Skip to content
ضربِ کلیم 27: صُوفی سے

ضربِ کلیم 27: صُوفی سے


”صُوفی سے“ از علامہ اقبال

تعارف

ضربِ کلیم کی نظم ”صُوفی سے“ میں علامہ اقبال نے موجودہ دور کے گوشہ نشین رہبانیّت پسند اور بے عمل صوفیوں سے خطاب کیا ہے جو سائنس اور علومِ جدیدہ سے بہرہ ہیں۔

(حوالہ: شرح ضربِ کلیم از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)


اِس نظم میں حضرتِ علامہ ایک ایسے صوفی مزاج اور پرہیزگار مسلمان کے متعلق فرماتے ہیں جو پرانے خیال کا ہے اور پیر فقیر کا معتقد ہے۔

(حوالہ: شرح ضربِ کلیم از عارف بٹالوی)


‘فطرت کا علمی مُشاہدہ بھی کُچھ ویسا ہی عمل ہے جیسے حقیقت کی طلب میں صوفی کا سلوک و عرفان کی منازل طے کرنا۔’

(حوالہ: تشکیلِ جدید الہیّاتِ اسلامیہ از سیّد نذیر نیازی: خطبہ نمبر 3: ذاتِ الہیہ کا تصوّر اور حقیقتِ دُعا)

YouTube video

نظم ”صُوفی سے“ کی تشریح

تری نگاہ میں ہے معجزات کی دنیا
مری نگاہ میں ہے حادثات کی دنیا

حلِ لغات:

نگاہنظر
معجزاتمعجزہ کی جمع، وہ فعل جو عام عادت سے ماورا ہو، پیغمبر کا ایسا عمل معجزہ اور صوفی کی کرامت کہلاتا ہے
حادثاتحادثہ کی جمع، نئی نئی وجود میں آنے والی چیزیں
حلِ لغات (ضربِ کلیم 27: صُوفی سے)

تشریح:

اقبالؔ نے اِس شعر میں اُس صوفی کو خطاب کرتے ہوئے، جو صرف کرامات کی دُنیا میں بستا ہے اور اصل دُنیا سے کنارہ کش ہے، کہا ہے کہ:-

تُو صرف کرامات کی دُنیا میں محدود ہو کر رہ گیا ہے، یعنی تُو اس خیال میں رہتا ہے کہ تُو کوئی نِت نئے کرشمے دکھائے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ تیرے مرید بن جائیں اور میں اِس خیال میں متوجہ رہتا ہوں کہ دُنیائے حادثات کو کیونکر سنوارا جائے جس سے لوگ روحانیّت کی طرف بھی متوجّہ ہوں۔ تجھے لازم ہے کہ معجزات کی دُنیا سے باہر نکل کر حادثات و واقعات کی دُنیا کیا کا بھی مطالعہ کرے۔ یعنی یہ دیکھ کہ کائنات میں جس قدر حوادث رونما ہوتے ہیں، اُن کی عِلّت (وجہ، سبب) کیا ہے۔ واضح ہو کہ حوادثِ کائنات کی عِلّت دریافت کرنا، یہی تو سائنس کی بُنیاد ہے اور مسلمانوں کو دین کے ساتھ ساتھ سائنس (مثلاً طبیعات، کیمیا، علم الحیات وغیرہ) کا علم حاصل کرنا بھی ضروری ہے۔


تخیّلات کی دنیا غریب ہے، لیکن
غریب تر ہے حیات و ممات کی دنیا

حلِ لغات:

تخیّلاتتخیّل کی جمع، خیالات
غریبمسافر، یہاں مراد عجیب، انوکھی
غریب ترزیادہ عجیب
حیاتزندگی
مماتموت
حلِ لغات (ضربِ کلیم 27: صُوفی سے)

تشریح:

تیرے تخیّلات یعنی کرامات کی دُنیا بیشک عجیب ہے لیکن اُس سے بھی عجیب تر دُنیا یہ زندگی اور موت کی دُنیا ہے جس سے حقیقی طور پر ہر انسان کو واسطہ پڑتا ہے۔ اِس دُنیا کو چھوڑ نا اور فقط تخیّلات کی دُنیا میں رہنا اسلامی تصوّف نہیں ہے۔ اسلامی تصوّف تو وہ ہے جس میں روحانی دُنیا کے ساتھ ساتھ اِس مادی دُنیا سے بھی رابطہ رہے۔ علم الحيٰوة (Biology) اور علم الحیوان (Zoology) کا مطالعہ انسان کے لیے جس قدر ضروری ہے، اُس سے زیادہ دلچسپ ہے۔ اِن علوم سے ہم کو یہ معلوم ہو سکتا ہے کہ اللہ نے جہاں ہاتھی جیسی بڑی چیز پیدا کی ہے، وہاں ایسے چھوٹے کیڑے بھی پیدا کیے ہیں جو خورد بین (Microscope) کے بغیر نظر بھی نہیں آ سکتے۔ علاوہ بریں یہ معلوم کرنا بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ جاندار مخلوقات کیسے زندہ رہتی ہیں، اور کیسے مرتی ہیں۔

واضح ہو کہ اللہ تعالی نے مظاہرِ قدرت کو بھی اپنی آیات (نشانیاں) ارشاد فرمایا ہے:-

وَسَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِى السَّمَاوَاتِ وَمَا فِى الْاَرْضِ جَـمِيْعًا مِّنْهُ ۚ اِنَّ فِىْ ذٰلِكَ لَاٰيَاتٍ لِّـقَوْمٍ يَّتَفَكَّـرُوْنَ

اور اُس نے مسخّر کر دیا تمہارے لیے اپنی طرف سے جو کُچھ آسمانوں میں اور جو کُچھ زمین میں ہے، یقیناً اس میں نشانیاں (آیات) ہیں اُن لوگوں کے لیے جو غور و فکر سے کام لیں۔

(حوالہ: القرآن: سورۃ الجاثیہ: آیت نمبر 13)


عجب نہیں کہ بدل دے اسے نگاہ تری
بُلا رہی ہے تجھے مُمکنات کی دنیا

حلِ لغات:

عجبتعجب کی بات، حیرت
ممکناتممکن کی جمع، یہ مادی دُنیا جس میں ہزاروں قسم کے امکانات موجود ہیں یا عالمِ کون و مکاں کی دُنیا
حلِ لغات (ضربِ کلیم 27: صُوفی سے)

تشریح:

پس اسے صوفی! تُجھے چاہیے کہ ممکنات کی دُنیا کی طرف بھی متوجہ ہو۔ جس طرح مراقبہ ضروری ہے، اُسی طرح مشاہدہ بھی تو ضروری ہے۔ مسلمانوں کو اِن دونوں کی ضرورت ہے۔ مراقبہ سے ذکر کی قوّت ترقی کرتی ہے، مشاہدہ سے فکر کی قوّت میں ترقی ہوتی ہے۔ اور اقبالؔ کہتے ہیں کہ کوئی تعجب نہیں، اگر تُو ممکنات کی دنیا میں انقلاب پیدا کر دے۔ بقول علامہ اقبال:-

؎ کوئی اندازہ کر سکتا ہے اُس کے زورِ بازو کا
نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
(حوالہ: بانگِ درا: طلوعِ اسلام)

نوٹ

یہ صرف تین شعروں کی نظم ہے، لیکن بار بار پڑھنے اور سمجھنے کے لائق ہے۔ ضربِ کلیم کی خصوصیت یہ ہے کہ نہ الفاظ مشکل ہیں نہ تراکیب مشکل ہیں، نہ اسلوبِ بیان مشکل ہے۔ لیکن معانی اور مطالب بہت عمیق ہیں اور یہی کمالِ شاعری ہے۔ کہ آسان لفظوں میں بلند مضامین ادا کر دیے جائیں۔

(حوالہ: شرح ضربِ کلیم از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)

حوالہ جات


Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments