”شاعر“ از علامہ اقبال
فہرست
تعارف
یہ مختصر نظم جس کا عنوان ”شاعر“ ہے، دسمبر 1903ء کے ”مخزن“ میں شائع ہوئی تھی۔ اِس میں علامہ اقبال نے ایک ایسے شاعر کا مقام متعین کرنے کی کوشش کی ہے جس کے دِل میں قوم کا درد ہو اور جس کی شاعری کا واحد مقصد قوم کی ترقی اور اصلاح ہو۔
(حوالہ: شرح بانگِ درا از پروفیسر حمید اللہ شاہ ہاشمی)
اقبالؔ نے اس نظم میں شاعر سے حقیقی شاعری مراد لی ہے جس کا دِل قوم کی ہمدردی سے لبریز ہوتا ہے، نہ کہ وہ شاعر جو شاعری کا گزر اوقات کا ذریعہ بناتا ہے اور خوشامد و ضمیر فروشی سے اپنا پیٹ پالتا ہے۔
(حوالہ: شرح بانگِ درا از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)
نظم ”شاعر“ کی تشریح
قوم گویا جسم ہے، افراد ہیں اعضائے قوم
منزلِ صنعت کے رہ پیما ہیں دست و پائے قوم
حضرت علامہ اقبالؔ اس نظم میں کسی قوم کو زندہ و جاوید جسم تصور کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جس طرح جسم کا ہر حصہ اپنے کام کے اعتبار سے اہم ہوتا ہے، بالکل اسی طرح کسی قوم کے مختلف طبقات کی اہمیت ہوتی ہے۔ اگر قوم کو ایک جسم فرض کر لیا جائے تو قوم کے مختلف افراد اس جسم کے اعضاء قرار پائیں گے۔ ان مختلف افراد میں سے جو لوگ صنعت و حرفت (ہنر) کے میدان میں کام کرتے ہیں اور قوم کی اقتصادی (معاشی) حالت بہتر بنانے کے لیے کوشش کرتے ہیں، وہ قوم کے ہاتھ پاؤں کی حیثیت رکھتے ہیں۔
نوٹ: علمِ سیاسیات میں ”ریاست“ کی ابتداء کے مختلف نظریات بیان کیے جاتے ہیں۔ ان میں سے ایک نظریہ Organic Theory of State کہلاتا ہے۔ جس کی رو سے انسانی جسم اور ریاست کے نظام میں مماثلت پائی جاتی ہے۔ اقبالؔ نے اسی نظریے سے مدد لے کر قوم اور جسمانی اعضاء میں مماثلت بیان کی ہے
(حوالہ: شرح بانگِ درا از ڈاکٹر شفیق احمد)
محفلِ نظمِ حکومت، چہرۂ زیبائے قوم
شاعر رنگیں نوا ہے دیدۂ بینائے قوم
جو لوگ نظامِ حکومت چلاتے ہیں اور نظم و نسق سے متعلق ہیں، وہ قوم کے خوبصورت چہرے کی حیثیت رکھتے ہیں یعنی جس طرح کسی شخص کے حسن و خوبصورتی کا اندازہ اس کے چہرے کو دیکھ کر کیا جا سکتا ہے، اسی طرح کسی قوم کی خوبیوں کا اندازہ اس کے حاکموں اور حکمرانوں کی صلاحیتوں سے کیا جا سکتا ہے۔
اقبالؔ کے نزدیک ایک رنگیں نوا شاعر قوم کی آنکھ کی حیثیت رکھتا ہے، ایسی آنکھ جو دیکھنے اور بُرے بھلے کی تمیز کی اہلیت رکھتی ہو۔ واضح رہے کہ اقبالؔ نے شاعر کے لیے رنگیں نوائی کی شرط عائد کی ہے یعنی یہ شاعر دِل لبھانے والے نغمے لکھے۔ ایسے نغمے جبھی تخلیق ہوں گے جب شاعر مالی منفعت کی بجائے کامِل اخلاص کے ساتھ قوم کے دُکھ درد میں شریک ہو اور تہہ دل سے قومی مقاصد اور قومی اُمنگوں میں شامل ہو۔
مبتلائے درد کوئی عُضو ہو روتی ہے آنکھ
کس قدر ہمدرد سارے جسم کی ہوتی ہے آنکھ
آنکھ دیکھنے اور نیک و بد میں تمیز کرنے کے علاوہ جسم کے کسی بھی عضو کو پہنچنے والی تکلیف محسوس کرتی ہے اور اس پر آنسو بہاتی ہے۔ اسی طرح قوم کا کوئی بھی طبقہ کسی بھی طرح کی مصیبت میں مبتلا ہو تو شاعر ہی اس کی تکلیف محسوس کرتا ہے اور اپنے کلام میں اِس کا اظہار کرتا ہے۔ اس طرح گویا یہ ظاہر ہو جاتا ہے کہ شاعر قوم کا بے حد ہمدرد ہوتا ہے۔
علامہ اقبال یہ چاہتے ہیں کہ سچا اور مخلص شاعر قوم کے تمام طبقوں کا ہمدرد ہوتا ہے۔
حوالہ جات
- شرح بانگِ درا ا ڈاکٹر شفیق احمد
- شرح بانگِ درا از پروفیسر یوسف سلیم چشتی
- شرح بانگِ درا از پروفیسر حمید اللہ شاہ ہاشمی