کی شراب پیتے، اس سے اتنی ہی پیاس بڑھتی تھی، یعنی حضور اکرم ﷺ کو دیکھنے کے ساتھ ساتھ دیکھنے کا شوق کبھی پورا نہ ہوا۔ واضح رہے کہ سلمان فارسیؓ ایرانی النسل ہیں، آپ مدینہ منورہ تشریف لائے۔ حلقہ بگوشِ اسلام ہوئے تھے۔ حضرت سلمان فارسیؓ بھی سرکارِ دو عالم ﷺ کے عشق میں بہت اونچا مقام رکھتے ہیں۔ جب انؓ سے کسی نے پوچھا کہ تمہارا نسب کیا ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا: سلمانؓ بن اسلامؔ۔
تجھے نظارے کا مثلِ کلیمؑ سودا تھا
اویسؓ طاقتِ دیدار کو ترستا تھا
یا سیّدی بلالؓ! آپؓ کو رحمتِ عالم ﷺ کی زیارت کا اُسی قدر شوق تھا جس قدر حضرت موسیؑ کو اللہ تعالی کا جلوہ دیکھنے کا اشتیاق تھا (دیکھیے سورۃ الاعراف آیت نمبر 143)۔ جبکہ حضرت اویس قرنیؓ کی یہ حالت تھی کہ انہیں رسول اللہ ﷺ کو دیکھنے کی طاقت نصیب نہ تھی۔ وہ چاہتے تھے کہ دِل میں اتنا حوصلہ پیدا ہو جائے کہ رسول اللہ ﷺ کو دیکھ سکوں۔ حضرت اویس قرنیؓ بھی حضور اکرم ﷺ کے سچے عاشقوں میں بہت ممتاز حیثیت رکھتے ہیں۔ چونکہ ان کی والدہ بہت ضعیف تھیں، اس لیے آپ ﷺ نے حکم دیا تھا کہ ملاقات کے لیے مت آؤ بلکہ اپنی ماں کی خدمت کرو اسی میں میری خوشنودی مضمر ہے، یہی وجہ ہے کہ حضور اکرم ﷺ کے دیدار کی مسرت حاصل نہ ہو سکی۔
مدینہ تیری نگاہوں کا نور تھا گویا
ترے لیے تو یہ صحرا ہی طُور تھا گویا
مدینہ آپؓ کی نگاہوں کا ایک طرح سے نُور تھا اور آپ کے لیے یہ صحرا ہی گویا کوہِ طُور کی مانند تھا۔ حضرت موسیؑ کلیم اللہ نے جس طرح کوہِ طور پر خدا کے جلوے کا نظارہ کیا، اسی طرح آپؓ مدینہ شریف میں حضورِ اکرم ﷺ کے دیدار سے مشرف ہوا کرتے تھے۔
تری نظر کو رہی دید میں بھی حسرتِ دید
خُنَک دلے کہ تپید و دمے نیا سائید
آپؓ حضورِ اکرم ﷺ کے سچے عاشق تھے۔ حضورِ اکرم ﷺ کے قریب ہونے کی وجہ سے ہر وقت آپ ﷺ کی زیارت فرماتے تھے، اس کے باوجود زیادہ سے زیادہ دیدار کرنے کے شوق میں مبتلا رہتے۔ آپؓ کو حضور اکرم ﷺ سے اس قدر محبت تھی کہ مسلسل دیکھنے کے باوجود آپؓ کے دِل کی سیری نہیں ہوتی تھی۔ اقبالؔ کہتے ہیں کہ آپؓ کا دِل ہزار لائقِ تحسین ہے جو ساری عمر عشقِ رسول ﷺ میں تڑپتا رہا اور جسے عشقِ رسول اللہ ﷺ کے باعث کبھی آرام میسر نہیں آ سکا۔
گری وہ برق تری جانِ ناشکیبا پر
کہ خندہ زن تری ظُلمت تھی دستِ موسیٰ پر
اے بلالؓ! آپؓ کی بے صبر جان (جانِ نا شکیبا) پر ایسی بجلی گری کہ آپؓ کا سیاہ ہاتھ حضرت موسیؑ کے ہاتھ پر خندہ زن ہوا۔ ظلمت (تاریکی، سیاہی) سے اشارہ حضرت بلالؓ کے رنگ کی طرف ہے۔ حضرت بلالؓ حبشی تھے۔ اسی نسبت سے اقبالؔ نے انہیں سیاہ فام تصور کیا، مستند روایتوں سے ظاہر ہے کہ حضرت بلالؓ کا رنگ سانولا تھا۔ دستِ موسیؑ سے یدِ بیضا کی طرف اشارہ ہے جو حضرت موسیؑ کا معجزہ تھا (دیکھیے سورۃ طہ کی آیت نمبر 22)۔ مطلب یہ کہ حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ کی جان پر عشقِ رسول اللہ ﷺ کی جو بجلی گری اس کی برکت سے حضرت بلالؓ کی سیاہ فامی یدِ بیضا پر ہنستی (یعنی خندہ زن ہوتی) تھی۔ حضرت بلالؓ کا جو حضور اکرم ﷺ سے بے پناہ عشق تھا، اس حوالے سے یہ بات کہی ہے۔
تپش ز شعلہ گر فتند و بر دلِ تُو زدند
چہ برقِ جلوہ بخاشاکِ حاصلِ تُو زدند!
قضا و قدر نے شعلے سے حرارت اور تڑپ لی اور آپؓ کے دِل میں بھر دی۔ جلوے کی کیسی بجلی تھی جو آپؓ کے حاصل کے خس و خاشاک پر گِرا دی گئی۔
مطلب یہ کہ عشقِ رسول اللہ ﷺ سے پہلے جو کچھ آپؓ کے پاس تھا، اس کی حیثیت خس و خاشاک سے زیادہ نہ تھی۔ عشقِ رسول اللہ ﷺ کی بجلی نے آپؓ کو جلا کر اس قدر بلند رتبہ پر پہنچا دیا کہ حضرت عمرِ فاروقؓ بھی آپؓ کو ”یا سیّدی بلالؓ“ کہہ کر مخاطب فرماتے۔
بند نمبر 3
ادائے دید سراپا نیاز تھی تیری
کسی کو دیکھتے رہنا نماز تھی تیری
حضور اکرم ﷺ کی زیارت کرنے کا آپؓ کا انداز سراسر عاجزی و انکساری پر مبنی تھا۔ گویا آپ ﷺ کو دیکھتے رہنا ، آپ ﷺ کی زیارت کرنا، آپ ﷺ کی صحبت میں بیٹھنا ہی آپؓ کی نماز تھا۔
اذاں ازل سے ترے عشق کا ترانہ بنی
نماز اس کے نظارے کا اک بہانہ بنی
اس کائنات کے وجود میں آنے سے پہلے ہی سے (یعنی ازل ہی سے) اذان کو آپؓ کے عشق کو ظاہر کرنے والے ترانے کی حیثیت حاصل ہو چکی تھی یعنی روزِ ازل سے یہ مقدر تھا کہ آپؓ اسلام کے پہلے مؤذن بنیں گے اور نماز کو آپ ﷺ کی زیارت کا بہانہ بنا دیا گیا۔ پہلے مصرع میں حضرت بلالؓ کی مؤذنِ اوّل کی حیثیت واضح کرتے ہوئے اُن کی تاثیر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
خوشا وہ وقت کہ یثرِب مقام تھا اس ﷺ کا
خوشا وہ دور کہ دیدار عام تھا اس ﷺ کا
کتنا اچھا وقت تھا جب مدینہ شریف میں وہ پاک ذات ﷺ رہتی تھی اور کتنا اچھا زمانہ تھا جب اس ذاتِ پاک ﷺ کا دیدار عام تھا۔
اقبالؔ نے آخری شعر کو ایک مکتوب میں درج کرتے ہوئے لکھا ہے:-
”میں لاہور کے ہجوم میں رہتا ہوں مگر زندگی تنہائی کی بسر کرتا ہوں۔ مشاغلِ ضروری سے فارغ ہوا تو قرآن یا عالمِ تخیّل میں قرونِ اولیٰ (حضور اکرم ﷺ کا دورِ مبارک) کی سیر کی۔ مگر خیال کیجیے کہ جس زمانہ کا تخیّل اس قدر حسین و جمیل و روح افزا ہے وہ زمانہ خود کیسا ہوگا۔“
؎ خوشا وہ عہد کہ یثرب مقام تھا اس کا
خوشا وہ روز کہ دیدار عام تھا اُس کا
(حوالہ: مکاتیبِ اقبالؔ)
تبصرہ
اِس نظم میں اقبالؔ نے سیّدنا حضرت بلالؓ کی شخصیت کے اس پہلو کو نمایاں کیا ہے جس کی بدولت ان کی زندگی میں فاروقِ اعظمؓ کی زبانِ مبارک سے ”سیّدنا“ کا لقب حاصل ہوا اور موت کے بعد، حیاتِ جاوید نصیب وہ گئی۔ وہ پہلو کیا تھا؟ محض عشقِ رسول ﷺ۔ محبتِ رسول ﷺ نے حضرت بلالؓ کو ابدی زندگی عطا کر دی اور اقبالؔ نے اس نظم میں عجیب والہانہ انداز سے اسی حقیقت کو واضح کیا ہے۔ حضرت بلالؓ حبشی تھے، غلام تھے، مفلس تھے، بے یار و مددگار تھے لیکن ایک عشقِ رسول ﷺ نے ان کو مسلمانوں کا سردار بنایا۔ اقبالؔ نے اس نظم میں ان کی عاشقانہ زندگی کی ایسی دِلکش تصویر کھینچی ہے کہ الفاظ کے ذریعہ اس کا حُسن ظاہر نہیں ہو سکتا۔ صرف ذوقِ سلیم، دِل ہی دِل میں اس لذت سے لطف اندوز ہو سکتا ہے۔
اس نظم کے مطالعہ سے یہ بھی معلوم ہو سکتا ہے کہ عشقِ رسول ﷺ کی چنگاری شروع ہے سے اقبالؔ کے دِل میں پوشیدہ تھی اور میرا عقیدہ ہے کہ اسی کی بدولت وہ خود اور ان کا کلام، دونوں زندہ و جاوید ہو گئے۔
؏ عشق ہے اصلِ حیات، موت ہے اُس پر حرام
(حوالہ: بالِ جبریل: مسجدِ قرطبہ)
(حوالہ: شرح بانگِ درا از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)