”چاند“ از علامہ اقبال
فہرست
تعارف
نظم ”چاند“ علامہ اقبال کی رمزیہ شاعری کی بہترین مثال ہے۔ اِس نظم کا بنیادی تصور یہ ہے کہ اُس کا جلوہ ہر شے میں پوشیدہ ہے۔ لُطف کی بات یہ ہے کہ اقبالؔ نے اس نظم میں خدا کا لفظ کہیں استعمال نہیں کیا۔
(حوالہ: شرح بانگِ درا از پروفیسر یوسف شلیم چشتی)
”چاند“ کے عنوان سے علامہ نے دو نظمیں لکھی ہیں۔
اِس نظم کا انداز رمزیہ ہے، جس کا مرکزی خیال یہ ہے کہ اس محبوبِ حقیقی کا جلوہ کائنات کی ہر شے میں موجود اور پوشیدہ ہے۔
یہ نظم رسالہ مخزن لاہور کے شمارہ 1904ء میں چھپی تھی، جس میں چار شعر زیادہ تھے۔ یہ اشعار اب ”باقیاتِ اقبالؔ“ میں درج ہیں۔
(حوالہ: شرح بانگِ درا از ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی)
اِس فلسفیانہ نظم کا لبِّ لُباب یہ ہے کہ ذاتِ باری تعالی ہر جگہ موجود ہے۔ شاعر نے اپنے تصوّر میں یہ فرض کیا ہے کہ چاند حُسنِ ازل یا ذاتِ باری کی تلاش میں سرگرداں ہے اور اُس نے چاند کو بتایا ہے کہ وہ تو ہر ایک چیز میں موجود ہے۔ شاعر نے خدا کا لفظ استعمال نہیں کیا لیکن اندازِ بیان سے واضح ہے کہ ضمیرِ غائب کا مرجع وہی ذاتِ پاک ہے۔
(حوالہ: شرح بانگِ درا از پروفیسر حمید اللہ شاہ ہاشمی)
بند نمبر 1
اے چاند! حُسن تیرا فطرت کی آبرو ہے
طوفِ حریمِ خاکی تیری قدیم خو ہے
اے چاند! فطرت نے تجھ سے زیادہ حسین کوئی شئے پیدا نہیں کی۔ تیرا حُسن مناظرِ فطرت کی عزت بڑھاتا اور وقار قائم کرتا ہے۔ اس دنیا کے اِرد گِرد چکر لگانا (گردِش کرنا) ابتدا ہی سے تیری عادت چلی آتی ہے۔ چاند کو دیکھ کر ایک صاحبِ بصیرت بے حد حیران ہوتا ہے کہ قدرت نے کس طرح، در اصل، اپنے حُسن و جمال کا اظہار کیا ہے۔
یہ داغ سا جو تیرے سینے میں ہے نمایاں
عاشق ہے تُو کسی کا، یہ داغِ آرزو ہے؟
تیرے سینے میں یہ جو داغ سا نمایاں ہے، تُو کیا کسی کا عاشق ہے اور کیا تیرا یہ داغ تیری آرزو کا داغ ہے؟
عموماً کہا جاتا ہے کہ عاشق کے دِل/سینے میں محبت کا داغ ہوتا ہے۔ چاند میں بھی ایک داغ سا ہوتا ہے جسے علامہ نے عشق کا داغ قرار دیا ہے اور کسی سے مراد محبوبِ حقیقی ہے۔ گویا چاند اپنے محبوب کی تلاش میں ہے۔
میں مضطرب زمیں پر، بے تاب تُو فلَک پر
تُجھ کو بھی جُستجو ہے، مجھ کو بھی جُستجو ہے
میں زمین پر بے قرار (مضطرب) ہوں، تُو آسمان پر بے تاب ہے۔ تجھے بھی کسی (محبوب) کی تلاش و آرزو ہے، اسی وجہ سے تُو بے قرار گردِش کر رہا ہے اور میں بھی اسی تلاش و آرزو کے باعث بے چین رہتا ہوں کہ اس محبوبِ حقیقی تک، کہ جو پردوں میں چھپا ہوا ہے، میری رسائی ہو۔
انساں ہے شمع جس کی، محفل وہی ہے تیری؟
میں جس طرف رواں ہوں، منزل وہی ہے تیری؟
انسان جس محفل کی شمع ہے، وہی محفل تیری بھی محفل ہے اور جس منزل کی طرف میں چل رہا ہوں، تُو بھی اسی منزل کی طرف رواں دواں ہے یا تیری منزل بھی وہی ہے۔۔ یعنی ہم دونوں عاشق ہیں اور ہمارا محبوب ایک ہی ہے اور دونوں کی منزلِ مقصود بھی ایک ہی ہے۔ دونوں خدا ہی کے طالب ہیں۔
بند نمبر 2
تُو ڈھُونڈتا ہے جس کو تاروں کی خامشی میں
پوشیدہ ہے وہ شاید غوغائے زندگی میں
اے چاند! جس (محبوبِ حقیقی) کو تُو ستاروں کی خاموشی میں تلاش کر رہا ہے، وہ شاید زندگی کے ہنگاموں میں چھپا ہوا ہے (یعنی محبوبِ حقیقی کا جلوہ اس کائنات میں موجودات کی رونق اور چہل پہل میں پوشیدہ ہے، جو قدرت کے آئنیے کی جلوہ دار ہے)
اِستادہ سرْو میں ہے، سبزے میں سو رہا ہے
بُلبل میں نغمہ زن ہے، خاموش ہے کلی میں
وہ سرْو کے درخت اور سبزہ میں سو رہا ہے۔ وہ بلبل میں نغمہ زن ہے اور کلی میں خاموش ہے۔ صاحبِ بصیرت سرٗو جیسے سیدھے کھڑے اور طویل درخت کو، سبزہ کو زمین پر، بلبل کو دِلکش آواز میں چہچہاتے اور کلی کو (جو چپکے سے پھول بن جاتی ہے) دیکھ کر اس خالقِ کائنات کی قدرت کا قائل ہو جاتا ہے اور یہ سب مناظر اس کے لیے معرفتِ حق کا باعث بنتے ہیں۔
آ میں تجھے دِکھاؤں رُخسارِ روشن اُس کا!
نہروں کے آئنے میں، شبنم کی آرسی میں
(اے چاند) تُو میرے پاس آ، کہ میں تجھے اس حُسن (محبوبِ حقیقی) کو جلووں سے روشناس کراؤں۔ دیکھ تو سہی! یہ جلوہ ندیوں کے شفاف پانی میں بھی موجود ہے اور شبنم کے قطروں میں بھی نمایاں ہے۔ (یہ سب مناظرِ قدرت معرفتِ حق ہی کے آئینہ دار ہیں)
صحرا و دشت و در میں، کُہسار میں وہی ہے
انساں کے دل میں، تیرے رُخسار میں وہی ہے
(حقیقت یہ ہے کہ) کیا صحرا اور وادیاں اور کیا پہاڑ وغیرہ، سب میں وہی ذات جلوہ فرما ہے اور یہ کہ انسان کے دِل میں بھی اور تیرے (چاند کے) رُخسار (چہرے) میں وہی سمایا ہوا ہے۔ کائنات کے تمام مناظر میں اسی ذات کا جلوہ کار فرما ہے۔ انسان کا دِل بظاہر گوشت کا لوتھڑا ہے لیکن وہ کیسے کیسے جذبے اور ولولے پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے، یہ امر بھی اس ذاتِ حق کی معرفت کا آئینہ دار ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ مجھ میں بھی وہی ہے اور تجھ میں بھی وہی ہے۔ یہ ساری کائنات اس کی ہستی پر گواہی دے رہی ہے۔ اگر وہ نہ ہوتا تو کچھ بھی نہ ہوتا۔
اِس نظم میں بنیادی تصور حُسن (ذاتِ حق) ہے جسے اقبالؔ نے بڑے خوبصورت انداز میں چاند کے حوالے سے بیان کیا ہے۔
حوالہ جات
- شرح بانگِ درا از ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی
- شرح بانگِ درا از اسرار زیدی
- شرح بانگِ درا از پروفیسر یوسف سلیم چشتی
- شرح بانگِ درا ا ڈاکٹر شفیق احمد
- مطالبِ بانگِ درا از مولانا غلام رسول مہر
- شرح بانگِ درا از پروفیسر حمید اللہ شاہ ہاشمی