Skip to content
ضربِ کلیم 157: نفسیاتِ غلامی

ضربِ کلیم 157: نفسیاتِ غلامی

نظم ”نفسیاتِ غلامی“ از علامہ اقبال

تعارف

ضربِ کلیم کی نظم ”نفسیاتِ غلامی“ میں علامہ اقبال نے یہ بتایا ہے کہ جب کوئی قوم غلام ہو جاتی ہے تو اُس قوم کے شُعَرا، عُلَما اور حُکَمَا۔۔۔ سب کی ذہنیّت غلامانہ ہو جاتی ہے اور یہ لوگ ادب، علم اور فلسفہ کے مسائل کی تشریح اس انداز سے کرتے ہیں کہ قوم کے اندر غلامی کے جذبات پُختہ تر ہوتے چلے جائیں۔

(حوالہ: شرح ضربِ کلیم از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)

YouTube video

نظم ”نفسیاتِ غُلامی“ کی تشریح

شاعر بھی ہیں پیدا، عُلما بھی، حُکما بھی
 خالی نہیں قوموں کی غلامی کا زمانہ

ضربِ کلیم 157 نفسیاتِ غلامی از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح

حلِ لغات:

الفاظمعنی
عُلماعالم کی جمع۔ تعلیم یافتہ، صاحب علم، جاننے والا، دانا
حُکماحکیم کی جمع۔ دانا، فلسفی
(ضربِ کلیم 157: نفسیاتِ غلامی از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ جب قوموں پر غلامی و محکومی کا دور طاری ہو جاتا ہے تو اُس دور میں بھی اُن کے اندر شاعر، عالم اور فلسفی پیدا ہوتے رہتے ہیں، لیکن  اُن کا مقصد وہ نہیں رہتا جو آزاد اقوام کے لوگوں کا ہوتا ہے۔ کسی قوم کے شُعَرا، عُلَما اور حُکَمَا کا مقصد تو یہی ہونا چاہیے کہ وہ اپنی قوم کو خودی و خودداری کا درس دیں اور اپنی تعلیمات سے اُن میں آزادی و جد و جہد کے جذبات کو اُبھاریں، لیکن غلام قوم کے اِن افراد کی صورتِ حال اِس کے برعکس ہوتی ہے۔


مقصد ہے ان اللہ کے بندوں کا مگر ایک
 ہر ایک ہے گو شرحِ معانی میں یگانہ

ضربِ کلیم 157 نفسیاتِ غلامی از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح

حلِ لغات:

الفاظمعنی
شرحِ معانیمعنوں یا حقیقتوں کی وضاحت
یگانہبے مثل اور یکتا
(ضربِ کلیم 157: نفسیاتِ غلامی از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

یہ بات درُست ہے کہ غلامی کے زمانے میں پیدا ہونے والی اِن علمی شخصیات میں سے ہر کوئی اپنے علم کی شرح کرنے میں درجۂ کمال تک پہنچا ہوا ہوتا ہے اور اپنے اپنے میدان میں یکتا اور بے مثال ہوتا ہے لیکن در اصل ان تمام حضرات (یعنی غلام اقوام کے شُعَرا، عُلَما اور حُکَمَا) کا مقصد ایک ہی ہوتا ہے۔


’بہتر ہے کہ شیروں کو سِکھا دیں رمِ آہُو
 باقی نہ رہے شیر کی شیری کا فسانہ‘

ضربِ کلیم 157 نفسیاتِ غلامی از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح

حلِ لغات:

الفاظمعنی
آہُوہرن
رمِ آہُوہرن کا ڈر کر بھاگنا۔ مُراد بُزدلی اور کمزوری
شیرمراد آزاد قوم
شیریدلیری، آزادی
فسانہکہانی
(ضربِ کلیم 157: نفسیاتِ غلامی از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

اور وہ مقصد یہ ہوتا ہے کہ اپنی شاعری، اپنے علم اور اپنی حکمت کے ذریعے قوم کے شیروں کو ہرنوں کی طرح بُزدلی سے بھاگنا سِکھا دیں اور یہ کام اِس حد تک سرانجام دیں کہ نہ شیر باقی رہے اور نہ شیر کی شیری کی کہانیاں باقی رہیں۔ مراد یہ ہے کہ بہادری کا سبق دینے کی بجائے اپنی قوم کے لوگوں کو بزدلی کا درس دیا جائے تاکہ وہ غلامی میں اور زیادہ پُختہ ہو جائیں اور اپنے حالات کو بدلنے کی بجائے حالات سے سمجھوتا کر لیں۔


کرتے ہیں غلاموں کو غلامی پہ رضامند
 تاویلِ مسائل کو بناتے ہیں بہانہ

حلِ لغات:

الفاظمعنی
رضامندراضی، آمادہ، تیار
تاویلِ مسائلمسئلوں کے اصل مطلب یا معانی کو چھوڑ کر اپنے معانی پیدا کرنا، دوسرا اور غلط مطلب لینا
(ضربِ کلیم 157: نفسیاتِ غلامی از علامہ اقبال مع حلِ لغات و تشریح)

تشریح:

غلام قوموں کے شُعَرا، عُلَما، حُکَمَا اور دوسرے ہُنرمند اور فنکار، یہ سب لوگ دینی، فنی اور علمی قسم کے مسئلوں کے من گھڑت معنی پیدا کرتے ہیں اور ان غلط معانی کو بہانہ بنا کر اپنی قوم کے غلام لوگوں کو غلامی قبول کرنے پر مزید رضامند کرتے ہیں اور یہ سب کُچھ وہ اپنے مفادات و اغراض کے پیشِ نظر اور اپنے حکمران آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے کرتے ہیں۔ علامہ نے اسی رویّے اور مزاج کو غلامی کی ذہنیّت (نفسیاتِ غلامی) کہا ہے۔

مولانا غلام رسول مہر فرماتے ہیں کہ پاک و ہند کے مسلمانوں کی تاریخِ محکومی بھی اس حقیقت کی بیسیوں مثالیں پیش کر سکتی ہے۔ مثلاً:-

ا۔ مُغلوں کے آخری دور میں فرنگی لُٹیرے حاجیوں کے جہازوں پر بھی یورشیں کر دیتے تھے۔ یہاں کے بعض عالموں نے فتویٰ دے دیا کہ ان حالات میں حج کا سفر کرنا نہ فقط یہ کہ جائز ہی نہیں ہے، بلکہ گُناہ ہے۔ حالانکہ فرنگی مال و دولت کی حرص میں سات ہزار میل کا راستہ طے کر کے بحرِ ہند میں پہنچ گئے تھے اور مسلمان ایک اہم دینی فرض کے لیے اپنی حفاظت کا انتظام بھی کرنے کی طرف متوجہ نہ تھے (علامہ اقبال کی نظم ”ایک حاجی مدینے کے راستے میں“ اسی صورتِ حال کی عکاس ہے)۔

ب۔ جہاد کو اِس بنا پر غیر شرعی قرار دیا گیا کہ اس کے لیے ایسے امام کا ہونا ضروری ہے، جس میں امامت کی تمام شرطیں جمع ہوں۔ حالانکہ ایسے امام کی ضرورت اس لیے تھی کہ جہاد کا کام بہتر طریق پر انجام پائے۔ مُدّعا یہ نہ تھا کہ جب تمام شرطیں پوری کرنے والا امام موجود نہ ہو، جہاد ہی نہ کرنا چاہیے۔

ایسی اور بھی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ یہ مسئلوں کی ایسی تشریح تھی، جس کا مُدّعا یہ تھا کہ لوگ غلامی پر راضی ہو جائیں۔

حوالہ جات

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments