Skip to content
ارمغانِ حجاز 3: تصویر و مصوّر

ارمغانِ حجاز 3: تصویر و مصوّر

”تصویر و مصوّر“ از علامہ اقبال

تعارف

نظم ”تصویر و مصوّر“ ایک بہت دلچسپ مگر حقائق و معارف سے لبریز تمثیلی نظم ہے جس میں علامہ اقبال نے اول تا آخر رمز و کنایہ (کنایہ: چھُپی ہوئی پوشیدہ بات کو اشارے سے کہنا) میں گفتگو کی ہے۔ تصویر سے وسیع معنی میں کائنات اور مخصوص معنی میں انسان مراد ہے اور مصوّر سے خدا تعالیٰ کی ذات مراد ہے۔


(شرح ارمغانِ حجاز از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)

YouTube video

نظم ”تصویر و مصوّر“ کی تشریح

تصویر

کہا تصویر نے تصویر گر سے
نمائش ہے مری تیرے ہُنر سے
و لیکن کس قدر نا مُنصفی ہے
کہ تُو پوشیدہ ہو میری نظر سے!

حلِ لغات:

الفاظمعنی
تصویر گرتصویر بنانے والا، مصوّر
نمائشظہور، وجود
ہُنرفن، قوّتِ تخلیق
نا امُنصفینا اِنصافی
پوشیدہچھُپا ہوا
(نظم ”تصویر و مصوّر“ از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

نظم ”تصویر و مصوّر“ میں علامہ اقبال تصویر اور مصوّر (انسان اور خدا) کے درمیان مکالمہ درج کرتے ہیں کہ:-

انسان (تصویر) نے خدا (مصوّر) سے کہا کہ اس میں تو شک نہیں کہ میری ہستی (نمائش) تیرے فعلِ تخلیق (ہنر) پر موقوف ہے یعنی میرا وجودِ ذاتی اصلی، حقیقی یا مستقل نہیں بلکہ تیری صفتِ خالقیّت کا کرشمہ ہے۔ لیکن اے خدا! یہ کس قدر ناانصافی ہے کہ تُو میری نگاہوں سے پوشیدہ ہے۔

آخری مصرع میں دراصل اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ انسان کے دل میں خدا کے دیکھنے یا اُس سے ملاقات کرنے کی آرزو پوشیدہ ہے۔ اِس حقیقت کو مشرقی اور مغربی دونوں شعراء نے اپنے کلام میں واضح کیا ہے، مثلاً انگریزی ادب میں ورڈزورتھ اور براؤننگ کی شاعری میں یہ رنگ بہت نمایاں ہے۔

مصوّر

گراں ہے چشمِ بینا دیدہ وَر پر
جہاں بینی سے کیا گُزری شرَر پر!
نظر، درد و غم و سوز و تب و تاب
تُو اے ناداں، قناعت کر خبر پر

حلِ لغات:

الفاظمعنی
گِراںبوجھل، بھاری
چشمِ بینابصیرت والی آنکھ، دیکھنے والی آنکھ
دیدہ وَرصاحبِ نظر، جو آنکھیں رکھتا ہو
جہاں بینیدُنیا کو دیکھنا
شررچِنگاری
نظردیکھنا، دیدار
سوزجلن، تپش
تب و تاببے قراری، بے چینی
ناداںبے خبر، بے وقوف
قناعتتھوڑی چیز پر رضا مندی، جو کچھ مل جائے اس پر صبر کرلینے کی خُو
(نظم ”تصویر و مصوّر“ از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

یہ سُن کر خدا (مصوّر) نے انسان (تصویر) سے یہ کہا کہ اے نادان! تُو اس حقیقت سے آگاہ نہیں ہے کہ چشمِ بینا (حقیقت رسی کی آرزو) دیدہ وَر یعنی طالبِ دیدار کے لیے پیامِ موت بن جاتی ہے۔ دیکھ لے! جب تک شرر (چنگاری) میں جہاں بینی کی آرزو پیدا نہیں ہوئی تھی، تب تک وہ مادرِ آتش کی آغوش میں (آگ کی آغوش میں) ہر مصیبت سے محفوظ تھا لیکن جب اُس میں یہ آرزو پیدا ہوئی تو اپنی اصل (آگ) سے جدا ہو گیا۔ یوں اُس نے دُنیا تو کو تو بیشک دیکھ لیا لیکن دوسرے ہی لمحے فنا ہو گیا (کیونکہ وہ آگ سے جُدا ہو گیا تھا، پس دوسرے ہی لمحے فنا ہو گیا)۔ لہذا ثابت ہو گیا کہ دیکھنے کی آرزو کا نتیجہ فنا ہے یعنی دیکھنے کی آرزو سے نظر پیدا ہوتی ہے اور نظر کا نتیجہ درد و سوز و غم و تب و تاب ہوتا ہے اور سوز کا نتیجہ فنا کے سوا اور کیا ہے؟ اس لیے میں (مصوّر) تجھے مشورہ دیتا ہوں کہ تُو نظر کی بجائے خبر پر قناعت کر۔

اِس شعر کا عاشقانہ مفہوم یہ ہے کہ معشوق اپنے عاشق سے کہتا ہے کہ دیکھنے کے لیے اول تو حوصلہ کی ضرورت ہے اور یہ چیز بڑی مشکل سے پیدا ہوتی ہے۔ بالفرض اگر دیدار کی طاقت پیدا ہو بھی گئی تو دیدار کے بعد تُو آپے میں کب رہے گا؟ دیکھ لے! منصور حلاج نے ہمیں دیکھا تو کیا نتیجہ ہوا! اِس لیے مناسب یہی ہے کہ تُو ہمارے محمد ﷺ کے ارشار پر قناعت کر کہ:-

دوسرے شعر میں نظرؔ اور خبرؔ۔۔ یہ دونوں الفاظ نہایت غور طلب ہیں۔

شریعت کا دار و مدار خبر پر ہے اور خبر سے مراد رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد ہے کہ:-

سارا دین اسی فقرہ میں بند ہے. چونکہ ہم مُخبرِ صادق محمد ﷺ کی رسالت پر ایمان لاتے ہیں اس لیے اُن ﷺ کی خبر پر یقین کرتے ہیں۔ نبی کہتے ہیں اُس شخص کو جو اللہ تعالی کی طرف سے بندوں کو خبریں دیتا ہے اور اُس کا پہلا قول یہی ہوتا ہے کہ اللہ تعالی پر ایمان لاؤ۔

طریقت کا انحصار نظر پر ہے یعنی وہی مسلمان جو خبر پر ایمان لایا ہے، اب بطور خود مشاہدہ اور معائنہ کرنا چاہتا ہے کہ اطمینانِ قلب حاصل ہو جائے لیکن یہ کام صرف عاشق کر سکتا ہے یعنی وہ شخص جس کے دِل میں دیکھنے کی آرزو پیدا ہو جائے۔ اس کے لیے مرشد کی صحبت لازمی ہے، وہ دیکھنے کا طریقہ سِکھا دیتا ہے۔

تصویر

خبر، عقل و خِرد کی ناتوانی
نظر، دل کی حیاتِ جاودانی
نہیں ہے اس زمانے کی تگ و تاز
سزاوارِ حدیثِ ’لن ترانی‘

حلِ لغات:

الفاظمعنی
ناتوانیکمزوری، لاغری، ضعیفی
خِردعقل، دانائی، سمجھ
حیاتِ جاودانیہمیشہ کی زندگی
تگ و تازدوڑ دھوپ، بھاگ دوڑ
سزاوارلائق، مناسب
حدیثِ لن ترانیحضرت موسیؑ کے تقاضا پر اللہ تعالی نے فرمایا تھا ”تُو میرا جلوہ نہیں دیکھ سکتا“ – القرآن: سورۃ الاعراف: 143
(نظم ”تصویر و مصوّر“ از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

یہ سُن کر انسان نے خدا سے کہا کہ اے میرے خالق! تُو نے درُست فرمایا لیکن میں باادب عرض کرتا ہوں کہ میں خبر کی منزل پر قناعت نہیں کرنا چاہتا (یعنی ابتدائی یا ادنیٰ درجہ کی زندگی نہیں بسر کرنا چاہتا)، کیونکہ مجھے بخوبی علم ہے کہ خبر پر وہ لوگ قناعت کرتے ہیں جو کم عقل ہوتے ہیں۔ خبر تو عقل وخِرد کی ناتوانی کا ثبوت ہے۔ جبکہ ہمیشگی کی زندگی تو دیدار سے حاصل ہوتی ہے۔

اِس کے علاوہ موجودہ زمانہ کا اِقتضا (مطالبہ / خواہش / رحجان) یہ ہے کہ انسان مشاہدہ کرنا چاہتا ہے، محض اس خبر یہ اکتفا کرنا پسند نہیں کرتا۔ آج سائنٹفک تحقیقات (Scientific Research) نے انکشاف و اختراعات (نئی نئی ایجادات) کا، یعنی تگ و تاز کا دروازہ کھول دیا ہے۔آج زندگی کے ہر شعبہ میں تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے لہذا اس زمانہ کی اسپِرَٹ (Spirit) اس امر کی سزاوار نہیں ہے کہ تُو طالبان دیدار کو ”لن ترانی“ کی حدیث سُنا کر دیدار سے محروم کر دے۔

”حدیثِ لن ترانی“ سے مُراد قرآن پاک کے اس واقعہ کی طرف ہے جس میں حضرت موسیؑ نے اللہ تعالیٰ سے دیدار کی خواہش کی تھی اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ ”لن ترانی“ یعنی تُو مُجھے نہیں دیکھ سکتا۔

مصوّر

تُو ہے میرے کمالاتِ ہُنر سے
نہ ہو نومید اپنے نقش گر سے
مرے دیدار کی ہے اک یہی شرط
کہ تُو پِنہاں نہ ہو اپنی نظر سے

حلِ لغات:

الفاظمعنی
کمالاتکمال کی جمع۔ مہارتیں، خوبیاں، عروج
ہُنرفن
نومیدمایوس، نا اُمید
نقش گرتصویر بنانے والا، مصوّر
دیدارنظارہ، دیکھنے کا عمل
پِنہاںچھُپا ہوا، پوشیدہ
(نظم ”تصویر و مصوّر“ از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

جب خدا نے اِنسان کی یہ دلیل سُنی تو اُسے یقین ہو گیا کہ یہ شخص واقعی طلب میں مخلص اور واقعی مجھے دیکھنا چاہتا ہے، اِس لیے اُس نے کہا کے اے انسان! اگرچہ اس میں کوئی شک نہیں کہ تُو خود بخود موجود نہیں ہوا بلکہ میرے پیدا کرنے سے (کمالاتِ ہنر) عالمِ وجود میں آیا۔ اس لیے تجھے عقل سے کام لے کر تجھے یہ مرتّب کرنا چاہیے کہ:-

  1. میں (یعنی انسان) خود پیدا نہیں ہوا ہوں، بلکہ معلول ہوں ۔
  2. ہر معلول کے لئے عِلّت (وہ چیز جس کا کوئی سبب ہو) لازمی ہے ۔
  3. اس لیے ضرور میرا خالق موجود ہے۔

اِس عقلی دلیل سے تُو میری (خدا کی) ہستی پر ایمان لا سکتا ہے لیکن اگر تجھے میرے دیکھنے کی آرزو ہے تو اُس کی صورت یہ ہے کہ تُو اپنی خودی کا مشاہدہ کر۔ میں تجھ سے جدا تو نہیں ہوں بلکہ تیرے ہی اندر پو شیدہ ہوں جب تُو کسی کامل سے دیکھنے کا پوشیدہ ہنر حاصل کرے گا تو تجھے معلوم ہو گا کہ تُو ، تُو نہیں ہے بلکہ میں ہوں اور جسے تُو  ”میں“ کہتا ہے، وہ میں نہیں بلکہ ”وہ“ ہے ۔

تبصرہ

خلاصۂ کلام یہ ہے کہ اگر کسی انسان کو خدا کے دیکھنے کی آرزہ و ہو (جو اس زمانہ میں بالکل مفقُود (غائب، گُم شُدہ) ہو چُکی ہے) تو اُسے اپنے آپ کو دیکھ لینا کافی ہے۔ مَنْ عَرَفَ نَفْسَهُ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّهُ یعنی جس نے اپنے نفس کی معرفت حاصل کرلی تو اُس نے اپنے رب کی معرفت حاصل کر لی۔ کیونکہ انسان اور خدا (طالب اور مطلوب، ناظر اور منظور، عاشق اور معشوق) دو نہیں ہیں بس وہی ایک ذاتِ واحد ہے جو کہیں خار کی شکل میں نمایاں ہے اور کہیں گُل کی شکل میں ہویدا ہے۔ کیا خوب فرمایا ہے مرشدی حضرت حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکیؒ نے:-

یعنی ساری کائنات میں خدائے واحد کی ذات یا اُس کی صفات یا ہے اُس کے افعال یا اُن کے افعال کے آثار (عکوس و اظلال) کے علاوہ نہ کوئی دوسری ہستی موجود ہے اور نہ کوئی ہستی نظر آتی ہے (جب موجود ہی نہیں تو کہاں سے نظر آسکتی ہے)۔

