Skip to content
بانگِ درا 103: ایک حاجی مدینے کے راستے میں

بانگِ درا 103: ایک حاجی مدینے کے راستے میں


”ایک حاجی مدینے کے راستے میں“ از علامہ اقبال

تعارف

اِس جذباتی نظم ”ایک حاجی مدینے کے راستے میں“ میں علامہ اقبال نے اُس حاجی کے قلبی تاثرات قلمبند کیے ہیں جس کا قافلہ مدینے کے راستے میں لُٹ گیا۔ کچھ لوگ رہزنوں کے ہاتھوں مارے گئے۔ باقی ماندہ مایوسی اور بے دِلی کے عالم میں مکہ مکرمہ واپس چلے گئے۔ اب وہ حاجی اپنے دِل سے یوں گفتگو کرتا ہے کہ—

(حوالہ: شرح بانگِ درا از پروفیسر یوسف سلیم چشتی)


نظم ”ایک حاجی مدینے کے راستے میں“ ایک حاجی کی زبان سے کہی گئی ہے جو قافلے کے ساتھ مکہ سے مدینہ جا رہا تھا۔ راستے میں ڈاکہ پڑا، کچھ لوگ مارے گئے، باقی مدینے کا قصد چھوڑ کر مکہ کی جانب لوٹ پڑے اور یہ اکیلا رہ گیا۔

سلطان عبدالعزیز ابن سعود مرحوم کے حجاز آنے سے بیشتر مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے راستے مدتِ دراز تک غیر محفوظ رہے۔ ہر سال بدُّو حاجیوں کے قافلوں پر حملے کرتے تھے۔ لُوٹ مار اور خون ریزی ہوتی تھی۔ اِکّا دُکّا حاجی کے لیے تو آنا جانا ناممکن تھا۔ جو لوگ قافلوں سے چند قدم بھی اِدھر اُدھر ہو جاتے تھے، شاذ ہی بچتے تھے۔ اس وجہ سے حج و زیارت کا سفر لوگوں کے لیے جاں بازی کا امتحان بن گیا تھا۔ اس دور میں اقبالؔ کو غالباً یہ احساس ہوا کہ خطرات مسلمانوں کے بذبۂ زیارت میں افسردگی پیدا نہ کردیں۔ ممکن ہے، کوئی خاص واقعہ بھی اُنہوں نے کسی سے سُن لیا ہو، جس کا ذکر بخاری نوجوان کے رنگ میں کیا گیا ہے۔ بہر حال اس نظم کا مقصود یہ ہے کہ خطرات کتنی ہی نازک صورت اختیار کر جائیں، لیکن مسلمان کو عشقِ رسول ﷺ کے کیف و سرور میں جان سے بے پروا ہو ہر وہاں پہنچنا چاہیے۔ یہ نظم اعتبارِ مضمون میں اقبالؔ کی عام تعلیم کے عین مطابق ہے۔ یعنی عشق کو عقل پر ترجیح دینا۔ راحت و آسائش کے بجائے خطرات و مصائب کی زندگی پسند کرنا۔

(حوالہ: مطالبِ بانگِ درا از مولانا غلام رسول مہر)

YouTube video

نظم ”ایک حاجی مدینے کے راستے میں“ کی تشریح

قافلہ لُوٹا گیا صحرا میں اور منزل ہے دُور
اس بیاباں یعنی بحرِ خشک کا ساحل ہے دُور

حلِ لغات:

صحراریگستان
بیاباںصحرا، ریگستان، بے آب و گیاہ خطہ، جنْگل، ویرانہ، اجاڑ، آبادی سے باہر کا علاقہ
بحرِ خُشکخشک سمندر۔ مُراد صحرا جہاں ہر طرف ریت ہی ریت نظر آتی ہے
ساحلکنارہ
حلِ لغات (بانگِ درا 103: ایک حاجی مدینے کے راستے میں)

تشریح:

میرا قافلہ بیاباں (ریگستان، یہاں اس سے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کا درمیانی ریگستان مراد ہے) ہی میں راہزنوں نے لُوٹ لیا جبکہ منزل (مدینۂ منورہ) ابھی دُور ہے۔ اس بیاباں یعنی خشک سمندر کا ساحل ابھی دُور ہے (یعنی مدینہ منورہ ابھی بہت فاصلے پر ہے)


ہم سفر میرے شکارِ دشنۂ رہزن ہوئے
بچ گئے جو، ہو کے بے دل سُوئے بیت اللہ پھرے

حلِ لغات:

ہمسفرساتھ سفر کرنے والے
دشنۂ رہزنلُٹیرے کا خنجر (دشنہ: خنجر، رہزن: لُٹیرا)
بے دِلبُزدِل، مایوس
سُوئے بیت اللہاللہ تعالی کے گھر (کعبہ) کی طرف
حلِ لغات (بانگِ درا 103: ایک حاجی مدینے کے راستے میں)

تشریح:

میرے ہمسفر لُٹیروں کے خنجروں کا نشانہ بن گئے (ڈاکوؤں/ لٹیروں نے انہیں لُوٹ کر قتل کر دیا) اور جو ان کے ہاتھوں سے بچ گئے وہ بڑے غمزدہ ہو کر خانہ کعبہ کی طرف (سُوئے بیت اللہ) لوٹ گئے۔ ایک تو ہمسفروں کی تباہی کے دُکھ اور دوسرے خوف و ہیبت کے باعث مدینہ شریف کی طرف بڑھنے کی بجائے مکہ معظمہ واپس چل دیے۔  (حاجی حج سے فارغ ہو کر روضۂ رسولِ اکرم ﷺ کی طرف جاتے ہیں)


اُس بخاری نوجواں نے کس خوشی سے جان دی!
موت کے زہراب میں پائی ہے اُس نے زندگی

حلِ لغات:

بخاریبخارا کا باشندہ / رہنے والا
زہرابزہریلا پانی، زہر
حلِ لغات (بانگِ درا 103: ایک حاجی مدینے کے راستے میں)

تشریح:

ترکستان کے شہر بخارا کے رہنے والے اس نوجوان نے کس خوشی سے اپنی جان قربان کر دی، اُس نے موت کے زہراب (ایسا پانی جس میں زہر ملا ہوا ہو) سے حیاتِ جاوید (ہمیشہ رہنے والی زندگی) پا لی۔ وہ ڈاکوؤں کے ہاتھوں مارے جانے کے باعث شہید کہلایا، جو ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔ خوشی سے جان اس لیے دی کہ وہ خدا کی راہ پر گامزن تھا اور اس راہ میں مارا جانا شہادت ہے جو ہر کسی کے نصیب میں نہیں۔


خنجرِ رہزن اُسے گویا ہلالِ عید تھا
’ہائے یثرِب‘ دل میں، لب پر نعرۂ توحید تھا

حلِ لغات:

خنجرِ رہزنلُٹیرے کا خنجر
ہلالِ عیدعید کا چاند
ہائے یثربمراد مدینے کی آرزو میں ”آہ“ کا نکلنا
لب پرہونٹوں / زبان پر
نعرۂ توحیداللہ اکبر کا نعرہ
حلِ لغات (بانگِ درا 103: ایک حاجی مدینے کے راستے میں)

تشریح:

اس نوجوان کے لیے لُٹیرے کا خنجر (دِشنۂ راہزن) ایک طرح سے ہلالِ عید (عید کا چاند، جسے دیکھ کر مسلمان خوش ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے ہیں) تھا، ہلال (چاند) کی شکل خنجر کی طرح ہوتی ہے۔ اس کے دِل میں ”ہائے یثرب“ اور ہونٹون پر نعرۂ توحید تھا۔ چونکہ وہ اللہ کی راہ پر چل  رہا تھا اور زیارتِ روضۂ رسولِ اکرم ﷺ پیشِ نظر تھی (اس کی یہ آرزو پوری نے ہونے کے باعث ”ہائے یثرب“ اُس کے دِل میں تھا) اس لیے اس نے بے خوف ہو کر جان دی، اگرچہ زیارت کی آرزو پوری نہ ہونے کا اُسے افسوس ہوا.


خوف کہتا ہے کہ یثرِب کی طرف تنہا نہ چل
شوق کہتا ہے کہ تُو مسلم ہے، بے باکانہ چل

حلِ لغات:

خوفڈر
یثربمدینہ منورہ کا پرانا نام
تنہااکیلا
شوقعشق، محبّت
بے باکانہ چلبے خوف اور بے نڈر ہو کر چل
حلِ لغات (بانگِ درا 103: ایک حاجی مدینے کے راستے میں)

تشریح:

اس قسم کی صورتِ حال میں جان و مال کا خوف کہتا ہے کہ مدینہ شریف کی طرف تنہا نہیں جانا چاہیے، جبکہ شوق اور جذبۂ عشقِ رسول ﷺ کا تقاضا ہے کہ تُو مسلمان ہے اس لیے بے خوف (بیباکانہ) ہو کر منزل کی طرف رواں رہنا چاہیے۔ ہمیشہ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ مسلمان صرف اللہ سے ڈرتا ہے، کسی بھی باطل قوت کا وہ معمولی سا بھی خوف دِل میں نہیں رکھتا۔


بے زیارت سُوئے بیت اللہ پھر جاؤں گا کیا
عاشقوں کو روزِ محشر منہ نہ دِکھلاؤں گا کیا

حلِ لغات:

بے زیارتدیدار کے بغیر
سُوئے بیت اللہاللہ تعالی کے گھر (کعبہ) کی طرف
روزِ محشرقیامت کے دِن
حلِ لغات (بانگِ درا 103: ایک حاجی مدینے کے راستے میں)

تشریح:

میں اگر روضۂ رسول ﷺ کی زیارت کیے بغیر واپس لوٹ جاؤن گا تو قیامت کے دِن (روزِ محشر) عاشقانِ رسول ﷺ کا سامنا کرنے کے قابل نہیں رہوں گا۔


خوفِ جاں رکھتا نہیں کچھ دشت پیمائے حجاز
ہجرتِ مدفونِ یثرِبؐ میں یہی مخفی ہے راز

حلِ لغات:

خوفِ جاںجان جانے کا خوف
دشت پیمائے حجازحجاز کے صحرا کو چھاننے والا / طے کرنے والا
حجازعرب کا وہ علاقہ جس میں مکہ اورمدینہ شامل ہیں
ہجرتکسی علاقے شہر یا ملک کو (اللہ کی خاطر) چھوڑ دینا، وطن کو خیرباد کہنا، وطن کو چھوڑ کر کہیں اور چلا جانا، ترک وطن
مدفونِ یثرب ﷺوہ ہستی جو یثرب میں دفن ہیں۔ مراد حضورِ اکرم ﷺ سے
مخفی ہےچھُپا ہوا / پوشیدہ ہے
حلِ لغات (بانگِ درا 103: ایک حاجی مدینے کے راستے میں)

تشریح:

حجاز کے صحرا کا رستہ طے کرنے والے کو جان و مال کا قطعاً خوف نہیں ہوتا، چنانچہ مدفونِ یثرب ﷺ (لفظی معنی وہ ذاتِ پاک جو مدینہ منورہ میں دفن ہے، مراد ہے رسول اکرم ﷺ سے)  کی ہجرت میں یہی راز پوشیدہ ہے۔ بے شمار کافر حضور اکرم ﷺ کے دشمن تھے، لیکن جب حضور ﷺ ہجرت پر مجبور ہوئے تو وہ بے خوف ہو کر مدینہ کی طرف چل پڑے اور تاحیات وہیں مقیم رہے اور وہیں آپ ﷺ مدفون ہیں۔


گو سلامت محملِ شامی کی ہمراہی میں ہے
عشق کی لذّت مگر خطروں کی جاں کاہی میں ہے

حلِ لغات:

گواگرچہ
سلامتحفاظت
محملِ شامی”محمل“ اُس ڈولی کو کہتے ہیں جو اونٹ پر باندھی جاتی ہے اور اس میں عموماً پردہ نشیں عورتیں سفر کرتی ہیں۔ ”محملِ شامی“ سے مُراد غلاف لانے والا وہ قافلہ جو شام سے مدینہ منورہ آتا تھا۔ اگرچہ مصر اور شام سے حرمِ کعبہ اور حرمِ مدینہ کے لیے غلاف بھیجنے کا دستور ہو گیا تھا۔ بڑے تکلف سے غلاف کے کپڑے تیار کیے جاتے تھے اور حج کے موقع سے کچھ روز بیشتر یہ مکہ اور مدینہ پہنچتے تھے۔ اس غرض سے شام اور مصر میں اوقاف قائم کر دیے گئے تھے۔ تیاری کے بعد غلاف کجاووں (محمل) میں رکھ کر بھیجے جاتے تھے۔ ان کی حفاظت کے لیے فوج ساتھ جاتی تھی۔ ہزاروں حاجی اور زائر بھی قافلے کی شکل میں ہمراہ ہوتے تھے۔
ہمراہی میںساتھ چلنے میں
جاں کاہیمراد ہے محنت، مشقت اور مصیبتیں برداشت کرنے سے
حلِ لغات (بانگِ درا 103: ایک حاجی مدینے کے راستے میں)

تشریح:

اگرچہ محملِ شامی کی ہمراہی (اس کے ساتھ چلنے میں) سراسر سلامتی و حفاظت ہے لیکن عشق کی لذت خطروں کی مصیبتیں برداشت کرنے میں ہے۔

عشقِ حقیقی کے جذبے سے سرشار مسلمان ہر طرح کے خطروں سے نہ صرف بے خوف رہتا ہے بلکہ اُن سے ایک خاص سرور حاصل کرتا ہے۔ غالباً اس لیے کہ وہ اسے قدرت کی طرف سے اپنی آزمائش سمجھتا ہے اور آزمائش پر پورا اُترنے کے لیے وہ ہر طرح کا خطرہ بخوشی مول لے لیتا ہے یا مول لینے کو تیار رہتا ہے۔


آہ! یہ عقلِ زیاں اندیش کیا چالاک ہے
اور تاثّر آدمی کا کس قدر بے باک ہے

حلِ لغات:

عقلِ زیاں اندیشنقصان کا فکر کرنے والی عقل
تاثّرمراد عشقِ حقیقی کا جذبہ
کس قدرحد درجہ، حد سے زیادہ، نہایت
بے باکبے خوف، نڈر، دِلیر، بہادر، آزاد
حلِ لغات (بانگِ درا 103: ایک حاجی مدینے کے راستے میں)

تشریح:

افسوس! کہ یہ زیاں اندیش عقل (نقصان کی فکر کرنے والی عقل) بڑی چالاک ہے جبکہ آدمی/انسان کا جذبۂ عشق ہر طرح کے خوف و ہراس سے پورے طور پر بے نیاز و بے فِکر ہے۔ عقل انسان کو مختلف طریقوں اور بہانوں سے ڈراتی اور اسے آگے بڑھنے سے روکتی ہے، اُسے نفع و نقصان سے آگاہ کرتی ہے، اس کے برعکس عشق انسان کو محبوب کی راہ میں خوشی خوشی جان دینے پر آمادہ کرتا ہے کہ اس سے اس کی بقا کا سامان ہوتا ہے۔ سچے عاشق کی زندگی کا مقصد محبوبِ حقیقی تک رسائی ہے، جس کی خاطر وہ ہر طرح کے خطرے بخوشی قبول کرتا ہے

؏ کُچھ کام نہیں بنتا بے جرأتِ رِندانہ
(حوالہ: بالِ جبریل)

اقبالؔ رموزِ بیخودی میں فرماتے ہیں کہ:-

؎ عقل را سرمایہ از بیم و شک است
عشق را عزم و یقین لاینفک است

عقل کا سارا سرمایہ خوف اور شک و شبہ ہے۔ اِس کے برعکس عشق سے عزم اور یقین جدا ہو ہی نہیں سکتے۔

(حوالہ: رموزِ بیخودی: در معنی حریتِ اسلامیہ و سرِ حادثۂ کربلا)

حوالہ جات


Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments