Skip to content
بانگِ درا 28: زہد اور رِندی

بانگِ درا 28: زہد اور رِندی

”زہد اور رِندی“ از علامہ اقبال

فہرست

تعارف

نظم ”زہد اور رِندی“ 1930ء کے ”مخزن“ میں شائع ہوئی تھی اور غالباً انجمن حمایتِ اسلام کے سالانہ اجلاس میں مستقل نظم کے علاہ پڑھی گئی تھی۔ نظر ثانی میں دو شعر حذف کر دیے گئے اور ایک آدھ میں جزوی ترمیم فرمائی۔

(حوالہ: مطالبِ بانگِ درا از مولانا غلام رسول مہر)

YouTube video

نظم ”زہد اور رِندی“ کی تشریح

اک مولوی صاحب کی سُناتا ہوں کہانی
تیزی نہیں منظور طبیعت کی دِکھانی

حلِ لغات:

اِکایک
منظور ہوناجو پیشِ نظر ہو، مقصود، مطلوب
طبعت کی تیزیسوچ اور فکر کی قدرتی قوّت یا طاقت
دِکھاناظاہر کرنا
حلِ لغات (بانگِ درا 28: زہد اور رِندی)

تشریح:

میں تمھیں ایک مولوی صاحب کی کہانی سناتا ہوں اور خیال رہے کہ میرا مقصد شاعری کا کمال دکھانا نہیں بلکہ صرف حقیقتِ حال پیش کرنا ہے۔


شُہرہ تھا بہت آپ کی صُوفی منَشی کا
کرتے تھے ادب اُن کا اعالی و ادانی

حلِ لغات:

شہرہمشہوری، شہرت، دھوم، چرچا
صوفی منشیپارسائی، صوفی بننا
اعالیاعلیٰ کی جمع، بڑے لوگ
ادانیادنیٰ کی جمع، مراد عام یا معمولی لوگ
حلِ لغات (بانگِ درا 28: زہد اور رِندی)

تشریح:

ان مولوی صاحب کی دینداری اور درویشی کا بہت چرچا تھا۔ جس کی وجہ سے ہر چھوٹا، بڑا اُن کی عزت کرتا تھا۔


کہتے تھے کہ پنہاں ہے تصوّف میں شریعت
جس طرح کہ الفاظ میں مضمَر ہوں معانی

حلِ لغات:

پنہاںپوشیدہ، چھُپی ہوئی
تصوّفوہ علم جس کے ذریعے قلب کی صفائی حاصل ہو، تزکیۂ نفس کا طریقہ، صوفیاء کا مسلک
شریعتدینی قانون / مسلک
مُضمرچھُپے ہوئے، پوشیدہ
حلِ لغات (بانگِ درا 28: زہد اور رِندی)

تشریح:

مولوی صاحب کہا کرتے تھے کہ صوفیانہ مسلک میں شریعت اسی طرح پوشیدہ ہے۔

جس طرح تحریر و تقریر میں استعمال ہونے والے الفاظ میں  معانی چھپے ہوتے ہیں یعنی جس طرح لفظ اور خیال کی علیحدگی ممکن نہیں، اسی طرح شریعت اور تصوف کو بھی ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔


لبریز مئے زُہد سے تھی دل کی صراحی
تھی تہ میں کہیں دُردِ خیالِ ہمہ دانی

حلِ لغات:

لبریزبھری ہوئی، پُر
مئے زہدپاکبازی کی شراب
صراحیشراب کا بڑی ٹونٹی والا برتن
تہنیچے
دُردتلچھٹ، میل
ہمہ دانیسب کُچھ جاننا
خیالِ ہمہ دانیسب کُچھ جاننے کا وہم
حلِ لغات (بانگِ درا 28: زہد اور رِندی)

تشریح:

ان مولوی صاحب کے دِل کی صراحی زہد کی شراب سے بھری ہوئی تھی یعنی یہ مولوی صاحب بہت زیادہ متقی اور پرہیزگار تھے۔

لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس صراحی کی تہ میں کہیں ہمہ دانی کے خیالات کی تلچھٹ پڑی ہوئی تھی یعنی وہ اس گھمنڈ یا پست خیال کے بھی مالک تھے کہ انہیں سب کچھ آتا ہے۔


کرتے تھے بیاں آپ کرامات کا اپنی
منظور تھی تعداد مُریدوں کی بڑھانی

حلِ لغات:

کراماتکرامت کی جمع۔ معجزہ، کرشمہ
منظورمطلوب، مقصود
حلِ لغات (بانگِ درا 28: زہد اور رِندی)

تشریح:

مولوی صاحب اپنے روحانی کمالات کا ذکر بھی فرمایا کرتے۔ اس طرح ان کا مقصد اپنے مریدوں کی تعداد میں اضافہ کرنا تھا۔


مُدّت سے رہا کرتے تھے ہمسائے میں میرے
تھی رند سے زاہد کی ملاقات پُرانی

حلِ لغات:

مُدّت سےایک عرصے سے
رِندشریعت پر نہ چلنے والا، مذہب سے دُور
زاہدپاکباز، پابندِ مذہب
حلِ لغات (بانگِ درا 28: زہد اور رِندی)

تشریح:

یہ مولوی صاحب ایک مدت سے میرے پڑوسی تھے اور یوں گویا مجھ جیسے دنیا دار انسان کے ساتھ اس پرہیزگار شخص کے بہت پرانے تعلقات تھے۔


حضرت نے مرے ایک شناسا سے یہ پُوچھا
اقبالؔ، کہ ہے قُمریِ شمشادِ معانی

حلِ لغات:

شناساجاننے والا
قُمریخوش آواز پرندہ، فاختہ
شمشادایک سیدھا لمبا درخت، بلندی
معانیمعنوں، شاعری میں نئے مضامین پیدا کرنا
قُمریِ شمسادِ معانیمطالب کے شمشاد کی قُمری، مراد معانی کا عاشق و دِلدادہ، خوشگوَار شاعر
حلِ لغات (بانگِ درا 28: زہد اور رِندی)

تشریح:

ایک روز ان حضرت (مولوی صاحب) نے میرے جاننے والے سے پوچھا:-

کہ اقبال علمِ معانی و علمِ شعر کا بہت بڑا ماہر ہے۔


پابندیِ احکامِ شریعت میں ہے کیسا؟
گو شعر میں ہے رشکِ کلیمِؔ ہمَدانی

حلِ لغات:

احکامِ شریعتشریعت کے احکام / فرائض
گواگرچہ
شعرشاعری
رشکدوسروں کی خوبی خو میں پیدا کرنے کی خواہش
کلیمِ ہمدانیابوطالب کلیم، فارسی کا مشہور شاعر اور مغلیہ بادشاہ شاہجہاں کے دربار کا ملک الشعراء، وفات 1651ء بمقام سری نگر
حلِ لغات (بانگِ درا 28: زہد اور رِندی)

تشریح:

مجھے یہ تو بتاؤ کہ وہ (اقبال) احکامِ شریعت کا بھی پابند ہے یا نہیں؟

اگرچہ اسے (اقبال کو) اپنے فنِ شعر پر اِس قدر عبور حاصل ہے کہ اپنے عہد کا کلیمِ ہمدانی کہا جاسکتا ہے۔ واضح رہے کہ کلیم ہمدانی شاہجہاں کا درباری شاعر تھا، جسے ملک الشعراء کا خطاب ملا۔


سُنتا ہوں کہ کافر نہیں ہندو کو سمجھتا
ہے ایسا عقیدہ اثَرِ فلسفہ دانی

حلِ لغات:

عقیدہاعتقاد، مذہبی خیال
فلسفہ دانیعلمِ فلسفہ جاننا
حلِ لغات (بانگِ درا 28: زہد اور رِندی)

تشریح:

مجھے معلوم ہوا ہے کہ فلسفہ پڑھنے کے باعث اُس کا عقیدہ کچھ اس طرح کا ہوگیا ہے کہ وہ (اقبال) ہندو کو کافر نہیں سمجھتا۔


ہے اس کی طبیعت میں تشُّیع بھی ذرا سا
تفضیلِ علیؓ ہم نے سُنی اس کی زبانی

حلِ لغات:

تشّیعشیعہ پن
تفضیلِ علیؓحضرت علؓ کی فضیلت کی بات
حلِ لغات (بانگِ درا 28: زہد اور رِندی)

تشریح:

اس (اقبال) کی طبیعت میں ذرا سا شیعہ پن بھی ہے۔ کیونکہ ہم نے اس  کی زبان سے حضرت علیؑ کی فضیلت کی بات سن رکھی ہے۔


سمجھا ہے کہ ہے راگ عبادات میں داخل
مقصود ہے مذہب کی مگر خاک اُڑانی

حلِ لغات:

راگموسیقی، گانا، سماع
مقصودمطلوب، منظور
مذہب کی خاک اُڑانامذہب کو خراب / ذلیل کرنا
حلِ لغات (ببانگِ درا 28: زہد اور رِندی)

تشریح:

اور تو اور اقبالؔ گانے اور موسیقی کو بھی عبادات کا حصہ سمجھتا ہے۔ غالبًا وہ (اقبال) اپنی اس سوچ سے مذہب کا مذاق اڑانا چاہتا ہے ۔


کچھ عار اسے حُسن فروشوں سے نہیں ہے
عادت یہ ہمارے شُعَرا کی ہے پُرانی

حلِ لغات:

عارشرم غیرت
حُسن فروشحُسن بیچنے والیاں، مراد بازاری عورتیں
حلِ لغات (بانگِ درا 28: زہد اور رِندی)

تشریح:

ہمارے پرانے شاعروں کی طرح حُسن فروشوں کے پاس جانے سے بھی نفرت نہیں کرتا۔


گانا جو ہے شب کو تو سحَر کو ہے تلاوت
اس رمز کے اب تک نہ کھُلے ہم پہ معانی

حلِ لغات:

شبرات
سحرصبح کا وقت
رمزبھید، راز
کھُلناظاہر ہونا، سمجھ میں آنا
حلِ لغات (بانگِ درا 28: زہد اور رِندی)

تشریح:

عجیب بات یہ ہے کہ اگر رات کو گانا سنتا ہے تو صبح کو قرآن کی تلاوت کرتا ہے۔ اس تضاد میں جو راز ہے وہ آج مجھ پر تک مجھ پر واضح نہیں ہوا۔


لیکن یہ سُنا اپنے مُریدوں سے ہے مَیں نے
بے داغ ہے مانندِ سحرَ اس کی جوانی

حلِ لغات:

بے داغبے عیب، بُرائی سے پاک
مانندِ سحرصبح کی طرح
حلِ لغات (بانگِ درا 28: زہد اور رِندی)

تشریح:

لیکن میں نے اپنے مریدوں سے سنا ہے کہ ان تمام نقائص کے باوجود اُس (اقبال) کا دامن گناہوں سے پاک ہے۔


مجموعۂ اضداد ہے، اقبالؔ نہیں ہے
دل دفترِ حکمت ہے، طبیعت خفَقانی

حلِ لغات:

مجموعۂ اضدادکسی شخص میں متضاد باتیں جمع ہونا یعنی ایسی باتیں جو ایک دوسری کی ضِد ہوں
دفترِ حکمتحکمت و فلسفہ کی کتاب
خفقانیمالیخولیا / دِل دھڑکنے کی بیماری۔ مراد ہے جنونی اور سودائی سے
حلِ لغات (بانگِ درا 28: زہد اور رِندی)

تشریح:

ایسا لگتا ہے جیسے اقبال کی شخصیت میں بہت سے متضاد رویے جمع ہوگئے ہیں۔ اگر اُس کا دل علم و حکمت کا خزانہ ہے تو اس کی طبیعت میں قدرے جنون کے آثار دکھائی دیتے ہیں۔


رِندی سے بھی آگاہ، شریعت سے بھی واقف
پُوچھو جو تصوّف کی تو منصور کا ثانی

حلِ لغات:

رِندیآزاد منشی، دُنیا داری
تصوّفوہ علم جس کے ذریعے قلب کی صفائی حاصل ہو، تزکیۂ نفس کا طریقہ، صوفیاء کا مسلک
منصوراشارہ ہے منصور حلاجؒ کی طرف، جنہیں ”انا الحق“ کہنے پر پھانسی دی گئی
ثانیدوسرا، مانند
حلِ لغات (بانگِ درا 28: زہد اور رِندی)

تشریح:

یہ شخص دنیا داری سے بھی واقف ہے اور شریعت کی حقیقت سے بھی آگاہ ہے۔

اس کے علاوہ اگر اس (اقبال) سے  تصوف ہر گفتگو کی جائے تو یوں لگتا ہے کہ جیسے ہمارے سامنے دوسرا منصور حلاج موجود ہے۔ (اشارہ ہے حسین بن حلاج کی طرف، جس نے اناالحق کا نعرہ لگایا)۔


اس شخص کی ہم پر تو حقیقت نہیں کھُلتی
ہو گا یہ کسی اور ہی اسلام کا بانی

حلِ لغات:

حقیقت کھُلناحقیقت / اصلیّت ظاہر ہونا
بانیبنیاد رکھنے والا
حلِ لغات (بانگِ درا 28: زہد اور رِندی)

تشریح:

مولوی صاحب اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم پر اقبال کی حقیقت نہیں کھل سکی۔

ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے اقبال اس دنیا میں کسی اور طرح کے اسلام کی بنیاد رکھے گا۔


القصّہ بہت طول دیا وعظ کو اپنے
تا دیر رہی آپ کی یہ نَغْز بیانی

حلِ لغات:

القصّہقصۂ مختصر
طول دینالمبا کرنا
تا دیردیر تک
نَغز بیانیخوش بیانی (اقبالؔ نے یہاں یہ طنزاً استعمال کیا ہے)
حلِ لغات (بانگِ درا 28: زہد اور رِندی)

تشریح:

مختصر یہ کہ انہوں نے اپنے وعظ کو بہت طول دیا۔ یہ باتیں کیں۔

بڑی دیر تک اُن کی یہ نغز بیانی (خوش بیانی) جاری رہی۔


اس شہر میں جو بات ہو، اُڑ جاتی ہے سب میں
مَیں نے بھی سُنی اپنے اَحِبّا کی زبانی

حلِ لغات:

اُڑ جاتی ہےمشہور ہو جاتی ہے، پھیل جاتی ہے
احباحبیب کی جمع، دوست
حلِ لغات (بانگِ درا 28: زہد اور رِندی)

تشریح:

اس شہر میں جو بات ہو وہ بہت جلد پھیل جاتی ہے اور دوسروں تک پہنچ جاتی ہے۔ لہذا میں نے بھی اپنے دوستوں کے ذریعے اپنے بارے میں مولوی صاحب کی یہ گفتگو سن لی۔


اک دن جو سرِ راہ مِلے حضرتِ زاہد
پھر چھِڑ گئی باتوں میں وہی بات پُرانی

حلِ لغات:

سرِ راہراستے میں
حضرتِ زاہدجناب مولوی صاحب
بات چھِڑنابات شروع ہو جانا
حلِ لغات (بانگِ درا 28: زہد اور رِندی)

تشریح:

ایک دن حضرتِ زاہد (مولوی صاحب) مجھے راستے میں مل گئے۔ باتوں باتوں میں وہی پرانی بات چھِڑ گئی۔


فرمایا، شکایت وہ محبّت کے سبب تھی
تھا فرض مرا راہ شریعت کی دِکھانی

حلِ لغات:

سببوجہ
راہ دِکھاناصحیح راستہ پر ڈالنا
حلِ لغات (بانگِ درا 28: زہد اور رِندی)

تشریح:

مولوی صاحب کہنے لگے کہ آپ (آقبال) کے خلاف میری جو شکایت تھی، وہ محض آپ (اقبال) سے محبت کی وجہ سے تھی۔

محبت کی وجہ سے میرا یہ فرض تھا کہ آپ (اقبال) کو شریعت سے آگاہ کرکے آپ (اقبال) کی اصلاح کروں۔


مَیں نے یہ کہا کوئی گِلہ مجھ کو نہیں ہے
یہ آپ کا حق تھا ز رہِ قُربِ مکانی

حلِ لغات:

گِلہشِکوَپ، شکایت
حقفرض، دعویٰ
زرہِ قُربِ مکانیمکان کے قریب ہونے کی وجہ سے
حلِ لغات (بانگِ درا 28: زہد اور رِندی)

تشریح:

میں نے کہا کہ آپ (مولوی صاحب) کی باتوں سے مجھے کوئی شکایت نہیں ہے۔ میرے ہمسایہ ہونے کے حوالے سے آپ نے جو کچھ کہا، وہ آپ کا حق تھا۔


خم ہے سرِ تسلیم مرا آپ کے آگے
پِیری ہے تواضع کے سبب میری جوانی

حلِ لغات:

خم ہےجھکا ہوا ہے، رضامند ہے
سرِ تسلیم خم کرنابات ماننا، سر کو رضامندی سے جھُکانا
پیریبُڑھاپا
تواضععاجزی، انکساری، مُروّت
حلِ لغات (بانگِ درا 28: زہد اور رِندی)

تشریح:

آپ (مولوی صاحب) کے آگے میرا سر تسلیمِ خم ہے (یعنی آپ جو کچھ فرمائیں وہ درست ہے)

بلکہ آپ کے آگے جھکنے اور آپ کی تعظیم کرنے کے لیے میری جوانی بھی آپ کے سامنے بڑھاپے کی صورت اختیار کیے ہوئے ہے (اپنے عاجزی سے جھکنے کی طرف اشارہ ہے۔ خیال رہے کہ بڑھاپے میں انسان کی کمر کمزوری کے باعث جھک جاتی ہے)۔


گر آپ کو معلوم نہیں میری حقیقت
پیدا نہیں کچھ اس سے قصورِ ہمہ دانی

حلِ لغات:

حقیقتاصلیّت
قصورِ ہمہ دانیعلمیّت کا نقص
حلِ لغات (بانگِ درا 28: زہد اور رِندی)

تشریح:

اگر آپ (مولوی صاحب) کو میری حقیقی کیفیت سے واقف نہیں ہیں تو اِس میں آپ (مولوی صاحب) کی علمیت کا کوئی قصور نہیں ہے۔


مَیں خود بھی نہیں اپنی حقیقت کا شناسا
گہرا ہے مرے بحرِ خیالات کا پانی

حلِ لغات:

شناساجاننے والا، واقف
بحرِ خیالاتخیالات کا سمندر
حلِ لغات (بانگِ درا 28: زہد اور رِندی)

تشریح:

اس لیے کہ میں خود بھی اپنی حقیقت سے آگاہ نہیں ہوں (میں کیا ہوں اور کیسا ہوں، مجھ پر واضح نہیں ہے)۔

میرے خیالات کے سمندر کا پانی بہت گہرا ہے (جس طرح سمندر کے گہرے پانی تک پہنچنا مشکل ہے، کچھ یہی حال میری خیالات کا ہے، جنہیں سمجھنا مشکل ہے)۔


مجھ کو بھی تمنّا ہے کہ ’اقبال‘ کو دیکھوں
کی اس کی جُدائی میں بہت اشک فشانی

حلِ لغات:

‘اقبال’ کو دیکھوںخود اپنی ہستی کو پہچانوں
اشک فشانیآنسو بہانا، رونا
حلِ لغات (بانگِ درا 28: زہد اور رِندی)

تشریح:

میری خواہش بھی ہے کہ کسی دن میری اقبال سے ملاقات ہو۔

میں نے اس کی جدائی میں بہت آنسو بہائے ہیں (وہی بات کہ اپنی حقیقت سے باخبر ہونے کی آرزو جو ایک صاحبِ علم کے دل میں پیدا ہوتی ہے۔ مشہور قول ہے “من عرف نفسہ فقد عرف ربہ” یعنی جس نے اپنے آپ کو، اپنی ذات و اصلیت کو پہچان لیا، اس نے خدا کو پہچان لیا۔ اپنی معرفت کی آگاہی کے لیے زبردست جدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے)۔


اقبالؔ بھی ’اقبال‘ سے آگاہ نہیں ہے
کچھ اس میں تمسخر نہیں، و اللہ نہیں ہے

حلِ لغات:

‘اقبال’ سےیعنی اپنی ذات / حقیقت سے
آگاہواقف
تمسخرمذاق
واللہاللہ کی قسم
حلِ لغات (بانگِ درا 28: زہد اور رِندی)

تشریح:

حقیقت یہی ہے کہ میں خود بھی اپنی حقیقت سے واقف نہیں ہوں۔

اس بات میں کوئی مذاق نہیں ہے، خدا کی قسم کوئی مذاق نہیں ہے (یعنی جو کچھ میں نے اپنی حقیقت سے بے خبری کی بات کی ہے، وہ سنجیدگی سے کہی ہے)۔

نوٹ

اِس نظم کی خوبی یہ ہے کہ اس میں اقبالؔ نے واقعہ نگاری کا کمال دِکھایا ہے۔ اندازِ بیاں میں شوخی اور طنز کی وجہ سے بہت دِلکشی پیدا ہوگئی ہے۔ اِس نظم میں اُنہوں نے اپنی ابتدائی زندگی کے بعض پہلوؤں کو بے کم کو کاست واضح کیا ہے۔ آخری شعر میں اُنہوں نے زندگی کی ایک بہت بڑی حقیقت کو بے نقاب کیا ہے۔ اس میں کیا شک ہے کہ دُنیا میں بہت کم لوگ ایسے گذرے ہیں جنہوں نے اپنی حقیقت سے آگاہی حاصل کی ہے۔ یہ شعر (آخری شعر) صوفیا کے اس مشہور مقولہ سے ماخوذ ہے:-

من عرف نفسہ فقد عرف ربہ

ترجمہ: جس نے اپنے نفس کی معرفت حاصل کر لی، اُس نے اپنے رب (خدا) کی معرفت حاصل کر لی۔

(حوالہ: شرح بانگِ درا از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)

حوالہ جات

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments