”شفاخانۂ حجاز“ از علامہ اقبال
فہرست
تعارف
ایک دفعہ سعودی عرب میں انگریزوں کی طرف سے ایک ہسپتال قائم کرنے کی تجویز پیش ہوئی جس کے لیے امدادی رقوم درکار تھیں۔ چنانچہ ہندوستان میں بھی مجوزہ ہسپتال کے لیے چندہ کیا گیا۔ لیکن بعض اکابر جن میں علامہ اقبال بھی شامل تھے، انگریزوں کے زیرِ اثر اس طرح کے کسی بھی کام کے خلاف تھے۔ لہذا اس کے خلاف آواز اُٹھائی گئی اور یہ تجویز پایۂ تکمیل کو نہ پہنچ سکی۔ مطالبِ بانگِ درا میں مولانا غلام رسول مہر لکھتے ہیں کہ تجویز کے التواء میں اِس نظم (شفاخانۂ حجاز) نے بھی موثر اور اہم کردار ادا کیا تھا۔ نظم کے اِس پس منظر اور خود اِس تجویز کے بارے میں علامہ اقبال کے نقطۂ نظر کی وضاحت نظم کے بعض مصرعوں سے بھی ہوجاتی ہے۔
(حوالہ: شرح بانگِ درا از ڈاکٹر شفیق احمد)
بند نمبر 1
اک پیشوائے قوم نے اقبالؔ سے کہا
کھُلنے کو جدّہ میں ہے شفاخانۂ حجاز
قوم کے ایک رہنما نے اقبالؔ سے کہا کہ سعودی عرب کے شہر جدّہ میں ایک ہسپتال کھُلنے والا ہے۔
ہوتا ہے تیری خاک کا ہر ذرّہ بے قرار
سُنتا ہے تُو کسی سے جو افسانۂ حجاز
تُو حجاز کے خاص عاشقوں میں سے ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ جب بھی کوئی تیرے سامنے حجاز کا ذکر کرتا ہے تو تیری خاک کا ذرّہ ذرّہ درِ نبی ﷺ پر حاضری کے لیے تڑپ اُٹھتا ہے۔
دستِ جُنوں کو اپنے بڑھا جیب کی طرف
مشہور تُو جہاں میں ہے دیوانۂ حجاز
اب میں ایسی سرزمین کا ذکر کررہا ہوں تو تجھے (اقبالؔ کو) چاہیے کہ اپنے جنون اور دیوانگی کا ہاتھ اپنی جیب کی طرف بڑھا یعنی اِس ہسپتال کے لیے آپ بھی چندہ دیں۔
یہ چندہ اس لیے بھی دینا چاہیے کہ تُو دنیا میں حجاز کے شیدائی اور عاشق کی حیثیت سے مشہور ہے اور یہ کام حجاز کی بھلائی اور بہتری کے لیے ہورہا ہے۔
جیب: عربی میں اس کے معنی ہیں گریبان، فارسی اور اردو میں کیسہ۔ اقبالؔ نے جیب کو ایسے انداز میں استعمال کیا ہے کہ ذہن دونوں معنی کی طرف منتقل ہوتا ہے، یعنی یہ معنی بھی مُراد لیے جاسکتے ہیں کہ اپنا ہاتھ گریبان کی طرف بڑھا اور یہ دیوانگی کی ایک علامت ہے، اس کے علاوہ یہ بھی مراد لی جاسکتی ہے کہ جیب میں ہاتھ ڈال اور چندہ نِکال۔
دارالشّفا حوالیِ بطحا میں چاہیے
نبضِ مریض پنجۂ عیسیٰ میں چاہیے
تجھے خود اِس بات کا اندازہ ہوگا کہ مکہ معظمہ کے گِرد و نواح میں ایک ہسپتال بہت ضروری ہے تاکہ یہاں کے تمام مریضوں تک ڈاکٹر کا ہاتھ پہنچ سکے۔
عیسٰی اور مسیحا: دونوں لفظ اس میں ڈاکٹر/ طبیب کے لیے استعمال کیے گئے ہیں۔ مسیحا اگرچہ حضرت عیسٰی کا لقب ہے، لیکن چونکہ وہ مُردوں کو زندہ اور بیماروں کو اچھا کردیتے تھے، اس لیے یہاں مسیحا سے مراد معالج یا ڈاکٹر ہے۔
اِس بند کا آخری مصرع بہت بلیغ ہے۔ پنجۂ عیسٰی سے مراد ڈاکٹر، معالج اور حکیم بھی ہے لیکن اِس سے مراد عیسائیوں (انگریزوں) کا اثر و رسوخ اور ان کی چیرہ دستیاں بھی ہیں۔ اقبالؔ نے بڑی خوبصورتی سے عیسائیوں (انگریزوں) کی کوششوں سے کھُلنے والے شفاخانے کے بارے میں اپنا نقطۂ نظر واضح کردیا ہے یعنی یہاں کے مسلمان عیسائیوں (انگریزوں) کے ممنونِ احسان ہوں گے جس کے باعث عیسائیوں (انگریزوں) کا اثر و رسوخ بڑھے گا۔ وہ یہاں کی معاشرت و سیاست میں دخیل ہوں گے اور رفتہ رفتہ حجاز کے مسلمان اُن کی چالوں میں آکر اپنی عزت و آزادی کھودیں گے۔
بند نمبر 2
مَیں نے کہا کہ موت کے پردے میں ہے حیات
پوشیدہ جس طرح ہو حقیقت مجاز میں
میں نے یہ سُن کر جواب دیا کہ میں عاشق ہوں، اور عاشق موت سے نہیں ڈرتا، کیونکہ اُس (یعنی عاشق) کی نگاہ میں موت تجدیدِ مذاقِ زندگی کا نام ہے۔ عاشق یہ جانتا ہے کہ زندگی موت کے پردے میں اُسی طرھ چھُپی ہوئی ہے جیسے حقیقت مجاز میں مخفی ہوتی ہے۔
؎ موت تجدیدِ مذاقِ زندگی کا نام ہے
خواب کے پردے میں بیداری کا اِک پیغام ہے
(حوالہ: بانگِ درا: والدہ مرحومہ کی یاد میں)
اب حقیقت مجاز میں کس طرح چھُپی ہوئی ہوتی ہے؟ یہ مصرع تشریح طلب ہے۔ اس اس کی وضاحت یہ ہے کہ جب آپ زیدؔ کو شیر کہتے ہیں، تو لفظ شیر کا اطلاق مجازاً ہوگا۔ کیونکہ زیدؔ حیوان نہیں، بلکہ انسان ہے۔ لیکن شیر کی حقیقت کیا ہے؟ بہادری۔ اور یہ چیز یا صِفت زیدؔ میں بھی پائی جاتی ہے۔ اس لئے حقیقت مجاز میں پوشیدہ ہے۔ اسی طرح حیات، موت کے پردہ میں پوشیدہ ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ مرنے کے بعد جو زندگی شہید کو حاصل ہوگی، عاشق اُسی کا تمنّائی ہوتا ہے اور وہی حقیقی معنی میں زندگی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآنِ حکیم فرماتا ہے کہ:-
وَلَا تَقُوۡلُوۡا لِمَنۡ يُّقۡتَلُ فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ اَمۡوَاتٌ ؕ بَلۡ اَحۡيَآءٌ وَّلٰـكِنۡ لَّا تَشۡعُرُوۡنَ ۞
ترجمہ: اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہوتے ہیں ان کو مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تم محسوس نہیں کرتے۔
(حوالہ: القرآن: سورۃ البقرۃ: آیت نمبر 154)
لیکن یہ زندگی اُسی وقت حاصل ہوسکتی ہے، جب عاشق موت کا پیالہ خوشی خوشی پی جائے۔
تلخابۂ اجل میں جو عاشق کو مِل گیا
پایا نہ خِضر نے مئے عمرِ دراز میں
یہی وجہ ہے کہ عاشق کو جو لذت موت کے جام سے ملتی ہے، وہ خؔضر کو اپنی طویل زندگی کے جام میں بھی نہیں ملتی۔ یعنی خضر کو اُن کی طویل زندگی میں وہ لذّت محسوس نہیں ہوسکتی، جو عاشق کو موت میں محسوس ہوتی ہے۔ کیونکہ وہ (یعنی عاشق) جانتا ہے کہ موت اُسے براہِ راست اللہ تعالی کی بارگاہ میں پہنچادے گی۔
(حوالہ: ویکی پیڈیا)
اوروں کو دیں حضور! یہ پیغامِ زندگی
مَیں موت ڈھُونڈتا ہوں زمینِ حجاز میں
اس لیے آپ یہ زندگی کا پیغام دوسروں کو دیں۔ کیونکہ مجھ جیسے سرزمینِ حجاز کے عاشق تو اِس مقدس سرزمین میں موت کی خواہش کرتے ہیں۔
؎ خاکِ یثرب از دو عالم خوش تر است
اے خنک شہری کہ آنجا دِلبر ﷺ است
مدینہ منورہ کی خال دونوں جہانوں سے پیاری ہے۔ کیسا ٹھنڈک پہنچانے والا ہے وہ شہر، جہاں محبوب ﷺ آرام فرما رہے ہیں۔
(حوالہ: اسرارِ خودی: در معنی اینکہ خودی از عشق و محبت استحکام می پذیرد)
آئے ہیں آپ لے کے شفا کا پیام کیا
رکھتے ہیں اہلِ درد مسیحا سے کام کیا!
آپ میرے پاس شفا کا کیسا پیغام لے کر آئے ہیں۔ کیا آپ کو معلوم نہیں ہے کہ دِل درد رکھنے والے لوگ معالجوں سے سروکار نہیں رکھا کرتے، انہیں تو درد اور تکلیف ہی سے لطف حاصل ہوتا ہے۔ خوشا نصیب اُس عاشق کا کہ جسے سرزمینِ حجاز میں موت آجائے۔ بھلا عاشق بھی کہیں مسیحا (معالج) کے آرزومند ہو سکتے ہیں؟
؎ پھِرا کرتے نہیں مجروحِ اُلفت فکرِ درماں میں
یہ زخمی آپ کر لیتے ہیں پیدا اپنے مرہم کو
(حوالہ: بانگِ درا: تصویرِ درد)
نوٹ: اِس بند کا آخری مصرع پہلے بند کے آخری مِصرع جیسا تو نہیں لیکن لفظ ”مسیحا“ سے یہاں پر بھی عیسائیوں کی طرف اشارہ ہوسکتا ہے۔