نظم ”مشرق و مغرب“ از علامہ اقبال
فہرست
تعارف
نظم ”مشرق و مغرب“ میں علامہ اقبال نے یہ بتایا ہے کہ مشرقی اور مغربی قومیں اِس وقت روحانیت، تقویٰ اور پاکیزگی سے محروم ہیں۔ اس لیے قدرتی طور پر مختلف امراض میں مبتلا ہیں۔
نظم ”مشرق و مغرب“ کی تشریح
یہاں مَرض کا سبب ہے غلامی و تقلید
وہاں مَرض کا سبب ہے نظامِ جمہُوری

حلِ لغات:
| الفاظ | معنی |
|---|---|
| مرض | بیماری |
| سبب | ذریعہ، وجہ، عِلّت |
| تقلید | پیروری، کسی کے پیچھے چلنا |
تشریح:
علامہ اقبال کے نزدیک مشرق (ایشیائی اور مسلم ممالک) کی بنیادی بیماری (مَرض) سیاسی غلامی اور ذہنی و فکری تقلید ہے۔ اِن قوموں نے اپنی آزادی اور خودی کھو دی ہے؛ یہ ایک طرف مغربی سامراجی قوتوں کے سیاسی تسلّط میں ہیں اور دوسری طرف اپنے ہی سماج میں جاہل مُلّاؤں اور رُجعت پسند صوفیوں کے بے کار نظریات کی اندھی پیروی (تقلید) میں گرفتار ہیں۔ اِس دوہری غلامی نے قوم کے قلب و نظر (یعنی ان کی سوچ، اخلاق اور حوصلے) کو مُردہ اور بیمار کر دیا ہے، جس کے نتیجے میں وہ اپنی تقدیر بدلنے کی ہمت اور صلاحیت سے محروم ہو کر پستی کا شکار ہو گئے ہیں۔
مغربی ممالک کی بیماری (مَرض) کی نشاندہی کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ وہاں کا بظاہر دل فریب جمہوری نظام ہی درحقیقت ایک گہرا روگ ہے۔ اُن کے نزدیک یہ نظام چونکہ مادہ پرستانہ (materialistic) بنیادوں پر قائم ہے، لہذا اس میں اقتدار کا حصول محض دولت مندوں اور طاقتور گروہوں کا کھیل بن جاتا ہے۔ حصولِ اقتدار کی اندھی دوڑ میں، مختلف سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے ہر جائز و ناجائز طریقہ اختیار کرتی ہیں؛ وہ سچ اور جھوٹ کی تمیز مٹا کر لالچ، دھمکی اور عیاری کو فروغ دیتی ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جمہوریت میں انسان کی نظر خدا کے احکامات، ضمیر، شرافت اور اصولوں سے ہٹ کر صرف زیادہ سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے کے واحد مقصد پر مرکوز ہو جاتی ہے، اور یوں اقتدار کی ہوَس انسان کو اپنی خواہشات کا غلام بنا کر ہر نیکی اور سچائی سے دور کر دیتی ہے۔
نہ مشرق اس سے بَری ہے، نہ مغرب اس سے بَری
جہاں میں عام ہے قلب و نظر کی رَنجوری

حلِ لغات:
| الفاظ | معنی |
|---|---|
| بَری | آزاد بچا ہوا، نجات یافتہ |
| قلب و نظر کی رنجُوری | دِل اور نظر کی بیماری |
تشریح:
علامہ اقبال بات جاری رکھتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اگر مشرق سیاسی غلامی اور فکری تقلید کے مَرض میں مبتلا ہے تو مغرب بے خدا جمہوری نظام اور اِقتدار کی ہوَس میں جکڑا ہوا ہے۔ لہذا، دونوں خطوں میں انسان اپنی تقدیر کا مالک نہیں بن سکا ہے، اور اسی مشترکہ ناکامی اور محکومی کو علامہ نے ”قلب و نظر کی رَنجُوری“ (دِل و نگاہ کی بیماری) سے تعبیر کیا ہے۔ یہ عالمی بیماری اس لیے عام ہے کہ دونوں جگہ کے انسانوں کا ضمیر مُردہ ہو چکا ہے؛ وہ صحیح محسوس کرنے اور صحیح دیکھنے کی صلاحیت کھو بیٹھے ہیں، اور اپنی روحانی قوتوں کو بھلا کر صرف شِکم پروری اور تن زیبی (جسمانی آسائش) میں لگے ہوئے ہیں۔ اقبالؔ کی رائے میں جب تک دونوں خطوں کے لوگوں کے دل و نظر بیدار نہیں ہوں گے، اس عالمی رنجوری کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔
تبصرہ
اگرچہ اقبالؔ نے اس مرض کا علاج اس نظم میں بیان نہیں کِیا لیکن اُن کے کلام کا مطالعہ کرنے والوں سے یہ حقیقت مخفی نہیں کہ اُنہوں نے اس کا شافی علاج متعدد مقامات میں بتا دِیا ہے اور وہ یہ ہے کہ سب قومیں انسانوں کی غلامی کی بجائے اللہ تعالی اور اُس کے رسول ﷺ کی غلامی اختیار کر لیں۔ پس ہر مسلمان کا اولیں فرض ہے کہ وہ دنیا سے ملوکیّت کو ختم کرنے کی کوشش کرے کیونکہ ملوکیّت اور خدا پرستی دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ لا الہ الا اللہ کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ کے علاوہ اور کوئی شخص بنی آدم پر حکمران نہیں ہو سکتا۔ لہذا جب تک ملوکیّت باقی ہے، اصلاح کی کوئی صورت ممکن نہیں۔
شرح ضربِ کلیم از پروفیسر یوسف سلیم چشتی
حوالہ جات
- شرح ضربِ کلیم از پروفیسر یوسف سلیم چشتی
- شرح ضربِ کلیم از اسرار زیدی
- شرح ضربِ کلیم از پروفیسر حمید اللہ شاہ ہاشمی






