Skip to content
بانگِ درا 156: شیکسپیئر

بانگِ درا 156: شیکسپیئر


نظم ”شیکسپیئر“ از علامہ اقبال

تعارف

علامہ اقبال نے نظم ”شیکسپیئر“ اُس وقت لِکھی جب انگریزی زبان کے مشہور ڈراما نگار اور شاعر پر دُنیا کے تقریباً تمام بڑے بڑے شعراء سے نظمیں لِکھوانے کی تحریک شروع ہوئی۔ اِس طرح جو نظمیں لِکھی گئیں اُن کے انگریزی تراجم ایک کتاب کی شکل میں شائع کیے گئے ہیں۔

شیکسپیئر 1564ء میں پیدا ہوا اور اُس نے 1616ء میں وفات پائی۔ تقریباً 1587ء میں شیکسپیئر لندن آگیا اور یہاں ”تھیٹریکل کمپنی“ میں قسمت آزمائی کی۔ 1594ء میں پہلا ڈراما لِکھا جو بہت کامیاب رہا۔ 1611ء تک ڈراما نگاری کا سلسلہ جاری رہا۔ شیکسپیئر کو دُنیا بھر کے انگریزی جاننے والے افراد پسند کرتے ہیں۔ شیکسپیئر انسانی نفسیات کا بہت بڑا مزاج دان تھا۔ اقبالؔ نے شیکسپیئر کی اِسی خوبی کو واضح کیا ہے۔

(حوالہ: شرح بانگِ درا از ڈاکٹر شفیق احمد)


شیکسپیئر انگلستان کا سب سے بڑا شاعر اور ڈراما نِگار تھا۔ آج دُنیا کی چند بڑی ادبی ہستیوں میں شمار ہوتا ہے۔ 1564ء میں پیدا ہوں، 1616ء میں وفات پائی۔ سٹریٹ فورڈ آن دی ایوان میں اُس کی قبر ہے۔

علامہ اقبال نے یہ نظم اُس وقت لِکھی جب یورپ میں دُنیا کے اکابر سے شیکسپیئر پر نظمیں لِکھوانے کی تحریک جاری ہوئی تھی اور اِن نظموں کا مجموعہ ایک خاص کتاب میں چھاپا گیا تھا۔ یہ نظم لِکھتے وقت اقبالؔ کے پیشِ نظر یہ حقیقت بھی تھی کہ اِس کا ترجمہ انگریزی زبان میں ہوگا۔

(حوالہ: مطالبِ بانگِ درا از مولانا غلام رسول مہرؔ)


زیرِ تشریح فرمائشی نظم دو بند پر مشتمل ہے۔ فرمائشی اِس لیے کہا گیا ہے کہ ایک روایت کے مطابق شیکسپیئر کے بارے میں دُنیا بھر کے بڑے بڑے شعراء سے نظمیں لِکھوانے کی تحریک چلی۔ اِن نظموں کے انگریزی تراجم بعد میں کتابی شکل میں شائع کیے گئے۔ علامہ اقبال نے بھی دُنیا کے اِس ممتاز ڈرامہ نگار اور شاعر کے بارے میں یہ نظم لِکھی تھی۔

(حوالہ: شرح بانگِ درا از اسرار زیدی)

YouTube video

نظم ”شیکسپیئر“ کی تشریح

بند نمبر 1

شفَقِ صبح کو دریا کا خرام آئینہ
نغمۂ شام کو خاموشیِ شام آئینہ

حلِ لغات:

شفقطلوعِ آفتاب اور غروبِ آفتاب کے وقت آسمان پر سُرخی چھا جاتی ہے، جسے شَفَق کہتے ہیں
خِرامچلنا، بہنا، روانی
نغمۂ شامشام کا گیت / ترانہ
(بانگِ درا 156: شیکسپیئر از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

علامہ اقبال شیکسپیئر سے فرماتے ہیں کہ:-

علی الصبح جب شفق (طلوعِ آفتاب اور غروبِ آفتاب کے وقت آسمان پر چھا جانے والی سُرخی) پھُوٹتی ہے اور اُس کا سُرخ عکس بہتے دریا پر پڑتا ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ شفق کے لیے دریا کا شفاف رواں پانی آئینے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص شام کے گیت سے لطف اندوز ہونا چاہتا ہے تو اُسے شام کے وقت چاروں طرف چھا جانے والی خاموشی کی طرف دھیان دینا چاہیے کہ یہ شام کے نغموں کے لیے آئینے کا کام کرتی ہے۔



برگِ گُل آئنۂ عارضِ زیبائے بہار
شاہدِ مے کے لیے حجلۂ جام آئینہ

حلِ لغات:

برگِ گُلپھول کی پنکھڑی
عارضِ زیباخوبصورت رُخسار
شاہدحسین، محبوب، معشوقہ
شاہدِ مےشراب کا عاشق
حُجلہسجا ہوا چھپرکھٹ (دُلہن کے لیے)، دُلہن کے بیٹھنے کا کمرہ
حُجلۂ جامپیالہ کی چھپرکھٹ
(بانگِ درا 156: شیکسپیئر از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

بہار کے خوبصورت چہرے اور رُخسار کے لیے پھول کی پتّی (برگِ گُل) آئینے کی حیثیّت رکھتی ہے اور  حسینۂ شراب کا حُسن اور اُس کی دِلکشی جامِ شراب (شراب کا پیالہ) سے ظاہر ہو سکتی ہے (شراب کو حسینہ اور جام کو حُجلہ سے تشبیہ دی ہے، حُجلہ دُلہن کے لیے سجائے ہوئے کمرے کو کہتے ہیں)

نوٹ:-

آئینہ سے وہ آلہ مراد ہے جو کسی شے کو یا اُس کی خوبیوں کو واضح کر دے یا اُس شے کے وجود کو ثابت کر دے، یا اُس کی طرف عقلِ انسانی کو منتقل کر دے۔ مثلاً برگِ گُل (پھول کی پتّی) بہار کے لیے آئینہ کا کام دیتا ہے یعنی:-

  1. برگِ گُل یا گُل دنیا میں بہار کے وجود کا مظہر ہے۔
  2. اس کو دیکھ کر دنیا کے لوگ یہ جان لیتے ہیں کہ بہا ر آگئی، اور ہمارا ذہن بہار کی طرف منتقل ہو جاتا ہے۔
  3. برگِ گُل سے بہار کی کیفیت اور نوعیت آشکارا ہو سکتی ہے، یعنی یہ سمجھ میں آجاتا ہے کہ بہار کسے کہتے ہیں۔
  4. آئینہ کے چوتھے اور عرفی معنی ہیں وہ شے جس میں کسی دوسری شے کا عکس یا جلوہ نظر آئے۔ آئینہ بمعنی مظہر یا واضح کرنے والا

حُسن آئینۂ حق اور دل آئینۂ حُسن
دلِ انساں کو ترا حُسنِ کلام آئینہ

حلِ لغات:

حقخدا
حُسنِ کلامکلام کی خوبی
(بانگِ درا 156: شیکسپیئر از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

حُسن حق کا آئینہ ہے یعنی حسین شے کے اندر خالقِ فطرت کا جلوہ نظر آتا ہے، اور  دِل حُسن و جمال کا آئینہ ہے یعنی کائنات کا حُسن، انسان کے دِل میں منعکس ہوتا ہے۔ اِسی طرح اے شیکسپیئر! تیرا حُسنِ کلام اور اسلوبِ بیان (فطرتِ انسانی کی عکاسی) دِل کا آئینہ ہے یعنی تیرا کلام انسانی دِل کی گہرائیوں کی آواز ہے، کیونکہ تُو اپنے کلام میں انسان کی قلبی واردات اور جذبات و حیات کی زندہ تصویر کھینچ دیتا ہے۔ واضح ہو کہ شیکسپیئر نے اپنے کلام میں انسانی فطرت کے مختلف پہلوؤں ہر نہایت عُمدہ روشنی ڈالی ہے اور کہا جا سکتا ہے کہ اِس وصف میں دُنیا کا کوئی شاعر شیکسپیئر کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔


ہے ترے فکرِ فلک رس سے کمالِ ہستی
کیا تری فطرتِ روشن تھی مآلِ ہستی

حلِ لغات:

فکرِ فَلَک رسآسمان تک پہنچنے والا خیال، بہت بلند تخیّل، ارفع و اعلیٰ خیالات
کمالِ ہستیزندگی / ہستی کی تکمیل
فطرتِ روشنایسا مزاج جس کی روشنی میں انسانی جذبوں کا پتا چلے
مآلانجام، نتیجہ
(بانگِ درا 156: شیکسپیئر از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

تیرا تخیّل بلندی میں آسمانوں سے باتیں کرتا ہے اور اُس کی رِفعت (بلندی) میں مجھے ہستیِ انسانی کا کمال نظر آتا ہے۔ کیا تیری فطرت (شخصیت) ہستی کا آخری مقصود تھی، یعنی شاید یہی وجہ ہے کہ تیرے بعد قدرت نے تجھ سا کوئی اور پیدا نہ کیا۔ اِس سوال سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اقبالؔ شیکسپیئر کی خلاقانہ صلاحیت کے کس قدر قائل تھے۔

بند نمبر 2

تجھ کو جب دیدۂ دیدار طلب نے ڈھُونڈا
تابِ خورشید میں خورشید کو پنہاں دیکھا

حلِ لغات:

دیدۂ دیدار طلبدیکھنے کی خواہشمند آنکھیں
تابِ خورشیدسورج کی روشنی
پِنہاںچھُپا ہوا
(بانگِ درا 156: شیکسپیئر از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

جب تیرا دیدار کرنے کی خواہاں آنکھ نے تجھے ڈھونڈا تو اُس نے سورج کو اُس کی شعاؤں اور روشنی میں چھُپا ہوا پایا۔ اگر کوئی آدمی سورج کو دیکھنا چاہے تو سورج کی تیز روشنی کے باعث وہ سورج کو نہیں دیکھ سکے گا، البتہ اِس روشنی اور سورج کی تیز شعاؤں کی وجہ سے سورج کی حقیقی قدر و قیمت کا اندازہ ضرور کر لے گا۔ اسی طرح جب کسی نے شیکسپیئر کو دیکھنا چاہا تو وہ شیکسپیئر کی حقیقی عظمت کا اندازہ تو نہ کر سکا، البتہ اُس کے کلام کی وجہ سے بڑی حد تک اُسے سمجھنے میں کامیاب ہو گیا۔


چشمِ عالَم سے تو ہستی رہی مستور تری
اور عالَم کو تری آنکھ نے عُریاں دیکھا

حلِ لغات:

چشمِ عالمدُنیا والوں کی آنکھ
مستُورچھُپی ہوئی، پوشیدہ
عُریاںظاہر، ننگا
(بانگِ درا 156: شیکسپیئر از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

حقیقت یہ ہے کہ دُنیا والے تجھے کما حقہ سمجھ نہیں سکے، لیکن تُو نے دنیا والوں کو کما حقہ سمجھ لیا اور اپنے کلام میں زندگی کے اسرار و رموز بے پردہ کر دیے۔ یہ مصرع:-

؏ اور عالم کو تری آنکھ نے عُریاں دیکھا

 اِس نظم کی جان ہے، کیونکہ شیکسپیئر کا کمالِ فن یہی ہے کہ دُنیا میں انسانی سیرت کے جتنے پہلو ذہن میں آ سکتے ہیں، اُس نے اُن سب کی عکاسی کر دی ہے۔


حِفظِ اسرار کا فطرت کو ہے سودا ایسا
رازداں پھر نہ کرے گی کوئی پیدا ایسا

حلِ لغات:

حفظ اسراررازوں کی حفاظت کرنا، رازوں کو چھُپانا
سودادھُن، خیال
رازداںمحرمِ اسرار، ایسا شخص جو رازوں سے آگاہ ہو
حلِ لغات ((بانگِ درا 156: شیکسپیئر از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)درا 156: شیکسپیئر)

تشریح:

فطرت کو اپنے راز چھُپانے کا ایسا جنون ہے کہ میرے خیال میں وہ تجھ جیسا رازدانِ فطرت دوبارہ پیدا نہ کرے گی، یعنی ایک ایسی شخصیّت تو پیدا ہو گئی جس نے بہت سے بھید کھول کر رکھ دیے اور زندگی کی حقیقتوں کو بے پردہ کر دیا، اگر تجھ جیسا کوئی اور پیدا ہو گیا تو باقی بھید بھی کھُل جائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ تجھ جیسی دوسری شخصیّت پیدا نہیں ہوگی۔ گویا اِس طرح اقبال نے شیکسپیئر کو بے مثال اور منفرد شاعر قرار دیا ہے۔

نظم ”شیکسپیئر“ پر تبصرہ

علامہ اقبال نے اس نظم میں شیکسپیئر کی خدمت میں خراجِ تحسین و عقیدت پیش کیا ہے اور کئی جگہ شاعرانہ مبالغہ سے اپنے کلام میں زور اور اثر پیدا کیا ہے۔

راقم الحروف بھی 1925ء تک شیکسپیئر کے پرِستاروں میں رہا۔ چنانچہ اُس زمانہ میں وابستگی کا یہ عالم تھا کہ انگیریزی تحریر اور تقریر میں اُس کے ڈراموں کے جملے استعمال کرنے کو کمالِ زندگی سمجھتا تھا۔ لیکن جب مثنوی پڑھی تو دُنیا ہی بدل گئی، نہ شیکسپیئر کا کہیں نشان رہا نہ بارکلے کا، نہ اسپنسر سے کوئی تعلق رہا نہ ہیوم سے۔ وہ دِن ہے اور آج کا دِن ہے، کوئی حسیں نظروں میں نہیں سماتا۔

در اصل علامہ اقبال اُس زمانہ میں انگریزوں کی اُس شیفتگی (محبت) سے متاثر ہو گئے تھے، جو اُس زندہ قوم کو اپنی زبان کے سب سے بڑے ڈرامہ نویس کے ساتھ ہے۔ جس کا اندازہ اِس بات سے ہو سکتا ہے کہ انگریز اکثر اوقات یہ کہا کرتے ہیں کہ اگر ہمیں سلطنتِ انگلشیہ اور شیکسپیئر۔۔ اِن دوںوں میں سے ایک چیز کے انتخاب پر مجبور کیا جائے تو ہم بلا تامل (بے دھڑک) شیکسپیئر کو انتخاب کریں گے۔ واضح ہو کہ انگریز ادیبوں اور نقادوں کا یہ قول محض شاعرانہ بیان ہے جو سراسر مبالغہ پر مبنی ہے، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ انگریز بہرحال انگریز ہے، جو قوم نہرِ سُوئز سے دست بردار نہیں ہو سکتی وہ اپنی پوری سلطنت سے کیسے دست بردار ہو سکتی ہے؟ ایں خیال است و محال است و جنوں۔

شیکسپیئر، جسے انگریز جوشِ عقیدت میں دُنیا کا سب سے بڑا شاعر سمجھتے ہیں، 1564ء میں پیدا ہوا تھا اور 1616ء میں وفات پائی۔ 1582ء میں اُس کے والدین نے اُس کی شادی ایسی لڑکی کے ساتھ کر دی جو اُس سے عمر میں صرف آٹھ سال بڑی تھی۔ پانچ سال تک اُس نیک بخت کی رفاقت سے بہرہ اندوز ہونے کے بعد وہ لندن چلا گیا تاکہ قسمت آزمائی کر سکے۔ یہاں آکر اُس نے ”تھیٹریکل کمپنی“ کے لیے ڈرامے لِکھنا شروع کیے۔ پہلا ڈرامہ 1594ء میں لِکھا جو بہت مقبول ہوا۔ یہ سلسلہ 1611ء تک جاری رہا۔ اُس کی وفات کے بعد 1623ء میں اُس کے ڈراموں کا پہلا مجموعہ شائع ہوا جس میں 36 ڈرامے شامل تھے۔

شیکسپیئر کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اُس نے اپنے ڈراموں میں انسانی فطرت کے اُن تمام پہلوؤں کو کسی نہ کسی طریقے سے واضح کر دیا ہے جو ہمارے ذہن میں آسکتے ہیں، اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ فطرتِ انسانی کا سب سے بڑا نباض یا ماہر تھا۔ اِس لیے ایک شاعر نے اِن الفاظ میں اُس کی شخصیت پر تبصرہ کیا ہے:-

”اُس میں انسانی خوبیوں کا ایسا عمدہ امتزاج پایا جاتا تھا کہ فطرت بھرے مجمع میں کھڑی ہو کر کہہ سکتی ہے کہ اگر میرا شاہکار دیکھنا ہو تو شیکسپیئر کو دیکھ لو“

اگر اِس نظم کو غور سے پڑھا جائے تو معلوم ہوگہ کہ لِکھتے وقت شاید یہی مقولہ علامہ اقبال کے پیشِ نظر تھا۔ کیونکہ اُنہوں نے بھی اسی سے ملتے جُلتے خیالات ظاہر کیے ہیں۔

(حوالہ: شرح بانگِ درا از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)

حوالہ جات


Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments