”دوزخی کی مناجات“ از علامہ اقبال
فہرست
تعارف
اِس تمثیلی نظم ”دوزخی کی مناجات“ میں علامہ اقبال نے ایک دوزخی کی زبان سے اِس حقیقت کا اعلان کیا ہے کہ یورپین اقوام کی رقابتِ باہمی نے انسانوں کی زندگی تلخ کردی ہے۔ بلکہ ”دوزخی“ کی رائے میں یہ دنیا دوزخ سے بھی بدتر ہوگئی ہے۔ دوزخ کی زندگی اِس دنیا کی زندگی سے بہتر ہے۔ یہی وہ مرکزی خیال ہے جسے اقبالؔ ہمارے ذہن نشین کرانا چاہتے ہیں۔
(شرح ارمغانِ حجاز از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)
نظم ”دوزخی کی مناجات“ کی تشریح
اس دیرِ کُہن میں ہیں غرض مند پُجاری
رنجیدہ بُتوں سے ہوں تو کرتے ہیں خدا یاد
ایک دوزخی خدا سے دعا کرتا ہے کہ اے خدا! اس پرانی دُنیا (دیرِ کہن) میں جس قدر انسان آباد ہیں، سب غرض مند ہیں۔ یہ لوگ دراصل تیرے بجائے بُتوں کی پوجا کرتے ہیں اور تجھے صرف اُس وقت یاد کرتے ہیں جب اپنے بُتوں سے رنجیدہ یا ناراض ہوجاتے ہیں۔
لفظ بُت کے دو معنی ہیں: (1) خواہشِ نفس (2) آقا یا حکمران
اِنسان خدا کو اُسی وقت یاد کرتا ہے جب اُس کی خواہش پوری نہیں ہوتی یا آقا سے توقعات پوری نہیں ہوتیں۔ اِسی مضمون کو شاعر نے یوں ادا کیا ہے:-
؏ جب دیا رنج بُتوں نے تو خدا یاد آیا
پوجا بھی ہے بے سُود، نمازیں بھی ہیں بے سُود
قسمت ہے غریبوں کی وہی نالہ و فریاد
چونکہ دُنیا والوں نے تجھے چھوڑ دیا اور اپنی خواہشات یا حکمرانوں کو اپنا معبود بنالیا۔ اس لیے اب نہ ہندوؤں کی پوجا پاٹ سے اِن کو کوئے نفع حاصل ہوسکتا ہے اور نہ مسلمانوں کی نماز سے اِن کو کوئی فائدہ پہنچ سکتا ہے۔
بنی آدم کی حماقت اور جہالت کی بدولت طاقتور اقوام اُن پر غلبہ حاصل کرچکی ہیں۔ اس لیے اب پوجا اور نمازیں بے سود ہو کر رہ گئی ہیں۔ عوام دِن، رات نمازیں پڑھتے ہیں۔ لیکن غلامی کی زنجیریں روز بروز سخت ہوتی جاتی ہیں۔
کیا خوب کہا ہے:-
؏ قسمت ہے غریبوں کی وہی نالہ و فریاد
ہیں گرچہ بلندی میں عمارات فلک بوس
ہر شہر حقیقت میں ہے ویرانۂ آباد
اگرچہ حکمرانوں نے مفتوحہ (مفتوحہ: یعنی جنہیں فتح کیا جاچکا ہو) ممالک کے بڑے بڑے شہروں میں نہایت عالیشان (فلک بوس، آسمانوں کو چھونے والی) عمارتیں تعمیر کردی ہیں اور شہروں کو باغوں، کلبوں، کالجوں، بنکوں، سینماؤں، رقص گاہوں اور ہوٹلوں کی بدولت رشکِ جنت بنادیا ہے۔ لیکن اے خدا! سچ تو یہ ہے کہ ہر شہر درحقیقت ایک ویرانہ ہے جو نادانوں یا ظاہر بینوں کو آزاد نظر آتا ہے۔ کیونکہ ہر شہر میں ہزاروں مریض ہر روز دوا، علاج اور تیمارداری کے فقدان سے ہلاک ہوجاتے ہیں۔ ہزاروں عورتیں ہر روز روٹی کے لیے عصمت فروشی کرتی ہیں۔ ہزاروں مرد مفلسی سے تنگ آکر خودکشی کرتے ہیں یا ضمیر فروشی کرکے اپنا پیٹ پالتے ہیں۔ ہزاروں بچے تعلیم و تربیت سے محروم گلی کوچوں میں آوارہ پھرتے ہیں۔ ہزاروں خاندان اسبابِ معیشت سے محروم ہیں اور قسم قسم کے مسائب کا شکار ہیں
تیشے کی کوئی گردشِ تقدیر تو دیکھے
سیراب ہے پرویز، جِگر تَشنہ ہے فرہاد
اے خدا! مزدوری و کاشتکاری (تیشہ کی گردش) کی تقدیر (بدقسمتی) کا تجھ سے کیا حال بیان کروں! حکمران طبقہ (پرویز) ابتداء سے مزدوروں اور کاشتکاروں کا خون چوستا چلا آرہا ہے اور مزدور (فرہاد) قدیم الایّام سے سرمایہ دار کے ظلم و ستم کا تختۂ مشق بنا ہوا ہے۔
یہ عِلم، یہ حکمت، یہ سیاست، یہ تجارت
جو کچھ ہے، وہ ہے فکرِ مُلوکانہ کی ایجاد
اے خدا! اِس میں شک نہیں کہ انگریزوں اور دوسری انگریز اقوام نے مفتوحہ ممالک میں سکول، کالج، ریسرچ انسٹیٹیوٹ اور مختلف اقسام کے تحقیقی ادارے قائم کردیے ہیں۔۔ لیکن یہ تمام درسگاہیں، یہ تمام تجارتی کارخانے۔۔ سب اِسی نظامِ ملوکیت کی تائید اور تقویت کے لیے وقف ہیں جس کا مقصد یہ ہے کہ بندوں کو تیری اطاعت کے بجائے انسانوں کی غلامی کا درس دیا جائے اور غلام بنا کر اُن کو انسانیت کے ابتدائی حقوق سے بھی محروم کردیا جائے۔
اللہ! ترا شکر کہ یہ خطّۂ پُر سوز
سوداگرِ یورپ کی غلامی سے ہے آزاد!
اے خداوند! اندریں حالات میں تیرا شکر ادا کرتا ہوں کہ یہ خطہ پرسوز، یہ جہنّم۔۔ جس میں قیامت سے شعلے بھڑک رہے ہیں۔۔ یہ دوزخ جس میں کھولتا ہوا پانی پینے کو ملتا ہے۔۔ یہ سوداگرِ یورپ کی غلامی سے آزاد ہے۔ اِس خطہ (دوزخ) میں ہزاروں مصائب سہی لیکن تیرا شکر ہے کہ کم از کم ہم دوزخی انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہیں۔
نظم ”دوزخی کی مناجات“ کا بنیادی تصوّر
بنیادی تصوّر یہ ہے کہ غلامی کی زندگی، دوزخ کی زندگی سے بھی بد تر ہے۔ کاش مسلمانانِ عالم اس نکتہ کو سمجھ سکیں اور یورپ کی غلامی سے آزادی حاصل کرنے کے لیے کوئی منظم جدوجہد کرسکیں۔ کاش سلطان ابنِ سعودیہ پر یہ حقیقت منکشف ہوجائے کہ غلامی کی زنجیروں کو توڑنا، قبور کے توڑنے سے ہزار گُنا زیادہ ضروری ہے۔۔ کیونکہ یورپ اور امریکہ کی غلامی قبر پرستی سے بھی بدتر ہے۔
(شرح ارمغانِ حجاز از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)
حوالہ جات
- شرح ارمغانِ حجاز از پروفیسر یوسف سلیم چشتی
- شرح ارمغانِ حجاز از اسرار زیدی
- شرح ارمغانِ حجاز از ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی