نظم ”نفسیاتِ غلامی“ از علامہ اقبال
فہرست
تعارف
ضربِ کلیم کی نظم ”نفسیاتِ غلامی“ میں علامہ اقبال نے یہ بتایا ہے کہ جب کوئی قوم غلام ہو جاتی ہے تو اُس قوم کے شُعَرا، عُلَما اور حُکَمَا۔۔۔ سب کی ذہنیّت غلامانہ ہو جاتی ہے اور یہ لوگ ادب، علم اور فلسفہ کے مسائل کی تشریح اس انداز سے کرتے ہیں کہ قوم کے اندر غلامی کے جذبات پُختہ تر ہوتے چلے جائیں۔
(حوالہ: شرح ضربِ کلیم از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)
نظم ”نفسیاتِ غُلامی“ کی تشریح
شاعر بھی ہیں پیدا، عُلما بھی، حُکما بھی
خالی نہیں قوموں کی غلامی کا زمانہ
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
عُلما | عالم کی جمع۔ تعلیم یافتہ، صاحب علم، جاننے والا، دانا |
حُکما | حکیم کی جمع۔ دانا، فلسفی |
تشریح:
علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ جب قوموں پر غلامی و محکومی کا دور طاری ہو جاتا ہے تو اُس دور میں بھی اُن کے اندر شاعر، عالم اور فلسفی پیدا ہوتے رہتے ہیں، لیکن اُن کا مقصد وہ نہیں رہتا جو آزاد اقوام کے لوگوں کا ہوتا ہے۔ کسی قوم کے شُعَرا، عُلَما اور حُکَمَا کا مقصد تو یہی ہونا چاہیے کہ وہ اپنی قوم کو خودی و خودداری کا درس دیں اور اپنی تعلیمات سے اُن میں آزادی و جد و جہد کے جذبات کو اُبھاریں، لیکن غلام قوم کے اِن افراد کی صورتِ حال اِس کے برعکس ہوتی ہے۔
مقصد ہے ان اللہ کے بندوں کا مگر ایک
ہر ایک ہے گو شرحِ معانی میں یگانہ
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
شرحِ معانی | معنوں یا حقیقتوں کی وضاحت |
یگانہ | بے مثل اور یکتا |
تشریح:
یہ بات درُست ہے کہ غلامی کے زمانے میں پیدا ہونے والی اِن علمی شخصیات میں سے ہر کوئی اپنے علم کی شرح کرنے میں درجۂ کمال تک پہنچا ہوا ہوتا ہے اور اپنے اپنے میدان میں یکتا اور بے مثال ہوتا ہے لیکن در اصل ان تمام حضرات (یعنی غلام اقوام کے شُعَرا، عُلَما اور حُکَمَا) کا مقصد ایک ہی ہوتا ہے۔
’بہتر ہے کہ شیروں کو سِکھا دیں رمِ آہُو
باقی نہ رہے شیر کی شیری کا فسانہ‘
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
آہُو | ہرن |
رمِ آہُو | ہرن کا ڈر کر بھاگنا۔ مُراد بُزدلی اور کمزوری |
شیر | مراد آزاد قوم |
شیری | دلیری، آزادی |
فسانہ | کہانی |
تشریح:
اور وہ مقصد یہ ہوتا ہے کہ اپنی شاعری، اپنے علم اور اپنی حکمت کے ذریعے قوم کے شیروں کو ہرنوں کی طرح بُزدلی سے بھاگنا سِکھا دیں اور یہ کام اِس حد تک سرانجام دیں کہ نہ شیر باقی رہے اور نہ شیر کی شیری کی کہانیاں باقی رہیں۔ مراد یہ ہے کہ بہادری کا سبق دینے کی بجائے اپنی قوم کے لوگوں کو بزدلی کا درس دیا جائے تاکہ وہ غلامی میں اور زیادہ پُختہ ہو جائیں اور اپنے حالات کو بدلنے کی بجائے حالات سے سمجھوتا کر لیں۔
کرتے ہیں غلاموں کو غلامی پہ رضامند
تاویلِ مسائل کو بناتے ہیں بہانہ
حلِ لغات:
الفاظ | معنی |
---|---|
رضامند | راضی، آمادہ، تیار |
تاویلِ مسائل | مسئلوں کے اصل مطلب یا معانی کو چھوڑ کر اپنے معانی پیدا کرنا، دوسرا اور غلط مطلب لینا |
تشریح:
غلام قوموں کے شُعَرا، عُلَما، حُکَمَا اور دوسرے ہُنرمند اور فنکار، یہ سب لوگ دینی، فنی اور علمی قسم کے مسئلوں کے من گھڑت معنی پیدا کرتے ہیں اور ان غلط معانی کو بہانہ بنا کر اپنی قوم کے غلام لوگوں کو غلامی قبول کرنے پر مزید رضامند کرتے ہیں اور یہ سب کُچھ وہ اپنے مفادات و اغراض کے پیشِ نظر اور اپنے حکمران آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے کرتے ہیں۔ علامہ نے اسی رویّے اور مزاج کو غلامی کی ذہنیّت (نفسیاتِ غلامی) کہا ہے۔
مولانا غلام رسول مہر فرماتے ہیں کہ پاک و ہند کے مسلمانوں کی تاریخِ محکومی بھی اس حقیقت کی بیسیوں مثالیں پیش کر سکتی ہے۔ مثلاً:-
ا۔ مُغلوں کے آخری دور میں فرنگی لُٹیرے حاجیوں کے جہازوں پر بھی یورشیں کر دیتے تھے۔ یہاں کے بعض عالموں نے فتویٰ دے دیا کہ ان حالات میں حج کا سفر کرنا نہ فقط یہ کہ جائز ہی نہیں ہے، بلکہ گُناہ ہے۔ حالانکہ فرنگی مال و دولت کی حرص میں سات ہزار میل کا راستہ طے کر کے بحرِ ہند میں پہنچ گئے تھے اور مسلمان ایک اہم دینی فرض کے لیے اپنی حفاظت کا انتظام بھی کرنے کی طرف متوجہ نہ تھے (علامہ اقبال کی نظم ”ایک حاجی مدینے کے راستے میں“ اسی صورتِ حال کی عکاس ہے)۔
ب۔ جہاد کو اِس بنا پر غیر شرعی قرار دیا گیا کہ اس کے لیے ایسے امام کا ہونا ضروری ہے، جس میں امامت کی تمام شرطیں جمع ہوں۔ حالانکہ ایسے امام کی ضرورت اس لیے تھی کہ جہاد کا کام بہتر طریق پر انجام پائے۔ مُدّعا یہ نہ تھا کہ جب تمام شرطیں پوری کرنے والا امام موجود نہ ہو، جہاد ہی نہ کرنا چاہیے۔
ایسی اور بھی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ یہ مسئلوں کی ایسی تشریح تھی، جس کا مُدّعا یہ تھا کہ لوگ غلامی پر راضی ہو جائیں۔
حوالہ جات
- شرح ضربِ کلیم از پروفیسر یوسف سلیم چشتی
- شرح ضربِ کلیم از اسرار زیدی
- مطالبِ ضربِ کلیم از مولانا غلام رسول مہر