”فاطمہ بنت عبداللہ“ از علامہ اقبال
فہرست
تعارف
علامہ اقبال نے فاطمہ بنت عبداللہ کے حالات 13 نومبر 1912ء کے الہلال (جلد اول ص 18) میں پڑھے تھے، حالات کے ساتھ فاطمہ کی ایک رنگین تصویر بھی چھپی تھی جس پر سورۃ یوسف کی آیت نمبر 31 کے ساتھ مندرجہ ذیل عبارت درج تھی:-
مَا هٰذَا بَشَـرًا ؕ اِنْ هٰذَآ اِلَّا مَلَكٌ كَرِيْـمٌ
ترجمہ: یہ انسان تو نہیں، یہ تو کوئی بزرگ فرشتہ ہے۔
(حوالہ: القرآن: سورۃ یوسف: 31)
ایک یازدہ سالہ مجاہدہ عربیہ
السیدۃ فاطمہ بنت عبداللہ
رضی اللہ تعالی عنہ
مضمون کا خلاصہ یہ تھا کہ فاطمہ بنت عبداللہ قبیلہ ابراحصہ کے سردار شیخ عبداللہ کی صاحب زادی تھی۔ قبیلہ تعداد اور اثر و رسوخ کے اعتبار سے سب سے بڑا تھا۔ ترک لوگ عرب مجاہدوں کو سرکاری خزانہ سے خوراک وغیرہ کے لیے کچھ رقم دیا کرتے تھے۔ شیخ نے اس کے قبول سے بھی انکار کر دیا اور حقیقی معنی میں جہاد فی سبیل اللہ کا حق ادا کیا۔ ان کے خاندان کی تمام عورتیں اور مرد میدانِ جنگ میں شہید ہوئے اور شیخ نے بھی شہادت پائی۔
فاطمہ کے متعلق ڈاکٹر اسمعیل ثباتی نے جو حالات بیان کیے ہیں ان کا خلاصہ یہ تھا کہ اس کی عمر صرف گیارہ سال تھی۔ اگرچہ عربوں کی بہت سی عقرتیں زخمیوں کی خدمت اور دیکھ بھال کرتی تھیں اس لیے کہ زخمی عموماً ان کے عزیز اور ہم قبیلہ ہوتے تھے لیکن فاطمہ اس وجہ سے قابلِ ذکر تھی کہ عمر میں سب سے چھوٹی تھی۔ دوسری خصوصیت یہ تھی کہ وہ اپنا چھوٹا سامشکیزہ کندھے پر اُٹھائے ہر لحظہ پیاسوں کو پانی پلانے اور زخمیوں کی خدمت بجا لانے میں مصروف رہتی تھی۔ اگرچہ قدم قدم پر گولوں اور گولیوں کی بوجھاڑ ہوتی تھی لیکن فاطمہ کبھی کسی خطرہ سے ہراساں نہ ہوئی۔ جون 1912ء میں بارہ ہزار اطالویوں نے زوارہ کے مقام پر حملہ کیا۔ مقابلہ میں عرب اور ترک صرف تین ہزار تھے۔ لڑائی عصر کے وقت تک جاری رہی۔ آخر اطالوی بارہ سو لاشیں چھوڑ کر بھاگ گئے۔
فاطمہ کی شہادت کا واقعہ ڈاکٹر اسمعیل نے یوں بیان کیا ہے کہ اطالوی توپوں سے آگ برس رہی تھی۔ میں نے ظہر کے وقت فاطمہ کو دیکھا، اس کا چہرہ دھویں اور تپش سے جھلسا ہوا تھا، بالوں پر سرخی مائل ریت کی تہہ جمی ہوئی تھی۔ اس کے والد شیخ عبداللہ جنگ میں شریک تھے اور والدہ خود فاطمہ کی طرح زخمیوں کی دیکھ بھال میں لگی ہوئی تھیں۔ عصر کے وقت مجاہدوں کا ایک دستہ اطالویوں پر ٹُوٹ پڑا۔ احمد نوری بے، ایک ترک افسر بھی اپنے تیش سپاہیوں کو لے کر ساتھ ہو گیا۔ راستے میں ان کی مٹ بھیڑ ایک اطالوی طبش سے ہو گئی جو گھات میں چھپا بیٹھا تھا۔ فاطمہ اس ترک دستہ کے ساتھ تھی۔ اطالویوں نے دستہ کو نرغہ میں لے لیا۔ آخر ترکوں نے جوشِ شجاعت سے کام لے کر اپنے لیے راستہ پیدا کر لیا اور ان کے چار بہادر سپاہی زخم کھا کر گر گئے۔ فاطمہ نے دوڑ کر اپنا مشکیزہ ایک زخمی ترکے کی سینہ پر رکھ دیا اور چاہتی تھی کہ مشکیزہ کا منہ زخمی کے لبوں سے لگا دے۔ اسی اثنا میں ایک اطالوی نے گریبان سے پکڑ لیا۔ فاطمہ نے اپنے آپ کو بے قابو پا کر بجلی کی تیزی سے زخمی ترک کی تلوار اُٹھائی اور اس زور سے اطالوی پر وار کیا کہ اس کا پونچا کٹ کر گِر گیا۔ فاطمہ پھر اپنے کام میں مشغول ہو گئی۔ اطالوی نے پیچھے ہٹ کر بندور اُٹھائی اور اس معصوم مجاہدہ کو چشمِ زدن میں شہید کر ڈالا۔ جنگ کے بعد عرب اور ترک اپنے زخمیوں کی تلاش میں نکلے تو اس مقام پر چار بہادر ترک بے ہوش پڑے تھے۔ ان کے پاس سیدہ فاطمہ کی نعش تھی، اس کا مشکیزہ ترک غازی کے سینے پر پڑا تھا۔ مشکیزہ کا منہ لبوں پر نہ تھا، جس سے معلوم ہوا کہ سیدۃ فاطمہ ترک غازی کو پانی نہ پلا سکی تھی۔
اس واقعہ سے متاثر ہو کر اقبالؔ نے یہ نظم لکھی۔ نظرِ ثانی میں اس کے بعض اشعار قلمزد کر دیے، بعض میں جزوی ترمیم فرما دی۔
(حوالہ: مطالبِ بانگِ درا از مولانا غلام رسول مہر)
یہ جگر دوز مرثیہ اقبالؔ نے فاطمہ بنت عبداللہ کی یاد میں لکھا تھا، جو طرابلس کی جنگ میں غازیوں کا پانی پلاتی ہوئی شہید ہوئی تھی۔ اس شیر دِل عرب لڑکی کی شہادت کا حال میں نے 12 نومبر 1912ء کے الہلال میں پڑھا تھا جو اس زمانہ میں مسلمانانِ ہند کے محبوب اور ان کی امیدوں کے مرکز جناب ابوالکلام آزاد کی ادارت میں کلکتہ سے شائع ہوتا تھا۔ دل تو یہ چاہتا ہے کہ اس موضوع پر بہت کچھ لکھوں لیکن یہ بانگِ درا کی شرح ہے نہ کہ ہندی مسلمانوں کی تاریخ۔
اس نظم سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ اقبالؔ اس زمانہ میں ملت کے غم میں اشکبار رہتے تھے، یہی وجہ ہے کہ انھوں نے فاطمہ بنت عبداللہ کو زندگیٔ دوام عطا کر دی۔ جب تک مسلمان بانگِ درا پڑھتے رہیں گے، اس بہادر عرب لڑکی کا نام بھی زندہ رہے گا۔ انشاءاللہ۔
اطالیہ نے ستمبر 1911ء میں طرابلس پر حملہ کیا تھا۔ اس وقت ترکی سلطنت کے پاس صرف دو جنگی جہاز تھے وہ بھی مرمت طلب، رہی بری فوج تو اس کا راستہ اطالوی شیاطین کے بھائیوں یعنی انگریزوں نے مصر کی ناکہ بندی کر کے روک دیا تھا۔ اس لیے شیخ سنوسی مرحوم نے جو طرابلسی عربوں کے دینی اور سیاسی قائد تھے، اسلام کی عظمت برقرار رکھنے کے لیے جہاد فی سبیل اللہ کا اعلان کیا اور مسلمان اس بے سر و سامانی کی حالت میں سرفروشی کے لیے میدان میں آئے کہ نہ توپیں تھیں، نہ سپلائی تھی، نہ سامانِ رسد، نہ کوئی طبی امداد تھی، نہ کمک کی امید، زندوں کو لباس تھا نہ مُردوں کو کفن۔ بے کسی کا کچھ اندازہ اس بات سے ہو سکتا ہے کہ فاطمہ بنت عبداللہ میدانِ جنگ میں مشکیزہ کاندھے پر اُٹھائے زخمیوں کا پانی پلاتی پھر رہی تھی۔ فاطمہ بے شک شہید ہو گئی لیکن ہزاروں مسلمانوں کے دِلوں میں آگ لگا کر، ان کو زندہ کر گئی۔ کاش ہمارے کالجوں کی مسلمان لڑکیاں اس جاہل مگر مسلمان لڑکی کی پاکیزہ زندگی سے کچھ سبق حاصل کر سکیں۔
(حوالہ: شرح بانگِ درا از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)
فاطمہ بنت عبداللہ کے قدرے تفصیلی حالات 13 نومبر 1912ء کے الہلال (جلد اول صفحہ 18) میں ایک رنگین تصویر کے شاتھ شائع ہوئے تھے۔ الہلال کے مطابق فاطمہ بنت عبداللہ ایک عرب سردار شیخ عبداللہ کی بیٹی تھیں۔ شیخ عبداللہ نے جنگِ طرابلس میں اسلامی لشکر کے ساتھ حصہ لیا۔ شیخ کے قبیلے کے سب لوگ عورتوں سمیت جنگ میں شریک تھے۔ عورتیں مردوں کی مدد کے علاوہ زخمیوں کی مرہم پٹی اور غازیوں کو پانی پلانے کا کام بھی کرتی تھیں۔ ایک محاذ پر شیخ عبداللہ کی کمسن بیٹی فاطمہ بھی موجود تھیں۔ وہ ایک زخمی ترکی کو پانی پلانا چاہتی تھیں۔ ایک اطالوی نے فاطمہ کو روکنا چاہا۔ فاطمہ نے تلوار اُٹھائی اور اطالوی کو زخمی کر دیا لیکن فاطمہ کو بندوق کا نشانہ بنا دیا گیا اور یوں وہ جہاد کے دوران شہید ہو گئیں۔ اس واقعہ سے متاثر ہو کر اقبالؔ نے یہ نظم لکھی۔ نظرِ ثانی میں اس کے بعض اشعار قلمزد کر دیے، بعض میں جزوی ترمیم فرما دی۔
(حوالہ: شرح بانگِ درا از ڈاکٹر شفیق احمد)
نظم ”فاطمہ بنت عبداللہ“ کی تشریح
بند نمبر 1
فاطمہ! تُو آبرُوئے اُمّتِ مرحوم ہے
ذرّہ ذرّہ تیری مُشتِ خاک کا معصوم ہے
علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ:-
اے فاطمہ بنتِ عبداللہ! تُو اُس اُمت کی عزت و آبرو ہے جس پر اللہ تعالی نے اپنی رحمت کا نزول فرمایا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ تیرے جسم کا ذرہ ذرہ گناہوں سے پاک اور منزّہ ہے۔
یہ سعادت، حُورِ صحرائی! تری قسمت میں تھی
غازیانِ دیں کی سقّائی تری قسمت میں تھی
اے صحرا کی حُوریہ! دراصل یہ سعادت تیرے ہی حصے میں آئی تھی کہ دین کی راہ میں جان قربان کرنے والوں اور فاتح جوانوں کو میدانِ کارزار میں پانی پلانے کا شرف حاصل کرے۔ تُو نے اُن مجاہدوں کو پانی پلانے کا فریضہ انجام دیا جو اللہ تعالی کے دین کی حفاظت کے لیے جہاد کر رہے تھے، بیشک یہ بہت بڑے اعزاز کی بات ہے۔
یہ جہاد اللہ کے رستے میں بے تیغ و سِپَر
ہے جسارت آفریں شوقِ شہادت کس قدر
تُو نے خدا کی راہ میں تلوار اور ڈھال کے بغیر جہاد کیا، تیرے پاس سامانِ جنگ موجود نہ تھا کہ دشمنوں سے اپنی حفاظت کر سکے، اس کے باوجود تُو اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر مجاہدینِ اسلام کو پانی پلاتی رہی اور اُن کی پیاس بجھاتی رہی۔ اللہ اللہ! شہادت حاصل کرنے کے شوق نے تجھ میں کیسی جرأت و دلیری پیدا کردی۔
یہ کلی بھی اس گُلستانِ خزاں منظر میں تھی
ایسی چنگاری بھی یا رب، اپنی خاکستر میں تھی!
اللہ اکبر! میری قوم میں ابھی تک ایسی بہادر لڑکیاں موجود ہیں جو اللہ کے راستے میں جان دے سکتی ہیں! میں تو یہ سمجھتا تھا کہ اب صرف راکھ ہی باقی رہ گئی ہے لیکن نہیں! میں غلطی پر تھا، اس راکھ (قوم) میں کچھ چنگاریاں (عاشقانِ اسلام) اب بھی موجود ہیں۔
ملّتِ اسلامیہ کو راکھ سے اس لیے تشبیہ دی ہے کہ اس کے افراد میں جواں مردی اور ہمت و عمل کا وہ جوش باقی نہ رہا جس نے بزرگوں کو ثریّا کی بلندیوں پر پہنچا دیا تھا۔ اِن حالات میں فاطمہ بنت عبداللہ کی قربانی یقیناً اس بات کی علامت ہے کہ مسلمان قوم میں دین کی خاطر جان قربان کرنے کا جذبہ آج بھی موجود ہے۔
اپنے صحرا میں بہت آہُو ابھی پوشیدہ ہیں
بجلیاں برسے ہُوئے بادل میں بھی خوابیدہ ہیں!
فاطمہ بنت عبداللہ کی زندگی کو دیکھ کر اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ہمارے صحرا میں ابھی بہت سے ہرن چھپے ہوئے ہیں، یعنی اس خستہ حالت میں بھی ہماری قوم کے اندر ایسے افراد موجود ہیں جن کے دِل جذبۂ ایمانی کے نور سے منوّر ہیں۔ گو مسلمان ایک برسے ہوئے بادل کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کی تمام توانائی زائل ہو چکی ہے،اس کے باوجود ان میں فاطمہ بنت عبداللہ جیسی مجاہدہ کی صورت میں بیشمار بجلیاں چھپی ہوئی ہیں۔ فاطمہ بنت عبداللہ کی قربانی نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ مسلمانوں میں آج بھی بہت سے شیر دِل اور جذبۂ شہادت سے سرشار افراد موجود ہیں جو اللہ تعالی کے دین کی سربلندی کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کے لیے تیار ہیں۔
بند نمبر 2
فاطمہ! گو شبنم افشاں آنکھ تیرے غم میں ہے
نغمۂ عشرت بھی اپنے نالۂ ماتم میں ہے
حضرت اقبالؔ اسلام کی اس عظیم بیٹی کی شہادت پر رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:-
اے فاطمہ بِٹیا! اگرچہ تیرے غم میں ہماری آنکھیں آنسو بہا رہی ہیں، لیکن ہمارے اس غم میں مسرّت کا پہلو بھی شامل ہے۔
رقص تیری خاک کا کتنا نشاط انگیز ہے
ذرّہ ذرّہ زندگی کے سوز سے لبریز ہے
اے بیٹی! ہمیں تیری شہادت کا بہت رنج ہوا ہے، لیکن تیری خاک کا رقص یعنی تیرا میدانِ جنگ میں یوں چلنا پھرنا اور مجاہدینِ اسلام کو پانی پلانا بڑا ہی مسرّت و شادمانی کا باعث بن رہا ہے۔
تیری مٹی کا ذرہ ذرہ حقیقیی زندگی کی تڑپ اور سوز و گداز سے لبریز ہے۔ تُو نے جس بہادری سے جامِ شہادت نوش کیا، تیری خاک کا ذرہ ذرہ اس جوش و جذبے کی گواہی دے رہا ہے۔
ہماری آنکھیں تو تیرے غم میں رو رہی ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اس بات کی خوشی بھی ہوئی ہے کہ تُو نے اس گئے گزرے زمانے میں ملتِ اسلامیہ کی لاج رکھ لی۔ تیری اس قربانی سے یہ واضح ہو گیا کہ مِلتِ اسلامیہ میں آج بھی مومن لوگ موجود ہیں۔
ہے کوئی ہنگامہ تیری تُربتِ خاموش میں
پل رہی ہے ایک قومِ تازہ اس آغوش میں
تیری قبر پر بظاہر خاموشی طاری ہے، لیکن تیری اس عظیم قربانی نے مسلمانوں کے دِلوں کی بیداری کا سامان کر دیا ہے۔ اگرچہ تُو اب قبر میں ہے لیکن تیرا عظیم جہاد دوسرے مسلمانوں کے دِلوں میں عظیم جذبہ پیدا کر رہا ہے۔ تیری شہادت سے میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ میری قوم دوبارہ سر بلندی حاصل کرے گی۔
بے خبر ہوں گرچہ اُن کی وسعتِ مقصد سے میں
آفرینش دیکھتا ہوں اُن کی اس مرقد سے میں
میں اُن مسلمانوں کے مقاصد کی وسعت اور بلندی سے بے خبر ہوں لیکن یہ دیکھ رہا ہوں کہ اس قوم کی ابتداء اور پیدائش تیرے مزار سے ہو رہی ہے۔ تیری شہادت نے انقلاب کی راہیں ہموار کردی ہیں۔ تیرا اس طرح اللہ تعالی کی راہ میں قربان ہونا دوسرے مسلمانوں کے دِلوں میں جوش و جذبہ پیدا کر رہا ہے۔ تیری شہادت سے دوسرے مسلمان بھی میدانِ عمل میں آرہے ہیں۔ چنانچہ میں دیکھ رہا ہوں کہ تیری خاک سے سرفروش مسلمانوں کی ایک ایسی جماعت پیدا ہوگی جو از سرِ نو اسلام کا نام دنیا میں بلند کرے گی۔ مسلم نوجوان تیرے اس عظیم کارنامے سے سبق حاصل کر کے خود کو تیرے جیسے جذبوں سے سرشار کریں گے۔
تازہ انجم کا فضائے آسماں میں ہے ظہور
دیدۂ انساں سے نامحرم ہے جن کی موجِ نور
میں دیکھ رہا ہوں کہ آسمان کی فضا میں ایسے ستارے (مسلمان) روشن ہونے والے ہیں جن کی چمک دمک کی لہریں ابھی تک انسان کی آنکھ نے نہیں دیکھیں۔
جو ابھی اُبھرے ہیں ظُلمت خانۂ ایّام سے
جن کی ضَو ناآشنا ہے قیدِ صبح و شام سے
وہ ستارے (مسلمان) ابھی زمانہ کے اندھیرے سے باہر نکلے ہیں۔ ان کی روشنی صبح و شام کی پابندی سے آزاد ہے یعنی یہ صورت نہیں ہے کہ شام ہو تو چمکیں اور صبح ہو تو غائب۔۔ وہ ہمیشہ چمکتے رہیں گے۔ (یعنی مسلمان اب خوابِ غفلت سے بیدار ہورہے ہیں)
جن کی تابانی میں اندازِ کُہن بھی، نَو بھی ہے
اور تیرے کوکبِ تقدیر کا پرتَو بھی ہے
ان ستاروں کی روشنی میں پرانا انداز بھی موجود ہے اور نیا بھی یعنی قوم کے اندر ایسے افراد پیدا ہو رہے ہیں جن کے اندر بزرگوں کا طریقہ (اندازِ کہن) بھی ہے اور اندازِ نو بھی ہے یعنی یہ سچے مسلمان حالاتِ حاضرہ سے بھی آگاہ ہیں اور عصرِ حاضر کے تقاضوں کو بھی پہچانتے ہیں۔ نیز یہ ستارے (مسلمان) تیری تقدیر کے ستارے کا بھی عکس ہیں (یعنی ان ستاروں کے طرزِ عمل میں فاطمہ بنتِ عبداللہ کی سر فروشی کا رنگ بھی پایا جاتا ہے)، وہ تیری ہی راہ پر چلیں گے اور تیری طرح اللہ تعالی کی راہ میں جہاد کر کے خود کو زندہ و جاوید بنا لیں گے۔
ستاروں میں نئے اور پرانے انداز کی بیک وقت موجودگی کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان نوجوان قدیم روایات اور زندگی کے نئے تقاضوں کو ایک ساتھ لے آگے بڑھیں گے
”فاطمہ بنت عبداللہ“ از طالب الہاشمی
فاطمہ بنتِ عبداللہ نہ کسی ملک کی فرماں روا تھی اور نہ کسی فرمانروا کی بیٹی۔ نہ وہ کوئی عالمہ فاضلہ خاتون تھی اور نہ کسی فن یا ہنر میں یکتا۔۔۔ وہ تو گیارہ سال کی ایک معصوم اور پاک باز بچی تھی، لیکن اس نے اپنے خونِ شہادت سے صفحۂ تاریخ پر جو داستان رقم کی اس کی بدولت وہ آج تک فرزندانِ توحید کے دِلوں پر حکومت کر رہی ہے، اس کا نام سن کر ان کے دِلوں کی دھڑکنیں تیز ہو جاتی ہیں اور وہ بے اختیار اس پر رحمت کے پھول نچھاور کرتے ہیں۔ جب تک مہر و ماہ میں روشنی باقی ہے، فاطمہ بنت عبداللہ کے خونِ شہادت کی سرخی کا پرتو بھی باقی رہے گا۔
فاطمہ طرابلس (لیبیا) کے ایک طاقتور قبیلے براعصہ سے تعلق رکھتی تھی۔ اس کے والد شیخ عبداللہ اس قبیلے کے سردار اور بڑے اثر و رسوخ کے مالک تھے۔ وہ ایک دین دار، بہادر، غیور اور مخلص مسلمان تھے اور اپنے قبیلے میں ”عبدہ“ کے لقب سے مشہور تھے۔ شیخ عبداللہ کے نرینہ اولاد کوئی نہیں تھی، صرف ایک لڑکی فاطمہ تھی جسے وہ بہت عزیز رکھتے تھے۔ فاطمہ نے صحرا کے آزاد ماحول میں پرورش پائی اور گھر کے دینی ماحول میں تعلیم حاصل کی۔
1912ء میں اٹلی نے طرابلس الغرب پر حملہ کر دیا۔ اس زمانے میں طرابلس الغرب خلافتِ عثمانیہ کے زیرِ نگین تھا۔ ترکی حکومت نے بھی اٹلی کے خلاف اعلانِ جہاد کر دیا اور دونوں ملکوں کے درمیان خونریز لڑائی چھڑ گئی۔ طرابلس کے مسلمان دعوتِ جہاد پر بے تابانہ اُٹھ کھڑے ہوئے اور جوق در جوق میدانِ جہاد میں پہنچ گئے۔ ان کے ساتھ ان کی خواتین اور بچے بھی تھے۔ عورتوں میں بوڑھی خواتین کے ساتھ نو عمر لڑکیاں بھی شامل تھی جن کے ابھی کھیل کود کے دِن تھے، اور ایسی خواتین بھی تھیں جن کی گود میں دودھ پیتے بچے تھے، لیکن وہ سب جذبۂ جہاد سے سرشار تھیں۔ وہ زخمی مجاہدین کو پانی پلاتیں اور ان کی مرہم پٹی کرتی تھیں۔
اس لڑائی میں شیخ عبداللہ نمایاں حصہ لے رہے تھے، انہوں نے اپنے اثر و رسوخ سے کام لے کر طرابلس کے مختلف قبائل کو متحد اور منظم کر کے میدانِ جہاد میں لا کھڑا کیا تھا۔ خون ان کے اپنے جذبۂ جہاد کی یہ کیفیت تھی کہ اپنے گھر کا تمام ساز و سامان راہِ حق میں ترک افسروں کو سے دیا تھا اور وہ وظیفہ لینے سے بھی معذرت کر لی تھی جو خلافتِ عثمانیہ کی طرف سے ایامِ جنگ میں عرب مجاہدین کو دیا جاتا تھا۔ ان کے ساتھ ان کے قبیلے اور خاندان کے سبھی لوگ جہاد میں شریک تھے۔ ان میں شیخ کی لختِ جگر گیارہ سالہ فاطمہ بھی شامل تھی۔ اس کمسن مجاہدہ نے جان ہتھیلی پر رکھ کر اپنے آپ کو مجاہدین کی خدمت کے لیے وقف کر دیا تھا۔ وہ اس وقت بھی زخمی مجاہدوں کو اپنے مشکیزے سے پانی پلکا رہی ہوتی جب دشمنوں کی طرف سے گولوں کی بارش ہو رہی ہوتی۔ اسے ایک ہی دھن تھی کہ جس طرح بھی ہو سکے زخمی مجاہدوں کی مدد کے لیے ان تک پہنچ جاؤں یا اسی کوشش میں اپنی جان قربان کر دوں۔ ایک ترک افسر ڈاکٹر اسماعیل ثباتی نے اس جنگ کے چشم دید حالات لکھے ہیں، وہ اس ننھی مجاہدہ کے بارے میں لکھتے ہیں:-
میں نے سب سے پہلے کمسن فاطمہ کو اس وقت دیکھا جب میں اپنے فوجی دستے کے ساتھ عزیزیہ سے زوارہ پہنچا۔ یوں تو فوج میں بہت سی خواتین اور لڑکیاں تھیں کیوں کہ بیشتر عرب مجاہدین اپنے اہلِ خاندان کو بھی ساتھ لے آئے تھے، لیکن فاطمہ ان میں منفرد نظر آتی تھی۔ ایک تو اس لیے کہ وہ بہت کم عمر تھی اور دوسرے اس لیے کہ خوف یا ڈر اس کو چھو کر بھی نہ گیا تھا۔ توپیں گولے اُگل رہی ہوں، گولیوں کی بوچھاڑ ہو رہی ہو یا تلواروں اور سنگینیوں سے دست بدست لڑائی ہو رہی ہو، غرض کیسا ہی خطرناک موقع ہو، فاطمہ اپنے مشکیزے سمیت وہاں پہنچ جاتی تھی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس کے دل میں شوقِ شہادت کے شعلے بھڑک رہے ہیں۔ یہ شوق اس کی چھوٹی عمر سے کوئی مناسبت نہ رکھتا تھا۔ ایک مرتبہ بارود کے دھویں سے ہر طرف اندھیرا چھا گیا۔ توپوں کی گڑ گڑاہٹ سے زمین ہل رہی تھی۔ گولوں کے پھٹنے سے بار بار چمک پیدا ہوتی، اس کے ساتھ ہی زخمیوں کی چیخ و پکار حشر برپا کر دیتی۔ اس ہولناک موقع پر وہ ننھی مجاہدہ اپنا اونچا کرتا پہنے اور پھٹی ہوئی چادر کمر کے گرد لپیٹے بے بس اور مجبور زخمیوں کی مدد کے لیے دوڑی پھرتی تھی، جیسے خدا نے آسمان سے کوئی فرشتہ بھیج دیا ہو۔ فاطمہ کو اپنے گرد و پیش کا جیسے علم ہی نہ تھا اور ایک ہی لگن تھی کہ زخمیوں تک پانی پہنچاؤں۔ کچھ دیر بعد ننھی فاطمہ میرے قریب سے گزری، میں نے لپک کر اس کا بازو پکڑ لیا اور کہا
”ننھی کیا تجھے معلوم نہیں کہ تُو اپنے باپ کی ایک ہی بیٹی ہے۔“
فاطمہ نے کہا:-
”مجھے چھوڑ دو، کیا تمہیں نظر نہیں آتا کہ اسلام اور وطن کے کتنے جاں نثار پانی نہ ملنے کے باعث جاں بہ لب ہیں اور شاید تمہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ میرے ابا جان اور امی جان بھی اللہ کی راہ میں جانیں قربان کر چُکے ہیں۔“
یہ کہہ کر اُس نے اپنا بازو چھڑا لیا اور تیزی سے دھویں میں غائب ہو گئی۔ ننھی فاطمہ کہا کرتی تھی کہ مجھے سرخ رنگ بہت پسند ہے۔ آہ! یہی رنگ میں نے ایک دِن اُس کی گردن سے نیچے بہتا ہوا دیکھا۔
اثنائے جنگ میں ایک دن بارہ ہزار سے زیادہ اطالوی فوج نے مسلمانوں پر بھرپور حملہ کر دیا۔ مسلمانوں کی تعداد تین ہزار سے بھی کم تھی لیکن انہوں نے ڈٹ کر مقابلہ کیا اور دشمن کو پیچھے دھکیل دیا۔ اس کے بعد دشمن نے ہولناک گولہ باری شروع کردی۔ ننھی فاطمہ برستے گولوں میں سے زخمیوں کو پانی پلاتی پھرتی تھی۔ عصر کے وقت عربوں کا ایک دستہ سر بکف دشمنوں کی صفوں میں گھس گیا۔ ایک ترک افسر احمد نوری بے نے انہیں خطرے میں دیکھا تو کچھ ترک سپاہیوں کو ساتھ لے کر ان کی مدد کے لیے آگے بڑھا اور لڑتا بھڑتا دشمن کے مشرقی توپ خانے تک جا پہنچا۔ وہاں تازہ دم اطالوی فوج نے مسلمانوں کو گھیر لیا۔ ترک مجاہدین یہ گھیرا توڑ کر نکل آئے لیکن چار ترک سپاہی شدید زخمی ہو کر زمین پر گر گئے۔ اطالوی درندے ان بے بس زخمیوں کو اپنی سنگینوں سے بھنبھوڑنے لگے۔ عین اسی وقت چشمِ فلک نے ایک عجیب منظر دیکھا، ننھی فاطمہ اپنا مشکیزہ لیے ہوئے وہاں نمودار ہوئی اور مشکیزہ ایک جاں بہ لب زخمی کے منہ سے لگا دیا۔ دو اطالوی سپاہیوں نے اسے گریبان سے پکڑ لیا۔ فاطمہ نے تڑپ کر ایک زخمی سپاہی کی پاس پڑی ہوئی تلوار اُٹھا کر ایک اطالوی سپاہی کو اس زور سے ماری کہ اس کا ہاتھ زخمی ہو گیا۔ دوسرے اطالوی سپاہی نے فوراً اس پر گولی چلا دی، اور وہ شہید ہو کر فرشِ خاک پر گر گئی۔ یکایک مسلمان دستے یلغار کرتے ہوئے وہاں پہنچ گئے اور اطالویوں کو بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ اس وقت مجاہدین نے ایک دل دہلا دینے والا منظر دیکھا۔ چار ترک سپاہی زخمی حالت میں زمین پر پڑے ہیں اور ان کے نزدیک ننھی فاطمہ کی خون آلود نعش اس طرح سے پڑی ہے کہ اس کا مشکیزہ ایک زخمی ترک کے سینے پر رکھا ہوا ہے اور مشکیزے کا ایک کونا فاطمہ کے ہاتھ میں ہے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ننھی مجاہدہ گولی کھا کر زمین پر گرنے کے بعد بھی زخمی سپاہی کو پانی پلانے کی کوشش کرتی رہی، لیکن اس کے مشکیزے کا منہ زخمی مسلمان کے منہ تک نہ پہنچ سکا اور وہ جنت الفردوس میں پہنچ گئی۔
اے معصوم فاطمہ! اے دخترِ اسلام! تجھ پر ہزاروں سلام! تُو نے ایثار و قربانی کی جو درخشندہ مثال قائم کہ وہ ابدالآباد تیرا نام زندہ رکھے گی۔
حکیم الامت علامہ محمد اقبال نے شہیدۂ ملت فاطمہ بنتِ عبداللہ کو ان الفاظ میں خراجِ عقیدت پیش کیا ہے:-
؎ فاطمہ تُو آبروئے امتِ مرحوم ہے
ذرہ ذرہ تیری مشتِ خاک کا معصوم ہے
(حوالہ: فاطمہ بنت عبداللہ از طالب الہاشمی)
حوالہ جات
- شرح بانگِ درا ا ڈاکٹر شفیق احمد
- شرح بانگِ درا از پروفیسر یوسف سلیم چشتی
- شرح بانگِ درا از اسرار زیدی
- شرح بانگِ درا از ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی
- مطالبِ بانگِ درا از مولانا غلام رسول مہر
- ”فاطمہ بنت عبداللہ“ از طالب الہاشمی