”جاوید سے“ از علامہ اقبال
فہرست
نظم ”جاوید سے“ کا تعارف
”جاوید سے“ کے عنوان کے تحت علامہ اقبال مرحوم نے تین دِلکش نظمیں لکھی ہیں جن میں اُنہوں نے اپنے دوسرے بیٹے جاوید اقبال سے خطاب کیا ہے اور اس کے پردہ میں ملتِ اسلامیہ کے نوجوانوں کے لیے بیش قیمت نصائح فرمائی ہیں۔
(شرح ضربِ کلیم از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)
بند نمبر 1
غارت گرِ دیں ہے یہ زمانہ
ہے اس کی نہاد کافرانہ
اے میرے بیٹے! عصرِ حاضر (موجودہ زمانہ) کفر و الحاد کا زمانہ ہے جو دین کو مِٹانے پر تُلا ہوا ہے، اس لیے اس کی چمک چمک اور فریب میں نہ آ جانا۔ بظاہر یہ دور بڑا ترقی یافتہ ار تہذیب و تمدن کا دور نظر آتا ہے لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ اہلِ مغرب کی سازش اور غلط روِش کی وجہ سے یہ دور دینِ اسلام کو برباد کرنے والا (غارت گرِ دیں) دور ہے اور اس کی فطرت (سرِشت) میں بے دینی کے عنصر کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ اس لیے اس کے اثرات سے بچنا ضروری ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اس دور میں جو خیالات کارفرما ہیں اُن کی بنیاد اللہ اور رسول اللہ ﷺ کے ارشادات پر نہیں، بلکہ ملاحدہ، زنادقہ اور دشمنِ اسلام جماعتوں کے افکار پر ہے۔
دربارِ شہنشہی سے خوشتر
مردانِ خدا کا آستانہ
اے جاوید! بلکہ اے مسلمان جوانو! بادشاہوں کے دربار (دربارِ شہنشاہی) سے اللہ کے مقبول بندوں کی جھونپڑی (آستانہ، چوکھٹ) زیادہ محترم اور دِلکش (خوش تر) ہے یعنی بادشاہوں کے محلّات میں کھانے پینے کو عُمدہ چیزیں مِل سکتی ہیں لیکن روح کو مسرّت حاصل نہیں ہو سکتی۔ یہ نعمت صرف اللہ والوں کی صحبت سے حاصل ہو سکتی ہے۔
٭: حقیقت یہ ہے کہ اقبالؔ نے جاوید کے پردہ میں قوم کے نوجوانوں کو یہ نصیحت کی ہے کہ اللہ والوں کی صحبت اختیار کرو۔ لیکن افسوس کہ قوم نے اس نصیحت پر عمل نہیں کیا اورسچ پوچھو تو قوم کا اس میں کچھ قصور نہیں ہے، کیونکہ مسلمانوں نے انگلستان کو اپنا کعبۂ مقصود قرار دے رکھا ہے، تو نوجوان بغداد یا قاہرہ کیسے جاسکتے ہیں؟ کیا خوب لکھا ہے اکبر الہ آبادی نے:-
؎ اب کہاں ذہن میں باقی ہیں براق و رفرف
ٹکٹکی بندھ گئی ہے قوم کی انجن کی طرف
لیکن یہ دَورِ ساحری ہے
انداز ہیں سب کے جادُوانہ
لیکن یہ عیاری اور فریب کاری (ساحری) کا زمانہ ہے۔ لہذا ہر اُس شخص پر جو متشّرع (دِین دار) صورت بنا کر تمہیں “جماعتِ صالحین” میں شامل ہونے کی دعوت دیتا ہے، بغیر تحقیق کے ایمان مت لے آنا۔
سرچشمۂ زندگی ہُوا خشک
باقی ہے کہاں مئے شبانہ!
اس دور میں اہلِ مغرب کی ساحری کی وجہ سے ایسے اسباب پیدا ہوئے ہیں کہ جن کی وجہ سے دریائے زندگی کے سوتے خشک ہو گئے ہیں اور رات کی وہ شراب (مے شبانہ) جو ہمارے آباء و اجداد اور ہمارے گزرے ہوئے بزرگ ہمیں پلاتے تھے یعنی صحیح علم اور معرفت کی شراب۔۔ اب کہیں نظر نہیں آتی۔ جن معلموں اور طالب علموں کی نگاہ کی ضرب سے زمانہ کی رفتار تیز ہوا کرتی تھیں اب اُن ہستیوں سے مدرسہ خالی ہو چکا ہے۔ قرآن و حدیث کے علوم تقریباً مِٹ گئے ہیں اور آج ہمارے ملک میں ان علوم کے ماہرین کا قحط رونما ہو چکا ہے۔
چناچنہ آج سارے پاکستان میں مولانا سید انور شاہ صاحب مرحوم کے پایہ کا کوئی مفسر یا محدث موجود نہیں، بلکہ اب تو مثنوی رومیؒ اور مکتوباتِ سرہندیؒ کا پڑھانے والا بھی اس مُلکِ خداداد میں کوئی نظر نہیں آتا۔
انا للہ وانا الیہ راجعون
خالی اُن سے ہُوا دبِستاں
تھی جن کی نگاہ تازیانہ
افسوس کہ میرا ملک ان قدسی نفوس (پاکیزہ ہستیوں) انسانوں سے خالی ہو چکا ہے، جن کی نگاہ سے گناہوں میں آلودہ انسانوں کی اصلاح ہو جاتی تھی۔ ایسی بزرگ شخصیات جن کی نگاہیں نوجوانوں کو ادب سکھانے میں ایک طرح سے کوڑے (تازیانہ) کا کام کرتی تھیں، دبستان (درس گاہیں / تعلیمی ادارے) ایسی شخصیات سے خالی ہو چکئ ہیں۔ درس گاہوں میں ادب و تربیت کی طرف توجہ نہیں رہی۔
جس گھر کا مگر چراغ ہے تُو
ہے اُس کا مذاق عارفانہ
لیکن تُو اس حقیقت سے کبھی غافل نہ ہونا، کہ تُو جس خاندان کا نام لیوا ہے، اُس کے افراد ہمیشہ سے معرفت رکھنے والے (عارف) بزرگوں کی صحبت میں بیٹھتے چلے آئے ہیں۔”عارفانہ مذاق“ تصوف کی اصطلاح ہے۔ یعنی بزرگانِ دین اور اللہ والوں کی صحبت میں بیٹھنے کی خواہش۔
جوہر میں ہو ’لااِلہ‘ تو کیا خوف
تعلیم ہو گو فرنگیانہ
اس میں شبہ نہیں کہ تُو بھی ایک ایسی ہی درسگاہ میں تعلیم و تربیت حاصل کر رہا ہے جس کا نصب العین انگریزی (فرنگیانہ) تہذیب و تمدن سکھانا ہے۔ لیکن اگر کسی کی فطرت میں اپنے دین کے جوہر موجود ہوں تو یہ تعلیم اُسے بگاڑ نہیں سکتی۔ پس تُو اپنے دِل کو اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کی محبت سے منور کر لے۔ اس کے بعد اگر تُو مغربی اساتذہ سے تعلیم حاصل کر لے گا، تو وہ تعلیم تجھے کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتی۔
علامہ نے اس شعر میں در اصل مسلمان والدین کو نصیحت کی ہے کہ اسکولوں میں داخل کرنے سے پہلے اپنے بچوں کے دِل و دماغ میں اسلام کی محبت پیدا کردو، تاکہ وہ مغربی تعلیم کے جراثیم سے محفوظ رہ سکیں۔ لیکم افسوس کہ ہمارا طرزِ عمل اس کے بالکل برعکس ہے، جہاں بچے نے ہوش سنبھالا، والدین نے اُسے کافر اتالیق کے حوالے کر دیا۔ اسی لیے اکبر الہ آبادی نے اُن نوجوانوں کی “اسلامی زندگی” پر ان الفاظ میں ماتم کیا ہے:-
؎ گُزر ان کا ہوا کب عالمِ اللہ اکبر میں
پلے کالج کے چکّر میں مرے صاحب کے دفتر میں
شاخِ گُل پر چہک و لیکن
کر اپنی خودی میں آشیانہ!
علامہ نے اس شعر میں پرندے کی مثال دے کر راز کی بات سمجھائی ہے۔ جس طرح پرندہ پھولوں کی ٹہنی پر چہکتا ہے لیکن نظر اپنے گھونسلے (آشیانہ) پر رکھتا ہے اور اِدھر اُدھر پھِر پھِرا کر پھر اپنے آشیانے میں واپس آ جاتا ہے، اسی طرح تُو بھی اے مسلمان نوجواں، جہاں چاہے، جو چاہے پڑھ لیکن اپنی خود شناسی اور خود معرفتی کے گھر کو نہ بھول۔ اپنے دین اور روایات کو ہر وقت پیشِ نظر رکھ۔
یعنی اے مسلمان نوجوان! تُو شوق سے دنیاوی عزت و جاہ یا مال و دولت حاصل کر، لیکن دُنیا یا اس کی دلچسپیوں کو مقصودِ حیات مت بنا۔ اپنی ملت سے رابطہ استوار کر، اور اپنے اسلامی اُصولوں کو ہر وقت پیشِ نظر رکھ، یعنی خودی کی تربیت سے غافل مت ہو۔
وہ بحر ہے آدمی کہ جس کا
ہر قطرہ ہے بحرِ بیکرانہ
در اصل انسان اپنے اندر لامحدود طاقتیں رکھتا ہے، اس حقیقت کو سامنے رکھ اور اپنی مخفی (پوشیدہ) قوتوں کو بروئے کار آنے کا موقع دے۔ آدمی ایک ایسا سمندر ہے جس کا ہر قطرہ ایک لامحدود سمندر (بحرِ بیکرانہ: ایسا سمندر جس کا کوئی کنارہ نہ ہو) ہے۔ گویا انسان بہت سی اہلیتوں، قوتوں اور ممکنات کا مالک ہے۔ اگر وہ اپنی خودی کو عمل میں لائے تو وہ بڑے بڑے کام سر انجام دے سکتا ہے۔
دہقان اگر نہ ہو تن آساں
ہر دانہ ہے صد ہزار دانہ
لیکن اس کے لیے تجھے ہر وقت جد و جہد کرنی ہو گی، چناچنہ دیکھ لے کہ اگر کسان (دہقان) آرام طلب نہ ہو اور محنت سے کام لے تو تو اُس کا بویا ہوا ہر دانہ سو ہزار دانے (صد ہزار دانہ) پیدا کر سکتا ہے، اسی طرح تیری شخصیت میں سینکڑوں خوبیاں پوشیدہ ہیں۔ پس تُو سعیٔ پیہم سے اپنی صلاحیتوں کی تربیت کر۔ بقول اقبالؔ:-
؏ جنت تری پنہاں ہے ترے خونِ جگر میں
(حوالہ: بانگِ درا: روحِ ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے)
”غافل منشیں نہ وقتِ بازی ست
وقتِ ہُنر است و کارسازی ست“
(جاوید بیٹے!) تُو غافل مت بیٹھ، یہ کھیل کُود کا وقت نہیں ہے، یہ تو ہنر اور کام کرنے کا وقت ہے۔ گویا انسان کا ہر ہر لمحہ بڑا قیمتی ہے، ایک لمحے کو بھی ضائع کرنا ٹھیک نہیں، علم و ہنر سیکھا جانا اور کچھ کر کے دِکھانا ضروری ہے، اس لیے ایک لمحے کی غفلت بھی انسان کو سو سالہ راستہ دُور کر دیتی ہے۔ بقولِ ملک قمی:-
؎ رفتم کہ خار از پا کشم محمل نہاں شُد از نظر
یک لحظہ غافل گشتم و صد سالہ راہم دور شد
ترجمہ: میں نے چاہا کہ میں اپنے پاؤں سے کانٹا نِکال لوں، اتنے میں محمل نظروں سے دُور ہو گئی، میں ایک لحظہ غافل ہوا تھا، میرا سو سالہ راستہ دُور ہو گیا۔
بند نمبر 2
سینے میں اگر نہ ہو دلِ گرم
رہ جاتی ہے زندگی میں خامی
اگر سینے میں موجود دِل عشقِ حقیقی کے سوز و جذبہ سے سرشار نہ ہو تو زندگی خام (کمی یا نقص کا شکار) ہو کر رہ جاتی ہے، بے مقصد و بیکار بن جاتی ہے۔ اس کی پختگی اسی عشق کی بدولت ممکن ہے۔ دوسرے الفاظ میں کہیے تو اگر دِل میں ترقی کا جذبہ نہ ہو تو انسان اس دُنیا میں کامیاب زندگی بسر نہیں کر سکتا۔
نخچیر اگر ہو زِیرک و چُست
آتی نہیں کام کُہنہ دامی
اگر شکار (نخچیر) دانا اور چالاک (زیرک و چست) ہو تو جال بچھانے میں پرانی مہارت (کہنہ دامی) رکھنے والا شکاری بھی اس کو جال میں پھانسنے میں ناکام رہے گا۔ مراد یہ ہے کہ اگر میری قوم کے نوجوان دُور اندیش و بیدار اور اپنی معرفت و خودی سے آگاہ اور عشقِ حقیقی سے سرشار ہوں تو بڑی بڑی باطل قوتیں بھی اُن کا کچھ نہیں بِگاڑ سکتیں اور نہ ہی اُن کو ان کو اپنا سیاسی یا ثقافتی غلام نہیں بنا سکتی ہیں۔
ہے آبِ حیات اسی جہاں میں
شرط اس کے لیے ہے تَشنہ کامی
آبِ حیات اسی دُنیا میں ہے، لیکن اس کے لیے حقیقی پیاس (تشنہ کامی) لازمی ہے۔ اگر تُو اسے حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس کے حصول کی تڑپ اپنے دِل میں پیدا کر۔ آبِ حیات سے مراد ہے ایسی زندگی جس میں صفتِ دوام (ہمیشگی کی صفت) حاصل ہو جائے، یعنی اگر تُو یہ چاہتا ہے کہ تیرا نام دُنیا میں ہمیشہ زندہ رہے تو اس مقصد کے حصول کے لیے کوشش کر۔ دائمی (ہمیشہ کی) زندگی حاصل کرنے کے لیے خودی کی معرفت ضروری ہے۔ بقول اقبالؔ:-
؎ ہو اگر خود نگر و خود گر و خود گیر خودی
یہ بھی ممکن ہے کہ تُو موت سے بھی مر نہ سکے
(حوالہ: ضربِ کلیم: حیاتِ ابدی)
آبِ حیات: روایت کے مطابق حضرت خضر، سکندر کو لے کے آبِ حیات کی تلاش میں نکلے۔ جس راستہ میں چشمہ تھا، سکندر اس تک نہ پہنچ سکا، خضر نے وہاں پہنچ کر پانی پی لیا اور حیاتِ جاوید پا لی۔ اس حوالے سے یہ کہنا مقصود ہے کہ حیاتِ جاوید وہی پا سکتا ہے جو اس کے لیے مسلسل جہد و عمل میں مصروف رہے، اور بڑے بڑے کارنامے انجام دے۔
غیرت ہے طریقتِ حقیقی
غیرت سے ہے فقر کی تمامی
اے بیٹے! غیرت (خود داری، شرم)، یعنی دین کی عزت دُنیا میں برقرار رکھنے کا بے پناہ جذبہ، یہی حقیقی طریقت، یعنی شریعت کی روح ہے۔ اسلامی شریعت کا مقصد ہی یہ ہے کہ اُس پر عمل کرنے سے مسلمان کے اندر دین کے لیے غیرت پیدا ہو جائے۔
؏ دوسرا نام اسی دین کا ہے فقرِ غیور
(حوالہ: ضربِ کلیم: اسلام)
جب تک غیرت کا رنگ پیدا نہ ہو، شانِ فقر کی تکمیل نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ جو چیز مسلمان کو غیر اللہ کی غلامی یا اطاعت سے باز رکھ سکتی ہے، وہ یہی غیرت تو ہے۔ اگر مسلمان میں غیرت نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ سلطان ٹیپو شہید میں یہ غیرت ہی تو تھی جس کی بناء پر اُس نے موت قبول کی لیکن کافر کی غلامی قبول نہیں کی۔ اور نظام علی خاں میں اسی جواہر کا فقدان تھا، چنانچہ اس نے غلامی کر لی اور غلاموں کا ایک طویل سلسلہ قائم کر دیا۔
اے جانِ پدر! نہیں ہے ممکن
شاہیں سے تدرَو کی غلامی
اے باپ کی جان! زندگی میں شاہین بن، تیری نہ بن۔ شاہیں کبھی تیتر کا غلام یا شکار نہیں بن سکتا۔ ہمیشہ تیتر ہی شاہیں کا شکار بنتا ہے۔ مقصود اس نصیحت سے یہ ہے کہ شہباز جیسی خود دار اور آزاد زندگی گزارو۔ تیتروں جیسی بے ہمت زندگی سے بچو۔
نایاب نہیں متاعِ گُفتار
صد انوریؔ و ہزار جامیؔ!
شاعری (متاعِ گفتار یعنی بات کرنے کی دولت، یہاں اس سے مراد شاعری ہے) کوئی ایسی دولت نہیں جو کہیں نہ مِلے۔ اس دنیا میں انوریؔ اور جامیؔ جیسے سینکڑوں اور ہزاروں شاعر موجود ہیں۔ البتہ دیکھنا یہ ہے کہ کس کی شاعری افراد یا اقوام کو بیدار کرتی ہے اور کس کی شاعری انہیں سُلاتی ہے۔ اس لیے اگر شاعری کا ذوق ہو تو ایسا شعر کہہ دے جس سے سوئی ہوئی قوم جاگ اُٹھے۔
ہے میری بساط کیا جہاں میں
بس ایک فغانِ زیر بامی
میں شاعری کو اپنے لیے باعثِ فخر نہیں سمجھتا۔ میں عرفِ عام کے لحاظ سے شاعر نہیں ہوں بلکہ میری حقیقت (بساط) صرف اتنی ہے کہ میں قوم کو اپنے دردِ دِل کی داستا سناتا ہوں، جس طرح کوئی عاشق محبوب کے بالاخانہ کے نیچے کھڑے ہو کر اپنا دردِ دِل (فغانِ زیرِ بامی: چھت کے نیچے کھڑے ہو کر فریاد کرنا) اُسے سُنا دے۔
اک صدقِ مقال ہے کہ جس سے
مَیں چشمِ جہاں میں ہُوں گرامی
تاہم میری صدقِ مقال (بات کی سچائی) اور حق گوئی ہی ہے جس کی بدولت دنیا کی آنکھوں میں (چشمِ جہاں) مجھے عزت و توقیر نصیب ہوئی۔ گویا اگر با عظمت و مرتبہ زندگی گذارنی ہے تو ضروری ہے کہ راست و حق گوئی پورے طور پر اختیار کی جائے۔ میں جو دُنیا کی نظر میں محترم ہوں اس کی وجہ یہ نہیں کہ میں کوئی بلند پایہ شاعر ہوں، بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ میں نے قرآن اور حدیث کے حقائق و معارف نہایت سچائی کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کر دیے ہیں اور کسی کی رعایت نہیں کی-
؏ کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق
(حوالہ: بالِ جبریل)
اللہ کی دین ہے، جسے دے
میراث نہیں بلند نامی
یاد رکھ! شہرت اور نیک نامی کسی شخص کو میراث میں نہیں مل سکتی۔ یہ دولت صرف اُسے مل سکتی ہے جو اس کے لیے کوشش کرے اور اللہ کی سُنت یہ ہے کہ وہ اُنہی لوگوں کو نیک نامی عطا کرتا ہے جو اُس کے مستحق ہوتے ہیں۔
اپنے نورِ نظر سے کیا خوب
فرماتے ہیں حضرتِ نظامیؔ
میں تجھے وہی نصیحت کرتا ہوں جو نظامی گنجویؒ نے اپنے بیٹے کو کی تھی اور وہ یہ ہے۔۔۔ (نصیحت اگلے شعر میں)
”جاے کہ بزرگ بایدت بود
فرزندی من نداردت سود“
اے بیٹے! جہاں تجھے عظمت و بلند نامی حاصل ہونی چاہیے وہاں میری فرزندی (میرا بیٹا ہونے) سے تجھے کوئی فائدہ نہ پہنچے گا۔ اس عظمت کا دار و مدار ہر انسان کے اپنے کردار و عمل پر ہے۔ یہ کوئی میراث نہیں ہے جو اگلی اولاد یا نسل کو ملتی چلی جائے۔ مقصد یہ کہ بیٹے (اور اے نئی نسل) تم جہد و عمل اختیار کر کے اپنی عظمت و بقا کا سامان کرو۔
بند نمبر 3
مومن پہ گراں ہیں یہ شب و روز
دِین و دولت، قِمار بازی!
آج مومن کے لیے شب و روز یعنی زندگی بہت دشوار ہو گئی ہے، اس لیے کہ دین اور حکومت دونوں جوئے بازی (قمار بازی) کی سی حالت اپنائے ہوئے ہیں۔ دُنیا پرست علماء اور امراء، دونوں حصولِ جاہ (دولت) کے لیے سر گرداں رہتے ہیں۔ جب بندۂ مومن یہ دیکھتا ہے کہ ”دین دار“ لوگ ضرورت کے وقت ”دین“ کو بھی داؤ پر لگا دیتے ہیں تو اُسے بہت رنج ہوتا ہے۔گویا دیندار اور اربابِ حکومت کے عمل یا کرتوت جواریوں کے سے بن چکے ہیں۔
ناپید ہے بندۂ عمل مست
باقی ہے فقط نفَس درازی
آج دُنیا ہر قسم کے فنکاروں سے بھری پڑی ہے، لیکن مردِ مجاہد کہیں نظر نہیں آتا۔ آج صاحبِ کردار اور اپنے عمل میں مست لوگ (بندہ عمل مست) غائب ہو گئے ہیں اور ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے (ناپید ہیں)۔ البتہ فضول زندگی گزارنے والے اور مقصدِ زندگی سے غافل لوگ ضرور عام ہیں (نفس درازی: سانسوں کو طول دینا یعنی بے کار زندگی گزارنا)۔
ہِمّت ہو اگر تو ڈھُونڈ وہ فقر
جس فقر کی اصل ہے حجازی
اے بیٹے! اگر تجھ میں ہمت ہو، تو اپنے اندر وہ فقر (درویشی) پیدا کر جس کی تعلیم سرکارِ دوعالم ﷺ نے دنیا کو دی۔ وہی فقر ہے جس نے حجاز کی مقدس سرزمین میں جنم لیا۔
اُس فقر سے آدمی میں پیدا
اللہ کی شانِ بے نیازی
جس اسلامی اور حجازی فقر یا درویشی کی اے بیٹے میں بات کر رہا ہوں اس فقرِ حجازی کی شناخت یہ ہے کہ اس فقر سے آدمی میں اللہ کی ہی شانِ بے نیازی پیدا ہو جاتی ہے یعنی صاحبِ فقرِ حجازی، کسی انسان کے سامنے دستِ سوال دراز نہیں کرتا اور نہ اللہ کے سوا کسی کو اپنا حاجت روا سمجھتا ہے۔
کُنِجشک و حمام کے لیے موت
ہے اُس کا مقام شاہبازی
یہ فقر (فقرِ حجازی) شاہبازوں والا فقر ہے۔ شاہباز فضاؤں میں آزاد اُڑتا ہے۔ پہاڑوں پر اپنا ڈیرہ بناتا ہے۔ اپنا شکار خود کرتا ہے۔ اس کے مقابلے میں وہ فقر جس سے نبی کریم ﷺ نے بھی پناہ مانگی ہے وہ محتاجی کا فقر ہے جس میں فقیر چڑیوں (کنجشک) اور کبوتروں (حمام) کی طرح دانہ کا محتاج ہوتا ہے اور وہ دوسروں کے بھروسے پر زندگی بسر کرتا ہے۔ اس صاحبِ فقر کا مقام باطل کے حق میں اسی طرح پیامِ موت بن جاتا ہے، جس طرح شہباز کا مقام چڑیا اور کبوتر کے لیے یعنی مردِ مومن باطل پر اسی آسانی کے ساتھ غالب آ سکتا ہے جس آسانی کے ساتھ شہباز کبوتر پر۔
چڑیوں اور کبوتروں کے لیے شاہین کی موجودگی موت ہے۔ اس طرح مردِ مومن کی موجودگی باطل کی موت ہے۔
روشن اُس سے خِرد کی آنکھیں
بے سُرمۂ بُوعلی و رازی
اس شعر میں بھی اسلامی فقر کی بات کی ہے اور کہا ہے ایک عقل (خِرد) تو وہ ہے جو اپنی آنکھوں میں بو علیؔ سینا اور فخر الدین رازیؔ کے فلسفہ کا سرمہ ڈالے تو روشن ہوتی ہے لیکن یہ عقل طالب کو منزلِ مقصود تک نہیں پہنچاتی اور حقیقت کا مشاہدہ نہیں کراتی۔ دوسری عقل وہ ہے جسے فقر کا سرمہ روشن کرتا ہے۔ یہ عقل منزلِ مقصود پر بھی پہنچاتی ہے اور مشاہدہ بھی کراتی ہے۔ اس لیے اے بیٹے! فقر والی عقل کی تمنا کر۔
حاصل اُس کا شکوہِ محمود
فطرت میں اگر نہ ہو ایازی
اسلامی فقر محمود غزنوی کا سا دبدبہ اور ہیبت لیے ہوتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ شرِشت میں ایازی (غلامی) نہ ہو۔ محمود غزنوی اپنے ایک غلام ایاز کو بہت چاہتا تھا اور اس کی مرضی کو فوقیت دیتا تھا جس کے نتیجہ میں اس کے شِکوہ (دبدبہ) میں فرق آتا تھا۔ فقر بھی اگر کسی کا محتاج ہو اور اپنی بے نیازانہ شان نہ رکھتا ہو تو وہ بھی درست نہیں۔ اسلامی فقر کا جلال اور دبدبہ اس میں ہے کہ وہ کسی کا محتاج نہ ہو۔
خلاصہ یہ کہ اگر فطرت میں غلامی کا مادہ موجود نہ ہو (جس کا کوئی علاج نہیں) تو اِس فقر کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان بُت شکن بن جاتا ہے اور اُسے وہی سطوَت حاصل ہو جاتی ہے جو سلطان محمود غزنوی کو حاصل تھی۔
تیری دُنیا کا یہ سرافیل
رکھتا نہیں ذوقِ نَے نوازی
حجازی فقر رکھنے والا مسلمان در اصل مُردوں کو زندہ کر سکتا ہے۔ یعنی اُس کی صحبت کے فیض سے کافر، مسلمان ہو جاتے ہیں۔ لیکن اُسے نَے نوازی (بانسری بجانا) کا ذرا شوق نہیں ہوتا۔
جس طرح قیامت کے روز حضرت اسرافیل کے صُور پھونکنے سے تمام مردے جاگ اُٹھیں گے، اسی طرح یہ مردِ خدا تیری دنیا کا سرافیل ہے کہ جس کی آواز سے ہر شے حقیقت بن کر بیدار ہو جاتی ہے۔ اس کی نظرِ فیض اثر ہی دنیا میں انقلاب و برپا کر کے درپردہ تمام کام سنوار دیتی ہے۔
یعنی وہ اسرافیل کی طرح صور پھونک کر عالم کو تہ و بالا نہیں کرتا، بلکہ محض اپنی نگاہ سے انقلاب پیدا کر سکتا ہے۔ دوسرا مطلب اس شعر کا یہ ہو سکتا ہے کہ جو کام اسرافیل صور سے لیتے ہیں، مومن یہ کام اپنی نگاہ سے لیتا ہے۔
؏ نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
(حوالہ: بانگِ درا: طلوعِ اسلام)
ہے اس کی نگاہِ عالم آشوب
درپردہ تمام کارسازی
مردِ فقیر کی نگاہ اسرافیل کی طرح مُردہ دِلوں کو زندہ کرنے والی ہوتی ہے۔ اس کی تلاطُم پیدا کردینے والی نظر (نگاہِ عالم آشوب) دنیائے دِل میں تلاطم پیدا کرکے اس کو صحیح دِل بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ وہ پوشیدہ طور پر کارساز (دوسروں کے کام بنانے والی) ہوتی ہے۔ آج کے پیشہ ور فقیر خود گداگر ہیں۔ وہ اپنی محتاجی دور نہیں کر سکتے دوسروں کے بگڑے ہوئے کام کسیے بنائیں گے۔ یہ کام اصل فقر (یعنی حجازی فقر) اور اسلامی فقیر کا ہے کہ وہ لوگوں کی کارسازی کرتا ہے۔
یہ فقرِ غیُور جس نے پایا
بے تیغ و سناں ہے مردِ غازی
جو مسلمان اس فقرِ غیور کا مالک ہوتا ہے، وہ اپنی زبان سے وہی کام لے سکتا ہے جو ایک غازی تیر و سناں سے لیتا ہے، یعنی غازی اور صاحبِ فقر دونوں جہاد کرتے ہیں، ایک تلوار سے، دوسرا اپنی نگاہ اور زبان سے۔ غازی تلوار سے کفر کا مقابلہ کرتا ہے اور فقیر اپنی نگاہ سے۔
جس شخص کو خوددار، غیرت مند اور بے نیاز دو جہان کی صفات والا فقر حاصل ہو جاتا ہے اسے میدانِ جنگ میں دشمن سے مقابلہ کرنے کے لیے تلوار اور نیزے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ وہ ان آلاتِ حرب کے بغیر ہی فریق مقابل کے سامنے آ جاتا ہے اور اپنی نگاہ سے تلوار اور نیزے کا کام لیتا ہے۔ مردِ فقیر کی نگاہ تقدیریں بدل دیتی ہے۔ وہ تلوار کا نہیں نگاہ کی ضرب لگانے والا مردِ مجاہد ہوتا ہے اور ہمیشہ فتح یاب ہو کر غازی بنتا ہے۔
چنانچہ جو کام شہاب الدین غوریؒ نے تلوار سے کیا وہ ہمارے حضرت خواجہ معین الدین اجمیری سلطان الہندؒ نے نگاہ سے انجام دیا۔
سلطان شہاب الدین غوری: آپؒ نام غایت شہرت کی بناء پر کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ اس خوش نصیب سلطان نے 1914ء میں دہلی اور اجمیر کے آخری فرمانروائے پتھورا کو میدانِ جنگ میں قتل کرکے ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومت قائم کی، 1206ء میں باطنیؔ فرقہ کے ایک پیرو نے دھوکہ سے قتل کر دیا۔
حضرت سلطان الہند خواجہ غریب نوازؒ: آپؒ (ولادت 530ھ) جب مدینہ منورہ حاضر ہوئے تو سرکارِ دو جہاں ﷺ نے بشارت دی کہ ہم نے تمہیں ہندوستان کی ولایت (روحانی بادشاہت) عطا کی۔ چنانچہ آپ 586ھ میں لاہور تشریف لائے اور مخدوم عالم حضرت داتا گنج بخش شیخ علی ہجویریؒ کے مزار مبارک پر چالیس دن قیام کے بعد دہلی کو اپنے قدموں سے برکت دی۔ وہاں سے پا پیادہ اجمیر شریف تشریف لے گئے۔ راستہ میں جس پر نگاہ پڑ جاتی تھی، آپ کا حلقہ بگوش ہو جاتا تھا۔ چنانچہ اجمیر پہنچے تو ہمرائیوں کی تعداد آٹھ سے سے متجاوز ہو چکہ تھی۔ سلطان شہاب الدین نے تلوار کے زور سے ملک فتح کیا، آپ نے نگاہ کے زور سے قلوب مسخّر کیے۔
مومن کی اسی میں ہے امیری
اللہ سے مانگ یہ فقیری
پس اے نوجوان! تُو اللہ سے اس فقر کے حصول کے لیے دعا کر۔ کیونکہ مومن کے لیے یہی فقیری دراصل امیری ہے۔ واضح رہے کہ دھن دولت چھاؤں ہے، آج ہے تو کل نہیں۔ فقر کی دولت وہ دولت ہو جس کو نہ زوال ہے اور نہ کوئی اسے چھین سکتا ہے۔ مردِ فقیر کسی کا محتاج نہیں ہوتا بلکہ سب اس کے محتاج ہوتے ہیں اور وہ محتاجوں کی احتیاج دور کرتا ہے۔ اس کی غیرت گوارا نہیں کرتی کہ وہ خود کسی کا محتاج ہو۔ اقبالؔ نے اس خیال کو اپنی کئی کتابوں میں مختلف طریقوں سے پیش کیا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام کا نصب العین یہی ہے کہ مسلمان فقر کی طاقت سے حکومت کرے تاکہ وہ حکومت دنیا کے لیے رحمت بن سکے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ فاروقِ اعظمؓ کی حکومت، اسی لیے عالم کے لیے باعثِ رحمت تھی۔
؎ آں مسلماناں کہ میری کردہ اند
در شہنشاہی فقیری کردہ اند
مسلمانوں نے اِس طرح حکومت کی ہے کہ وہ شہنشاہی میں بھی فقیر منش رہے۔
(حوالہ: پیامِ مشرق: لالۂ طور: پیش کش)
سو اے بیٹے! اللہ سے دعا کرو کہ وہ تمہیں حجازی فقر کی یہ دولت عطا کر دے۔ دنیا کی دولت تو آنی جانی شے ہے، اس پر فقر کی دولت کو قربان نہ کر دینا۔
حوالہ جات
- شرح ضربِ کلیم از پروفیسر یوسف سلیم چشتی
- شرح ضربِ کلیم از اسرار زیدی
- شرح ضربِ کلیم از ڈاکٹر خواجہ حمید یزدانی
- شرح ضربِ کلیم از عارف بٹالوی