نظم ”موجِ دریا“ از علامہ اقبال
فہرست
تعارف
علامہ اقبال کی نظم ”موجِ دریا“ سب سے پہلے دکّن ریویو (بابت نومبر – دسمبر 1904ء) میں ص 50 پر شائع ہوئی تھی۔ اس کے بعد رسالہ ”انسان“ امرتسر (بابت جون 1913ء) میں شائع ہوئی۔ اس نظم کے تین بند تھے۔ نظرثانی کے وقت صرف دو بند رکھے گئے۔ اس نظم میں بہ ظاہر موجِ دریا کی کیفیات بیان کی گئی ہیں لیکن فی الحقیقت اس میں فلسفۂ اقبالؔ کے بنیادی عناصر موجود ہیں۔ مثلاً:-
- علامہ اقبال کا فلسفۂ سعی و عمل اور جد و جہد کا فلسفہ۔ واضح ہو کہ علامہ سکون و جمود کو موت کا مترادف سمجھتے ہیں۔
- دوسرے بند میں مسئلۂ وحدت الوجود کی جھلک دِکھائی دیتی ہے۔ موج سمندر میں پیدا ہوتی ہے اور اُس کی ہستی کی غایت یہ ہے کہ پھر بحرِ مطلق میں مدغم ہو جائے۔
(حوالہ: شرح بانگِ درا از پروفیسر حمید اللہ شاہ ہاشمی)
نظم ”موجِ دریا“ کی تشریح
بند نمبر 1
مضطرب رکھتا ہے میرا دلِ بے تاب مجھے
عینِ ہستی ہے تڑپ صورتِ سیماب مجھے
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
مضطرب | بے چین، بے قرار |
عینِ ہستی | اصلی زندگی، ہستی کی کیفیّت |
تڑپ | بے چینی |
صورتِ سیماب | پارے کی مانند (متحرک) |
تشریح:
دریا کی موج کہتی ہے کہ میرا مضطرب و بے چین دِل مجھے بے قرار رکھتا ہے۔ یہ تڑپ ہی سراسر میری زندگی ہے۔ بالکل اُسی طرح جس طرح پارہ تڑپتا رہتا ہے، یعنی متحرک رہتا ہے، موج ہلتی یا چلتی رہے تو موج ہے، ساکن ہو جائے تو وہ پانی میں شامل ہو جاتی ہے۔ (اسی طرح انسان کو متحرک رہنا چاہے یعنی جہد و عمل میں مصروف رہے ورنہ وہ محض ایک چلتی پھرتی لاش ہوگا۔)
موج ہے نام مرا، بحر ہے پایاب مجھے
ہو نہ زنجیر کبھی حلقۂ گِرداب مجھے
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
بحر | (دریا) سمندر |
پایاب | کم گہرا پانی |
زنجیر | مراد رُکاوٹ |
حلقۂ گرداب | بھنور کا چکر، پانی کا بھنور |
تشریح:
میرا نام موج ہے اور میرے لیے پانی کا سب سے بڑا ذخیرہ یعنی سمندر بھی اتھلا (سطحی / جس میں گہرائی نہ ہو) اور کم گہرا ہے۔ چونکہ میں طبعاً آزاد ہوں اور کوئی پابندی میرے لیے ناقابل قبول ہے، اسی سبب کوئی شے میری راہ میں کسی طور پر بھی رُکاوٹ نہیں بن سکتی، پھر چاہے وہ سمندر میں پیدا ہونے والا بھنور (گِرداب) ہی کیوں نہ ہو۔ میں ہر طرح کی رکاوٹ سے بے پروا ہو کر چلتی رہتی ہوں کہ اسی میں میری بقا کا راز مضمر ہے۔
آب میں مثلِ ہوا جاتا ہے توسَن میرا
خارِ ماہی سے نہ اٹکا کبھی دامن میرا
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
مثلِ ہوا | ہوا کی مانند، یعنی تیز رفتاری سے |
توسَن | گھوڑا، سرکش گھوڑا |
خارِ ماہی | مچھلی کا کانٹا |
دامن | قمیض کا نِچلا حصہ، کنارا |
تشریح:
پانی میں میرا گھوڑا (توسَن) ہوا کی طرح یعنی بہت تیزی سے اُڑتا چلا جاتا ہے (تیز موج یا سیلاب کو گھوڑے سے تشبیہ دی ہے)۔ اس سفر میں مچھلی کی پُشت پر اُگا ہوا کانٹا بھی میرا راستہ نہیں روک سکتا۔ عموماً کانٹے پاؤں کو زخمی کر کے مسافر کا راستہ روک لیتے ہیں لیکن دریا اور سمندر میں پایا جانے والا یہ کانٹا بھی موج کا راستہ نہیں روک سکتا۔ موج ان سب رُکاوٹوں کو پار کرتی ہوئی اپنا سفر جاری رکھتی ہے۔
بند نمبر 2
میں اُچھلتی ہوں کبھی جذبِ مہِ کامل سے
جوش میں سر کو پٹکتی ہوں کبھی ساحل سے
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
جذب | کشش، کھینچنا |
مہِ کامل | چودھویں کا چاند، پورا چاند |
جذبِ مہِ کامل | جب چودھویں کا چاند سمندر پر چمکتا ہے تو قانونِ قدرت کے مطابق پانی میں تلاطم پیدا ہو جاتا ہے اور موجیں بہت اونچی ہو جاتی ہیں۔ |
سر کو پٹکنا | سر ٹکرانا |
تشریح:
موجِ دریا کہتی ہے کہ کبھی تو چودھویں کا پورا چاند مجھے اپنی طرف کھینچتا ہے (اشارہ ہے سمندر میں اُٹھنے والے مدوجزر کی طرف جو دریا اور سمندروں کی سطح پر چودھویں کے پورے چاند کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ چاند کی کشش سمندر کی لہروں کو اپنی طرف کھینچتی ہے، جس کے باعث پانی کی موجیں دریا یا سمندر کی عام سطح کے مقابلے میں بہت بلند ہو جاتی ہیں اور زور و شور سے اُٹھتی ہیں)۔ کبھی میں جوش میں آ کر اپنے سر کو ساحل کے کنارے سے ٹکراتی ہوں، یعنی تیزی کے ساتھ کنارے سے متصادم ہوتی ہوں جو میری راہ میں حائل ہوتا ہے۔
ہوں وہ رہرو کہ محبت ہے مجھے منزل سے
کیوں تڑپتی ہوں، یہ پُوچھے کوئی میرے دل سے
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
رہرو | مسافر، راستہ چلنے والی |
تشریح:
میں ایسی مسافر ہوں جسے چلتے رہنے سے محبت ہے۔ یہ ساری بیتابی، بے چینی اور بے قراری جس وجہ سے ہے، یہ صرف میرا دِل جانتا ہے۔
مولانا غلام رسول مہر کے مطابق اس مصرع میں لفظ ”منزل“ کے دو مفہوم ہو سکتے ہیں:-
- اول ”منزلِ مقصود“ لیکن یہ اس موج کی کوئی خصوصیت نہیں کیونکہ ہر رہرو کو منزلِ مقصود سے محبت ہوتی ہے اور رہروی کا مُدّعا ہی یہ ہوتا ہے کہ منزلِ مقصود پر پہنچا جائے۔
- دوسرے معنی مسافت یا چلنے کے ہیں، ”منزل“ اردو زبان میں یہ معنی بھی دیتا ہے اور ہم نے یہی معنی مراد لیے ہیں۔
زحمتِ تنگیِ دریا سے گریزاں ہوں میں
وسعتِ بحر کی فُرقت میں پریشاں ہوں مَیں
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
زحمت | تکلیف، کُلفت |
تنگیِ دریا | دریا کا محدود ہونا |
گریزاں | بھاگنے والا / والی |
وسعتِ بحر | سمندر کی وسعت |
تشریح:
چونکہ میں آزاد واقع ہوئی ہوں، اس لیے دریا کی تنگ دامانی سے نجات حاصل کر کے بے کنار ہونا چاہتی ہوں اور سمندر کی فراخی و وسعت سے جُدائی کی وجہ سے پریشان اور مضطرب رہتی ہوں۔ یعنی میرا دِل چاہتا ہے کہ دریا کی تنگی سے نجات حاصل کر کے سمندر کی بے کنار وسعتوں میں چلی جاؤں۔ یہی وہ مقصد ہے جو مجھے ہمیشہ مضطرب و بے قرار رکھتا ہے۔
یہاں لفظ ’پریشان‘ کا ذو معنی ہونا بہت لطف پیدا کرتا ہے۔ ایک مطلب تو یہ کہ میں سمندر کی دوری اور جدائی سے تکلیف میں مبتلا ہوں، جبکہ لفظ ’پریشان‘ کے دوسرے معنی منتشر ہونے کے ہیں۔ دریا کی موج جہاں جہاں بھی ہے، وہ تنہا اور منتشر ہے جبکہ سمندر میں اپنی اصل کے قریب تر ہو جائے گی۔
تبصرہ
اس نظم میں اقبالؔ نے موج کی کیفیت بیان کی ہے کہ حرکت و روانی اُس کی ذات کا خاصہ ہے۔ اس حرکت کو شاعر نے اضطراب سے تعبیر کیا ہے۔ جس طرح سیماب کو ایک لمحہ کے لیے قرار نصیب نہیں ہوتا، اسی طرح موج بھی ہر وقت متحرک رہتی ہے۔ دریا میں کوئی شے، پھر چاہے وہ گرداب ہو یا مچھلی، موج کی روانی کو نہیں روک سکتی۔ اس حوالے سے علامہ نے دراصل اپنے قاری کو عزمِ بلند اور جہد و عمل کی رغبت دلائی ہے۔ موج کا ہِلنا ایک قدرتی امر ہے، پھر موج کو گویا انسان ظاہر کیا گیا ہے، اس لحاظ سے پہلی صورت میں صنعتِ حُسنِ تعلیل سے اور دوسری صورت میں صنعتِ تجسیم (Personification) سے کام لیا گیا ہے۔
صنعتِ حُسنِ تعلیل: یہ ایک شعری صنف ہے جس میں شاعر کسی واقعے کی اصل منطقی، جغرافیائی یا سائنسی وجہ نظر انداز کر کے ایک تخیّلاتی، جذباتی اور عین شاعرانہ وجہ بیان کرتا ہے۔
صنعتِ تجسیم (Personification): تجسیم سے مراد کسی غیر مرئی شے کو جسم دینا ہے۔ کسی جذبے یا احساس کو جسمانی خدوخال عطا کرنا ہے۔ یہ صنعت شعر کے تاثر میں بے پناہ اضافہ کا باعث بنتی ہے اور قاری پر سحر کی کیفیّت طاری کر دیتی ہے۔
(حوالہ: شرح بانگِ درا: از پروفیسر یوسف سلیم چشتی، از ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی)
حوالہ جات
- شرح بانگِ درا از پروفیسر یوسف سلیم چشتی
- شرح بانگِ درا از ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی
- شرح بانگِ درا ا ڈاکٹر شفیق احمد
- شرح بانگِ درا از اسرار زیدی
- شرح بانگِ درا از پروفیسر حمید اللہ شاہ ہاشمی
- مطالبِ بانگِ درا از مولانا غلام رسول مہر