نوٹ: جب تک اس بنیادی حقیقت کو مدِ نظر نہ رکھا جائے اُس وقت تک علامہ اقبال کا نصف سے زیادہ کلام مجھ میں نہیں آسکتا۔ مثلاً:-

اقبالؔ کی اس نظم کا آخری مصرع یہ ہے:ٓ

یعنی خدا کو دیکھنا چاہتے ہو تو اپنے آپ کو دیکھو۔ علامہ اقبال نے بانگِ درا سے لے کر اس کتاب تک اپنی ہر تصنیف میں اس بات کو مختلف طریقوں سے بیان کیا ہے اور جب تک اِس بنیادی حقیقت کو مدِ نظر نہ رکھا جائے کوئی شعر سمجھ میں نہیں آسکتا اور وہ بنیادی حقیقت یہ ہے کہ:-

  1. اِس کائنات میں خدا کے سوا اور کوئی ہستی موجود نہیں ہے ۔
  2. اس لیے انسان اگر اُس کو دیکھنا چاہتا ہے تو اپنے آپ کو دیکھ لے ۔
  3. دیکھنے کا طریقہ نہ کسی کالج سے سکھایا جاتا ہے نہ کسی مکتب میں، یہ طریقہ نہ کسی کتاب میں مرقوم ہے، نہ کسی رسالہ میں مذکور ہے، بلکہ دیکھنا ایک پوشیدہ ہُنر ہے اور یہ ” پوشیدہ ہُنر“ کسی مردِ کامل کی صحبت ہی سے حاصل ہو سکتا ہے۔

یہی ”دیکھنا“ علامہ اقبال کے فلسفہ کا خلاصہ ہے اور اِس کو اُنہوں نے ہر کتاب میں نئے رنگ میں نئی اصطلاحوں میں بلکہ نئے پردوں میں چھُپایا ہے۔ تمام اشعار لِکھوں تو یہ شرح اپنی حدود سے متجاوز ہو جائے گی، اس لئے دو تین شعروں پر اکتفا کرتا ہوں ۔

پہلا سوال یہ ہے کہ یہ ”من“ کیا کوئی سمندر ہے جو اِس میں ڈوب جاؤں؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ بفرضِ محال اگر یہ سمند رہے تو ڈوبوں کیسے؟

اِن دونوں سوالوں کا جواب وہی ہے کہ:-

دوسرا شعر سُنیے:-

یہاں بھی وہی سوال ہے کہ اگر دِل کوئی سمند رہے تو اس میں غوطہ کیسے لگاؤں؟ اس کا بھی وہی جواب ہے جو اوپر مذکور ہو چکا ہے۔ ایک شعر اور بھی سُن لیجئے تو پھر اس بحث کو ختم کیا جائے۔

یہاں بھی وہی سوال ہے کہ اگر سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم سمند رہیں تو میں اس سمندرہ کو اپنی نہر میں کیسے جذب کر سکتا ہوں؟ یا سمندر کوزے میں کیسے سما سکتا ہے؟ اِس کا بھی وہی جواب ہے کہ کسی کامل شخص سے اِس کا طریقہ سیکھو ۔

اِس زمانے کے مسلمانوں میں ہرقسم کی آرزو پائی جاتی ہے لیکن اگر نہیں ہے تو یہ آرزو کہ دریا پیالہ میں کیسے سما سکتا ہے۔ ہم خدائے تعالی کو کیسے دیکھ سکتے ہیں؟ اب رہی یہ بات کہ کیا دیکھنا مسلمان کے لئے ضروری ہے تو اِس کا جواب یہ ہے کہ قرآن کریم کی رو سے تو واقعی ضروری ہے۔

پہلی آیت:-

دوسری آیت:-

اِن دونوں آیتوں سے یہ حقیقت مستبط (معنی: اخذ کرنا) ہو سکتی ہے کہ مومنوں کو دیدار کی نعمت ضرور حاصل ہو گی بلکہ یہ نعمت صرف اُن ہی کے لیے مخصوص ہے۔ اسی لیے راقم الحروف کی رائے میں دیدار یا ملاقات یا لقائے الہی (لِقا سے مراد دیدار یا چہرہ ہے۔ قرآن کی جن آیات میں بھی ’لقا‘ کا لفظ استعمال ہوا اس سے مراد دیدار ہی ہے۔) مومن کا مقصودِ حیات ہے۔

(شرح ارمغانِ حجاز از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)

حوالہ جات

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments